HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Rehan Ahmed Yusufi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

اللہ تعالیٰ کی پسند و ناپسند کا فیصلہ

’’تمھارے رب نے فیصلہ کردیاہے کہ:
تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو،مگرصرف اس کی۔
اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔اگرتمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک، یا دونوں، بوڑھے ہوکررہیں توانہیں اف تک نہ کہو،نہ انہیں جھڑک کرجواب دو،بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو، اور نرمی و رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کررہو، اور دعا کیا کرو کہ ’پروردگار،ان پررحم فرماجس طرح انہوں نے رحمت وشفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا‘۔ تمہارارب خوب جانتاہے کہ تمہارے دلوں میں کیاہے۔اگرتم صالح بن کررہو تووہ ایسے سب لوگوں کے لیے درگزرکرنے والاہے جواپنے قصورپرمتنبہ ہوکربندگی کے رویے کی طرف پلٹ آئیں۔
اوررشتہ دارکواس کاحق دواورمسکین اورمسافرکواس کاحق۔
اورفضول خرچی نہ کرو۔فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں،اورشیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔
اوراگران سے(یعنی حاجت مندرشتہ داروں، مسکینوں اور مسافروں سے) تمہیں کترانا ہو، اس بنا پرکہ ابھی تم اللہ کی اس رحمت کو،جس کے تم امیدوارہو،تلاش کررہے ہو توانہیں نرم جواب دے دو۔
اورنہ تواپناہاتھ گردن سے باندھ رکھواورنہ اسے بالکل ہی کھلاچھوڑدوکہ ملامت زدہ اور عاجز بن کررہ جاؤ۔تیرارب جس کے لیے چاہتاہے رزق کشادہ کرتاہے اورجس کے لیے چاہتا ہے تنگ کردیتاہے۔وہ اپنے بندوں کے حال سے باخبرہے اورانہیں دیکھ رہا ہے۔
اوراپنی اولادکوافلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو۔ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی۔ درحقیقت ان کاقتل ایک بڑی خطاہے۔
اورزناکے قریب نہ پھٹکو۔وہ بہت بُرا فعل ہے اوربڑاہی بُرا راستہ۔
اورجس جان کو اللہ نے محترم ٹھہرایا ہے اس کو قتل نہ کرو مگرحق کے ساتھ۔اورجوشخص مظلومانہ قتل کیاگیاہواس کے ولی کوہم نے قصاص کے مطالبے کاحق عطاکیاہے،پس چاہیے کہ وہ بدلہ میں حدسے نہ گزرے،اس کی مددکی جائے گی۔
اورمالِ یتیم کے پاس نہ پھٹکومگراحسن طریقہ سے،یہاں تک کہ وہ شباب کوپہنچ جائے۔
اورعہدکی پابندی کرو،بے شک عہدکے بارے میں تم کوجواب دہی کرنی ہوگی۔
اورجب پیمانے سے دوتوپورابھرکردو،اورتولو توٹھیک ترازوسے تولو۔یہ اچھاطریقہ ہے اور بلحاظ انجام بھی یہی بہترہے۔
اورکسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگوجس کاتمہیں علم نہ ہو۔یقیناًآنکھ،کان اوردل سب ہی کی بازپرس ہونی ہے۔
اورزمین پراکڑکرنہ چلو،تم نہ زمین کوپھاڑسکتے ہو،نہ پہاڑوں کی بلندی کوپہنچ سکتے ہو۔ان امورمیں سے ہرایک کابراپہلوتیرے رب کے نزدیک ناپسندیدہ ہے۔یہ وہ حکمت کی باتیں ہیں جوتیرے رب نے تجھ پروحی کی ہیں۔
اوردیکھ!اللہ کے ساتھ کوئی دوسرامعبودنہ بنابیٹھنا ورنہ توجہنم میں ڈال دیاجائے گا، ملامت زدہ اورہربھلائی سے محروم ہوکر۔‘‘(بنی اسرائیل 17: 23-39)

 

