HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Rehan Ahmed Yusufi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

کچھ اہم سوالات کے جواب

قرآن کے مطلوب انسان کے ضمن میں ہم نے جو کچھ قرآنی آیات کے حوالے سے لکھا ہے، وہ انتہائی واضح ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ یہ کسی اور کے الفاظ نہیں، بلکہ پروردگارِ عالم کا وہ کلام ہے جس کے متعلق اس نے خود فرمایا ہے :

’یہ قرآن وہ راستہ دکھاتا ہے جو سب سے سیدھا ہے۔‘(بنی اسرائیل 17: 9)

اور اس کے اسلوب اور بیان کے متعلق وہ کہتا ہے:

’تمام حمد اس رب کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پر یہ کتاب نازل کی اور اس میں کوئی ٹیڑھ نہیں رکھی۔‘ ،(الکہف 18: 1)

یعنی قرآن کی ہدایت بھی بالکل واضح ہے اور جس طرح اس ہدایت کی طرف بلایا گیا ہے وہ بھی بالکل صاف اور واضح ہے۔اس لیے قران مجید کے الفاظ میں اللہ تعالیٰ کے مطلوب انسان کو بیان کرنے کے بعد کچھ کہنے کی ضرورت تو نہیں ہے، لیکن ذہن میں کچھ معقول سوالات پھر بھی پیدا ہوتے ہیں۔ اس مضمون میں ہم انہی سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کریں گے۔یہ سوالات عنوانات کے تحت درج ذیل ہیں۔

یہ بہت عام چیزیں ہیں

پہلا سوال یہ کیا جاسکتا ہے کہ جو کچھ قرآن کے حوالے سے ہم نے پیچھے بیان کیا ہے، وہ بظاہر عام سی باتیں لگتی ہیں۔ان میں کچھ بھی خاص نہیں۔ان میں کوئی تحقیقی دھماکہ ، کوئی علمی انکشاف، کوئی فکری دریافت نہیں ہے۔اس بات کا جواب یہ ہے کہ ہم نے کہیں یہ دعویٰ کیابھی نہیں ۔ ہمارا کہنا تو یہ ہے کہ قرآن انسانوں کو پہلے سے معلوم ایک ہدایت کی یاددہانی کراتا ہے ، کوئی نئی بات ہر گز نہیں کرتا۔قرآن پاک جس راستے کی طرف بلاتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے ہر نفس میں اس کا شعورپیدائشی طور پر رکھاہوا ہے (الدہر3:76)۔قرآن میں اللہ تعالیٰ اسی راستے کو صراط مستقیم قرار دیتے ہیں (الانعام6: 153)۔ شیطان نے اسی راستے سے بھٹکانے کا چیلنج ابتدائے آفرینش میں دیا تھا۔ اس نے جب جب وار کیااسی راستے سے بھٹکانے کے لیے کیا(اعراف16:7)۔اللہ تعالیٰ نے بھی اگر اپنے نبیوں اوررسولوں کوبھیجا تو اسی راستے کی ہدایت دینے کے لیے بھیجا ، (الانعام87:6)۔کتابیں اگر نازل ہوئیں تو اسی راستے کے نقشے کے طور پر ، شریعت اگر دی گئی ہے تو اسی راستے کی حد بندی کرنے اور اسی کی تفصیلات بیان کرنے کے لیے (الانعام154:6)۔

اس لیے اطمینان رکھیے کہ ان باتوں کا عام ہونا ان کا عیب نہیں، ان کی خوبی ہے۔خاص بات وہ عنوانات ہیں جو قرآنی آیات ہی سے اخذ کرکے ہر جگہ سرِ عنوان کے طور پر باندھے گئے ہیں۔ ذرا اس کتاب کی فہرست پر ایک نظرڈال کر ان عنوانات کو ملاحظہ فرمائیے اور دیکھیے کہ جن اسالیب سے لوگ ان باتوں کی اہمیت کے قائل ہوسکتے تھے ، اللہ تعالیٰ نے ہر اس اسلوب میں لوگوں کو قائل کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ ان عنوانات سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں انہی اعمال اور اسی صراط مستقیم پر دیکھنا چاہتے ہیں ،کسی اور پرہر گز نہیں۔ یہی اہم ہے،اس سے زیادہ اہم اورکچھ نہیں۔ اسی میں نجات ہے ،کسی اور شے میں نہیں۔

