HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Rehan Ahmed Yusufi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

رحمان کے بندوں کی خصوصیات

’’خدائے رحمان کے بندے وہ ہیں جوزمین پرعاجزی کے ساتھ چلتے ہیں۔
اورجاہل ان کے منہ آئیں توکہہ دیتے ہیں کہ تم کوسلام۔
اورجواپنے رب کے حضورسجدے اورقیام میں راتیں گزارتے ہیں۔
اورجودعائیں کرتے ہیں کہ’اے ہمارے رب،جہنم کے عذاب سے ہم کوبچالے،اس کاعذاب توچمٹ جانے والی چیزہے،وہ توبڑاہی بُرا مستقراورمقام ہے‘۔
اورجوخرچ کرتے ہیں تونہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل،بلکہ ان کاخرچ دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پرقائم رہتاہے۔
اورجواللہ کے سواکسی اورمعبود کو نہیں پکارتے،اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کوناحق ہلاک نہیں کرتے،اورنہ زناکے مرتکب ہوتے ہیں۔۔۔یہ کام جوکوئی کرے وہ اپنے گناہ کابدلہ پائے گا،قیامت کے روزاس کے عذاب میں درجہ بدرجہ اضافہ کیا جائے گااوراسی میں وہ ہمیشہ ذلت کے ساتھ پڑارہے گا۔الایہ کہ کوئی(ان گناہوں کے بعد)توبہ کرچکا ہو اور ایمان لاکرعمل صالح کرنے لگاہو۔ایسے لوگوں کی برائیوں کواللہ بھلائیوں سے بدل دے گا اوروہ بڑاغفوررحیم ہے۔ جوشخص توبہ کرکے نیک عمل اختیارکرتاہے وہ تواللہ کی طرف پلٹ آتاہے جیساکہ پلٹنے کاحق ہے۔۔۔
(اوررحمن کے بندے وہ ہیں)جوکسی باطل میں شریک نہیں ہوتے۔
اور کسی لغوچیزپران کاگزرہوجائے تووقار کے ساتھ گزرجاتے ہیں۔
اورجنہیں اگران کے رب کی آیات سناکرنصیحت کی جاتی ہے تووہ اس پراندھے اوربہرے ہوکرنہیں گرتے۔
اورجودعائیں مانگاکرتے ہیں کہ ’اے ہمارے رب،ہمیں اپنی بیویوں اوراپنی اولادسے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اورہم کو پرہیزگاروں کاامام بنا‘۔۔۔یہ ہیں وہ لوگ جو اپنے صبرکاپھل منزل بلندکی شکل میں پائیں گے۔آداب وتسلیمات سے ان کااستقبال ہوگا۔وہ ہمیشہ ہمیشہ وہاں رہیں گے۔کیاہی اچھاہے وہ مستقراوروہ مقام‘‘(الفرقان 25: 63-76)


عنوان و مطالبات

مجموعہ آیات کا پہلاجملہ ہی ہم نے عنوان بنالیا ہے۔یعنی رحمان کے بندو ں کی خصوصیات۔ آیات کے آخر میں یہ واضح کردیا گیا ہے کہ یہی لوگ جنت کے اعلیٰ مقام کے حقدار ہوں گے۔

1۔زمین پر عاجزی سے چلنا (خدائے رحمان کے بندے وہ ہیں جوزمین پرعاجزی کے ساتھ چلتے ہیں)

وضاحت:یہ سورہ بنی اسرائیل میں بیان کردہ خصوصیت یعنی ’زمین پر اکڑ کر چلنا ‘کا برعکس رویہ ہے۔وہ اگر اپنی خدائی کا اعلان تھا تو یہ بندگی کا اعلان ہے۔ وہ اگر سرکشی کا رویہ تھا تو یہ انکساری کا رویہ ہے۔وہ اگر حق کی مخالفت کا رویہ تھا تو یہ حق کے سامنے جھک جانے کا رویہ ہے۔وہ اگر لوگوں کو حقیرسمجھنا تھا تو یہ دوسروں کی رعایت کا انداز ہے۔وہ خدا کے دشمن کی چال تھی تو یہ خدا کے بندے کی چال ہے۔

حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا اور بندے کے معاف کر دینے سے اللہ تعالی اس کی عزت بڑھا دیتا ہے اور جو آدمی بھی اللہ کے لئے عاجزی اختیار کرتا ہے اللہ اس کا درجہ بلند فرما دیتا ہے۔ (صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2095)

