HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Rehan Ahmed Yusufi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

حرمتوں کے بارے میں خدائی ضابطہ

’’اے بنی آدم !ہر عبادت کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ رہواور کھاؤ اور پیو،
اوراسراف نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا،
اے رسول ان سے کہو، کس نے اللہ کی اس زینت کو حرام کردیا جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لیے نکالا تھا اور کس نے خدا کی بخشی ہوئی پاک چیزیں ممنوع کردی ہیں۔کہو ، یہ ساری چیزیں دنیا کی زندگی میں بھی اہل ایمان کے لیے ہیں، اور قیامت کے دن توخالصتاََ انہی کے لیے ہوں گی۔اس طرح ہم اپنی باتیں صاف صاف بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو علم رکھنے والے ہیں۔اے نبی کہدو کہ میرے رب نے جو چیزیں حرام کی ہیں وہ تو یہ ہیں:
بے حیائی کے کام ،خواہ کھلے ہوں یا چھپے،
اورحق تلفی،
اورناحق زیادتی،
اوراس بات کو حرام ٹھہرایا ہے کہ تم کسی چیز کو اللہ کا شریک بناؤ جس کی اس نے کوئی دلیل نہیں اتاری،
اوریہ کہ تم اللہ کے نام پر کوئی ایسی بات کہوجس کا تمھیں علم نہ ہو۔‘‘(الاعراف7 :32-33)


عنوان و مطالبات

سورہ اعراف کی ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے حلال و حرا م کے بارے میں انسانوں کی بے اعتدالی کو موضوع بناکر یہ بتایا ہے کہ اللہ اور بندوں کے حقوق کے حوالے سے وہ کون سی چیزیں ہیں جو اصلاًحرام ہیں اور ہر حرمت کی بنیاد ہیں۔آیت 33 میں بیان کردہ الفاظ ’رب نے جو چیزیں حرام کی ہیں وہ یہ ہیں‘کو ہم نے عنوان بنالیا ہے۔

1۔زینت اور کھانے پینے کا حکم(ہر عبادت کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ رہواور کھاؤ اور پیو)

وضاحت:انسانوں کا یہ مسئلہ ہے کہ وہ اپنے مذہبی ذہن کی بنا پرچیزوں کو حرام کرنا شروع کردیتے ہیں۔حالانکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا کوئی حکم نہیں ہوتا۔مثال کے طور پر قریش کی مذہبی قیادت نے طواف کے موقع پر غیر قریش کے لیے کپڑے پہننا ناجائز قرار دے دیا تھا۔ کیونکہ ان کے نزدیک دوسرے لوگوں کے کپڑے زینتِ دنیا میں شامل تھے۔ قرآن نے اس کی سختی سے تردید کرکے یہ حکم دیا کہ مسجد میں حاضری کے موقع پر لباس کی زینت اختیار کرو اور اطمینان سے کھاؤ پیو۔

پھر آیت 32میں یہ بالکل واضح کردیا گیا کہ لباس ہو یا کوئی اور زینت یا پاکیزہ رزق ہو یہ تو ہیں ہی اہل ایمان کے لیے۔ اس لیے ایمان کا مطلب قطعاً یہ نہیں کہ انسان دنیا کی زینتوں اور نعمتوں کو چھوڑ دے۔اس لیے کھاؤ پیو اور اطمینان سے زینت بھی اختیار کرو۔خدا اس پر کوئی پکڑ نہیں کرے گا۔

حدیث: حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر اپنی نعمت کا اظہار پسند کرتا ہے۔ (جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 723)

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کے اس عمل سے بڑا خوش ہوتا ہے کہ وہ کچھ کھائے اور اس پر اللہ کی حمد اور اس کا شکر کرے یاکچھ پیئے اور اس پر اس کی حمد اور شکر ادا کرے۔ (مسلم)