یہاں یہ بات بھی سمجھ لیجیے کہ یہ راستہ عام تو ہے ، مگر آسان نہیں ہے۔اس راستے پر ذرا چل کر دیکھ لیجیے۔ آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ انگاروں پر چلنا کسے کہتے ہیں، طوفانوں سے ٹکرانا کسے کہتے ہیں اور دریا کے بہاؤ کے خلاف تیرنے کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ مگر ایک بندہ مومن جب اس راہ پر پوری استقامت سے چلتا ہے تو اس کا بدلہ فردوس کی ابدی کامیابی کے سواکچھ نہیں۔

تمام لوگ یہی باتیں کرتے ہیں

ایک سوال یہ کیا جاسکتا ہے کہ جو کچھ قرآن کے حوالے سے بیان کیاگیا ہے، کوئی شخص یا گروہ اس کا انکار نہیں کرتا۔سب ہی اسے مانتے ہیں۔ یہ بات ٹھیک ہے ۔ ہمیں اس کا ہرگز انکار نہیں۔ مگر اس حوالے سے پہلی بات یہ ہے کہ یہ کوئی خامی نہیں خوبی ہے۔ فکری انتشار کے اس دور میں اگر کوئی ایسی بات سامنے آئے جس پر تمام لوگوں کا اتفاق ہو اور جسے سب لوگ درست سمجھتے ہوں اس سے زیادہ ذہنی سکون کی بات کیا ہوسکتی ہے۔

دوسری عرض یہ ہے کہ جس اہمیت اور زورکے ساتھ اللہ تعالیٰ ان چیزوں کو پیش کرتے ہیں، ہمارے ہاں ان کو وہ مقام حاصل ہی نہیں ۔ہمارے ہاں بدقسمتی سے کچھ اورچیزیں زیادہ اہم ہوچکی ہیں۔جبکہ اللہ تعالیٰ انہی چیزوں کو اپنا بنیادی مطالبہ قرار دیتے اور انہی پر نجا ت کو منحصرکرتے ہیں۔اس لیے یہ ضروری ہے کہ جو بات اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اہم ترین ہے ، اسے اسی حیثیت میں سامنے لایا جائے ۔

تیسری بات یہ ہے کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے بالکل واضح کردیا ہے کہ اس نے کسی فرد کے سینے میں دو دل نہیں بنائے۔(الاحزاب4:33)۔ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ انسان ایک وقت میں صرف ایک چیز کے بارے میں یکسو ہوسکتا ہے۔ مثال کے طور اس بات کو یوں سمجھیں کہ عیسائی نظری طور پر اللہ تعالیٰ کی توحید کے قائل ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کے ہاں بنیادی ہستی ہیں۔مگر انہوں نے بہت سی تاویلات کرکے حضرت عیسیٰ کو معاذ اللہ ، اللہ کا بیٹا بنادیا ہے۔ اس وجہ سے عملاََ ان کا پورا مذہب حضرت عیسیٰ کی شخصیت کے اردگرد گھومتا ہے۔ انہی کی محبت، انہی کی خدائی ، انہی سے مدد، انہی کا ذکر،عملاََ اب مسیحیت بن چکا ہے۔

