’’اوران مومنوں کاطرزعمل یہ ہوتاہے کہ اللہ کے ساتھ اپنے عہدکوپوراکرتے ہیں اور اپنے پیمان کو نہیں توڑتے،
اور اللہ نے جن جن روابط کو برقرار رکھنے کاحکم دیاہے انہیں برقراررکھتے ہیں،
اوراپنے رب سے ڈرتے ہیں اوراس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ کہیں ان سے بری طرح حساب نہ لیاجائے،
اوران کاحال یہ ہوتاہے کہ اپنے رب کی رضاکے لیے صبرسے کام لیتے ہیں،
اورنمازقائم کرتے ہیں،
اورہمارے دیے ہوئے رزق میں سے علانیہ اورپوشیدہ خرچ کرتے ہیں،
اوربرائی کوبھلائی سے دفع کرتے ہیں،
آخرت کاگھراِنہی لوگوں کے لیے ہے،یعنی ایسے باغ جوان کی ابدی قیام گاہ ہوں گے۔ وہ خودبھی ان میں داخل ہوں گے اوران کے آباؤاجداد اوران کی بیویوں اوران کی اولادمیں سے جوجوصالح ہیں وہ بھی ان کے ساتھ وہاں جائیں گے۔ملائکہ ہرطرف سے ان کے استقبال کے لیے آئیں گے اوران سے کہیں گے کہ’تم پرسلامتی ہے،تم نے دنیامیں جس طرح صبرسے کام لیااس کی بدولت آج تم اس کے مستحق ہوئے ہو‘۔۔۔پس کیاہی خوب ہے یہ آخرت کاگھر!‘‘(الرعد13: 20-24)
سورہ رعد کی یہ آیات جو اوپر نقل ہوئی ہیں ان میں سے آخری پیراگراف میں دیگر انعامات کے علاوہ فرشتوں کے اس کلام کا ذکر ہے جسے ہم نے عنوان بنالیا ہے۔
1۔عہد توحید کی پابندی :(اوران مومنوں کاطرزعمل یہ ہوتاہے کہ اللہ کے ساتھ اپنے عہدکوپوراکرتے ہیں اور اپنے پیمان کو نہیں توڑتے)
وضاحت: یہاں جس عہد اور پیمان کا ذکر ہے اس سے مرادوہ عہد و میثاق ہے جو سورہ اعراف (7)کی آیت172 میں بیان ہوا ہے۔ اس کے مطابق ہر انسان روزِ ازل خدا سے یہ عہد کرچکا ہے کہ وہ اس کے سوا کسی کو اپنا رب نہیں بنائے گا۔یعنی ہر حال میں توحید پر قائم رہے گا۔اس پر شرک کے حوالے سے پہلے بھی بات ہوچکی ہے اور آئندہ بھی ہوگی۔ مگر یہاں اسے بیان کرنے کامقصد اس امر کی طرف توجہ دلانا ہے کہ ایک اللہ کا اقرار اور بندگی انسانی فطرت میں شامل ہے جس کا عہد اس نے روز ازل کیا تھا۔ تاہم ضمنی طور پر اس میں تمام عہد و معاہدات کی پابندی شامل ہے۔
حدیث: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’ اے ابن آدم تو جب تک مجھ سے دعا کرتا رہے گا اور میری ذات سے امید رکھے گا میں بھی تیری خطاؤں کو معاف فرماتا رہوں گا، خواہ وہ کیسی ہی ہوں ، کوئی پرواہ نہ کروں گا۔ تو اگر میرے پاس زمین بھر کر خطائیں لائے گا تو میں تیرے پاس اتنی ہی مغفرت اور بخشش لے کر آؤں گا۔ بشرطیکہ تو نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو۔ گو تو نے خطائیں کی ہوں۔ یہاں تک کہ وہ آسمان تک پہنچ گئی ہوں، پھر بھی تو مجھ سے استغفار کرے تو میں تجھے بخش دوں گا۔‘‘ (بخاری ومسلم)
ابی عامر اپنے والد سے اور وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا منافق کی تین نشانیاں ہیں جب گفتگو کرے تو جھوٹ بولے جب امانت دی جائے تو اس میں خیانت کرے اور جب وعدہ کرے تو اس کے خلاف کرے۔ (صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 2504)
2۔صلہ رحمی (اور اللہ نے جن جن روابط کو برقرار رکھنے کاحکم دیاہے انہیں برقرار رکھتے ہیں)
وضاحت:انسان رشتوں میں جیتا ہے۔ان رشتوں میں سب سے مضبوط وہ رشتے ہوتے ہیں جو رحم کے تعلق یعنی ماں باپ کے حوالے سے وجود میں آتے ہیں۔ یہ رشتے ابتدا میں بہت مضبوط ہوتے ہیں، مگر آہستہ آہستہ ان رشتوں کو کبھی وقت کی گرد دھندلادیتی ہے اور کبھی اختلافات اور مفادات کی جنگ کمزور کردیتی ہے۔قرآن کا مطالبہ یہ ہے کہ یہ رشتے کبھی ٹوٹنے نہ پائیں۔ دوسرے چاہے کیسا بھی کریں، ہمیں ان رشتوں کو یکطرفہ طور پر قائم رکھنا ہوگا۔ اسی بات کا یہاں حکم دیا گیا ہے۔
حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، تو اس کو چاہئے کہ صلہ رحمی کرے اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو اس کو چاہئے کہ اچھی بات کہے ورنہ خاموش رہے۔( صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1072 )
