ہم آغازِ مضمون میں کہیں بیان کر چکے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی دنیا کے اس فتنہ سے ہمیں خبردار کر دیا تھا۔ قرآن و حدیث دنیا پرستی کی مذمت سے بھرے پڑے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم دینی تعلیمات بالخصوص قرآن کریم کے مطالعہ کو اپنی زندگی کا جز بنائیں۔ قرآن سب سے بڑھ کر اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ دنیا کی زندگی اور اس کی کامیابی اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں کوئی وقعت نہیں رکھتی۔ قرآن تو یہاں تک کہتا ہے کہ اگر خدا کو یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ دولت کی ہوس میں سب لوگ خدا کے نافرمان ہو جائیں گے تو وہ کفارکے گھر بار، در و دیوار اور ساز و سامان سب کو چاندی اور سونے کا بنا دیتا (الزخرف ۴۳: ۳۳۔۳۴)۔
قرآن کا یہ پیغام کہ آخرت کی کامیابی اصل کامیابی ہے اس کے ہر صفحہ پر نقش ہے۔ یہ خدا کے ہر پیغمبر کی تعلیم کا خلاصہ اور اس کی ہر کتاب کا موضوع رہا ہے۔ آج کے ہر مصلح کے لیے لازم ہے کہ وہ دین کے اس بنیادی پیغام کو عام لوگوں تک پہنچائے تا کہ مسلمان دنیا اور آخرت دونوں کی کامیابی سے ہمکنار ہوں۔
ضروری ہے کہ لوگوں میں خدا کی ابدی بادشاہی یعنی اس کی جنت کی سچی طلب پیدا کی جائے۔ ہمارا عام مشاہدہ ہے کہ یہاں پاپیادہ شخص اسکوٹر کی، اسکوٹر والا گاڑی کی اور گاڑی والا بڑی گاڑی کی خواہش کرتا ہے۔ یہی معاملہ دیگر ہر چیز کا ہے۔ ہمارے دور کے مصلحین لوگوں کے اندر سے ترقی کی اس فطری خواہش کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ جبکہ خدا ایسا نہیں کرتا۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ اس خواہش کا رخ دنیا کے بجائے آخرت کی طرف مڑ جائے۔ دنیا کی اشرافیہ اور اہل ثروت گروہ میں شامل ہونے کے بجائے لوگوں میںیہ خواہش پیدا ہو جائے کہ وہ خدا کے مقربین اور جنت کی اشرافیہ میں شامل ہوں۔ آپ پورے قرآن کی دعوت پڑھ لیں وہ اس کے سوا انسان میں کوئی ذہن پیدا نہیں کرنا چاہتا۔ قرآن کے اولین مخاطبین صحابۂ کرام اسی ذہن کی حامل ہستیاں تھیں۔ ابو بکر و عمر کا انفاق، عبد الرحمن و عثمان کی سخاوت اور علی و بوذر کی سادگی آخرت پر اسی ایمان کے مختلف مظاہر تھے۔
آخرت پر ایمان آدمی میں جو تبدیلی لاتا ہے اسے سمجھنے کے لیے قرآن کی اس آیت کو ملاحظہ فرمائیں:
’’تم لوگوں کو جو کچھ بھی دیا گیا ہے وہ محض دنیا کی زندگی کا سامان اور اس کی زینت ہے، اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ اس سے بہتر اور باقی تر ہے۔ کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے؟ بھلا وہ شخص جس سے ہم نے اچھا وعدہ کیا ہو اور وہ اسے پانے والا ہو کبھی اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جسے ہم نے صرف حیاتِ دنیا کا سر و سامان دے دیا ہو اور پھر وہ قیامت کے دن سزا کے لیے پیش کیا جانے والا ہو؟‘‘ (القصص ۲۸: ۶۰۔۶۱)