چنانچہ یہ ممکن نہیں کہ انسان دین کی بنیادی دعوت اور کرنے کا اصل کام کسی اور شے کو سمجھتا ہو اور پھر وہ ان مطالبات کے ضمن میں حساس ہوجائے جو قرآن بیان کرتا ہے۔چنانچہ معاشرے میں یہ عام مشاہدہ ہے کہ ہمارے جیسے دیندار لوگ بعض دینی معاملات میں تو بہت حساس ہوتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کے جن مطالبات کو اس کتاب میں قرآن مجید کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے ان کی خلاف ورزی میں ہمارے صبح و شام گزرتے ہیں۔مثلاََ وعدے کی خلاف ورزی، بدگمانی، غیبت وغیرہ جس طرح عام لوگوں کا معمول ہے، ہمارے جیسے دیندار لوگ بھی معمول کے طور پر ان میں ملوث ہوتے ہیں۔

بہت سے احکام شریعت شامل نہیں

ایک بات یہ کہی جاسکتی ہے کہ دین میں جو دوسرے احکام ہیں، کیا وہ غیر اہم ہیں ۔کیونکہ جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے اس میں شریعت کے بہت سے قوانین اوربعض عبادات موجود نہیں ہیں۔

یہ تاثر دو وجوہات کی بنا پر درست نہیں ہے۔پہلی یہ کہ مدنی سورتوں میں بعض جگہ ’اللہ کی حدود کی پابندی ‘ اور ’اللہ اور رسول کی اطاعت ‘ کے نام سے کچھ اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔ان اوصاف کے تحت جب کبھی ایک مومن کے سامنے دین و شریعت کا کوئی حکم آتا ہے وہ اس پر عمل کرتا ہے۔ مثلاََ ایک انسان اگر سچا مومن ہے تو وہ وراثت کی تقسیم کے موقع پر اللہ کے قانون کی پابندی ضرور کرے گا۔مگر وراثت کو حدود الٰہی کے مطابق تقسیم کرنے کو کردار کے ایک مستقل وصف کے طور پر بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ کم و بیش تمام احکام شریعت کا معاملہ ہے۔ اس لیے قرآن مجید میں یہ ضروری نہیں سمجھا گیا کہ ایسے اہم مقامات پر تمام احکام شریعت کو بیان کردیا جاتا بلکہ ایک عام وصف بیان کردیا گیا کہ یہ اہل ایمان اللہ اور اس کے رسول علیہ السلام کے ہر حکم پر عمل کرتے ہیں۔اس کے ذیل میں تمام احکام شریعت آجاتے ہیں۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ تمام احکام شریعت درحقیقت قرآن میں بیان کردہ کردار اورصفات کی حدبندی کرتے اور انہی کی تفصیل ہوتے ہیں۔ جیسے عفت و پاکدامنی اس کردار کا ایک وصف ہے اور مردو زن کو جو آداب اس ضمن میں شریعت اسلامی سکھاتی ہے اور جنھیں ہمارے ہا ں پردے کے احکام کہا جاتا ہے ،وہ اسی صفت کی حفاظت کے لیے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جو شخص اصل مقصد کے بارے میں حساس ہے، وہ اس کے حدود کے بارے میں بھی محتاط رہے گا۔ اس لیے اس کردار میں اس طرح کے احکام بھی بیان نہیں ہوئے ۔

اسی طرح دین متعدد عبادات دیتا ہے۔ نماز، روزہ اور زکوۃ جیسی بعض بنیادی عبادات اس کردار میں شامل ہیں۔ تاہم کچھ اہم عبادات مثلاً حج اس میں شامل نہیں۔مگریہ بات بالکل واضح ہے کہ حج ہر شخص پر فرض نہیں ہوتا اور جس پر ہوتا ہے زندگی میں ایک دفعہ ہوتا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہے کہ حج کرنا کردار کا مستقل حصہ نہیں ہے۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے شب و روز میں نماز، روزہ اور انفاق کی جھلک تو بار بار نظر آتی ہے ، مگرحج کی نہیں۔ یہی سبب ہے کہ نماز، زکوٰۃ اور روزے کے برعکس حج کی ادائیگی کو اس کردارکی ایک مستقل صفت کے طور پربیان نہیں کیا گیا۔تاہم ایک جگہ (عنوان نمبر 20’جنت کے خریداروں کی صفات‘ میں) عبادت گزاری کو اس کردارکی مستقل صفت قرار دے کر یہ بتادیا گیا کہ جب جب کسی عبادت کی ادائیگی کا موقع آتاہے ، یہ بندہ اس سے پیچھے نہیں ہٹتا۔