2۔جاہلوں کے مقابلے میں بردباری (اورجاہل ان کے منہ آئیں توکہہ دیتے ہیں کہ تم کوسلام)

وضاحت: اس دنیا میں ہمیشہ ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں جو بلاوجہ دوسروں سے الجھتے ہیں۔ ایسے جاہلوں کے جواب میں مومنین کا طریقہ صبر کا ہوتا ہے۔وہ ان کی بے ہودہ باتوں کا جواب دینے کے بجائے سلام کرکے رخصت ہوجاتے ہیں۔سلام ،گالی اور جہالت دونوں کا بہترین جواب ہے۔

حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میرے کچھ رشتہ دار ہیں جن کے حقوق میں اداکرتا ہوں اور وہ میرے حقوق ادانہیں کرتے ہیں۔ میں ان کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں۔ میں ان کے ساتھ حلم وبردباری سے پیش آتا ہوں اور وہ میرے ساتھ جہالت برتتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تو ایسا ہی ہے جیسا تو کہتا ہے تو گویا ان کے چہروں پر سیاہی پھیررہا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کے مقابلے میں ہمیشہ تیرا مددگار رہے گا جب تک تو اس حالت پر قائم رہے گا۔ (مسلم)

3۔شب کی تنہائی میں رب کی عبادت (اورجواپنے رب کے حضورسجدے اورقیام میں راتیں گزارتے ہیں)

وضاحت: اوپر مومنوں کے دن کا ذکر تھا، یہ ان کی رات کا بیان ہے۔ یعنی تنہائی میں دنیا سے کٹ کر سجدہ اور قیام میں راتیں گزارناان کا معمول ہوتا ہے۔

حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، میں نے خود سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے: فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز رات میں پڑھی جانے والی نماز ہے۔ (مسند احمد)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب رات کا ایک تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس نظر آنے والے آسمان پرآتا ہے اور بندوں کو بلاتا ہے، کہتا ہے کہ: کون مجھے پکارتا ہے کہ میں اس کی مدد کو دوڑوں ، کون مجھ سے مانگتا ہے کہ اسے دوں۔ کون مجھ سے معافی مانگتا ہے کہ اسے معاف کردوں۔ (بخاری، مسلم)

حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ بندے سے سب سے زیادہ قریب رات کے آخری درمیانی حصے میں ہوتا ہے، پس اگر تم سے ہوسکے کہ تم ان بندوں میں سے ہوجاؤ جو اس مبارک وقت میں اللہ کا ذکر کرتے ہیں ۔ (ترمذی)

حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ضرور تہجد پڑھاکرو، کیونکہ وہ تم سے پہلے صالحین کا طریقہ اور شعار رہا ہے اور قرب الہٰی کا خاص وسیلہ ہے اور وہ گناہوں کے برے اثرات کو مٹانے والی اور معاصیت سے روکنے والی چیز ہے۔ (ترمذی)

4۔فکر آخرت (اورجودعائیں کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب،جہنم کے عذاب سے ہم کوبچالے)

وضاحت: ان لوگوں کے لیے تہجدکی نماز جیسی مشکل عبادت کا اصل محرک اس جہنم کا خوف ہوتا ہے، جس کا عذاب شروع تو ہوتا ہے، ختم نہیں ہوتا۔ وہ مستقل قیام ہی کے لیے نہیں بلکہ عارضی ٹھکانے کے لیے بھی بدترین جگہ ہے۔چنانچہ وہ اپنے اعمال پر نازاں ہونے کے بجائے اس عذاب سے رب کی پناہ مانگتے ہوئے راتیں گزارتے ہیں۔

حدیث:حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں عیش وآرام اور بے فکری سے زندگی کیسے گذارسکتا ہوں جب کہ حال یہ ہے کہ اسرافیل منہ میں صور لیے، کان لگائے، پیشانی جھکائے انتظار کر رہے ہیں کہ کب حکم ہوتا ہے صور پھونکنے کا۔ لوگوں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! پھر آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ پڑھتے رہو، ’’حسبنا اللہ ونعم الوکیل‘‘ اللہ ہمیں کافی ہے اور وہ بہترین کار ساز ہے۔ (ترمذی)

5۔خرچ میں اعتدال (اورجوخرچ کرتے ہیں تونہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل،بلکہ ان کاخرچ دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پرقائم رہتاہے)

