’’مومن توایک دوسرے کے بھائی ہیں لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کرادیا کرواوراللہ سے ڈرو،امیدہے کہ تم پررحم کیاجائے گا۔
اے لوگو! جوایمان لائے ہو،نہ مرد دوسرے مردوں کامذاق اڑائیں،ہوسکتاہے کہ وہ ان سے بہترہوں،اورنہ عورتیں دوسری عورتوں کامذاق اڑائیں،ہوسکتاہے کہ وہ ان سے بہترہوں۔
آپس میں ایک دوسرے پرطعن نہ کرو،
اورنہ ایک دوسرے کوبرے القاب سے یادکرو۔ ایمان لانے کے بعدفسق میں نام پیدا کرنابہت بری بات ہے۔جولوگ اس روش سے بازنہ آئیں وہ ظالم ہیں۔
اے لوگو! جوایمان لائے ہو،بہت گمان کرنے سے پرہیزکروکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔
تجسس نہ کرو۔
اورتم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔کیاتمہارے اندرکوئی ایساہے جواپنے مرے ہوئے بھائی کاگوشت کھاناپسندکرے گا؟دیکھو،تم خوداس سے گھن کھاتے ہو۔اللہ سے ڈرو،بیشک اللہ بڑاتوبہ قبول کرنے والااوررحیم ہے۔ ‘‘ (الحجرات 49: 10-12)
ان احکام کے آغاز پر یہ بتادیا گیاہے کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اس کے بعد ان کے باہمی حقوق کا بیان ہے۔یہ حقوق درج ذیل ہیں۔
1۔مسلمانوں کے درمیان صلح کرانا (مومن توایک دوسرے کے بھائی ہیں لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کرادیا کرو)
وضاحت:مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اس لیے ان کے درمیان جھگڑا نہیں ہونا چاہیے۔ تاہم کسی غلط فہمی یاکسی اور وجہ سے ان میں جھگڑے کی نوبت آجائے تو باقی مسلمانوں کو خاموش تماشائی یا مزے لینے والا نہیں بننا چاہیے بلکہ بیچ میں پڑ کر صلح صفائی کروانی چاہیے۔اس حکم سے دو باتیں مزید نکلتی ہیں۔ اول یہ کہ مسلمانوں کو اگر صلح صفائی کا حکم دیا گیا ہے تو یہ کبھی بھی پسند نہیں کیا جاسکتا کہ وہ خود فساد کی آگ بھڑکائیں۔ دوسرے یہ کہ اختلاف اگر قریبی رشتے دار اور خاندان وغیرہ میں ہو تو صلح کرانے کی ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
حدیث: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے عمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے کو تقویت پہنچاتا ہے۔ پھر آپ نے ایک ہاتھ کی انگلیو ں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں پیوست کرکے سمجھایا،(بخاری)
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اپنے بھائی کی مدد کرو، ظالم ہو یا مظلوم۔ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مظلوم کی مدد تو میں کر سکتا ہوں، لیکن اگر بھائی ظالم ہو تو اس کی مدد کس طرح کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس کو ظلم کرنے سے روک دو۔ (بخاری، مسلم)
2۔مذاق نہ اڑانا (اے لوگو! جوایمان لائے ہو، نہ مرد دوسرے مردوں کامذاق اڑائیں،ہوسکتاہے کہ وہ ان سے بہترہوں،اورنہ عورتیں دوسری عورتوں کامذاق اڑائیں،ہوسکتاہے کہ وہ ان سے بہترہوں)
وضاحت: کسی کا مذاق اڑانااگر دل لگی کے طور پر ہو تب بھی برا ہے اور اگر دوسروں کو کم تر سمجھ کر ہوتو زیادہ برا ہے۔ دل لگی میں دوسروں کی دل آزاری کا پہلو نکلتا ہے اور دوسروں کو کم تر سمجھنا تو تکبر ہے جو بدترین درجہ کا جرم ہے۔لوگوں پر ہنسنا، ان کی نقل اتارنا، ان کی کمزوریوں کو نمایا ں کرکے لوگوں کو ہنسانا سب اس میں شامل ہیں۔