یہی مطالبات اعمال صالح ہیں

یہ مطالبات اس بات کا ایک انتہائی خوبصورت اور جامع بیان ہیں کہ اعمال صالح دراصل کیا ہوتے ہیں ۔ دین نے ایمان کے بعد جو سب سے بڑا اور بنیادی مطالبہ کیا ہے وہ عمل صالح کا ہے۔ یہ مطالبہ مدنی دور ہی میں نہیں کیا گیا بلکہ مکی دور میں اس وقت بھی کیا گیا جب ابھی شرعی قوانین پوری طرح نازل بھی نہیں ہوئے تھے۔گرچہ ہم اوپر یہ واضح کرچکے ہیں کہ شرعی قوانین کی تعمیل بھی دراصل اسی کردار کے ایک وصف یعنی ’اللہ کی حدود کی پابندی ‘ اور ’اللہ اور رسول کی اطاعت ‘ کا لازمی نتیجہ ہے۔

اس تفصیل کا مقصد اس کنفیوژن کو دور کرنا ہے جو ہمارے ہاں عمل صالح اور ایک صالح آدمی کی تعریف اور تعین کے ضمن میں پیش آتا ہے۔ صالح آدمی یا عورت وہی ہے جو ان اعمال صالحہ کو اختیار کرتا ہے جن کا ذکر ان آیات قرآنی میں کیا گیا ہے۔اس کے برعکس ظاہری اعمال کو جس طرح ہمارے ہاں کسی شخص کی نیکی و بدی کا معیار بنادیا گیا ہے، وہ قابل اصلاح رویہ ہے۔کوئی فرد اگر اپنی ذات میں ان کو اختیار کرناچاہے تو اس کی مرضی لیکن یہ آیات اس بات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں کہ اس طرح کی چیزوں کو کسی کے نیک و بد ہونے کا اصل معیار بنادیا جائے۔ نیکی و بدی کا اصل معیار اور تقوی و فجور کا اصل پیمانہ وہی احکام ہیں جو قرآن کے مطلوب انسان کے ضمن میں اللہ تعالیٰ نے بیان کیے ہیں۔

جمال و کمال اور فرائض و واجبات کا مجموعہ

ان اعمال صالحہ اور اس قرآنی کردار سے متعلق اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اس میں کیے جانے والے مطالبات دو قسم کے ہیں۔ان میں سے کچھ فرائض و واجبات ہیں۔جیسے فرض عبادات ، ایفائے عہد، ٹھیک ناپ تول کرنااور غیبت، تجسس ، بدگمانی وغیرہ سے باز رہنا۔یہ اور ان جیسے مطالبات وہ کم سے کم اعمال ہیں ،جو بندے سے مطلوب ہیں۔انہی کے ذریعے سے انسان جہنم سے بچ کر جنت میں داخل ہوسکے گا۔ تاہم خدا کی قربت اور جنت کے بلند درجات کی کوئی حد نہیں ہے۔ اس کے لیے بھی انسان کوشش کرتے ہیں اور اکثر اوقات غلط راستہ اختیار کرلیتے ہیں۔ چنانچہ اس ضمن میں بھی مکمل رہنمائی کرکے یہ بتایا گیا ہے کہ بلند درجات کے حصول کا ذریعہ کیا ہے۔ چنانچہ فرض کے علاوہ نفل عبادات و ذکر، تہجد، تنگی میں انفاق ،برائی کا بدلہ بھلائی سے دینا، خشوع والی زندگی ،دین کی مدد کے لیے جان، مال اور وقت کی قربانی وغیرہ وہ صفات ہیں ، جو جنت کے بلند ترین مقام کے حصول کا ذریعہ ہیں۔

