ہم نے اوپر تفصیل کے ساتھ یہ بات بیان کی ہے کہ یہ دنیا اللہ تعالیٰ نے عبث نہیں بنائی۔ اس کا ایک متعین مقصد ہے۔ یہ مقصد ان پاکیزہ نفوس کا حصول ہے جو اس دنیا کی آلائشوں میں رہتے ہوئے تمام تر اختیار و ارادے کے باجود اپنے آپ کو اس دنیا کی گندگیوں سے بچاتے ہیں۔ ختم نبوت کے بعد لوگوں کے پاس اس خدائی منصوبے کو جاننے کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں کہ مسلمان اپنے قول و فعل سے انسانوں کو اس معاملے سے آگاہ کریں۔
تاہم آج کے مسلمان دنیا کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے منصوبے کو خود ہی فراموش کر چکے ہیں تو دوسروں کو اس سے کیا آگاہ کریں گے؟ یہ بات کہ اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے، یہ بات کہ دنیا تو محض ایک آزمائش اور دھوکہ کی جگہ ہے جس کا مقصد امتحان کے سوا کچھ نہیں۔ یہ کھونے اور پانے، کامیابی اور ناکامی، عروج و زوال، خوشی و غم کی جگہ نہیں بلکہ صرف اور صرف امتحان کی جگہ ہے جس میں انسان کو تمام حالات میں اپنے وجود کو ہر طرح کی گندیوں سے خود کو بچا کر اپنے آپ کو خدا کی جنت کا مستحق ثابت کرنا ہے، آج کے مسلمان کے لیے بھی اتنی ہی اجنبی ہے جتنی کہ ایک غیر مسلم کے لیے۔
آج کسی مسلمان سے کبھی دریافت کیجیے کہ وہ اداس کیوں ہے تو وہ جواب میں دنیا سے اپنی محرومی کی کہانی سنائے گا۔ کسی سے پوچھیے وہ خوش کیوں ہے تو وہ دنیا میں کامیابی کی داستان سے آگاہ کرے گا۔ اس کی زندگی کا نصب العین دریافت کیجیے تو وہ ایک کامیاب دنیوی زندگی کا نقشہ کھینچ کر رکھ دے گا۔ اس کی راہِ عمل دریافت کیجیے تو جواب میں ’’شاہراہِ مال‘‘ کے سوا کسی اور راستے کا نشان بھی سامنے نہیں آئے گا۔ آ ج کے مسلمان زبانِ حال سے دنیا کو صرف ایک پیغام دیتے ہیں۔ وہ یہ کہ ان کی خوشی و غم، راحت و کلفت، دکھ و آرام سب اسی دنیا سے وابستہ ہے اور وہ موت کے بعد کی کسی زندگی سے واقف نہیں۔
دنیا پرستی کی دوڑ میں آج کے مسلمان ٹھیک اسی انحراف کا شکار ہو چکے ہیں جس میں بنی اسرائیل اپنے زمانہ میں مبتلا ہوئے تھے۔ وہ دنیا کو شرک کی لعنت سے بچانے کے لیے کھڑے ہوئے تھے مگر خود اپنے پیغمبروں سے بچھڑے کو خدا بنانے کی فرمائش کر بیٹھے۔ آج کے مسلمان کی بھی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا پرستی کے اس فتنہ میں کھڑا ہو کر لوگوں کو یہ بتائے کہ اصل زندگی دنیا کی نہیں آخرت کی ہے۔ ایک مسلمان کو دیکھ کر لوگوں کو دنیا کے بارے میں خدا کے منصوبہ کا پتا چلنا چاہیے۔ انہیں جاننا چاہیے کہ جنت کی امید پر جینے والے کیسے ہوتے ہیں۔ مگر اس کے بجائے مسلمان بھی مال و دولت کے اس معبود کو سجدہ کرنے لگا جس کے پجاری چہار عالم ہیں۔ ہم دوسری قوموں کی دیکھا دیکھی اپنے لیے بھی ’’دنیا کا ایک سنہری بچھڑا‘‘ چاہتے ہیں اور یہ بھول گئے ہیں کہ ہمیں تو دنیا کو اس سنہری بچھڑے کے جال سے نکالنا تھا اور انسانیت کو جنت کی ابدی بادشاہی کی خبر دینی تھی۔
________