وضاحت: مال اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔یہ انسان کی بڑی بدنصیبی ہے کہ اس کے پاس مال ہو، مگر وہ بخل کرے اور مال کو ضروریات پر خرچ کرنے کے بجائے سینت سینت کر رکھے۔ ایسا انسان ساری زندگی مال جمع کرتا اور اسے گنتا رہتا ہے یوں سب کچھ ہوتے ہوئے وہ مفلسوں جیسی زندگی گزارتا ہے۔ دوسری انتہا وہ ہے جس میں انسان مال اڑاتا ہے اوربلا ضرورت خرچ کرتا چلا جاتا ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب انسا ن ہر چھوٹی بڑی ، اہم غیر اہم خواہش کو پورا کرنا اپنی زندگی بنالے۔ ایسا انسان نہ صرف مستقبل کے لیے کچھ نہیں بچاپاتا بلکہ معاشرے میں بھی معیار زندگی بلند کرنے کی ایک دوڑ لگاکر شیطان کو تقویت دیتا ہے۔

حدیث:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تین چیزیں ہیں جو نجات دلانے والی ہیں، اور تین چیزیں ہیں جو ہلاک کردینے والی ہیں۔ پس نجات دلانے والی تین چیزیں تو یہ ہیں، ایک خدا کا خوف خلوت میں اور جلوت میں، دوسرے حق بات کہنا خوشی میں اور غصہ میں۔ تیسرے میانہ روی خوشحالی میں اور تنگدستی میں۔ اور ہلاک کرنے والی تین چیزیں یہ ہیں: ایک وہ خواہش نفس جس کی پیروی کی جائے۔ دوسرے بخل جس کی اطاعت کی جائے۔ تیسرے آدمی کی خودپسندی کی عادت، اور یہ ان میں سب سے زیادہ سخت ہے۔ (البیہقی)۔

6۔شرک سے بچنا۔

7۔حرمت جان۔

8۔زنا سے پرہیز (اورجواللہ کے سواکسی اورمعبودکونہیں پکارتے،اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کوناحق ہلاک نہیں کرتے،اورنہ زناکے مرتکب ہوتے ہیں۔۔۔یہ کام جوکوئی کرے وہ اپنے گناہ کابدلہ پائے گا،قیامت کے دن اس کے عذاب میں درجہ بدرجہ اضافہ کیا جائے گااوراسی میں وہ ہمیشہ ذلت کے ساتھ پڑارہے گا۔الایہ کہ کوئی(ان گناہوں کے بعد)توبہ کرچکاہواورایمان لاکرعمل صالح کرنے لگاہو۔ایسے لوگوں کی برائیوں کواللہ بھلائیوں سے بدل دے گا اوروہ بڑاغفورو رحیم ہے۔ جوشخص توبہ کرکے نیک عمل اختیارکرتاہے وہ تواللہ کی طرف پلٹ آتاہے جیساکہ پلٹنے کاحق ہے)

وضاحت: اوپر بیان کردہ تینوں خصوصیات پر پیچھے کئی دفعہ گفتگو ہوچکی ہے اور آگے بھی ہوگی۔مگر یہاں سب سے نمایاں بات یہ بیان ہوئی ہے کہ یہ تین بدترین جرائم ہیں جن کی سزا ابدی جہنم ہے۔اس کا سبب یہ ہے کہ یہ وہ تین گناہ ہیں جو بالترتیب، خدا، انسان اور سماج کے خلاف کیے گئے سب سے بڑے جرم کی حیثیت رکھتے ہیں۔البتہ اگر کوئی شخص شرمندہ ہوکر توبہ کرلے تو اس سے مغفرت کا وعدہ ہے۔

ذیل کی روایت میں ان تینوں جرائم کی سنگین ترین شکل کا بیان ہے۔

حدیث: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ خدا کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا یہ کہ تم کسی کو اللہ کے برابر قرار دے دو، حالانکہ اسی نے سب کو پیدا کیا ہے ۔میں نے عرض کیا صحیح ہے اور اس کے بعد دوسرا گناہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی اولاد کو اس اندیشہ سے مار ڈالنا کہ ان کو کھلانا اور ان کی پرورش کرنا پڑے گا۔ میں نے کہا صحیح ہے، اس کے بعد پھر بڑا گناہ کیا ہے؟ فرمایا، اپنے ہمسایہ کی بیوی کے ساتھ زنا کرنا۔ (صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1598)

9۔جھوٹے اور باطل کام میں شریک نہ ہونا (جوکسی باطل میں شریک نہیں ہوتے)