اس تحریر میں یہ ممکن نہیں ہے کہ ہر مقام پر کیے جانے والے مطالبات کی نوعیت واضح کی جائے، لیکن یہ بات دین کے کسی بھی اچھے عالم سے سمجھی جاسکتی ہے۔ اس میں کوئی مشکل نہیں۔ تاہم سادہ اصول یہ ہے کہ جو چیزیں دین میں جمال و کمال کی حیثیت رکھتی ہیں، ان کے ترک پر کوئی وعید یا گناہ نہیں ہوتا، ہاں ان کی ادائیگی کی بڑی فضیلت ہے۔ جیسے تہجد نہ پڑھنا کوئی گناہ نہیں ، پڑھنے پر بڑا اجر ہے۔

صرف تیئس مقامات کیوں لیے ہیں

ایک سوال یہ ہوسکتاہے کہ ہم نے قرآن مجید کے تئیس مقامات ہی کیوں چنے ہیں، کم یا زیادہ کیوں نہیں۔اس کا سبب تیئس کے عدد کی کوئی خوبی نہیں ہے۔اصل بات یہ ہے کہ انہی مقامات پر قرآن تفصیل سے اس کردار کا منفی یا مثبت انداز میں نقشہ کھینچتا ہے۔ بعض دیگر جگہوں پر بھی کچھ صفات بیان ہوئی ہیں، مگر غور کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ وہ کسی نہ کسی طور انہی مقامات میں بیان کردہ خصوصیات میں شامل ہیں یا ان کی شرح و تفصیل ہیں۔تاہم اگر قرآن کا کوئی مقام رہ گیا ہوتو قارئین ہمیں مطلع کرسکتے ہیں۔

ہم نے جس اصول کے تحت ان مقامات کو متعین کیا ہے وہ درج ذیل ہیں:

۱) وہ مقام کسی ایک یا دو عمل صالح کے بجائے متعدد احکام کا مجموعہ ہونا چاہیے۔

۲) ہر مقام پر دوسری جگہ بیان کی گئی چیزوں کے ساتھ کم از کم ایک چیز بالکل نئی ہونی چاہیے۔

۳) ہر جگہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس مجموعہ احکام پر کوئی ایسا تبصر ہ ہونا چاہیے جو واضح کررہا ہو کہ یہی صفات اللہ تعالیٰ کو عین مطلوب ہیں۔

یہاں ہم یہ بھی واضح کردیں کہ ہم نے جو کچھ کیا ہے وہ بڑائی کے کسی زعم ،علمی برتری کے کسی احساس یا دوسروں کی تحقیر کے کسی جذبے سے نہیں کیا ۔ ہمارے لیے یہ کام ایک فخر نہیں، بلکہ ایک ذمہ داری ہے، جو ہم نے بساط بھر پوری کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس میں اگر کوئی بہتری ہوسکتی ہے تو یقینا، ہم ہر تجویز کو خوش آمدید کہیں گے۔

معاشرے کی بہتری میں اس کردار کی اہمیت

ایک سوال یہ کیا جاسکتا ہے کہ اس کردار سے کیا ہماری اجتماعی فلاح کا بھی کوئی راستہ نکلتا ہے۔ہمارے نزدیک اس سوال کا جواب اثبات میں ہے۔ہم پوری دیانت داری سے سمجھتے ہیں کہ آخرت کے ساتھ دنیا کی نجات بھی قرآن کے بیان کردہ اسی کردار میں ہے۔ ہم پوری ذمہ داری کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ اسی کردار سے دنیا میں بھی فلاح کے سارے دروازے کھلتے ہیں۔ ہمارے اس اعتماد کا سبب قرآن کے اپنے بیانات ہیں۔قرآن مجید کے نزدیک تو ہرمرد اورہر عورت ( النحل97:16) بلکہ پورے معاشرے کی اجتماعی فلاح( المائدہ66:5) اسی راستے میں ہے۔ہمارے لیے تو قرآن کا بیان ہی کافی ہے مگر تفصیل طلب اذہان کے لیے ہم اس بات کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں۔