عنوان و مطالبات

مجموعہ آیات کا پہلا جملہ ہی یہ بتارہا ہے کہ جو کچھ آگے بیان ہورہا ہے وہ ہدایت و گمراہی اور صحیح و غلط رویے کے اعتبار سے خدا کا آخری فیصلہ ہے۔اسی کو چند آیات قبل قرآن کی دی ہوئی سیدھی راہ اور آیات کے اختتام پر خدا کی پسند و ناپسند سے تعبیر کیا ہے۔ یہ قرآن مجید کے مطلوب انسان کے ضمن میں اہم ترین اور تفصیلی مقامات میں سے ایک ہے۔

1۔عبادت رب(تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو،مگرصرف اس کی)

وضاحت: لوگ اللہ کی عبادت سے منہ موڑنے کے ہزار راستے ڈھونڈتے ہیں۔اسی کا ایک طریقہ ہے کہ اللہ کو ایک مانا جائے مگر رکوع و سجود، نذر و نیاز، دعا و استمداد (مدد مانگنا)اور ان جیسے دیگر عباداتی مظاہر کو غیر اللہ کے لیے وقف کردیا جائے۔خدا کا ہمیشہ سے فیصلہ یہ رہاہے کہ عبادت اور اس کی ہر شکل صرف خدا کے لیے خاص رہنی چاہیے۔

حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی تمہاری تین باتوں سے راضی ہوتا ہے اور تین باتوں کو ناپسند کرتا ہے جن باتوں سے راضی ہوتا ہے وہ یہ ہیں کہ تم اس کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو اور اللہ کی رسی کو مل کر تھامے رہو اور متفرق نہ ہو اور تم سے جن باتوں کو ناپسند کرتا ہے وہ فضول اور بیہودہ گفتگو اور سوال کی کثرت (یعنی مانگنے کی کثرت )اور مال کو ضائع کرنا ہیں۔( صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر 1987)

2۔والدین کے ساتھ احسان اور ان کے لیے دعا (اوروالدین کے ساتھ نیک سلوک کرو)

وضاحت: والدین کے ساتھ حسن سلوک، خاص کر بڑھاپے کی اس عمر میں جب وہ مکمل طور پر اولاد کے رحم و کرم پر ہوں، دین کا بنیادی تقاضہ ہے۔بڑھاپے اور ضعف میں انسان چڑچڑا ہوجاتا ہے۔ ایسے میں وہ جوکچھ بھی کہیں یا کریں اس کے جواب میں انہیں اف تک نہ کہی جائے،نہ جھڑکا جائے بلکہ انتہائی نرمی اور محبت سے اسی طرح ان سے معاملہ کیا جائے جس طرح انہوں نے بچپن میں ہمارے ساتھ کیا تھا۔اور اسی حوالے سے رب سے دعا کی جائے کہ وہ ان کی اس مشکل عمر میں ان کے ساتھ رحم کا معاملہ کرے۔

حدیث: ابوعمرو شیبانی ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا عمل افضل ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز اپنے وقت پر پڑھنا اور والدین کے ساتھ نیکی کرنا، پھر خدا کی راہ میں جہاد کرنا۔ (صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 2380)

حدیث: ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اُس شخص کے لیے ذلت ہے، اُس شخص کے لیے ذلت ہے، اُس شخص کے لیے ذلت ہے۔ لوگوں نے پوچھا: کس کے لیے، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم؟ فرمایا: جس کے ماں باپ یا اُن میں سے کوئی ایک اُس کے پاس بڑھاپے کو پہنچا اور وہ اس کے باوجود جنت میں داخل نہ ہو سکا۔(مسلم، رقم 6510)

3۔قرابت دار، مسکین،مسافر پر انفاق(اوررشتہ دارکواس کاحق دواورمسکین اورمسافرکواس کاحق)

وضاحت: اللہ کی راہ میں خرچ کا ذکر قرا ن مجید بار بار کرتا ہے۔یہاں اس خرچ کی اہم مدات کا بھی بیان ہوگیا ہے۔پھر یہاں جو بات خاص طور پر بیان ہوئی ہے کہ رشتہ داروں، مساکین اور مسافروں پر خرچ کرنا ان پر کوئی احسان نہیں بلکہ تمھارے اوپر یہ ان کا حق ہے۔