وضاحت: اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا حق و باطل کے میدانِ جنگ کے طور پر بنائی ہے۔اس جنگ میں رحمان کے بندے ہمیشہ باطل کے خلاف لڑتے ہیں۔ان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ دجل و فریب، جھوٹ اورباطل پر مبنی کسی کام میں شریک ہوکر شیطان کی حوصلہ افزائی کریں۔ یہ باطل چاہے کسی جھوٹی گواہی کی شکل میں ہو، کسی کو بدنام کرنے کے لیے جھوٹی مہم میں شریک ہونے کا عمل ہو یا کسی اور حقیقت کو جھوٹاثابت کرنے کی ایک مشق ہو، اہل ایمان ہمیشہ ایسی چیزو ں سے دور رہتے ہیں ۔

حدیث: حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کبائر کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بنانا اور والدین کی نافرمانی کرنا، کسی آدمی کا قتل کرنا ، جھوٹی گواہی دینا (صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 2478)

حضرت خریم بن فاتک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھی اور جب لوگوں کی طرف رخ پھیرا تو بیٹھے رہنے کے بجائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھا کھڑے ہوگئے اور تین بار فرمایا: جھوٹی گواہی دینا اور شرک کرنا دونوں برابر کے گناہ ہیں۔(ابو داؤد)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب کوئی صاحب امر کسی خلاف شریعت بات کا حکم دے تو پھر سمع واطاعت کا حکم نہیں۔ (بخاری، مسلم)

10۔لغو چیزوں سے دوری (اورکسی لغوچیزپران کاگزرہوجائے تووقار کے ساتھ گزرجاتے ہیں)

وضاحت: ایک بندہ مومن کے لیے اس دنیا میں اگر یہ ممکن نہیں کہ وہ باطل کام میں شریک ہو تو لغویات سے بچنا بھی اس کی ترجیحات میں سر فہرست ہوتا ہے۔اس کا سبب یہ ہے کہ بندہ مومن کا اصل مقصود جنت کی بادشاہی کا حصول ہوتا ہے۔یہ بادشاہی صرف نیکیوں کی کرنسی سے خریدی جاسکتی ہے۔ جس شخص نے اپنی زندگی لغواور بے ہودہ چیزوں کے پیچھے گزاردی، قیامت کے دن اس کے پاس جنت خریدنے کے لیے کچھ نہ ہوگا۔

تاہم اس دنیا میں انسا ن خود نہ سہی دیگر لوگ ضرور لغویات میں مبتلا ہوتے ہیں اور انہیں دوسرے کے لیے بھی باعث آزار بنادیتے ہیں۔ ایسے میں بندہ مومن کا کام یہ ہے کہ اگر کبھی اس کا واسطہ ایسی صورتحال سے پیش آئے تو بڑے وقار اور متانت سے ایسی جگہوں سے گزرجائے۔

حدیث: کسی آدمی کے اسلام کی یہ بڑی خوبی ہے کہ وہ لایعنی چیزوں کو چھوڑدے۔(ترمذی)

حضرت ابوشریح خزاعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص اللہ تعالی اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہئے کہ اچھی بات کہے یا پھر خاموش رہے۔( صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 178 )

11۔رب کی آیات پر توجہ دینا (اورجنہیں اگران کے رب کی آیات سناکرنصیحت کی جاتی ہے تووہ اس پراندھے اوربہرے ہوکرنہیں گرتے)

وضاحت:لغویات اور باطل کاموں پر بعض اوقات انسان متنبہ نہیں رہتا۔مگربارہا ایسا ہوتا ہے کہ اسے ان چیزوں کی طرف توجہ دلادی جاتی ہے۔سب سے بڑھ کر یہ یاددہانی اور نصیحت خود قرآن پاک کرتا ہے۔ایک بندہ مومن کے ساتھ جب نصیحت اور یاددہانی کا یہ واقعہ پیش آتا ہے تو وہ اندھوں اور بہروں کا رویہ اختیار نہیں کرتا کہ سنی ان سنی کردے بلکہ فوراً متنبہ ہوجاتا ہے۔ اور اپنی اصلاح کرلیتا ہے۔ مومن کا کمال غلطی نہ کرنا نہیں، بلکہ توجہ دلانے پر متنبہ ہوجانا ہے۔

