HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Rehan Ahmed Yusufi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

سادگی کا خاتمہ اور عیش پرستی کا فروغ

دین اسلام اپنے ماننے والوں کے سامنے آخرت کا جو نصب العین رکھتا ہے اس کا لازمی تقاضا ہے کہ انسان کی توجہات اور اس کے وسائل کا بیشتر حصہ آخرت کے لیے صرف ہو۔ ہر چند کہ دین کا مطالبہ یہ نہیں ہے کہ انسان اپنی ضروریات کا گلا گھونٹ دے اور اپنے ذوقِ جمال کو مردہ کر دے مگر آخرت پسندانہ سوچ کا ایک لازمی نتیجہ سادہ زندگی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ اس سادگی کا معیار فرد اور حالات کے اعتبار سے مختلف ہو سکتا ہے مگرآخرت پر یقین رکھنے والا ایک شخص مجبور ہوتا ہے کہ اپنے مال کا ایک بڑا حصہ آخرت کی ابدی زندگی کے لیے بچا کر رکھے۔ اس کے برخلاف دنیا پرست انسان کی سوچ صرف اس دنیا تک محدود ہوتی ہے اس لیے وہ اسی کو سنوارنے اور سجانے کی فکر میں رہتا ہے۔

اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ دورِ حاضر کا میڈیا دنیا کو اس قدر حسین بنا کر دکھاتا ہے کہ انسان بے اختیار اس بت کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتا ہے۔ زمانۂ قدیم کا ایک شہنشاہ جن نعمتوں کا تصور نہیں کر سکتا تھا میڈیا آج کے انسان کے سامنے اس کی تصویر کشی اس طرح کرتا ہے کہ انسان ان کے تصور میں کھو کر رہ جاتا ہے۔ سیر و تفریح، کھانا پینا، تنگ اور کم لباسی کا پیکر خوبصورت اداکارائیں اور ماڈلز، عالیشان محلات اور شاندار گھر، نئے ماڈل کی چمکدار گاڑیاں، قیمتی فرنیچر، انگریزی درسگاہوں میں اولاد کی تعلیم، زندگی کو حد درجہ سہل و آسان بنا دینے والی مشینوں اور اشیائے تعیشات کی کثرت ۔۔۔ بس یہی کچھ اس کی زندگی کا مقصد بن کر رہ جاتا ہے۔

اس صورتحال کے نتیجے میں ہمارے ہاں معیارِ زندگی بلند کرنے کی ختم نہ ہونے والی ریس شروع ہو گئی ہے۔ ہوس زر کا مرض جو بالعموم خوشحال طبقات تک محدود ہوتا ہے معاشرے کے گھر گھر میں پھیل چکا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک طرف وہ اخلاقی بگاڑ پیدا ہوا جس کی طرف ہم نے اوپر اشارہ کیا اور دوسری طرف اسراف، نمود و نمائش اور عیش پرستی جیسے امراض معاشرے میں عام ہو گئے ہیں۔ یہ امراض ہمارے معاشرے کو کمزور کر رہے ہیں اور قوم میں داخلی اور خارجی چیلنج کا سامنا کرنے کی صلاحیت بتدریج ختم ہو رہی ہے۔ یہ رویہ کسی بھی قوم کو آخر کار تباہی سے دوچار کر دیتا ہے۔

________

B