حدیث: جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی جو کہ (قبیلہ) بنی غدرہ کا تھا اس نے ایک غلام کو آزاد کر دیا یہ اطلاع رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ملی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا تمہارے پاس اس کے علاوہ کچھ مال دولت موجود ہے؟ اس نے عرض کیا جی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا کون شخص مجھ سے اس کو خریدتا ہے؟ یہ بات سن کر حضرت نعیم بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو خریدا آٹھ سو درہم میں اور وہ درہم لا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دئیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو عنایت فرما دیے اور فرمایا پہلے تم اس کو اپنے اوپر خرچ کرو پھر اگر کچھ بچ جائے تو تم اپنے رشتہ داروں کو دے دو پھر اگر رشتہ داروں سے کچھ بچ جائے تو اسی طریقہ سے یعنی سامنے اور دائیں اور بائیں جانب اشارہ کیا (یعنی ہر ایک جانب سے غرباء فقراء کو صدقہ خیرات کرو)۔( سنن نسائی:جلد سوم:حدیث نمبر 956 )

4۔فضول خرچی(اورفضول خرچی نہ کرو)

وضاحت: انسان جب اپنی جائز ضروریات پر جائزحد سے زیادہ خرچ کرتا ہے تو وہ دوسروں پر مال خرچ کرنے کے قابل نہیں رہتا۔اس طرح فضول خرچی اللہ کی راہ میں انفاق سے عملاًروک دیتی ہے۔اس سے بڑھ کر یہ معاشرے میں مادیت کی دوڑ کو فروغ دے کر شیطان کی راہ ہموار کرتی ہے۔نیز حصول مال کے لیے پھر لوگ حرا م کی راہ اختیار کرتے ہیں۔اسی لیے بِلاضرورت اورفضول خرچ کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے یہاں شیطان کے بھائی قرار دیا ہے۔

حدیث: مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالی نے تمہارے لئے تین چیزیں ناپسند فرمائی ہیں۔ ایک بے فائدہ گفتگو دوسرے مال ضائع کرنا اور تیسرے بہت مانگنا۔ (صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1389 )

5۔مال نہ ہونے کی صورت میں نرمی سے انکار کرنا (اوراگران( حاجت مندوں ) سے تمہیں کترانا ہو، اس بنا پرکہ ابھی تم اللہ کی اس رحمت کوجس کے تم امیدوارہوتلاش کررہے ہوتوانہیں نرم جواب دیا کرو)

وضاحت: انسان بعض اوقات حقیقتاً اس قابل نہیں ہوتا کہ دوسروں کی مالی مدد کرسکے۔ایسے میں اللہ کا حکم یہ ہے کہ لوگوں کوجھڑکنے کے بجائے بہت نرمی کے ساتھ انکارکیا جائے اورمحبت کے ساتھ انہیں رخصت کیا جائے۔

حدیث: حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو آدمی نرمی اختیار کرنے سے محروم رہا وہ آدمی بھلائی سے محروم رہا۔( صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر2101)

حارثہ بن وہب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: سخت گو اور درشت خوآدمی جنت میں نہیں جائے گا۔ (ابو داؤد)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ خود مہربان ہے اور نرمی اور مہربانی کرنا اس کو محبوب بھی ہے۔ اور نرمی پروہ اتنادیتا ہے جتنا کہ درشتی پر نہیں دیتا، اور جتنا کہ نرمی کے ماسوا کسی چیز پر بھی نہیں دیتا۔(مسلم)

6۔خرچ میں اعتدال(اورنہ تواپناہاتھ گردن سے باندھ رکھواورنہ اسے بالکل ہی کھلاچھوڑدو)