حدیث: ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اپنے بھائی سے مناظرہ نہ کر ، اور نہ اس سے مذاق کر اور نہ ہی وعدہ کر کے اس کی خلاف ورزی کر۔ (ترمذی)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا تم لوگ ایک دوسرے پر حسد نہ کرو اور نہ ہی تناجش کرو (نیلامی پرمصنوعی بولی دیناتاکہ دوسرے زیادہ قیمت پر چیز خریدلیں ) اور نہ ہی ایک دوسرے سے بغض رکھو اور نہ ہی ایک دوسرے سے رو گردانی کرو اور تم میں سے کوئی کسی کی بیع پر بیع نہ کرے اور اللہ کے بندے بھائی بھائی ہو جاؤ ۔مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے ذلیل کرتا ہے اور نہ ہی اسے حقیر سمجھتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینہ مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا تقویٰ یہاں ہے کسی آدمی کے برا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر پورا پورا حرام ہے اس کا خون اور اس کا مال اور اس کی عزت و آبرو۔( صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2044)
حضرت لقمان بن شبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان والوں کو باہم ایک دوسرے پر رحم کھانے، محبت کرنے اور شفقت و مہربانی کرنے میں تم جسم انسانی کی طرح دیکھو گے کہ جب اس کے کسی عضو کو بھی تکلیف ہوتی ہے تو جسم کے باقی سارے اعضاء بھی بخار اور بے خوابی میں اس کے شریک حال ہو جاتے ہیں۔ (بخاری، مسلم)
3۔طعن وتشنیع سے پرہیز (آپس میں ایک دوسرے پرطعن نہ کرو)
وضاحت: کسی مسلمان پر طعن کرنا، چوٹ کرنا، پھبتی کسنا،طنز کرنا، فقرہ چست کرنا ،یہ سب ممنوع ہیں۔ یہ چیزیں مسلمانوں کا دل دکھانے اور باہمی تعلقات کی خرابی کا ذریعہ بنتی ہیں۔
حدیث: علی بن عبداللہ سفیان عبید اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ کسی کے نسب میں طعنہ زنی کرنا اور میت پر نوحہ کرنا زمانہ جاہلیت کی خصلت ہے( صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1036)
4۔برے القاب سے پکارنا (اورنہ ایک دوسرے کوبرے القاب سے یادکرو۔ ایمان لانے کے بعدفسق میں نام پیدا کرنا بہت بری بات ہے۔جولوگ اس روش سے بازنہ آئیں وہ ظالم ہیں)
وضاحت:دوسروں کے لیے برے القاب گھڑنا یا ان میں پائی جانے والی کسی کمزوری یا معذوری کو تضحیک کے لیے ان کے نام کا جزبنادینا بھی ایک بدترین اخلاقی رویہ ہے۔جیسے کسی کو اس کے گہرے رنگ کی بنا پر ’کالا‘ کہنا۔اسی طرح کسی کا ماضی اگر کسی گناہ سے آلودہ ہو تو اسے اس گناہ کی بنا پر عار نہ دلائی جائے، خاص کر جب اس نے توبہ کرلی ہو۔مزید یہ بھی توجہ طلب ہے کہ قرآن مجید نے یہاں رک کر یہ تبصرہ کیا ہے کہ او پر کی ساری حرکتیں فسق میں نام پیدا کرنا ہیں اور جو لوگ ان سے باز نہ آئیں، وہی ظالم ہیں۔
حدیث: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی مسلمان کو کسی ایسے گناہ پر عار دلائے جس سے اس نے توبہ کرلی ہے تو اللہ نے اپنے ذمہ لے لیا ہے کہ اس کواس گناہ میں مبتلا کرکے دنیا و آخرت میں رسوا کرے گا،(قرطبی)
5۔گمان سے پرہیز (اے لوگو!جوایمان لائے ہو،بہت گمان کرنے سے پرہیزکروکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں )
وضاحت: لوگوں کے متعلق ہمیشہ اچھا گمان رکھنا چاہیے۔ بلا وجہ بدگمانی کرنا، سنی سنائی بات پر بلا تحقیق یقین کرنا، ہر معاملے کی منفی تاویل کرنا، ہر عمل کی غلط توجیہ کرنا یہ سب ممنوع رویے ہیں۔ اس آیت میں بہت گمان کرنے سے روکا گیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے بارے میں گمان کے بجائے یقینی علم کی بنیاد پر رائے سازی کرنی چاہیے۔ یہ ممکن نہ ہو تو کوئی رائے قائم ہی نہ کی جائے۔منفی رائے کا تو کوئی سوال ہی نہیں ہے۔کسی کے بارے میں مثبت چیزیں علم میں ہوں تو اس سے متعلق اچھی رائے ہی رکھنی چاہیے۔
