HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Rehan Ahmed Yusufi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

جنت کی کامیابی کون پائے گا

’’یقیناً فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے جو:
اپنی نمازمیں خشوع اختیارکرتے ہیں۔
اورلغویات سے دوررہتے ہیں۔
اورزکوٰۃادا کرتے رہنے والے ہیں۔
اوراپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں،سوائے اپنی بیویوں کے اورلونڈیوں کے حد تک، کہ ان پر(محفوظ نہ رکھنے میں)وہ قابل ملامت نہیں ہیں،البتہ جواس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں۔
اوراپنی امانتوں اوراپنے عہدوپیمان کاپاس رکھتے ہیں۔
اور اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں۔یہی لوگ وہ وارث ہیں جومیراث میں فردوس پائیں گے اوراس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘(المومنون 23: 1-11)


عنوان و مطالبات

مجموعہ آیات کا پہلا اور آخری جملہ یہ بتارہا ہے کہ ان صفات کے حاملین کو جنت الفردوس کی ابدی کامیابی نصیب ہوگی۔

1۔ایمان (یقیناً فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے )

وضاحت: ایمان نجات کی پہلی اور بنیاد شرط ہے۔یہ وہ بیج ہے جس سے عمل صالح کا درخت پھوٹتا اور نیکی و خیر کے برگ و بارجنم لیتے ہیں۔ یہی وہ درخت ہے جو اپنے سارے ثمرات سمیت کل جنت کے باغوں میں اگادیا جائے گا۔ تاہم ایمان نجات کے راستے کی پہلی منزل ہے۔ اسی لیے ان آیات میں صرف ایمان کے بیان پر بس نہیں کیا گیا بلکہ کچھ اور مطلوب خصوصیات کا بیان بھی ہوا ہے۔ یہی معاملہ احادیث کا ہے جن میں ایمان کی تفصیل کے ساتھ مختلف اعمال کا ذکر کرکے یہ بتایا گیا ہے کہ ایمان عمل پر موقوف ہے۔

حدیث: حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے (ایک طویل حدیث میں) روایت ہے کہ آنے والے شخص نے (جو درحقیقت جبرائیل ؑ تھے) حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: بتائیے ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تم اللہ کو ، اس کے فرشتوں کو، اس کی بھیجی ہوئی کتابوں کو، اس کے رسولوں کو اور آخرت کو حق جانو اور حق مانو، اور اس بات کو بھی مانوکہ دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے، خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔ چاہے وہ خیر ہو چاہے شر۔ (مسلم)

ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اللہ کے لیے دوستی کی اور اللہ کے لیے دشمنی کی اور اللہ کے لیے دیا اور اللہ کے لیے روک رکھا، اس نے اپنے ایمان کو مکمل کیا۔ (بخاری)

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان کی حلاوت اسی کو نصیب ہوگی، جس میں تین باتیں پائی جائیں گی۔ ایک یہ کہ اللہ و رسول کی محبت اس کو تمام ماسواسے زیادہ ہو۔ دوسرے یہ کہ جس آدمی سے بھی اس کو محبت ہو صرف اللہ ہی کے لیے ہو اورتیسرے یہ کہ ایمان کے بعد کفر کی طرف پلٹنے سے اس کو اتنی نفرت اور ایسی اذیت ہو جیسی کہ آگ میں ڈالے جانے سے ہوتی ہے۔ (بخاری، مسلم)

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک اپنے بھائی کے لیے وہی نہ چاہے جو اپنے لیے چاہتا ہے۔ (بخاری، مسلم)

حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم کو اچھے عمل سے مسرت ہو اور برے کام سے رنج وقلق ہو، تو تم مومن ہو۔ (مسند احمد)

2۔نماز میں خشوع (جواپنی نمازمیں خشوع اختیارکرتے ہیں)

وضاحت: خشوع اس احساس کا نام ہے کہ انسان آسمان وزمین کے مالک کے سامنے کھڑا ہے۔ باطن میں اگر یہ احساس ہے تو لازمی طور پر اس کے اثرات انسا ن کے ظاہرپر بھی نمودار ہوں گے۔ اس کے سر،نگاہوں اور اعضا و جوارح میں ایک فطری جھکاؤ اور پستی پیدا ہوگی۔ یہ نہ بھی ہو تو کپڑوں اور اعضاء سے کھیلنا اور دیگر غیر ضروری حرکات کبھی ا س کی نماز کا حصہ نہیں بنیں گی۔مگر یہ یاد رہے کہ خشوع صلوٰۃ کی یہ کیفیت کسی ایسے شخص کو کبھی حاصل نہیں ہوسکتی جو نماز سے باہر خدا سے بے پروائی کی زندگی گزاررہا ہو۔

