HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Rehan Ahmed Yusufi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

ایمان اور ہجرت کے تقاضے

’’اے پیغمبر! جب مسلمان عورتیں آپ سے ان باتوں پر بیعت کرنے آئیں کہ وہ
اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی،
اور چوری نہ کریں گی،
اور زناکاری نہ کریں گی،
اور اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گی،
اور اپنے ہاتھ اور پاؤں کے درمیان کوئی بہتان نہ تراشیں گی،
اور کسی نیک کام میں تمھاری نافرمانی نہ کریں گی
تو آپ ان سے بیعت کر لیا کریں، اور ان کے لیے اللہ سے مغفرت طلب کریں بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور معاف کرنے والا ہے۔‘‘،(سورہ ممتحنہ 60۔ آیت 12)


عنوان و مطالبات

یہ سورہ ممتحنہ کی آیات ہیں جس کا مرکزی خیال لوگوں پر ایمان کے تقاضے واضح کرنا ہے۔ یہ سورت اصلاً ان لوگوں کے لیے نازل ہوئی جو ہجرت کرکے مدینہ تو آرہے تھے، مگر اس ہجرت اور ایمان کو ایک گروہ سے دوسرے گروہ میں شامل ہونے کا معاملہ سمجھتے تھے۔ اسی طرح ہجرت کرکے آنے والے بہت سے لوگوں کے کچھ دنیوی مفادات ہوتے تھے جو ایمان سے زیادہ اہم تھے۔جبکہ ایمان درحقیقت کچھ تقاضوں کی تکمیل کا نام ہے جن کے بغیر کوئی گروہی وابستگی اللہ کے نزدیک معتبر نہیں ہوسکتی نہ ہجرت جیسا اعلیٰ عمل ہی نجات دلانے کا سبب بن سکتا ہے۔چنانچہ اس آیت میں ہجرت کرکے مدینہ آنے والی خواتین پر یہ واضح کیا گیا ہے کہ وہ کیا تقاضے ہیں جو ایمان لاکر انہیں پورا کرنے ہوں گے۔وہ کیا چیزیں ہیں جن سے بچنے کا انہیں عہد کرنا ہوگا اور اس کے بعد ہی اسلام میں ان کا داخلہ معتبر ہوگا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاو استغفار کی حقدار بنیں گی۔

1۔شرک ( اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی)

وضاحت:قرآن مجید کی دعوت کی بنیاد لوگوں کو اس حقیقت سے آگاہ کرنا ہے اللہ تعالی کا کوئی شریک نہیں۔آج ہم لوگ اس اعتبار سے بہت خوش نصیب ہیں کہ مسلمانوں کے گھرو ں میں پیدا ہوتے ہیں اور پتھروں اور مورتیوں کو نہیں پوجتے۔ مگر بعض ایسے توہمات اور تصورات کا کثرت سے شکا ر ہیں جن میں شرک کا شائبہ پایا جاتا ہے۔خاص کر خواتین تو فکری پہلو کے بجائے توہمات کے ذریعے سے شرک میں مبتلا ہوتی ہیں۔ انہیں ان توہمات سے بچنے کا بہت زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔ ہمارے ہاں بہت سے توہمات رائج ہیں۔ عرب میں بھی ایسے ہی توہمات کا بہت رواج تھاجن کا ذکر متعدد احادیث میں آتا ہے۔

حدیث : زید بن خالد جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ میں بارش کے بعد جو شب میں ہوئی تھی، صبح کی نماز پڑھائی، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (نماز سے) فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف اپنا منہ کرکے فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ تمہارے پروردگار عز وجل نے کیا فرمایا؟ وہ بولے اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ جانتا ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ میرے بندوں میں کچھ لوگ مومن بنے اور کچھ کافر، تو جنہوں نے کہا کہ ہم پر اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے بارش ہوئی، تو ایسے لوگ مومن بنے اورستاروں (وغیرہ) کے منکر ہوئے لیکن جنہوں نے کہا کہ ہم پر فلاں ستارے کے سبب سے بارش ہوئی وہ میرے منکربنے اورستارے پر ایمان رکھا۔( صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 816)