ابر مطر تابعی سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تین درہم میں ایک کپڑا خریدا اور جب اسے پہنا تو کہا: حمد وشکر ہے اس اللہ کے لیے جس نے مجھے یہ لباس زینت عطا فرمایا اور جس سے میں لوگوں میں آرائش حاصل کرتا ہوں اور اپنی سترپوشی کرتا ہوں۔ پھر فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم(کپڑا پہن کر) اسی طرح انہی الفاظ میں اللہ کی حمدوشکر کرتے تھے۔ (مسند احمد،معارف الحدیث)

ابوالاحوص تابعی اپنے والد (مالک بن فضلہ) سے روایت کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں بہت معمولی اور گھٹیا قسم کے کپڑے پہنے ہوئے تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کیا تمھارے پاس کچھ مال ودولت ہے؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں (اللہ کا فضل ہے)۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ کس نوع کا مال ہے؟ میں نے عرض کیا کہ مجھے اللہ نے ہر قسم کا مال دے رکھا ہے، اونٹ بھی ہیں، گائے بیل بھی ہیں، بھیڑ بکریاں بھی ہیں، گھوڑے بھی ہیں، غلام باندیاں بھی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب اللہ نے تم کو مال ودولت سے نوازا ہے تو پھر اللہ کے انعام واحسان اور اس کے فضل وکرم کا اثر تمھارے اوپر نظر آنا چاہیے۔ (مسند احمد۔ سنن نسائی)

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ملاقات کے لیے ہمارے ہاں تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ایک پراگندہ حال آدمی پر پڑی جس کے سرکے بال بالکل منتشر تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: کیا یہ آدمی ایسی کوئی چیز نہیں پاسکتا تھا جس سے اپنے سر کے بال ٹھیک کرلیتا۔ (اور اسی مجلس میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا جو بہت میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے تھا تو ارشاد فرمایا: کیا اس کو کوئی چیز نہیں مل سکتی تھی جس سے یہ اپنے کپڑے دھو کر صاف کر لیتا؟(مسند احمد، سنن نسائی)۔

2۔اسراف سے بچنا(اوراسراف نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا)

وضاحت:زینت کی اجازت کے ساتھ ان آیات میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ زینت کے حلال ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ انسان ہر وقت زیب و زینت کے مظاہر اور کھانے پینے کے پیچھے لگا رہے اورانہیں مقصد زندگی بناکر اعتدال سے تجاوز کرجائے ۔بلکہ انہیں اعتدال کے ساتھ اختیار کرنا چاہیے۔اپنے مال کو صرف انہی چیزوں پر خرچ کرنے والے لوگ اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہیں۔

حدیث:حضرت عبداللہ بن عمر وبن عاص رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کھاؤ پیوصدقہ کرو اور پہنو بشرطیکہ اس میں اسراف یا تکبر کی آمیزش نہ ہو۔( بخاری کتاب اللباس)

عبداللہ بن سرجس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھی سیرت، اور اطمینان ووقار سے اپنے کام انجام دینے کی عادت اور میانہ روی ایک حصہ ہے نبوت کے چوبیس حصوں میں سے۔ (ترمذی)

3۔فواحش کی نوعیت کے ظاہری اور باطنی گناہ(بے حیائی کے کام ،خواہ کھلے ہوں یا چھپے)

وضاحت:اللہ تعالیٰ نے اپنی شریعت میں جن چیزوں کو حرام قرار دیا ہے ان کی ایک بنیادی اساس ان کا فحش ہونا ہے ۔ان فواحش کی مثال عریانی، بدنگاہی،زنا اوردیگر جنسی انحرافات ہیں ۔ یہ گناہ چاہے ظاہر ہوں یا لوگوں سے چھپ کر کیے جائیں اللہ کے نزدیک قطعاً حرام ہیں۔

حدیث:حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگلی نبوت کی باتوں میں سے لوگوں نے جو کچھ پایا ہے اس میں ایک مقولہ یہ بھی ہے کہ ’جب تم میں شرم وحیانہ ہو، تو پھر جو چاہوکرو‘۔ (بخاری)

سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر کوئی شخص مجھے اپنی زبان اور اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی ضمانت دے دے تو میں اس کے لیے جنت کی ضمانت لے لوں گا۔ (بخاری)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں لے جاتا ہے۔ بے حیائی ظلم ہے اور ظلم جہنم میں لے جاتا ہے۔ (جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 2074 )

4۔حق تلفی کی نوعیت کے گناہ(اوراللہ نے حق تلفی کو حرا م کیا ہے )

وضاحت:اس دنیا میں انسان پر بہت سے حقوق عائد ہوتے ہیں۔ان حقوق کا تعلق اپنی ذات، خاندان، اقربا، سوسائٹی کے محروم طبقات ،معاشرے اور خود اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہوتا ہے۔یہ گویا حقوق العباد اور حقوق اللہ کی جامع ترین تعبیر ہے۔ان حقوق کی تفصیل جگہ جگہ ان منتخب مقامات پر بیان ہوئی ہے۔ان کی ادائیگی میں کوتاہی کو یہاں ’اثم‘ کے لفظ سے بیان کیاگیا ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ نے قطعاً حرام قرار دیا ہے۔آگے عنوان نمبر 4’’اللہ تعالیٰ کی نصیحت ‘‘میں فواحش اور سرکشی کے بیچ میں حق تلفی کی جگہ ’منکرات ‘کو رکھ کر اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا ہے کہ بندوں کے یہ حقوق اللہ کو بتانے کی ضرورت نہیں بلکہ ان برائیوں کو تم خود بھی ’منکر‘ یعنی برا جانتے ہو۔

حدیث:حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے کسی دوسرے کی کچھ بھی زمین ناحق لے لی تو قیامت کے دن وہ اس زمین کی وجہ سے زمین کے ساتوں طبق تک دھنسایا جائے گا۔ (بخاری)

حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی کی کوئی چیز چھین لی یا لوٹ لی وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ (ترمذی)

حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قطع رحمی کرنے والا (یعنی رشتہ داروں اور اہل قرابت کے حقوق ادا نہ کرنے والا) جنت میں نہ جاسکے گا۔ (بخاری ومسلم)

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں( ایک سفر میں ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک گدھے پر سوار تھاجس کا نام عفیر تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے معاذ! کیا آپ جانتے ہیں کہ اللہ کے اپنے بندوں پر کیا حقوق ہیں؟ اور بندوں کے اللہ پر کیا حق ہیں؟ میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ کا بندوں پر حق یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ بنائیں، اور بندوں کا اللہ پر حق یہ ہے کہ جو اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں بناتے انہیں عذاب نہ دے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیا میں اس بات کی لوگوں کو اطلاع نہ دے دوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں کو مت بتاؤ وہ بھروسہ کر کے بیٹھ جائیں گے۔ ( صحیح البخاری، الجہاد والسیر، باب اسم الفرس والحمار، حدیث2856)

5۔سرکشی کی نوعیت کے گناہ(اوراللہ نے ناحق زیادتی کو حرا م کیا ہے )

وضاحت:آیت میں لفظ ’بغی‘ استعمال ہوا ہے۔ جسے اردو میں سرکشی سے تعبیر کرسکتے ہیں۔یہ سرکشی جب بندوں کے معاملات میں ظاہر ہوتی ہے تو ظلم و زیادتی کو جنم دیتی ہے اورخالق کے معاملات میں ظاہر ہو تو خدا سے بے پروائی اور اس سے بغاوت کو جنم دیتی ہے۔ ایک بندہ مومن دوسرے گناہوں سے تودور رہنے کی کوشش کرتا ہے مگر سرکشی کے تو وہ قریب بھی نہیں پھٹکتا۔ کیونکہ اکثر یہ مسئلہ ناقابلِ اصلاح ہوتا ہے۔