حدیث: اسحاق بن سعید بن عمرو بن سعید بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس حاضر تھا آپ نے وضو کے لئے پانی منگوا کر فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ جو مسلمان فرض نماز کا وقت پائے اور اچھی طرح وضو کرے اور خشوع وخضوع سے نماز ادا کرے تو وہ نماز اس کے تمام پچھلے گناہوں کے لئے کفارہ ہو جائے گی بشرطیکہ اس سے کسی کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ ہوا ہو اور یہ سلسلہ ہمیشہ قائم رہے گا۔( صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 543 )

حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ بندے کی طرف برابرمتوجہ رہتا ہے جب تک بندہ نماز میں ادھرادھرنظر کو متوجہ نہیں کرتا۔جب بندہ ادھر ادھر التفات کرتا ہے تو اللہ بھی اس کی طرف سے توجہ پھیر لیتا ہے۔ (مسند احمد، ابوداؤد، نسائی)

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم نفاق والے خشوع سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ صحابہ نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! نفاق والا خشوع کیسا ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بدن کا خشوع اور دل کا نفاق۔ (بحوالہ ایضاً)

3۔لغویات سے پرہیز(اورلغویات سے دوررہتے ہیں)

وضاحت: نماز کے بعد زکوٰۃ کو موخر کرکے یہاں لغویات اور بے مقصد چیزوں سے پرہیز کی صفت بیان کی گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نماز کاخشوع صرف اس شخص کو حاصل ہوتا ہے جو نماز سے باہر بھی یاد رکھے کہ اسے ایک روز رب کے حضور جاکر اپنے ہر عمل کا جواب دینا ہے۔ایسا انسان کوئی کام بلاوجہ اور بے مقصد نہیں کرتا۔ وہ اپنے ہر عمل سے آخرت یا دنیا کا فائدہ حاصل کرتا ہے، لغو اور بے کار کاموں میں زندگی برباد نہیں کرتا۔کیونکہ وہ جانتا ہے کہ سرمایہ حیات اور مہلت عمر کم ہے۔ مقصد اگر آخرت اور رضائے الہی ہے تو اس مختصر سرمایہ سے یہی سودا خریدنا چاہیے۔ وقت اور زندگی کو لغویات میں اڑانا ایک مومن کے لیے ممکن نہیں۔

حدیث: علی بن حسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اسلام کی بہتریوں میں سے یہ ہے کہ آدمی بے کار اور فضول چیزوں کو چھوڑ دے۔( موطا امام مالک:جلد اول:حدیث نمبر 1541 )

حضرت عطیہ سعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی شخص اللہ کے متقی بندوں کی فہرست میں نہیں آسکتا، جب تک کہ گناہ میں پڑنے کے ڈر سے ایسی چیز نہ چھوڑ دے جس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ (ترمذی)

4۔زکوٰۃ (اورزکوٰۃادا کرتے رہنے والے ہیں)

وضاحت: زکوٰۃ ،نماز کے بعد اور اس کے ساتھ دین کا بنیادی مطالبہ ہے۔اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنا بلاشبہ اعلیٰ ترین عمل ہے۔اس پرقرآن مجید میں بہت توجہ دلائی گئی ہے۔کیونکہ مال خرچ کرناانسا ن کے نفس کی پاکیزگی کا باعث بنتا ہے جو دین کا نصب العین ہے۔ یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ دین میں ہر ہر عمل کی طرح انفاق کی بھی دو سطحیں ہیں۔ ایک لازمی انفاق جسے عام طور پر زکوٰ ۃ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اسے نہ دینے پر شدید وعیدیں ہیں۔ دوسرا اپنی مرضی سے کیا گیا صدقہ و خیرات جو فرض زکوٰۃ کے علاوہ ہوتا ہے۔ یہ بہت اعلیٰ درجہ کی نیکی ہے۔

حدیث: ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کو اللہ تعالی نے مال دیا اور اس نے زکوۃ نہ اداکی تو اس کا مال گنجے سانپ کی شکل میں اس کے پاس لایا جائے گا جس کے سر کے پاس دو چنیاں ہوں گی قیامت کے دن اس کا طوق بنایا جائے گا، پھر اس کے دونوں جبڑوں کو ڈسے گا اور کہے گا میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں، پھر آل عمران کی آیت180 پڑھی اور وہ لوگ جنہیں اللہ تعالی نے اپنے فضل سے مال عطا کیا اور وہ اسمیں بخل کرتے ہیں وہ اسے اپنے حق میں بہتر نہ سمجھیں بلکہ یہ برا ہے اور قیامت کے دن یہی مال ان کے گلے کا طوق ہوگا(صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1319 )۔

