’’ان سے کہوکہ آؤمیں تمھیں سناؤں تمھارے رب نے تم پرکیاچیزیں حرام کی ہیں:
یہ کہ اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ کرو،
اوروالدین کے ساتھ نیک سلوک کرو،
اور اپنی اولادکومفلسی کے ڈرسے قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اوران کوبھی دیں گے۔
اوربے حیائی کی باتوں کے قریب بھی نہ جاؤخواہ وہ کھلی ہوں یا چھپی،
اورکسی جان کوجسے اللہ نے محترم(ٹھہرایا) ہے ہلاک نہ کرومگرحق کے ساتھ۔ یہ باتیں ہیں جن کی ہدایت اس نے تمہیں کی ہے، شاید کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو۔
اوریہ کہ یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤمگر ایسے طریقہ سے جوبہترین ہو،یہاں تک کہ وہ اپنے سن رشد(بلوغت) کو پہنچ جائے۔
اورناپ تول میں پوراانصاف کرو،ہم ہرشخص پرذمہ داری کااتناہی باررکھتے ہیں جتنااس کے امکان میں ہے۔
اورجب بات کہوانصاف کی کہوخواہ معاملہ اپنے رشتہ دارہی کاکیوں نہ ہو،
اوراللہ کے عہدکوپوراکرو،ان باتوں کی ہدایت اللہ نے تمہیں کی ہے شایدکہ تم نصیحت قبول کرو۔
نیزاس کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میراسیدھاراستہ ہے لہٰذاتم اسی پرچلواوردوسرے راستوں پر نہ چلوکہ وہ اس کے راستے سے ہٹاکرتمہیں پراگندہ کردیں گے۔یہ ہے وہ وصیت جوتمھارے رب نے تمہیں کی ہے،شایدکہ تم کج روی سے بچو۔‘‘ (الانعام 6: 151-153)
یہ سورہ انعام کی آیات ہیں۔اس سورہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ قریش نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے عطا کردہ دینِ حنیف کی تعلیمات کو مسخ کرکے اپنی خود ساختہ شریعت اور عقائد گھڑلیے تھے۔اس سورت کا موضوع قریش کے انہی خودساختہ عقائد اور اعمال کی تردید ہے۔سورہ انعام کی پیش نظر آیات میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ وہ کیا چیزیں ہیں جو اصل میں حرام و ناجائز ہیں۔آخر میں آیت 153میں ان باتوں پر عمل کو صراط مستقیم قرار دیا ہے اور ان کے علاوہ دیگر راستوں کو گمراہی کی پگڈنڈیاں قرار دے کر ان پر چلنے سے روکا ہے۔اسی کو ہم نے آیات کا عنوان بنالیا ہے۔سورہ انعام کے اختتام پر اللہ تعالیٰ نے واضح کردیاہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی ’صراط مستقیم ‘ کی ہدایت دی گئی ہے اور یہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ تھا۔
1۔ شرک سے پرہیز ( اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ کرو)
وضاحت: دین کی اصل’’ توحید ‘‘ہے۔قرآن کے مطلوب انسان کی زندگی’’ ایک‘‘ اللہ کی وفادار ہوتی ہے۔اس کا ہر سجدہ، ہر امید ، ہر اندیشہ، ہر محبت ،ہر خوف،ہر دعا ، ہر عبادت ، صرف اور صرف ایک اللہ کے لیے ہوتی ہے۔وہ اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔کیونکہ شرک ایسی چیز ہے کہ قرآن نے دو جگہ صاف اعلان کردیاکہ خدا جس گناہ کو چاہے گا معاف کردے گا، مگر شرک کو کسی صورت معاف نہیں کرے گا،(النساء 4: 48 ،116)۔
حدیث: حضرت انس بن مالک رضی للہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن خفیف ترین عذاب والے دوزخی سے اللہ فرمائے گا: اگر تیرے پاس روئے زمین کی تمام چیزیں ہوں تو کیا آج عذاب سے چھوٹنے کے لیے تو وہ سب چیزیں دے دے گا؟ دوزخی کہے گا جی ہاں۔ اللہ فرمائے گا: جب تو آدم کی پشت میں تھا اس وقت میں نے تجھ سے اس سے بہت زیادہ آسان چیز کی خواہش کی تھی کہ (پیدا ہونے کے بعد) میرے ساتھ کسی کو شریک نہ قرار دینا، مگر تو بغیر شرک کے نہ رہا۔ (متفق علیہ)
2۔ والدین کے ساتھ احسان(اوروالدین کے ساتھ نیک سلوک کرو)
