اس مسئلہ پر گفتگو کے آغاز میں خدا کی اس حکمت کو واضح کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے جس کے تحت اس نے یہ دنیا بنائی۔ قرآن کے مطابق یہ حکمت خدا کا وہ منصوبہ ہے جس کے مطابق خدا نے جنت کی ایک انتہائی خوبصورت اور حسین دنیا بنائی۔ یہ ایک ابدی بادشاہی ہے جو موت، غم، محرومی، مایوسی، تکلیف اور تکان کے ہر شائبہ سے خالی ہے۔ ہر وہ نعمت جس کا تصور کوئی ذی شعور کر سکتا ہے اس میں رکھدی گئی ہے۔ عالیشان محلات، دلکش ازواج، مزاج شناس خدام، لذیذ غذائیں، پرکیف مشروبات غرض انسان کے حواس جن نعمتوں کی طلب کر سکتے ہیں، انسان کا ذوقِ جمال جن چیزوں کی رغبت کرسکتا ہے اور انسان کے دل و دماغ جن خواہشات کی تسکین چاہتے ہیں وہ سب اس جنت میں جمع ہیں۔
تاہم اس ابدی جنت کی قیمت ایک امتحان میں کامیابی حاصل کرنا ہے۔ وہ امتحان یہ ہے کہ انسانوں کو اِس دنیا میں چند سال اس طرح رہنا ہے کہ وہ اپنے دل و دماغ اور قول و فعل کوعلم و عمل اور اخلاق و کردار کی ہر آلائش سے بچا کر رکھے اور یہ ثابت کر دے کہ وہ خدا کی اس ابدی بادشاہت میں داخل ہونے کا مستحق ہے۔ اس امتحان میں ایک طرف اس کا نفس ہے جس میں حیوانی خواہشات کی نہ مٹنے والی بھوک ہے۔ دوسری طرف شیطانی ترغیبات کی ختم نہ ہونے والی یلغار ہے۔ یہ دونوں اس کے وجود کو آلودہ کرنا چاہتے ہیں۔ انسان کو ان دونوں سے لڑ کر اپنے آپ کو پاکیزہ بنانا ہے۔ جو لوگ اپنے رب کے حضور اس طرح لوٹتے ہیں کہ ان کا وجود پاکیزہ اور ایمان و عمل صالح کے زیور سے آراستہ ہو وہ خد اکی اس جنت میں داخلہ کے مستحق قرار پاتے ہیں جس کا ذکر ہم اوپر کر چکے ہیں۔ خدا کی نافرمانی میں لتھڑے ہوئے سرکشوں کا انجام، البتہ، جہنم کی آگ ہو گا۔
________