انسان عام طور پراپنی زندگی تین دائروں میں گزارتا ہے۔اس کے تعلقات اور معاملات عموماََ انہی تین دائروں میں وجود میں آتے ہیں۔تعلقات کے یہ تین دائرے درج ذیل ہیں۔

1)انسان کا اپنے رب سے تعلق Man to God Relation

(2انسان کا انسانوں سے تعلق Man to Men Relation

3)انسان کا صنف مخالف سے تعلق Man to Woman Relation

انسان کا روحانی وجود، اس کاسماجی وجود اور اس کا نفسیاتی وجودبالترتیب انہی تین دائروں کی نمائندگی کرتاہے۔انسانی تاریخ اور نفسیات کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ انسان جب کبھی خرابی پیدا کرتا ہے تو انہی تین دائروں میں کرتا ہے ۔وہ اپنے جذبات، مفادات، خواہشات ، تعصبات اور نظریات کا اسیر ہوکر انہی تین جگہوں پر بگاڑ پیدا کردیتا ہے۔وہ اپنے روحانی وجودکو کبھی رہبانیت کی نذر کرتا ہے اور کبھی مادیت کا اسیر بنادیتا ہے۔ وہ اپنے نفسیاتی وجود کوکبھی شہوانیت کے گڑھے میں پھینک دیتا ہے اور کبھی حیوانیت کے جوہڑ میں دھکیل دیتا ہے۔ وہ اپنے اجتماعی وجود کو کبھی مفاد پرستی کی زنجیروں میں قید کردیتا ہے اورکبھی ظلم ، ناانصافی ،حرص ا ور فریب کی بیڑیوں میں جکڑ دیتا ہے۔

اللہ تعالیٰ انسان کے خالق ہیں اور اس کی فطرت سے سب سے بڑھ کر واقف ہیں۔انہوں نے جس صراط مستقیم کی طرف اپنے بندوں کو بلایا ہے، اس کی خوبی یہی ہے کہ وہ ان تمام دائروں میں انسان کو انحراف کرنے سے روکتی ہے۔ ’قرآن کے مطلوب انسان‘کے ضمن میں جو مطالبات اس رسالے میں بیان ہوئے ہیں، وہ انہی تین دائروں کے حوالے سے ہیں۔وہ انسان کو رب کے ساتھ، اپنے جیسے انسانوں کے ساتھ اور صنف مخالف کے ساتھ معاملہ کرنے کے ٹھیک اصول بتاتے ہیں۔ جیسے ہی انسان ان پر عمل کرنا شروع کرتا ہے، ان تینوں دائروں میں اس کے اردگرد ایک روشنی پھیلنا شروع ہوجاتی ہے۔ ان تین میں سے پہلے دائرے کا تعلق اللہ سے ہے، اس لیے یہاں سے اسے خدا کی رحمت نصیب ہوتی ہے۔ باقی دو کا تعلق انسانوں سے ہے۔ یہاں سے یہ روشنی اور رحمت دوسروں کو منتقل ہونا شروع ہوجاتی اور آہستہ آہستہ یہ روشنی سب جگہ پھیل جاتی ہے۔

ہم نے کوشش کی ہے کہ حق کے ابلاغ کی اُس ذمہ داری کوجو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہم پر عائد ہوتی ہے، بہتر سے بہتر طریقے پر ادا کریں۔اس میں جو کچھ بھی اچھی اور خیر کی بات ہے، وہ سر تا سر پروردگار عالم کی عطا اور اسی کی مہربانی ہے۔ اس عنایت پر رب کی بیحد حمد،ثنا اور تعریف ہے۔ جو غلطی ہوگئی یاکمی رہ گئی ہے، وہ ہمارے اپنے نفس کی کوتاہی ہے، جس پر ہم اپنے رب سے معافی کے طلبگار ہیں۔

سُبْحَانَ رَبِّکَ رَبِّ ا لْعِزِّۃِ عَمَّا یَصِفُوْنَ۔ وَسَلٰمٌ عَلَی الْمُرْسَلِیۡنَ۔ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیۡنَ۔

____________

 

B