وضاحت: ایک انسان پر اللہ تعالیٰ کے بعد، سب سے بڑا حق اس کے والدین کا ہے۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے بعد والدین سے حسن سلوک کا ذکرکیا ہے۔ اس حسن سلوک میں ادب، لحاظ، خدمت، محبت، معروف میں اطاعت، ان پر انفاق وغیرہ سب شامل ہیں۔اس مطالبے کی تفصیل آگے جگہ جگہ آئے گی۔
حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، تو پوچھنے لگا، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! سب سے زیادہ کس کا حق ہے کہ میں اس کے ساتھ (نیک) سلوک کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیری ماں کا۔ پوچھا پھر کس کا؟ فرمایا: تیری ماں کا۔ اس نے پھر پوچھاکس کا؟آپ نے پھر فرمایا:تیری ماں کا۔اس نے عرض کیا پھر کس کا؟ فرمایا: تیرے باپ کا۔ (بخاری جلد سوم حدیث نمبر912)
حضرت ابوالدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: باپ جنت (کے اندر داخل ہونے) کا وسطی دروازہ ہے۔ اگر تم چاہو تو اس کی نگہداشت کرو یا (چاہو) کھودو۔ (رواہ احمد والترمذی)
3۔مفلسی کے خوف سے اولاد کا قتل(اوراپنی اولادکومفلسی کے ڈرسے قتل نہ کرو،ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اوران کوبھی دیں گے)
وضاحت: عرب میں اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل کردیا جاتا تھا۔جبکہ بیٹیوں کو رسوائی کے ڈر سے زمین میں زندہ گاڑ دیا جاتا تھا۔اس پس منظر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اپنی اولاد کو قتل نہ کرو ہم انہیں اور تمھیں دونوں کو رزق دیں گے۔یہ ہدایت ہے تو عرب کے خاص پس منظر میں ،مگر اس سے جو اصولی بات نکلتی ہے وہ یہ ہے کہ انسان کو خدا پر توکل کرنا چاہیے۔مفلسی سے ڈرانا شیطان کا بڑا موثر ہتھیار ہے۔چنانچہ رزق کی تنگی کے خوف سے کوئی بھی حرام کام کرنا قطعاً غلط ہے۔چاہے وہ اولاد کاقتل ہو ، رزق حرام کمانا ہو یا کوئی اور جرم۔
حدیث:حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک مسلمان کو اپنے دین کامل میں اس وقت تک (معافی کی) گنجائش رہتی ہے جب تک وہ حرام طریقے سے کسی کا خون نہ بہائے۔ (بخاری، حدیث6862)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اگرتم لوگ اللہ پر اسی طرح توکل کرو جیسا کہ اس پر توکل کرنے کا حق ہے تو وہ تمھیں اسی طرح رزق دے گا جس طرح وہ چڑیوں کو رزق دیتا ہے۔وہ صبح کو جب گھونسلوں سے روزی کی تلاش میں روانہ ہوتی ہیں تو ا ن کے پیٹ خالی اور جب شام کو لوٹتی ہیں تو بھرے ہوتے ہیں،(ترمذی)
ایک آدمی نے سوال کیا کہ یا رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنی اونٹنی کو باندھوں اور اللہ تعالیٰ پر توکل کروں یا اسے چھوڑدوں اور توکل کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم پہلے اسے باندھوپھر توکل کرو،(ترمذی)
4۔کھلے اور چھپے فواحش سے پرہیز
(اوربے حیائی کی باتوں کے قریب بھی نہ جاؤخواہ وہ کھلی ہوںیاچھپی)
وضاحت: جنسی بے راہروی پر مبنی ہر کام ’فحش‘ ہوتا ہے۔ بعض اوقات انسان معاشرتی دباؤ کی بنا پر ان سے اس وقت تو دور رہتا ہے جب دیکھنے والے موجود ہوں، مگر چھپ کر وہ ان کاموں میں ملوث ہوجاتا ہے۔قرآن کا مطالبہ ہے کہ ان سے ہر حال میں دور رہا جائے۔اس گندگی سے نظر کو بھی محفوظ رکھا جائے اور سینے کو بھی پاک رکھا جائے۔عملاً بھی اس سے بچا جائے اور ذہناً بھی۔تنہائی میں بھی اور لوگوں کے سامنے بھی۔
حدیث: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا کہ سب سے زیادہ غیرت مند اللہ کی ذات ہے یہی وجہ ہے کہ اس نے بے حیائی کے کاموں کو جو کھلے ہوں یا چھپے ہوں حرام کیا ہے ۔ (صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1754)