آپ اندازہ کریں کہ جس شخص کے دل میں صرف اس ایک آیت پر پکا یقین ہو اس کی زندگی کس طرح گزرے گی؟ ایسا شخص مال کماتے وقت خدا کی اس نافرمانی کا خطرہ نہیں مول لے سکتا جس کا نتیجہ جہنم کی آگ ہے۔ اس کے مال کا بہترین مصرف، اپنی ضروریات پوری کر کے، آخرت کی ابدی اور زیادہ بہتر زندگی کی آرائش و زیبائش ہو گی۔ وہ دنیا میں کسی بھی نعمت کے حصول کے لیے آخرت کو کبھی خطرے میں نہیں ڈالے گا۔ وہ دنیا کے گھر سے پہلے آخرت کے گھر کی فکر کرے گا اور دنیا کی گاڑی سے پہلے آخرت کی سواری کی سوچے گا۔ اخلاق باختہ عورتوں کے عریاں اور نیم عریاں وجود پر نگاہ ڈالنے کی وقتی لذت کے لیے وہ ان حوروں سے محرومی گوارا نہیں کرے گا جن کا چاند چہرہ، حسنِ دلکش اور ابدی شباب کبھی نہیں ڈھلے گا ۔
گھروالوں کی ضروریات اور خواہشات اسے کبھی کسی ایسے راستے پر نہیں لے جا سکتیں جو آخرکار جہنم کی دہلیز تک جا پہنچتا ہو۔ بیوی بچوں سے اس کی محبت اسے مجبور کرے گی کہ وہ انہیں بھی جنت کے راستوں کا مسافر بنائے۔ ان کی تربیت کرے۔ انہیں وقت دے۔ انہیں بتائے کہ جینا تو صرف آخرت کا جینا ہے۔ کامیابی توصرف جنت کی کامیابی ہے۔ یہ دنیا دھوکے کی ٹٹی کے سوا کچھ نہیں۔ جہاں ہم سے پہلے بھی بے گنتی لوگوں کا امتحان ہوا اور ہمارا بھی امتحان ہورہا ہے۔ چند برسوں کی بات ہے۔ نہ ہم رہیں گے نہ امتحان کے یہ صبر آزما لمحے۔ کچھ ہو گا تو خدا کی رحمت ہو گی۔ اس کی جنت ہو گی۔ ختم نہ ہونے والی نعمتیں ہوں گی۔ عزت و اکرام کی رفعتیں ہوں گی۔ لہجوں میں وقار ہو گا۔ چہروں پر نکھار ہو گا۔ صالحین کی پاکیزہ قربت ہو گی۔ دوست احباب کی پر لطف صحبت ہو گی۔ ہیرے جواہرات کے محلات ہوں گے۔ مشک و عنبر کے باغات ہوں گے۔ سندس و حریر کی آرائش ہو گی۔ یاقوت و مرجان کی زیبائش ہو گی۔ دودھ و شہد کی نہریں ہوں گی۔ مائے مصفا کی لہریں ہوں گی۔ سونے چاندی کے شجر ہوں گے۔ آب و شراب کے ساغر ہوں گے۔ فرشتوں کے سلام ہوں گے۔مرغ و ماہی کے طعام ہوں گے۔
غرض عیش و سرور اور حور و خدام کی یہ ابدی دنیا؛ آب و شراب اور قصر و خیام کی یہ ابدی دنیا؛ جاہ و حشم اور لذت و انعام کی یہ ابدی دنیا؛ چین و سکون اور لطف و اکرام کی یہ ابدی دنیا وہ دنیا ہو گی جہاں کوئی دکھ نہ ہوگا۔ کوئی غم نہ ہوگا۔ کوئی مایوسی نہ ہوگی۔ کوئی پچھتاوا نہ ہوگا۔ کوئی محرومی نہ ہوگی۔ کوئی محدودیت نہ ہوگی۔ بدنصیب وہ نہیں جسے فانی دنیا نہیں ملی۔ بدنصیب وہ ہے جسے یہ ابدی دنیا نہیں ملی۔
جنت کے اس بیان پر مضمون کو ختم کرتے ہوئے خیال آتا ہے کہ شائد ایسے ہی احساسات کے ساتھ اقبال نے کہا ہو گا:
حقیقت پہ ہے جامۂ حرف تنگ حقیقت ہے آئینہ گفتار زنگ
فروزاں ہے سینے میں شمع نفس مگر تابِ گفتار کہتی ہے بس
اگر یک سر مو ئے بر ترپرم
فروغِ تجلّٰی بسو زد پرم
عوام الناس کی سہولت کے پیش نظر اشعار کی تشریح پیش خدمت ہے:
الفاظ حقیقت کا درست بیان نہیں کر سکتے جیسے کہ تنگ ہو جانے والے کپڑوں سے جسم کا درست اندازہ نہیں ہو سکتا۔ گویا حقیقت آئینہ کی طرح شفاف ہے اور گفتار زنگ کی طرح اسے خراب کر دیتا ہے۔ میرے سینے میں سانس کی آمد و رفت جاری ہے مگر اب مری قوت گویائی جواب دے چکی ہے۔ یہ میری آخری حد ہے۔ میں اگر بال برابر بھی اس سے اوپر اٹھا تو نورِ حق کی تجلی مجھے جلا کر خاکستر کر دے گی۔
________