وضاحت: ہمارا دین اعتدال کا دین ہے۔ دین اگر اسراف سے منع کرتا ہے تو بخل کی بھی سخت مذمت کرتا ہے۔ اس کا مطالبہ یہ ہے کہ نہ بالکل ہی ہاتھ کھول کر خرچ کرو اور نہ یہ ہو کہ ضرورت کے وقت بھی تمھاری جیب سے پیسہ نہ نکل سکے۔بلکہ ضرورت کے وقت اللہ پر بھروسہ رکھ کراچھی طرح خرچ کرو۔

حدیث: سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے پاس بس وہی ہوتا ہے جو (میرے شوہر) زبیر گھر میں لے آئیں۔ تو کیا میں اس میں سے دے دیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسماء! دو اور باندھ باندھ کر مت رکھو، ورنہ تم پر بھی(تمہارا رزق) باندھ دیا جائے گا،(سنن ابی داؤد، رقم169 9)

سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور فرمایا اپنے آپ کو حرص و بخل سے بچاؤ تم سے پہلے کے لوگ اسی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ (حرص نے) ان کو حکم دیا تو وہ بخل کرنے لگے، قطع رحمی کا حکم دیا تو قرابت توڑ لی اور بدکاری کا حکم دیا تو بدکاری کرنے لگے،(سنن ابی داؤد، رقم1699)۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اعمال میں میانہ روی اختیار کرو، اور اللہ کی قربت اختیار کرو ۔ (صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1388)

7۔مفلسی کے اندیشے سے اولاد کا قتل (اوراپنی اولادکوافلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو۔ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی )

وضاحت: اللہ تعالیٰ کے نزدیک انسانی جان کی حرمت بے انتہا ہے، چاہے وہ کسی ایک چھوٹے سے بچے کی جان ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن عر ب میں ایک جاہلانہ دستور تھا کہ بعض لوگ اس خوف سے اولاد کو مارڈالتے تھے کہ انہیں کھلائیں گے تو خود کیا کھائیں گے۔قرآن مجید نے اسی جاہلانہ تصور کی سختی سے تردید کی ہے۔ انسانی جان کا قتل عظیم ترین گناہو ں میں سے ایک گناہ ہے۔

حدیث: عبادہ بن صامت جو جنگ بدر میں شریک تھے اور شب عقبہ میں ایک نقیب تھے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت فرمایا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گرد صحابہ کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی، کہ تم لوگ مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور چوری نہ کرنا اور زنا نہ کرنا اور اپنی اولاد کو قتل نہ کرنا اور نہ ایسا بہتان (کسی پر) باندھنا جس کو تم (دیدہ و دانستہ) بناؤ اور کسی اچھی بات میں خدا اور رسول کی نافرمانی نہ کرنا پس جو کوئی تم میں سے (اس عہد کو) پورا کرے گا، تو اس کا ثواب اللہ کے ذمہ ہے اور جو کوئی ان (بری باتوں) میں سے کسی میں مبتلا ہوجائے گا اور دنیا میں اس کی سزا اسے مل جائے گی تو یہ سزا اس کا کفارہ ہوجائے گی اور جو ان (برُی) باتوں میں سے کسی میں مبتلا ہوجائے گا اور اللہ اس کو دنیا میں پوشیدہ رکھے گا تو وہ اللہ کے حوالے ہے، اگر چاہے تو اس سے درگذر کردے اور چاہے تو اسے عذاب دے (عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ) سب لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس شرط پر (بیعت کرلی)۔ (صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 17)

8۔زنا سے دوری (اورزناکے قریب نہ پھٹکو۔وہ بہت بُرافعل ہے اوربڑاہی بُرا راستہ)

وضاحت: قرآن کے مطلوب انسان کے ضمن میں باربار فواحش سے دوری کا حکم دیا گیا ہے۔ زنا ان فواحش کی سب سے زیادہ عام اور خطرناک قسم ہے۔یہ خاندان کی جڑیں ختم کردیتا ہے۔جبکہ قرآن خاندان اور رشتہ داروں کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ اسی لیے زنا ہی سے نہیں بلکہ اس کے قریب پھٹکنے سے بھی روکا گیا ہے۔قریب نہ جانے سے مراد نظراور ذہن پر قابو رکھنااور ان تمام محرکات سے بچنا ہے جو زنا میں مبتلا کرسکتے ہوں۔