زید بن طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر دین کا کوئی امتیازی وصف ہوتا ہے، اور دین اسلام کا امتیازی وصف حیا ہے۔ (موطا امام مالک، سنن ابن ماجہ)
5۔انسانی جان کی حرمت(اورکسی جان کوجسے اللہ نے محترم ٹھہرایاہے ہلاک نہ کرومگرحق کے ساتھ)
وضاحت: انسانی جان کی اللہ تعالیٰ کے نزدیک غیر معمولی حرمت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حدود کے سوا، کسی انسان کو قتل نہیں کیا جاسکتا۔جس نے کسی کو ناحق قتل کیا، اس کا ٹھکانہ جہنم میں ہوگا۔
حدیث: حضرت ابن مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن سب سے پہلے خون (ناحق)کے فیصلے کیے جائیں گے۔ (متفق علیہ )
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کو گالی دینا گناہ ہے اور اسے قتل کرنے کے لیے لڑنا کفر ہے۔ (بخاری حدیث1959)۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی نظرمیں مومن کے ناحق قتل کے مقابلہ میں ساری دنیا کا فنا ہوجانا حقیر ہے۔ (ابن ماجہ)
حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہرگناہ کی امید ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ معاف فرمادے، سوائے اس شخص کے جو کافر مرا ہو، یا کسی کو قصداً اس نے قتل کیا ہو۔ (رواہ النسائی۔)
6۔مال یتیم ناحق کھانے سے بچنا( یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤمگرایسے طریقہ سے جوبہترین ہو،یہاں تک کہ وہ اپنے سن رشدکوپہنچ جائے)
وضاحت:انسانی نفسیات ہے کہ وہ کمزور کے ساتھ جو چاہے زیادتی کردیتا ہے۔خاص کر کوئی یتیم زیر سایہ ہو تو اس کی بے کسی کی بنا پر اس کا مال ہڑپ کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔قرآن مجید نے اس رویے کی سخت مذمت کی ہے اور سورہ نسا کے آغاز پر اس رویے کو موضوع بناکر اس پر جہنم کی وعید دی ہے۔البتہ سرپرست غریب ہو تو حق خدمت کے طور پر دستور کے مطابق یتیم کا مال استعمال کرسکتا ہے ، (النسا 6:4)۔
حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سات ہلاک کرنے والی باتوں سے دور رہو۔ان میں سے ایک یتیم کا مال کھاناہے(صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 38)
7۔ ناپ تول پورا کرنا(اورناپ تول میں پورا انصاف کرو،ہم ہرشخص پرذمہ داری کااتناہی باررکھتے ہیں جتنااس کے امکان میں ہے۔)
وضاحت: ناپ تول کو پورا کرنا لازمی دینی مطالبات میں سے ایک ہے۔البتہ انجانے میں کچھ کمی بیشی ہوجائے تو اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے گرفت نہیں ہے۔یہ رویہ صرف دکانداروں کی ناپ تول تک ہی محدود نہیں بلکہ اس میں پیسہ لے کر پورا کام کرنا، پورا وقت دینا، جو طے کیا ہے وہی دینا، اسی طریقے سے دینا،ملاوٹ نہ کرنا سب شامل ہیں۔
حدیث: عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جو قوم غنیمت کے مال میں چوری کرتی ہے ان کے دل بودے ہو جاتے ہیں، اور جس قوم میں زنا زیادہ ہو جاتا ہے ان میں موت بھی بہت زیادہ ہو جاتی ہے، اور جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے ان کی روزی بند ہو جاتی ہے، اور جو قوم ناحق فیصلہ کرتی ہے ان میں خون ریزی زیادہ ہو جاتی ہے، اور جو قوم عہد توڑتی ہے ان پر دشمن غالب ہو جاتا ہے۔ (موطا امام مالک:جلد اول:حدیث نمبر 996 )
8۔لوگوں کے متعلق عدل سے بات کہنا(اورجب بات کہوانصاف کی کہوخواہ معاملہ اپنے رشتہ دارہی کاکیوں نہ ہو)