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص چاہتا ہو کہ اللہ اس کے رزق میں وسعت اور عمر میں درازی عطا کرے تو وہ قرابت داروں کو جوڑے رکھے۔ (متفق علیہ)
3۔ خشیت رب(اوراپنے رب سے ڈرتے ہیں اوراس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ کہیں ان سے بری طرح حساب نہ لیاجائے)
وضاحت: یہاں دو چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک خشیت رب یعنی اللہ کا ڈر اور دوسرے برے حساب کا اندیشہ۔ انہی دونوں کوملاکر تقویٰ کہتے ہیں۔ یہی وہ صفت ہے جو انسان کو تمام برائیوں سے بچاتی ہے۔متقی انسان اس یقین میں جیتا ہے کہ ایک عظیم ہستی ہر لمحہ اس کی نگران ہے اور ایک دن وہ اس سے اس کے تمام اعمال کا حساب لے لے گی۔چنانچہ ایسا انسان برائی میں نہیں پڑتا۔ اگر غلطی ہوجائے تو فوراًتوبہ کرتا ہے۔
حدیث:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا کہ اللہ کے نزدیک کون زیادہ عزت والا ہے؟ آپ نے فرمایا جو زیادہ متقی ہے۔(صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1805)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر (اللہ کے قہرو جلال اور قیامت وآخرت کے لرزہ خیز ہولناک احوال کے متعلق) تمھیں وہ سب معلوم ہوجائے، جو مجھے معلوم ہے، تو تمھارا ہنسنا بہت کم ہوجائے اور رونا بہت بڑھ جائے۔ (بخاری)
4۔اللہ کے لیے صبر(اوران کاحال یہ ہوتاہے کہ اپنے رب کی رضاکے لیے صبرسے کام لیتے ہیں)
وضاحت:تقویٰ کی صفت اگر برائی سے بچاتی ہے تو اللہ کے لیے صبر کرنا تمام اچھائیوں کی بنیاد ہے۔قرآن کے مطلوب انسان کے ضمن میں جتنے بھی مطالبات سامنے آئیں گے ، وہ سب بہت مشکل ہیں۔ ان کے لیے انسان کواپنی خواہشات، جذبات، میلانات اور مفادات کے خلاف چلنا پڑتا ہے۔ اس مشکل راہ پر وہی شخص چل سکتا ہے جومحض اللہ کی رضا کے لیے اس راہ پر آنے والی مشکلات پر صبر کرنے پر تیار ہوجائے۔جس شخص میں اللہ کی رضا کے لیے صبر کا جذبہ نہیں وہ کبھی ان مطالبات کو پورا نہیں کرسکتا۔
حدیث:حضرت مہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندۂ مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ اس کے ہر معاملہ اور ہر حال میں اس کے لئے خیر ہی خیر ہے۔ اگر اس کو خوشی اور راحت وآرام پہنچے تو وہ اپنے رب کا شکر اداکرتا ہے اور یہ اس کے لیے خیر ہی خیر ہے۔ اور اگر اسے کوئی دکھ اور رنج پہنچتا ہے تو وہ اس پر صبر کرتا ہے اور یہ صبر بھی اس کے لیے سراسر خیر اور موجب برکت ہوتا ہے۔ (مسلم)
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی (حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنھا) نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کہلاکے بھیجا کہ میرے بچے کا آخری دم ہے اور اس کاچل چلاؤ کا وقت ہے لہٰذا آپ تشریف لے آئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں سلام کہلاکے بھیجا اور پیام دیا کہ بیٹی! اللہ کسی سے جو کچھ لے وہ بھی اسی کا ہے، اور کسی کو جو کچھ دے وہ بھی اسی کا ہے۔ اور ہر چیز کے لیے اس کی طرف سے ایک مدت اور وقت مقرر ہے۔ پس چاہیے کہ تم صبر کرو اور اللہ تعالیٰ سے اس صدمہ کے اجروثواب کی طالب بنو۔ (بخاری و مسلم)
5۔نماز (اورنمازقائم کرتے ہیں)
وضاحت:یہ دین کا بنیادی مطالبہ ہے۔ اس سے متعلق اور بہت سے ضمنی مطالبات ہیں۔ وہ مختلف جگہوں پر جیسے جیسے آئیں گے، ہم ان کی وضاحت کرتے رہیں گے۔تاہم نماز سے متعلق یہ بات جان لینی چاہیے کہ یہ عام حالات میں سب سے بڑا عمل ہے، جو بندہ اپنے رب کے لیے کرسکتا ہے۔ یہ قیام، رکوع، سجود کی شکل میں عبادتِ رب اور اظہار بندگی کا خوبصورت ترین نمونہ ہے۔جو شخص رب کی پرستش، اس کی یاد اور اس کی محبت کی اس اعلیٰ ترین سطح سے منہ موڑتا ہے وہ گویا کہ کفر کا ارتکاب کردیتا ہے۔
