’’اللہ تعالیٰ حکم دیتے ہیں؛
عدل کا،
اوراحسان کا ،
اورقرابت داروں کو دیتے رہنے کا ،
اوربے حیائی،
اور برائی،
اورسرکشی سے منع کرتے ہیں۔ وہ تمہیں نصیحت کرتاہے تاکہ تم سبق لو۔
اوراللہ کے عہدکوپوراکروجبکہ تم نے اس سے کوئی عہدباندھا ہو، اور اپنی قسمیں پختہ کرنے کے بعدتوڑنہ ڈالوجبکہ تم اللہ کواپنے اوپرگواہ بناچکے ہو۔اللہ تمہارے سب افعال سے باخبرہے۔‘‘(النحل 16: 90-91)
سورہ نحل کی ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کو کرنے اور جن سے رکنے کا حکم دیا ہے ، وہ تمام دینی مطالبات کی بنیاد ہیں۔انہی کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نصیحت قرار دیا ہے جسے ہم نے عنوان بنالیا ہے۔ان اہمیت کی بنا پر حضرت عمر بن عبد العزیز نے اس آیت کوجمعے کے خطبے کا حصہ بنادیا۔
1۔عدل(اللہ تعالیٰ عدل کا حکم دیتے ہیں )
وضاحت: دوسروں کے جو حقوق ایک انسان پر عائد ہوتے ہیں، ان کا ادا کردینا عدل ہے۔
حدیث: حضرت ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
دنیا میں عدل وانصاف کرنے والے قیامت کے دن اپنے اس عدل وانصاف کی برکت سے رحمان کے سامنے موتیوں کے منبر پر جلوہ افروز ہوں گے۔( مسند احمد:جلد سوم:حدیث نمبر 1982)
2۔احسان(اوراللہ تعالیٰ احسا ن کا حکم دیتے ہیں)
وضاحت: دوسروں کے حقوق ادا کرتے وقت جب ہم انہیں ان کے حق سے زیادہ دیتے ہیں تو یہ احسان ہے۔
حدیث: حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم دوسروں کی دیکھا دیکھی کام کرنے والے نہ بنو کہ کہنے لگو کہ اگر اور لوگ احسان کریں گے تو ہم بھی احسان کریں گے، اور اگر دوسرے لوگ ظلم کا رویہ اختیار کریں گے تو ہم بھی ویسا ہی کریں گے بلکہ اپنے دلوں کو اس پر پکا کرو کہ اگر اور لوگ احسان کریں تب بھی تم احسان کرو اور اگر لوگ برا سلوک کریں تب بھی تم ظلم اور برائی کا رویہ اختیار نہ کرو (بلکہ احسان ہی کرو)۔ (ترمذی)
بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بدلہ دینے والا صلہ رحمی کرنے والا نہیں بلکہ صلہ رحمی کرنے والا تو وہ شخص ہے جب اس سے ناطہ توڑا جائے تو وہ اس کو ملائے۔( کتاب صحیح بخاری جلد 3حدیث نمبر 929)
3۔رشتہ داروں کو دینا(اوراللہ تعالیٰ قرابت داروں کو دیتے رہنے کا حکم دیتے ہیں)
وضاحت: عدل و احسان کے مطالبات کی ادائیگی میں دو چیزیں سب سے بڑھ کر رکاوٹ بنتی ہیں۔ ایک حُبِ مال اور دوسرے اختلاف کا پیدا ہوجانا۔یہ اختلاف بار ہا رشتہ داروں کے معاملے میں سامنے آتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس تیسرے مطالبے میں ان دونوں کی جڑ کاٹ کر عدل و احسان کی راہ بھی ہموار کردی ہے۔جو انسان اپنے رشتہ داروں کواپنا مال دینے کے لیے تیار ہو، اس سے یہ توقع کرنا غلط نہ ہوگا کہ وہ ان کے حقوق بھی اچھے طریقے سے ادا کرے گا۔اوپر عنوان نمبر3 میں صلہ رحمی کے تحت اسی بات کی وضاحت کی گئی ہے۔
حدیث:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تو ایک دینار اللہ کی راہ میں خرچ کرے اور ایک دینار مسکین کو دے اور ایک دینار اپنے اہل وعیال کو دے تو ان میں سب سے زیادہ ثواب اس دینار کا ہے جس کو تو نے اپنے اہل وعیال پر صرف کیا ہے،(مسلم)
سلمان بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسکین کو صدقہ دینا تو صدقہ ہی ہے اور رشتہ دار کو صدقہ دینا صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی ہے۔ (مسند احمد، ترمذی، ابن ماجہ)
حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے آدم کے فرزندوں! اللہ کی دی ہوئی دولت جو اپنی ضرورت سے فاضل ہو اس کا راہ خدا میں صرف کردینا تمھارے لیے بہتر ہے اور اس کا روکنا تمھارے لیے براہے، اور ہاں گزارے کے بقدر رکھنے پر کوئی ملامت نہیں۔ اور سب سے پہلے ان پر خرچ کرو جن کی تم پر ذمہ داری ہے۔ (مسلم)
4۔فواحش (بے حیائی ) سے پرہیز (اوراللہ تعالیٰ بے حیائی سے روکتے ہیں)
وضاحت: اوپر عنوان نمبر1 میں اس کی وضاحت ہوچکی ہے کہ یہ جنسی بے راہروی کو کہتے ہیں۔ یہ صرف اپنی ذات ہی میں ایک برائی نہیں ہے بلکہ اس میں مبتلا انسان اپنا وقت اور پیسہ خدا کے مطالبات میں خرچ کرنے کے بجائے اس گندگی پر لٹاتا ہے۔