حدیث:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے اور کانوں کا زنا سننا ہے اور زبان کا زنا گفتگو کرنا ہے اور ہاتھوں کا زنا پکڑنا ہے اور پاؤں کا زنا چلنا ہے اور دل کا زناخواہش اور تمنا کرنا ہے اور شرمگاہ اس کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب(مسلم ،رقم1850)

9۔حرمت جان (اورجس جان کو اللہ نے محترم ٹھہرایا ہے اس کو قتل نہ کرو مگرحق کے ساتھ)

انسانی جا ن کی حرمت اللہ کے نزدیک اتنی زیادہ ہے کہ ایک طرف قاتل کے لیے جہنم کی وعید ہے تو دوسری طرف دنیا میں اس کے لیے قتل کی سزا مقرر ہے۔ یہی وہ سزا ہے جو معاشرے میں نئے قاتل پیدا نہیں ہونے دیتی۔ اسی کو یہاں حق کے ساتھ سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس بات کو واضح کیاگیا ہے کہ حکومت کی طرف سے قتل کا بدلہ لینے میں اس کی مدد کی جائے گی۔ البتہ لازمی ہے کہ بدلہ لینے میں زیادتی نہ کی جائے اور جان کے بدلے میں جان پر معاملہ ختم ہوجائے۔

حدیث: حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ میں ان نقباء میں سے ہوں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کی تھی ۔ہم لوگوں نے اس بات پر بیعت کی تھی، کسی چیز کو اللہ کے ساتھ شریک نہ بنائیں گے، اور نہ چوری کریں گے اور نہ زنا کریں گے، اور نہ کسی جان کو قتل کریں گے جسے اللہ نے حرام کیا ہے اور نہ لوٹ مار کریں گے اور نہ نا فرمانی کریں گے، اگر ہم نے یہ کرلیا تو ہمارے لئے جنت ہے اور اگر ان میں سے کسی کے مرتکب ہوئے تو اس کا فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔( صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1803)

10۔مال یتیم نہ کھانا(اورمال یتیم کے پاس نہ پھٹکومگراحسن طریقہ سے،یہاں تک کہ وہ شباب کوپہنچ جائے)

اس مطالبے کی وضاحت عنوان نمبر 1 سورہ انعام میں ہوچکی ہے کہ مال یتیم کو ذاتی غرض سے استعما ل کرنا جائز نہیں ۔ ہاں کوئی خود محتاج ہوتو حق خدمت کے طور پر ضابطے قاعدے کے اندر رہ کر کچھ لے سکتا ہے۔دوسری طرف یتیم کے ساتھ حسن سلو ک اور ان پر خرچ کرنے کی بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے ۔ قران میں جگہ جگہ انفاق کے مواقع پر یتیموں کا ذکر ہے۔ اسی طرح بکثرت احادیث بھی ان سے حسن سلوک پر ابھارتی ہیں۔

حدیث: حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اور اپنے یاپرائے یتیم کی کفالت کرنے والا آدمی جنت میں اس طرح (قریب قریب) ہوں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے انگشت شہادت اور بیچ والی انگلی سے اشارہ کرکے بتلایا۔ اور ان کے درمیان تھوڑی سی کشادگی رکھی۔ (بخاری)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے جس بندے نے مسلمانوں میں سے کسی یتیم بچے کو لے لیا اور اپنے کھانے پینے میں شریک کر لیا تو اللہ تعالیٰ اس کو ضرور بالضرور جنت میں داخل کردے گا۔سوائے اس کے کہ اس نے کوئی ایسا جرم کیا ہو جو ناقابل معافی ہو۔ (ترمذی)

حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے کسی یتیم کے سر پر صرف اللہ کے لیے ہاتھ پھیرا تو سر کے جتنے بالوں پر ہاتھ پھرا تو ہرہربال کے حساب سے اس کی نیکیاں ثابت ہوں گی، اور جس نے اپنے پاس پرورش پانے والی کسی یتیم بچی یا یتیم بچے کے ساتھ بہتر سلوک کیا تو میں اور وہ آدمی جنت میں ان دوانگلیوں کی طرح قریب قریب ہونگے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دوانگلیوں کو ملا کر بتایا اور دکھایا۔ (مسند احمد، جامع ترمذی)

11۔عہد پورا کرنا (اورعہدکی پابندی کرو،بے شک عہدکے بارے میں تم کوجواب دہی کرنی ہوگی)

وضاحت: یہ مطالبہ باربار اللہ تعالیٰ کی طرف سے مختلف اسالیب میں دہرایا جاتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ جس معاشرے میں عہد و پیمان کا پاس نہیں رہتاوہاں نہ لوگ خدا کے حقوق کے بارے میں محتاط رہتے ہیں نہ بندوں کے حقوق کے بارے میں۔اور یہی وہ حقوق ہیں جن میں دنیا و آخرت کی ساری بھلائی پوشیدہ ہے۔اسی لیے قیامت کے دن عہد کے بارے میں خاص طور پر پوچھ گچھ کی جائے گی۔

حدیث:حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو خطبہ دیا ہو اور اس میں یہ نہ ارشاد فرمایاہو کہ: جس میں امانت کی خصلت نہیں اس میں ایمان نہیں، اور جس میں عہد کی پابندی نہیں، اس میں دین نہیں۔ (شعب الایمان للبیہقی)

حضرت عبدالرحمن بن ابی قراد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن وضو کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ وضوکا پانی لے لے کر (اپنے چہروں اور جسموں پر) ملنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم کو کیا چیز اس فعل پر آمادہ کرتی ہے۔ انہوں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص یہ چاہے کہ اس کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے حقیقی محبت ہو، یا یہ کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے محبت کریں تو اسے چاہیے کہ جب وہ بات کرے تو ہمیشہ سچ بولے اور جب کوئی امانت اس کے سپرد کی جائے تو ادنیٰ خیانت کے بغیر اس کو اداکرے اور جس کے پڑوس میں اس کا رہنا ہو اس کے ساتھ بہتر سلوک کرے۔ (البیہقی)

12۔ناپ تول پورا کرنا (اورجب پیمانے سے دوتوپورابھرکردو،اورتولو توٹھیک ترازوسے تولو۔یہ اچھاطریقہ ہے اور بلحاظ انجام بھی یہی بہترہے)

وضاحت: اس مطالبے کی وضاحت عنوان نمبر ۱ سورہ انعام میں ہوچکی ہے۔یہاں البتہ یہ بات واضح کی گئی ہے کہ یہ رویہ دنیا و آخرت کے اعتبار سے بہتر ہے۔قرآن پاک نے بار بار قوم شعیب کے حوالے سے یہ بیان کیا ہے کہ ان میں شرک کے علاوہ یہ بدترین عادت بھی پائی جاتی تھی۔جس قوم میں یہ عادت عام ہوجائے تھوڑے عرصے میں اس کی تباہی یقینی ہوجاتی ہے۔

حدیث:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس قوم نے بھی عہد توڑا اللہ نے ان کے دشمن کو ان پر مسلط کردیا۔ جس قوم نے بھی ناپ تول میں کمی بیشی کی اس سے زمین کی روئیدگی ضرور روک دی گئی اور اس قوم کو قحط میں مبتلا کیا گیا(رواہ الحاکم)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپنے اور تولنے والوں سے ارشاد فرمایا کہ تم ایک ایسی چیز کے والی بنائے گئے ہو جس کی صحیح نگرانی نہ رکھنے والے تباہ ہوگئے۔ (ترمذی)

13۔تجسس نہ کرنا (اورکسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگوجس کاتمہیں علم نہ ہو۔یقیناًآنکھ،کان اوردل سب ہی کی بازپرس ہونی ہے)