حضرت ابومالک اشعریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا چار باتیں میری امت میں زمانہ جاہلیت کی ایسی ہیں کہ وہ ان کو نہ چھوڑیں گے۔ اپنے حسب پر فخر اور دوسروں کے نسب پر طعن کرنا ، ستاروں سے پانی کا طلب کرنا، اور نوحہ کر نا۔فرمایا نوحہ کرنے والی اگر اپنی موت سے پہلے توبہ نہ کرے تو قیامت کے دن اس حال میں اٹھے گی کہ اس پر گندھک کا کرتا اور زنگ کی چادر ہو گی۔( صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 2153)

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اعمال کا دارومدار صرف نیت پر ہے اور آدمی کو وہی کچھ ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہوگی۔ (مثلاً) جس نے اللہ اور رسول کے لیے ہجرت کی ہوگی، واقعی اس کی ہجرت اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہوگی۔ اور جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے ہوگی تو اس کی ہجرت دنیا کے لیے یا عورت کے لیے ہی شمار ہوگی۔ (متفق علیہ)

2۔چوری ( چوری نہ کریں گی)

وضاحت:قرآن مجید اکثر رب کے بعد بندوں کے حقوق کا ذکر کرتا ہے۔ یہاں بندوں کا حق مالی لحاظ سے بیان کیا گیا ہے کہ چوری نہ کی جائے۔چوری اتنا بڑا جرم ہے کہ اس پر قطع ید یا ہاتھ کاٹنے کی سزا مقرر کی گئی ہے۔اتنی سخت سزا کی وجہ یہ ہے کہ بظاہر ایک چھوٹی چیز سمجھی جانے والی یہ چیز جب عام ہوجاتی ہے تو بحیثیت مجموعی پورا معاشرہ عدم تحفظ کا شکار ہوجاتا ہے۔لوگ اپنے گھروں میں بھی غیر محفوظ ہوجاتے ہیں۔ پھر یہی چوری آگے بڑھ کر قتل اور زنا بالجبر کے دروازے بھی کھول دیتی ہے۔ چنانچہ پہلے ہی مرحلے پر اسے ایک بہت بڑی اخلاقی برائی کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور چوری چکاری سے روکا گیا ہے۔تاکہ خواتین چھوٹی موٹی قسم کی چوری سے بھی بچیں جو وہ اپنے یا پاس پڑوس کے گھروں میں کرلیا کرتی ہیں۔

حدیث:عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو جنگ بدر میں شریک تھے اور شب عقبہ میں ایک نقیب تھے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت فرمایا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گرد صحابہ کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی، کہ تم لوگ مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور چوری نہ کرنا اور زنا نہ کرنا اور اپنی اولاد کو قتل نہ کرنا اور نہ ایسا بہتان (کسی پر) باندھنا جس کو تم (دیدہ و دانستہ) بناؤ اور کسی اچھی بات میں اللہ اور رسول کی نافرمانی نہ کرنا پس جو کوئی تم میں سے (اس عہد کو) پورا کرے گا، تو اس کا ثواب اللہ کے ذمہ ہے اور جو کوئی ان (بری باتوں) میں سے کسی میں مبتلا ہوجائے گا اور دنیا میں اس کی سزا اسے مل جائے گی تو یہ سزا اس کا کفارہ ہوجائے گی اور جو ان (بری) باتوں میں سے کسی میں مبتلا ہوجائے گا اور اللہ اس کو دنیا میں پوشیدہ رکھے گا تو وہ اللہ کے حوالے ہے، اگر چاہے تو اس سے درگذر کردے اور چاہے تو اسے عذاب دے ۔عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ سب لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس شرط پر (بیعت کرلی)۔( صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 17)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زانی جب زنا کرتا ہے تو ایمان دار ہونے کی حالت میں زنانہیں کرتا، اور چور جب چوری کرتا ہے تو ایمان دار ہونے کی حالت میں چوری نہیں کرتا، اور شراب پینے والا جب شراب پیتا ہے تو ایمان دار ہونے کی حالت میں شراب نہیں پیتا۔ (بخاری، مسلم)

3۔ زنا (زناکاری نہ کریں گی )