وضاحت: انسان کی بڑی کمزوری ہے کہ وہ جذبات کا شکار ہوکر خلاف حق بات کہہ جاتا ہے۔ قرآن نے اس سے سختی کے ساتھ روکا ہے۔خاص کر جب کسی سے اختلاف ہوجائے یا پھر جب اپنے گروہ، خاندان اور دوست اقربا وغیرہ کی حمایت کا معاملہ ہوتو انسان کی دلچسپی حق کے ساتھ نہیں رہتی۔ایک بندہ مومن کو یہ رویہ زیب نہیں دیتا۔وہ ہر حال میں سچی بات کہتا ہے چاہے معاملہ اپنے گروہ یا اپنے رشتہ دار ہی کاکیوں نہ ہو۔
حدیث:ابو فسیلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اپنے لوگوں سے محبت کرنا کیا عصبیت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، بلکہ عصبیت یہ ہے کہ آدمی ظلم کے معاملے میں اپنی قوم کا ساتھ دے۔ (مشکوۃ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا: جھوٹی شہادت شرک کے مساوی ہے۔ (ابی داؤد، ابن ماجہ)
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت اس بات پر کی تھی ۔۔۔اور یہ کہ ہم حق پر قائم رہیں گے یا یہ کہا کہ ہم حق بات کہیں گے جہاں بھی ہوں گے اور اللہ کے معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ نہیں کریں گے۔ (صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 2063)
9۔خدا کے عہد کو پورا کرنا(اوراللہ کے عہدکوپوراکرو)
وضاحت: یہاں ’خدا کے عہد ‘ کو پورا کرنے کا حکم ہے۔اس سے مراد خدا سے کیا گیا عہد بھی ہے اور خدا کا نام لے کر انسانوں سے کیا گیا عہد بھی۔ عہد کا پورا کرنا ایک لازمی اخلاقی تقاضہ ہے۔جس معاشرے میں افراد اپنے عہد وپیمان کو پورا کرنے کے لیے تیار نہ ہوں اور صرف مادی مفاد کے پیچھے چلیں ، وہ معاشرہ کبھی دنیا میں باقی نہیں رہ سکتا۔
حدیث:عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ایک جماعت کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ گے اور نہ چوری کرو گے اور نہ اپنی اولاد کو قتل کرو گے اور اپنے آگے پیچھے کوئی بہتان نہ اٹھاؤ گے۔ اور حکم شرع میں نافرمانی نہ کرو گے تم میں سے جس شخص نے اپنا وعدہ پورا کیا تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے اور جو شخص ان میں سے کسی چیز کا مرتکب ہوا دنیا میں اس کو اس کی سزا دے دی گئی تو وہ اس کے لیے کفارہ اور پاکی کا ذریعہ ہے اور جس شخص کی ستر پوشی اللہ نے کی تو وہ اللہ کے اختیار میں ہے اگر چاہے تو اسے عذاب دے اور اگر چاہے تو اس کو بخش دے۔ ( صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1706 )
10۔ صراط مستقیم کا اتباع(یہی میراسیدھاراستہ ہے لہٰذاتم اسی پرچلواوردوسرے راستوں پر نہ چلوکہ وہ اس کے راستے سے ہٹاکرتمہیں پراگندہ کردیں گے۔)
وضاحت: آخری بات یہ ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے وہی صراط مستقیم ہے اور جو دوسروں کے مقرر کردہ راستے ہیں وہ سرتاسر گمراہی ہیں۔ یہی وہ بات ہے جس کی بنا پر ہم قرآن کے بیان کردہ مطلوب انسان کو آج کے اس شخص کے سامنے لانا چاہتے ہیں جو خدا کے راستے پر چلنا چاہتا ہے۔ہم ان تیئس مقامات پر جو کچھ پیش کررہے ہیں وہ خدا کا مطالبہ ہے۔خدا اسی پر چلانا چاہتا ہے۔یہی خدا کی نظر میں اہم ترین چیز ہے۔ اس سے زیادہ اہم کچھ اور نہیں۔ باقی چیزیں اگر دین نے کسی حکم کے تحت بیان بھی کی ہیں تو وہ اسی راستے کی تفصیلات ہیں۔ وہ اس اصل دین ، اس اصل راستے کی جگہ کبھی نہیں لے سکتیں اور نہ اس سے زیادہ اہم ہوسکتی ہیں۔یہی وہ ’صراط مستقیم ‘ ہے، جس پر چلنے کی دعا ہر نماز میں سورہ فاتحہ میں کی جاتی ہے۔
حدیث: ۱۔حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے ایک لکیر کھینچی اور فرمایا: یہ اللہ کا راستہ ہے، پھر اس لکیر سے دائیں بائیں مختلف لکیریں کھینچیں اور فرمایا: یہ مختلف راستے ہیں۔ ان میں سے ہر راستہ پر ایک شیطان بیٹھا ہے اور لوگوں کو اس راستہ کی طرف بلا رہا ہے۔ (رواہ احمد ونسائی والدرامی)
____________