حدیث: حضرت زیاد بن لبید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خوف ناک چیز کا ذکر کیا، پھر فرمایا کہ: ایسا اس وقت ہوگا جب دین کا علم مٹ جائے گا۔ تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! علم کیوں کر مٹ جائے جب کہ ہم قرآن مجید پڑھ رہے ہیں اور اپنی اولادوں کو پڑھا رہے ہیں اور ہمارے بیٹے اپنی اولادوں کو پڑھاتے رہیں گے؟ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خوب اے زیاد! میں تمھیں مدینے کا انتہائی سمجھدار آدمی سمجھتا تھا۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ یہودونصاریٰ تورات اور انجیل مقدس کی کتنی تلاوت کرتے ہیں۔ لیکن ان کی تعلیمات پر کچھ بھی عمل نہیں کرتے۔ (ابن ماجہ)

ابوموسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو علم اور ہدایت اللہ تعالی نے مجھے عطا فرما کر مبعوث فرمایا ہے اس کی مثال اس بارش کی طرح ہے جو زور کے ساتھ زمین پر برسے، جو زمین صاف ہوتی ہے وہ پانی کو پی لیتی ہے اور بہت گھاس اور سبزہ اگاتی ہے اور جو زمین سخت ہوتی ہے وہ پانی کو روک لیتی ہے، پھر اللہ تعالی اس سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے وہ اس کو پیتے اور جانوروں کو پلاتے ہیں اور کھیتی کو سیراب کرتے ہیں اور کچھ بارش زمین کے ایسے حصے کو پہنچے کہ جو بالکل چٹیل میدان ہو، نہ وہاں پانی رکتا ہو اور نہ سبزہ اگتا ہو، پس یہی مثال ہے اس شخص کی جو اللہ کے دین میں فقیہ ہو جائے اور اس کو پڑھے اور پڑھائے اور مثال ہے اس شخص کی جس نے اس کی طرف سر تک نہ اٹھایا اور اللہ کی اس ہدایت کو جس کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں، قبول نہ کیا۔ (صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 80)

12۔اہل خانہ کی آخرت کی فکراور ان کی تربیت (اورجودعائیں مانگاکرتے ہیں کہ ’اے ہمارے رب،ہمیں اپنی بیویوں اوراپنی اولادسے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اورہم کو پرہیزگاروں کاامام بنا‘)

وضاحت: ایک دنیا پرست انسان یہ سوچتا ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کی اولاد کا کیا ہوگا۔جبکہ ایک خدا پرست یہ سوچتاہے کہ اولاد کے مرنے کے بعد اولاد کا کیا ہوگا۔چنانچہ وہ اپنے اہل خانہ کی نیکی و بدی سے بے نیاز نہیں رہتا۔ان کی اچھی اخلاقی تربیت کرتا ہے اورساتھ میں رب سے یہ التجا کرتا رہتا ہے کہ اگر اسے نیکیوں کی توفیق مل گئی ہے تو یہی توفیق گھروالوں کو بھی مل جائے۔وہ متقیوں کا سربراہ ہو نہ کہ فاسقوں کا امام۔آگے حضرت لقمان کی ایک نصیحت آرہی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صالحین اپنی اولاد کی کیا تربیت کرتے ہیں۔

حدیث: حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آگاہ رہو تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور تم سب سے ان کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا پس وہ امیر جو لوگوں کا ذمہ دار ہے اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا اور جو آدمی اپنے گھر والوں کا ذمہ دار ہے اس سے ان کے بارے میں سوال کیا جائے گا اور عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کی اولاد کی ذمہ دار ہے اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا اور غلام اپنے آقا کے مال کا ذمہ دار ہے اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا آگاہ رہو تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ (صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 227)

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کو گنہگار کرنے کے لیے یہ عمل کافی ہے کہ وہ ان لوگوں کو ضایع کردے جنھیں وہ کھلاتا ہے(یعنی اہل خانہ)۔ (ابودؤد)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی رحمت اس بندے پر جو رات کو اٹھا اور اس نے نماز تہجد پڑھی، اور اپنی بیوی کو بھی جگایااور اس نے بھی نماز پڑھی اور اگر نیند کے غلبے کی وجہ سے وہ نہیں اٹھی تو اس کے منہ پر پانی کا ہلکا سا چھینٹا دے کر اس کو بیدار کردیا۔ اور اسی طرح اللہ کی رحمت اس بندی پر جو رات کو نماز تہجد کے لیے اٹھی اور اس نے نماز اداکی اور اپنے شوہر کو بھی جگایا، پھر اس نے بھی اٹھ کر نماز پڑھی، اور اگر وہ نہ اٹھا تو اس کے منہ پر پانی کاہلکا ساچھینٹا دے کر اٹھادیا۔ (ابی داؤد)

____________

 

B