وضاحت:زنا ایک بہت بڑا جرم ہے۔یہ ایک دو طرفہ گناہ ہے جس میں مرد کے ساتھ خواتین بھی شریک ہوتی ہیں۔ چنانچہ یہ ضروری سمجھا گیا کہ خواتین کو خاص طور پر توجہ دلائی جائے کہ ان کی فطری حیا کا یہ تقاضہ ہے کہ وہ بدرجہ اولیٰ اس بہت بڑی برائی سے دور رہیں۔ قرآن مجید میں کئی جگہ خاص کر سورہ نور میں مردوں کے ساتھ خواتین کو خاص طور پر یہ توجہ دلائی گئی ہے کہ وہ زنا سے بچنے کے لیے اپنی نسوانیت اور زیبائش کو چھپاکر رکھیں۔کیونکہ ان کی نمائش زنا کا پیش خیمہ بن جاتی ہے۔

حدیث: ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جو عورتیں کپڑا پہنے ہوئے ہیں لیکن ننگی ہیں خود بھی سیدھی راہ سے ہٹی ہوئی ہیں اور خاوند کو بھی ہٹا دیتی ہیں جنت میں نہ جائیں گی بلکہ جنت کی خوشبو تک نہ سونگھیں گی حالانکہ جنت کی خوشبو پانچ سو برس کی راہ سے آتی ہے ،(مسلم)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دوزخیوں کی دو قسمیں ایسی ہیں کہ انہیں میں نے نہیں دیکھا۔ ایک قسم تو اس قوم کے لوگوں کی ہے کہ جن کے پاس گائیوں کی دموں کی طرح کوڑے ہوں گے اور وہ لوگوں کو ان کوڑوں سے ماریں گے اور دوسری قسم ان عورتوں کی ہے کہ جو لباس پہننے کے بادجود ننگی ہوں گی دوسرے لوگوں کو اپنی طرف مائل کریں گی اور خود بھی مائل ہوں گی۔ ان کے سر بختی اونٹوں کی کوہان کی طرح ایک طرف کو جھکے ہوئے ہوں گے اور یہ عورتیں جنت میں داخل نہیں ہوں گی اور نہ ہی جنت کی خوشبو پائیں گی حالانکہ جنت کی خوشبو اتنی اتنی مسافت سے آتی ہو گی۔

4۔قتل اولاد ( اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گی)

وضاحت:عربوں میں کئی وجوہات کی بنا پر بچوں کا قتل کردیا جاتا تھا۔مثلاً مفلسی کے خوف سے یا پھر بچیوں کے پیدا ہونے کو باعث عار خیال کر کے انہیں زندہ درگور کردیا جاتا تھا۔قرآن کے اس مقام سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس ظلم میں مردوں کے ساتھ خواتین بھی پوری طرح شریک ہوتی تھیں۔ ایسا مفلسی کے خوف یا توہمات کے تحت ہوتا تھا۔تاہم انسانی جان کی حرمت اتنی بڑی ہے کہ اس کا ارتکاب بدترین جرم ہے۔ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل اور ایک مسلمان کا قتل وہ جرم ہے جس کی سزاہمیشہ کی جہنم ،اللہ کا غضب ،اس کی لعنت اور عذاب عظیم ہے،(نسا93:4)۔ ضمنی طور پر یہ قتل اولاد اس سختی قلب کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے جو بعض لوگوں کے دلوں میں اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ بچوں پر شفقت کرنے کے بجائے انہیں قتل کرنے لگتے ہیں۔

حدیث: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ بغض تین آدمیوں سے ہے۔ ایک وہ شخص جو حرم میں بے دینی کا ارتکاب کرے، دوسرے وہ جو اسلام میں جاہلیت کے طریقے کو جاری کرنا چاہے، اور تیسرے وہ شخص جو ناحق کسی انسان کا خون بہانے کے لیے اس کے خون کا طلب گار ہو۔ (بخاری، حدیث 6882)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر کسی نے مومن کے قتل میں آدھی بات کہہ کر بھی اعانت کی تو اللہ کے سامنے جب وہ جائے گا تو اس کی دوآنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا، اللہ کی رحمت سے ناامید۔ (ابن ماجہ)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جن مشکل کاموں میں اپنے آپ کو پھنسا کر آدمی کے لیے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا، ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ کسی کا حرمت والا خون ایسے طریقے پر بہائے جو اس کے لیے حلال نہ ہو۔ (بخاری۔ حدیث6863)

