HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Rehan Ahmed Yusufi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

نتائج

دنیا پرستی اہل مغرب میں بھی موجود ہے۔ مگر وہ ہماری طرح الہامی ہدایت کے امین ہیں، نہ انہوں نے دنیا پرستی کے نتیجے میں وہ معاشی، اخلاقی اور سماجی مسائل اپنے معاشرے میں پیدا ہونے دیے جن کا آج ہم شکار ہیں۔ ان تمام معاملات میں اہل مغرب کا رویہ ہم سے اچھا ہے۔ صرف صنفی معاملات میں وہ انحراف کا شکار ہوئے مگر ہمارے ہاں تو زندگی کا ہر شعبہ اس سے متاثر ہو چکا ہے۔ اصحابؓ رسول کو اللہ تعالیٰ نے خیر امت (بہترین گروہ) قرار دیا تھا مگر ہم لوگ تو شر امت (بدترین گروہ) ثابت ہو رہے ہیں۔ ایسے میں کیا عجب کہ ہم خدا کے عذابوں کی زد میں اور عزت و وقار سے محروم ہیں۔

دوسری طرف تعیشات میں مبتلا، اخلاقی طور پر زوال پذیر اور طبقاتی کشمکش کا شکار معاشرے کے لیے تاریخ کوئی اچھا پیغام نہیں دیتی۔ ایسے معاشرے کا استحکام مکڑی کے جالے سے زیادہ نہیں ہوتا۔ اس کی مثال اس لکڑی کی طرح ہے جسے دیمک لگ چکی ہے۔ بظاہر وہ مضبوط لگتی ہے مگر اصلاً وہ ایک دھکے کی مار بھی نہیں سہہ سکتی۔ ہمارا معاشرہ بھی کم و بیش ایسا ہی بنتا جارہا ہے۔ اگر اصلاح احوال کی کوشش نہ کی گئی تو اب بہت زیادہ دیر نہ لگے گی کہ اس کے پرخچے اڑ جائیں گے۔ قوموں کی زندگی میں بیس پچیس سال کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ اگر ہم نے اپنا رخ درست نہیں کیا تو اس سے زیادہ مہلت ہمارے پاس اب نہیں ہے۔ اس وقت میں دیر سویر ہو سکتی ہے مگر یہ انجام متعین ہے۔ ہم یہ پیش گوئی کسی علم غیب کی بنیاد پر نہیں کر رہے۔ یہ نوشتۂ دیوار ہے جو قرآن اور تاریخ کے ہر طالبعلم کو معلوم ہے۔ تاریخ دہرانے کا تو یہ موقع نہیں البتہ ایک قرآنی آیت ہم نقل کیے دیتے ہیں جو بتاتی ہے کہ جب معاشرہ کے اہل ثروت قارون کی طرح زمین میں فساد پھیلانے لگیں اور عوام الناس ان کی اصلاح کے بجائے ان کے مقام و مرتبہ کو اپنا آئیڈیل قرار دیدیں تو قوم کی بربادی یقینی ہو جاتی ہے:

’’ اور جب ہم کسی قو م کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوش حال لوگوں کو حکم دیتے ہیں تو وہ اس میں فساد شروع کر دیتے ہیں پس ان پر عذاب کی بات ثابت ہو جاتی ہے اور انہیں برباد کر ڈالتے ہیں۔‘‘(بنی اسرائیل ۱۷: ۱۶)

________

B