حدیث:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اپنے اصحاب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے ایسی حیا کرو جیسی اس سے حیا کرنی چاہیے، صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: الحمداللہ ہم خداسے حیا کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ نہیں، بلکہ اللہ سے حیا کرنے کا حق یہ ہے کہ سر کی اور سر میں جو افکار و خیالات ہیں ان سب کی نگہداشت کرو، اور پیٹ کی اور جو کچھ اس میں بھرا ہوا ہے اس سب کی نگرانی کرو، اور موت اور موت کے بعد قبر میں تمھاری جو حالت ہونی ہے اس کو یاد رکھو۔ جس نے یہ سب کچھ کیا، سمجھو کہ اللہ سے حیا کرنے کا حق اس نے اداکیا۔ (ترمذی)
5۔منکرات سے بچنا(اوراللہ تعالیٰ برائی سے روکتے ہیں)
وضاحت: منکر وہ برائی ہے جسے تمام انسان فطری اور اخلاقی طور پر برا جانتے ہیں مثلاً جھوٹ، دھوکہ دہی،لوگوں کی حق تلفی وغیرہ۔خدا یہ چاہتا ہے کہ بندہ مومن ان چیزوں کو فطرت کا نہیں بلکہ خدا کا حکم سمجھ کر ان سے رکے۔یہی وہ چیزیں ہیں جن کو ہم عام زبان میں گناہ یا برائی کہتے ہیں۔
حدیث: نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ حلال ظاہر ہے اور حرام (بھی ظاہر ہے) اور دونوں کے درمیان میں شبہ کی چیزیں ہیں کہ جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے، پس جو شخص شبہ کی چیزوں سے بچے اس نے اپنے دین اور اپنی آبرو کو بچالیا اور جو شخص شبہے (کی چیزوں) میں مبتلا ہوجائے (اس کی مثال ایسی ہے) جیسے کہ جانور شاہی چراگاہ کے قریب چر رہا ہو جس کے متعلق اندیشہ ہوتا ہے کہ ایک دن اس کے اندر بھی داخل ہو جائے ۔ لوگو! آگاہ ہو جاؤ کہ ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہے، آگاہ ہو جاؤ کہ اللہ کی چراگاہ اس کی زمین میں اس کی حرام کی ہوئی چیزیں ہیں، خبردار ہو جاؤ! کہ بدن میں ایک ٹکڑا گوشت کا ہے، جب وہ سنور جاتا ہے تو تمام بدن سنور جاتا ہے اور جب وہ خراب ہو جاتاہے توتمام بدن خراب ہوجاتاہے،سنووہ ٹکڑادل ہے۔( صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 51)
6۔سرکشی کی ممانعت( اوراللہ تعالیٰ سرکشی سے منع کرتاہے )
وضاحت: اس پر عنوان 2میں تفصیل سے بات ہوچکی ہے۔ تاہم یادہانی کے لیے عرض ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ سے بغاوت اور انسانو ں پر ظلم کا نام ہے۔ اس کا سب بڑا نمونہ شیطان ہے جس نے نہ صرف اللہ کا حکم ماننے سے انکار کیا بلکہ سرکشی پر آمادہ ہوگیا جس کی وجہ سے ابدی لعنت کا حقدار ٹھہرا۔یہی سرکشی اور تکبر ہے جو جہنم میں جانے کا اصل سبب ہے۔
حدیث: حضرت حارثہ بن وہب خزاعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں اہل جنت کے متعلق نہ بتاؤں۔ اہل جنت میں ہر ضعیف ہوگا جسے لوگ حقیر جانتے ہیں وہ اگر کسی چیز پر قسم کھا لے تو اللہ تعالی ضرور اس کی قسم کو سچی کر دے گا۔ (پھر فرمایا) اور کیا میں تمہیں اہل دوزخ کے متعلق نہ بتاؤں؟ اہل دوزخ میں ہر سرکش حرام خور اور متکبر شخص ہوگا۔ (جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 498)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلم وہ ہے جس کی زبان درازیوں اور دست درازیوں سے مسلمان محفوظ رہیں۔ اور مومن وہ ہے جس کی طرف سے اپنی جانوں اور مالوں کے بارے میں لوگوں کو کوئی خوف وخطرنہ ہو۔ (ترمذی، نسائی)
7۔ایفائے عہد(اوراللہ کے عہدکوپوراکروجبکہ تم نے اس سے کوئی عہدباندھاہو، اور اپنی قسمیں پختہ کرنے کے بعدتوڑنہ ڈالوجبکہ تم اللہ کواپنے اوپرگواہ بناچکے ہو۔)
وضاحت : یہاں ایفائے عہد کی دو اقسام بیان ہوئی ہیں۔ ایک اللہ کے ساتھ کیا ہوا عہد اور دوسرا اللہ کا نام لے کرانسانوں سے کھائی ہوئی قسم۔ اللہ کے ساتھ عہد کی ایک قسم وہ عہد الست ہے جس کا پیچھے ذکر ہوا ہے۔ یہ عہد جب اسلام کی شکل میں قبول کیا جائے تو اس کے نتیجے میں خدا سے وفاداری اور شریعت کی پاسداری اس پر لازم ہوجاتی ہے۔عہد کی دوسری شکل اللہ کے نام پر کھائی ہوئی قسم ہے۔یہ انسانوں کو اپنی سچائی کا یقین دلانے کی آخری اخلاقی شکل ہے۔ جو شخص اس کی خلاف ورزی کرے وہ بدترین جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔
حدیث: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو قوم اللہ اور اس کے رسول کے عہد کو توڑتی ہے تو اللہ تعالیٰ غیروں کو ان پر مسلط فرما دیتا ہے جو اس قوم سے عداوت رکھتے ہیں پھر وہ ان کے اموال چھین لیتے ہیں( سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 899 )
____________