حضرت عبادہ بن صابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو شخص کسی مسلمان کو قتل کر کے خوش ہو، اللہ تعالیٰ نہ اس کی توبہ قبول کریں گے اور نہ کوئی فدیہ۔ (سنن ابی داؤد، حدیث4280)

5۔تہمت ( اور اپنے ہاتھ اور پاؤں کے درمیان کوئی بہتان نہ تراشیں گی)

وضاحت:جس طرح زنا بڑا جرم ہے اسی طرح اس کا جھوٹا الزام لگانا ایک بدترین جرم ہے جس کی سزا اسی کوڑے ہے۔اس آیت میں اپنے ہاتھ پاؤں کے بیچ کوئی بہتان نہ تراشنے سے یہی مراد ہے۔’’ہاتھ پاؤں کے درمیان ‘‘ کا کنایہ جنسی اعضا کو بیان کرنے کا ایک شائستہ طریقہ ہے کہ یہ اعضا ہاتھ اور پاؤں کے بیچ میں ہوتے ہیں۔نیز اس اسلوب کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ زنا کے ساتھ اس سے ہلکے نوعیت کے جنسی معاملات مثلاً تقبیل ور ملامست وغیرہ کے حوالے سے تہمت لگانا بھی شامل ہوگئی۔

یہاں واضح رہے کہ بہتان تو کسی بھی قسم کا ہوبہت بڑا جرم ہے، مگر جنسی امور سے متعلق بہتان اس لیے سنگین ہوتا ہے کہ ایک تو اس مرد یا عورت کی اخلاقی حیثیت ختم کردیتا ہے جس پر یہ لگایا گیا ہے دوسرے یہ بہت تیزی سے پھیلتا ہے اور لوگ مزے لے کر آگے بیان کرتے ہیں۔

نیز رشتوں میں دراڑیں اور خاندانوں میں دشمنیاں پیدا کردینے کا سبب بن جاتا ہے۔

حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سات گناہوں سے جو تباہ کردینے والے ہیں بچتے رہو۔صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ وہ کون سے گناہ ہیں۔ فرمایا:اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، جادو کرنا، کسی کی جان ناحق لینا جسے اللہ نے حرام ٹھہرایا ہو،سود کھانا، یتیم کا مال کھانا،میدان جنگ سے بھاگ جانا،پاک دامن بھولی بھالی عورتوں پر تہمت لگانا۔(بخاری)

6۔رسول کی نافرمانی سے بچنا (اور کسی نیک کام میں تمھاری نافرمانی نہ کریں گی )

وضاحت:اس سے قبل جن برائیوں کا ذکر تھا وہ خالق اور مخلوق کے حوالے سے نمائندہ برائیاں تھیں۔ یعنی شرک ایمان کے ضمن کی سب سے بڑی برائی تھی جبکہ بندوں کے حقوق کے معاملے میں ان کے مال، جان اور آبرو کے لحاظ سے چوری، قتل اور زناو بہتان کا ذکر تھا۔ان نمایاں ترین منکرات کے بعد تمام معروف چیزوں کو ایک جملے میں اس طرح جمع کردیا گیا ہے کہ بھلائی کے کسی کام میں تمھاری نافرمانی نہیں کریں گے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی رسول معاذ اللہ برائی کا حکم دے سکتا ہے۔ دراصل اس سے مراد ذاتی معاملات کو الگ کرنا ہے جس میں انسان اپنی مرضی سے معاملہ کرنے میں آزاد ہے۔ مثلاً کپڑے کس رنگ کے پہننے اور شادی کس شکل وصورت کی خاتون سے کرنی ہے، یہ دین کا مسئلہ نہیں۔

باقی وہ ساری بھلائیاں جن کا تعلق ایمان و اخلاق سے ہے اور معاشرہ جنہیں بھلائی کی حیثیت سے جانتا ہے رسول انہی کی طرف بلانے آتے ہیں اور اس حیثیت میں ان کی اطاعت لازمی ہے۔رسول کا حکم اللہ کا حکم ہوتا ہے جس سے روگردانی کی کوئی گنجائش نہیں ہوسکتی۔

حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ (صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 2007)۔

____________

 

B