حدیث:سعید مقبری، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے کسی کی عزت یا کسی اور چیز پر ظلم کیا ہو تو اسے آج ہی معاف کرا لے اس سے پہلے کہ وہ دن آئے جب کہ نہ دینار ہوں گے اور نہ درہم۔ اگر اس کے پاس عمل صالح ہوگا، تو بقدر اس کے ظلم کے اس سے لے لیا جائے گا اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہو ں گی، تو مظلوم کی برائیاں لے کر اس کے سر پر ڈالی جائیں گی۔( صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 2287 )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہوکہ دیوالیہ اور مفلس کون ہے؟ لوگوں نے کہا مفلس ہمارے ہاں وہ شخص کہلاتا ہے جس کے پاس نہ تو درہم ہو اور نہ کوئی سامان۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ میری امت کا مفلس اور دیوالیہ وہ ہے جو قیامت کے دن اپنی نماز، روزے اور زکوٰۃ کے ساتھ اللہ کے پاس حاضر ہوگا، اور اسی کے ساتھ ساتھ اس نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال مار کرکھایا ہوگا، کسی کو قتل کیا ہوگا، کسی کو ناحق مارا ہوگا، تو ان تمام مظلوموں میں اس کی نیکیاں بانٹ دی جائیں گی۔ پھر اگر اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں اور مظلوموں کے حقوق باقی رہے تو ان کی غلطیاں اس کے حساب میں ڈال دی جائیں گی۔ پھر اسے جہنم میں پھینک دیاجائے گا۔ (مسلم)

6۔اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا(اوراس بات کو حرام ٹھہرایا ہے کہ تم کسی چیز کو اللہ کا شریک بناؤ جس کی اس نے کوئی دلیل نہیں اتاری)

وضاحت:اس پرعنوان نمبر1میں بات ہوچکی ہے۔ تاہم یہاں یہ واضح کردیا ہے کہ شرک کے حق میں کوئی علمی یا عقلی دلیل نہیں ہے اور نہ اللہ تعالیٰ ہی نے اس کے حق میں کبھی کوئی دلیل نازل کی ہے۔

حدیث: حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آیت ’’جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان میں ظلم کی آمیزش نہ کی‘‘ نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب نے عرض کیا کہ ہم میں سے کون ایسا ہے کہ جس نے اپنے ایمان کے ساتھ ظلم کی آمیزش نہیں کی تو یہ آیت نازل ہوئی۔ اللہ کے ساتھ شرک نہ کرو بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ (صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 652)

7۔اللہ کے نام پر شریعت گھڑنا(اوریہ کہ تم اللہ کے نام پر کوئی ایسی بات کہوجس کا تمھیں علم نہ ہو۔)

وضاحت: اس عنوان کی ابتدا میں لوگوں کا ایک مسئلہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ چیزوں کو حرام کرنے میں بڑی دلچسپی لیتے ہیں ، اسی طرح یہ دوسرا مسئلہ ہے کہ لوگ اپنے فہم وفکر سے ایک رائے پر پہنچتے ہیں اور پھر اطمینان کے ساتھ اسے اللہ کے حکم اور شریعت کے طور پر پیش کردیتے ہیں۔یہ رویہ بھی قطعاً حرام ہے۔کیونکہ اس رویے سے دین میں بدعت و گمراہی کے دروازے کھل جاتے ہیں اور حلال و حرام کے بارے میں لوگوں پر تنگی پیدا ہوجاتی ہے۔

حدیث:حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عدی اس بت کو اپنے سے دور کر دو پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سورہ براۃ کی یہ آیات پڑھتے ہوئے سنا :’’انہوں نے اپنے عالموں اور درویشوں کو اللہ کے سوامعبودبنالیا ہے‘‘ التوبہ9 : 31) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ لوگ ان کی عبادت نہیں کرتے تھے لیکن اگر وہ (علماء اور درویش) ان کے لئے کوئی چیز حلال قرار دیتے تو وہ بھی اسے حلال سمجھتے اور اسی طرح ان کی طرف سے حرام کی گئی چیز کو حرام سمجھتے۔( جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1038)

____________

 

B