وضاحت: یہ عام رویہ ہے کہ لوگ ان چیزوں کے پیچھے لگتے ہیں جن کا انہیں علم نہیں ہو تا۔وہ ایسی چیزوں کو دیکھنے، سننے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جن میں ان کا کوئی بھلا نہیں ہوتا لیکن دوسروں کے معاملات میں مداخلت کا پہلو ضرور نکلتا ہے۔ پھر اسی سے غیبت، تہمت،طنز و تضحیک اور دوسری اخلاقی برائیوں کا رستہ کھلتا ہے۔قرآن واضح کررہا ہے کہ قیامت کے دن انسان کے اس رویے پر اس کی بہت سخت پوچھ گچھ کی جائے گی۔

حدیث: ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم بد گمانی سے بچو اس لئے کہ بدگمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے۔اور کسی کے عیوب کی جستجو نہ کرو اور نہ اس کی ٹوہ میں لگے رہو۔(بخاری ، جلد سوم:حدیث 1004)

14۔زمین میں اکڑ کر نہ چلنا (اورزمین پراکڑکرنہ چلو،تم نہ زمین کوپھاڑسکتے ہو،نہ پہاڑوں کی بلندی کوپہنچ سکتے ہو)

وضاحت: انسان کا تکبر چھوٹے پیمانے پر اپنی خدائی کا اعلان کرنا ہے۔اسی لیے قرآن تکبر اور اس کے ہر اظہار کو سخت ناپسند کرتا ہے۔ دھرتی پر اکڑ کر چلنا بظاہر تکبر کا اظہار ہے ، مگر پہاڑوں کی عظمت اور زمین کی وسعت کے سامنے یہ رویہ اصل میں اپنی حماقت کا اظہار ہے۔چال کی طرح لہجہ، لباس،رویہ اور رہن سہن بھی تکبر کی گواہی دیتا ہے۔ ان سب کا یہی حکم ہے۔

حدیث:حضرت حارثہ بن وہب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: متکبر آدمی جنت میں داخل نہ ہوگا اور نہ وہ جو جھوٹی شیخی بگھارتا ہے۔ (ابو داؤد)

حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ (مسلم)

حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی برابرغرورکرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کو جبارین میں لکھ دیا جاتا ہے۔ پھر اس پر وہی عذاب آجاتا ہے جو اُن پر آتا تھا۔ (ترمذی)

عمروبن شعیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دادا راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن تکبر کرنے والوں کو چیونٹیوں کی طرح حقیر وذلیل بنا کر آدمیوں کی صورت میں اٹھایا جائے گا کہ ہر طرف سے ان پر ذلت چھائی ہوئی ہوگی۔ ان کو بوئس نام کے جہنم میں داخل کیا جائے گا، سب سے بڑی آگ ان پر مسلط ہوگی اور دوزخیوں کا نچوڑ ان کو پلایا جائے گا۔ (ترمذی)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک آدمی اپنی دو چادریں پہن کر اکڑتا ہوا جا رہا تھا اور وہ خود ہی اترا رہا تھا تو اللہ تعالی نے اسے زمین میں دھنسا دیا اور وہ اسی طرح قیامت تک دھنستا چلا جائے گا۔ (صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 970)

15۔شرک کی برائی

وضاحت: ان تمام احکام کا آغاز شرک کی مذمت سے ہوا تھا اور اختتام پر بھی یہ بتادیاکہ شرک ایسا جرم ہے جو جہنم میں لے جانے کا سبب بنے گا۔اسی طرح تمام احکام کے آغاز کی طرح ان کے آخر میں توحید کا حکم دے کر یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ توحید دین کا اہم ترین مطالبہ ہے اور کوئی چیز اس سے بڑھ کرنہیں۔

حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ فرماتا ہے کہ میں شرک والوں کے شرک سے بے پروا ہوں ۔جو آدمی میرے لیے کوئی ایسا کام کرے کہ جس میں میرے علاوہ کوئی اور میرا شریک کیا گیا ہو تو میں اسے اور اس کے شرک کو چھوڑ دیتا ہوں۔ (صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2978)

____________

 

B