حدیث:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حسن ظن بہترین عبادت ہے۔ (مسند احمد، ابو داؤد)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم بد گمانی سے بچو اس لئے کہ بد گمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے اور نہ کسی کے عیوب کی جستجو کرو اور نہ ایک دوسرے پر حسد کرو اور نہ غیبت کرو اور نہ بغض رکھو اور اللہ کے بندے بھائی بن کر رہو۔ (صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1002)
6۔تجسس سے پرہیز
وضاحت:اس پر عنوان نمبر 5 ’اللہ تعالیٰ کی پسند و ناپسند کا فیصلہ‘ کے تحت گفتگو ہوچکی ہے۔ تاہم یہ بات واضح رہے کہ ٹوہ لینے کا یہ کام اس وقت ممنوع ہے جب مزے لینا اور دوسروں کو رسوا کرنامقصد ہو۔کسی بھائی کی مدد کے لیے اس کے حال سے باخبر رہنا کوئی ممنوع شے نہیں بلکہ پسندیدہ ہے۔تاہم عملاً لوگ زیادہ تر دوسرے کے عیوب کی جستجو ہی میں ٹوہ لیتے ہیں۔
حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی کے عیوب کی جستجو کرو اور نہ ایک دوسرے پر حسد کرو اور نہ غیبت کرو اور نہ بغض رکھو اور اللہ کے بندے بھائی بن کر رہو۔ (صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1002)
7۔غیبت سے بچنا
وضاحت:کسی کے پیٹھ پیچھے اس کا ذکر اس طرح کیا جائے کہ وہ سنے تو اسے برا لگے، غیبت ہے۔یہ اس صورت میں ہے جب بات ٹھیک ہو۔ جب بات ہی غلط ہو تو یہ غیبت نہیں بہتان طرازی ہے جو زیادہ بڑا گناہ ہے۔ خیال رہے کہ کسی کے ظلم کا بیان غیبت نہیں ہوتا۔اسی طرح کسی ضرورت کی بنا پر مثلاً رشتے وغیرہ کی صورت میں پوچھے جانے پر متعلق شخص کا عیب بتانا بھی غیبت نہیں۔
حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے بھائی کے اس عیب کا ذکر کرے کہ جس کے ذکر کو وہ ناپسند کرتا ہو ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا خیال ہے کہ اگر واقعی وہ عیب میرے بھائی میں ہو جو میں کہوں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر وہ عیب اس میں ہے جو تم کہتے ہو تبھی تو وہ غیبت ہے اور اگر اس میں وہ عیب نہ ہو پھر تو تم نے اس پر بہتان لگایا ہے۔( صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2092)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ جب مجھے معراج ہوئی تو میرا گزر کچھ ایسے لوگوں پر ہوا جن کے ناخن سرخ تانبے کے سے تھے جن سے وہ اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ نوچ کے زخمی کررہے تھے۔ میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھاکہ یہ کو ن لوگ ہیں جو ایسے سخت عذاب میں مبتلا ہیں؟ جبرائیل ؑ علیہ السلام نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو زندگی میں لوگوں کے گوشت کھایا کرتے تھے (یعنی بندوں کی غیبت کیا کرتے تھے) اور ان کی آبروؤں سے کھیلتے تھے۔ (ابی داؤد)
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: غیبت کا ایک کفارہ یہ ہے کہ تو دعائے مغفرت کرے اس شخص کے لیے جس کی تو نے غیبت کی ہے، تو یوں کہے کہ: اے اللہ! تو میری اور اس کی مغفرت فرما۔ (مشکوٰۃ)
____________