5۔حفظِ فروج (اوراپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں)

وضاحت: مومن جس طرح لغویات سے بچتا ہے، اسی طرح اپنی ضروریات وخواہشات کو بھی انہی حدود کے تابع رکھتا ہے جو رب نے مقرر فرمائی ہیں۔صنفی تعلق ایک بنیادی انسانی ضرورت ہے اور ساتھ ہی سب سے منہ زورخواہش بھی۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ایک دائرے میں جائز قرار دیا ہے۔ اس دائرے سے باہر یہ تعلق زناہے، جس کی دنیا اور آخرت میں بہت بڑی سزا ہے۔

حدیث: سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن سعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو شخص اپنے دونوں جبڑوں کے درمیان کی چیز (زبان) اور دونوں ٹانگوں کے درمیان کی چیز (یعنی شرمگاہ) کا ضامن ہو تو اس کے لئے جنت کا ضامن ہوں۔( صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1421)

6۔عہد و امانت کی پاسداری (اوراپنی امانتوں اوراپنے عہدوپیمان کاپاس رکھتے ہیں)

وضاحت: عہد اور امانت بظاہر دو الفاظ ہیں، مگر ان دو الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے دین و دنیا میں ہم پر عائد ہونے والی ہر ذمہ داری اور دوسروں کے تمام حقوق کو سمیٹ دیا ہے۔عہد میں خدا ا ور بندوں کے حوالے سے عائد ہونے والی ساری قانونی ، شرعی اور اخلاقی ذمہ داریاں شامل ہیں۔ جبکہ امانت میں خالق و مخلوق کے وہ تمام حقوق شامل ہیں ، جو قانونی ، شرعی اور اخلاقی طور پر ہمیں ادا کرنے ہیں۔ ضروری نہیں کہ عہد و امانت کی پابندی ہم نے کسی باقاعدہ اقرا رنامے کے ذریعے سے لی ہو بلکہ فطری، خاندانی،سماجی اور ریاستی سطح پر جو ذمہ داریاں خود بخود عائد ہوجاتی ہیں وہ سب اس میں شامل ہیں۔جیسے ریاستی معاملات میں قانون کی پابندی، خاندانی میں رشتوں کا تقدس اور ادائیگی حقوق وغیر ہ سب اس کا حصہ ہیں۔

حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا منافق کی تین نشانیاں ہیں جب گفتگو کرے تو جھوٹ بولے جب امانت دی جائے تو اس میں خیانت کرے اور جب وعدہ کرے تو اس کے خلاف کرے۔ (صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 2504 )

7۔حفظ صلوٰۃ ( اور اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں)

وضاحت: ان صفات کا آغازخشوع صلوٰۃسے ہوا تھااورآخر میں ایک دفعہ پھر نماز کا ذکر ہے۔وہ نماز کے داخل کا بیان تھا اور یہاں نماز کے خارج کا بیان ہے۔یعنی بندہ مومن پرکبھی اس نوعیت کی غفلت طاری نہیں ہوتی کہ اسے نماز کے اوقات یاد نہ رہیں۔اسے اگر لغویات غافل نہیں کرتیں تو اپنی ضروریات میں بھی وہ رب کو یاد رکھتا ہے۔ وہ اپنی دنیا ، اپنے خاندان، اپنے کام، اپنے آرام غرض ہر موقع پر نماز کو یاد رکھتا ہے۔اس کی سب سے بڑی مثال نماز کو وقت پر ادا کرنا ہے۔پھر نماز کے ارکان کو درست طریقے پر ادا کرنا وغیرہ سب اس میں شامل ہیں۔

حدیث: حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آخری کلام تھا :نماز (کی حفاظت کرو)، نماز (کی حفاظت کرو )اور اپنے غلاموں اور باندیوں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو۔ (سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1713 )

نافع ، عبداللہ بن عمر کے مولی (غلام آزاد) سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے عاملوں کو لکھا کہ تمہاری سب خدمتوں میں نماز بہت ضروری اور اہم ہے۔ میرے نزدیک جس نے نماز کے مسائل اور احکام یاد کئے اور وقت پر پڑھی تو اس نے اپنا دین محفوظ رکھا جس نے نماز کو تلف کیا تو اور خدمتیں زیادہ تلف کرے گا۔( موطا امام مالک:جلد اول:حدیث نمبر 6 )

____________

 

B