خدا اس آزمائش کے عرصے میں انسانوں کے سامنے تو نہیں آتا البتہ ان کی مدد اور رہنمائی کے لیے وہ اپنے پیغمبر بھیجتا رہا ہے۔ یہ پیغمبر ہر دور میں ایمان و عمل صالح کی دعوت دے کر پاکیزگی حاصل کرنے کا انتہائی مؤثر راستہ انسانوں کے سامنے رکھتے رہے۔ مگر انسانوں نے ہمیشہ ان پیغمبروں کی تعلیمات کو فراموش کرکے علم و عمل کی آلائشوں سے خود کو آلودہ کر لیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کیا کہ انسانوں کی مدد کے لیے ایک اور انتظام کیا جائے۔ وہ یہ کہ نبیوں کی رہنمائی میں ایک پوری امت اٹھائی جائے جو ایک گروہ کی شکل میں لوگوں کے سامنے حق کی گواہی دیتی رہے۔ اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم کی نسل سے دو امتیں اٹھائیں۔ پہلی امت بنی اسرائیل تھی جو حضرت ابراہیم کے چھوٹے بیٹے حضرت اسحق کے صاحبزادے حضرت یعقوب کی اولاد میں سے تھی۔ جبکہ دوسری امت آپ کے پہلوٹھی کے صاحبزادے حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے تھی اور بنی اسماعیل کہلائی۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بنی اسماعیل میں مبعوث ہوئے۔ آپ آخری نبی تھے۔ ہم مسلمان آپ ہی کی امت میں سے ہیں۔
اس بحث سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ مسلمان ہونا کسی فخر اور بڑائی کا معاملہ نہیں۔ نہ یہ جنت ہی میں جانے کی یقینی ضمانت ہے۔ یہ تو ایک ذمہ داری کا معاملہ ہے۔ یہ ذمہ داری ایمان اور عمل صالح کی ہے۔ دراصل خدا چاہتا ہے کہ مسلمانوں کی شکل میں ایک گروہ دنیا میں موجود رہے جو ایمان و عمل صالح کی پیغمبرانہ دعوت کو عملی شکل میں لوگوں کے سامنے پیش کرتا رہے۔ ہدایت جس طرح انفس و آفاق، عقل و فطرت اور صحفِ آسمانی کے ذریعے سے لوگوں کے سامنے آتی ہے اسی طرح ایمان و عمل صالح پر قائم ایک مسلم معاشرہ بھی لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کا سبب بنتا ہے۔ تاہم دنیا پرستی کا مرض جب کسی مسلم معاشرہ میں پھیل جاتا ہے تو اسے ایمان و عمل صالح کا ایک حقیقی نقشہ دنیا کے سامنے پیش کرنے کے قابل نہیں چھوڑتا۔ اس کے برخلاف وہ مسلم معاشرہ ہی برائی اور شر کا محور بن جاتا ہے۔ قرآن اور حدیث دونوں میں مسلمانوں کو مال و دنیا کے اس فتنہ سے خبردار کر دیا گیا تھا۔ اس سلسلے کی سب سے صریح روایت مسند احمد کی وہ حدیث ہے جس میں اس معاملے کو یوں بیان کیا گیا ہے۔ ’’ہر امت کا ایک فتنہ ہوتا ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے‘‘۔
________