بسم اللہ الرحمن الرحیم
دنیا اور اس کی رنگینیوں نے یوں تو ہر دور میں انسانوں کو اپنی طرف کھینچا ہے، مگر عصر حاضر میں دنیا کا حسن اس قدر دل کش ہو گیا ہے کہ اس سے نظر ہٹانا کوئی آسان کام نہیں رہا۔ انسان مغرب کا ہو یا مشرق کا وہ اس دیوی کے روپ کا اسیر ہو چکا ہے، حتیٰ کہ وہ مسلمان بھی جن کے پاس یہ یقینی علم موجود ہے کہ یہ روپ اصلاً ایک بہروپ ہے۔
اس خاک سار نے جو محض ایک ابتدائی درجہ کا طالب علم ہے، اپنی علمی زندگی میں جس حقیقت کو سب سے پہلے دریافت کیا تھا وہ یہی تھی کہ عصر حاضر اصلاً الحاد کا دور ہے۔ یہ الحاد انکار خدا کا نام نہیں، بلکہ انکار آخرت کا نام ہے۔ اس دور میں لوگ مذہب کو محض ایک ثقافتی مظہر کے طور پر اختیار کرتے ہیں۔ ان کی تمام تر توجہات کااصل مرکز یہ دینا ہی رہتی ہے۔ یہ فتنہ چند صدیوں قبل یورپ کی سرزمین سے اٹھا اور اب پوری دنیا پر چھا چکا ہے۔
آج مسلمانوں کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو دنیا پرستی کے اس فتنہ سے نکالیں اور آخرت کی ابدی زندگی کے لیے تیار کریں۔ مگر افسوس کہ مسلمان بھی دوسروں کی طرح اسی دل ربا کی زلفوں کے اسیر اور اسی کے حسن کے پجاری ہیں۔
ان حالات میں ضروری ہے کہ پوری قوت کے ساتھ فکر آخرت کی منادی کی جائے۔ فکر آخرت کی منادی بلاشبہ ایک خدائی کام ہے جو انبیا اور رسل ہر دور میں کرتے آئے ہیں۔ انھی عظیم المرتبت ہستیوں کی تعلیمات کی پیروی میں لکھی گئی یہ مختصر تحریر مسلمانوں میں آخرت پسندی کے احساس کو بیدار کرنے کی ایک حقیر کوشش ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو دنیا پرستی کے فتنہ سے محفوظ رکھے اور اپنی جنت کا مشتاق بنائے، آمین۔
ریحان احمد یوسفی
________