حدیث:ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اسلام (کا قصر پانچ ستونوں) پر بنایا گیا ہے، اس بات کی شہادت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں، نماز پڑھنا، زکوٰۃ دینا، حج کرنا، رمضان کے روزے رکھنا۔(صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 7)
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بندہ کے ایمان اور کفر کے درمیان نماز چھوڑدینے ہی کا فیصلہ ہے۔ (مسلم)
حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہمارے اور اسلام قبول کرنے والے عام لوگوں کے درمیان نماز کا عہد ومیثاق ہے، پس جو کوئی نماز چھوڑ دے تو گویا اس نے اسلام کی راہ چھوڑ کر کافرانہ طریقہ اختیار کرلیا، (ابن ماجہ)
6۔انفاق(اورہمارے دیے ہوئے رزق میں سے علانیہ اورپوشیدہ خرچ کرتے ہیں)
وضاحت:نماز کے ساتھ دین کا دوسرا مطالبہ انفاق (خدا کی راہ میں خرچ کرنا)ہے جو قرآن جگہ جگہ دہرا تاہے۔ان آیات میں یہ وضاحت کردی گئی ہے کہ انفاق کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کا انفاق اصل میں اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے ہوتا ہے۔ وہ انفاق کرکے نہ اللہ پر احسان کرتے ہیں نہ اس کے بندوں پر۔ بلکہ صرف اپنا بھلا کرتے ہیں۔اسی طرح دوسری خصوصی بات یہاں یہ بیان ہوئی ہے کہ اہل ایمان کا انفاق خفیہ بھی ہوتا ہے اور علانیہ بھی۔خفیہ اس لیے کہ ان کا اصل مقصود اللہ کی رضا ہوتی ہے، دنیا کو دکھانا نہیں ہوتا، لیکن وہ علانیہ بھی انفاق کرتے ہیں اوراس لیے کرتے ہیں کہ دوسروں میں بھی اس مشکل کام کوکرنے کا حوصلہ پیدا ہو۔
حدیث:عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اگرچہ کھجور کا ٹکڑا ہو اسے صدقہ دے کر آگ سے بچو۔ (صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1332)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کون سے صدقے کا زیادہ ثواب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ زیادہ ثواب اس وقت ہے کہ صدقہ کرنے والے کی حالت تندرست، ہٹاکٹا اور حاجت مند ہو، فقر سے ڈرتا ہو اور تونگری کی امید میں ہو اور ایسا نہ کرے کہ دینے میں ٹال مٹول کیے جائے جب روح حلق تک آجائے اور جان نکلنے لگے تو اس وقت دینے بیٹھے کہ فلاں کو اس قدر اور فلاں کو اس قدر۔ اس وقت تو وہ مال وارثوں کا ہے ہی۔ (بخاری، مسلم)
7۔برائی کے بدلے میں بھلائی(اوربرائی کوبھلائی سے دفع کرتے ہیں)
وضاحت:اس دنیا میں لوگ اگرہماری راہ میں کانٹے بچھائیں اور جواب میں ہم بھی یہی کریں تو دنیا کانٹوں سے بھر جائے گی۔اللہ تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ ہم کانٹوں کے جواب میں بھی لوگوں کی راہ میں پھول بچھائیں۔ برائی کے بدلے میں بھلائی کایہی وہ رویہ ہے جو ہمیں اللہ تعالیٰ کی بہترین رحمتوں کا مستحق اور بدترین دشمنوں کو بھی بہترین دوست بنادیتا ہے۔اس رویے کے کچھ دوسرے اہم پہلو آگے سورہ شوریٰ عنوان نمبر 9میں بیان ہوں گے۔
حدیث:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میرے کچھ رشتہ دار ایسے ہیں جن سے میں تعلق جوڑتا ہوں اور وہ مجھ سے تعلق توڑتے ہیں میں ان سے نیکی کرتا ہوں اور وہ مجھ سے برائی کرتے ہیں اور میں ان سے بردباری کرتا ہوں اور وہ مجھ سے بداخلاقی سے پیش آتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تو واقعی ایسا ہی ہے جیسا کہ تو نے کہا ہے تو گویا کہ تو ان کو جلتی ہوئی راکھ کھلا رہا ہے اور جب تک تو ایسا ہی کرتا رہے گا اللہ کی طرف سے ایک مدد گار ان کے مقابلے میں تیرے ساتھ رہے گا۔ (صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2028)
____________