’’بالیقین جومرداورجوعورتیں مسلم ہیں،
مومن ہیں،
فرمانبردار ہیں،
راست بازہیں،
صابرہیں،
اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں،
صدقہ دینے والے ہیں،
روزہ رکھنے والے ہیں،
اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں،
اوراللہ کوکثرت سے یادکرنے والے ہیں،اللہ نے ان کے لیے مغفرت اوربڑا اجر مہّیا کر رکھا ہے۔‘‘ (الاحزاب 33: 35)
اس مجموعہ آیات کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے ان صفات کے حاملین سے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے۔یہی عنوان ہم نے تجویز کردیا ہے۔یہاں ہر صفت میں عورتوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس کا سبب یہ نہیں کہ باقی جگہ عورتیں شامل نہیں ہوتیں۔ سورہ احزاب کی ان آیات سے بالکل قبل چونکہ خاص ازواج مطہرات مخاطب تھیں ، اس لیے اس آیت میں خواتین کا ذکر خاص طور پر کردیا گیا ہے۔اس حوالے سے یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس سورہ مبارکہ میں منافقین کی فتنہ انگیزیوں کا بہت ذکر ہے۔ اس پس منظر میں یہ صفات ایک منافق کے برعکس ایک خالص مسلمان کے کردار کا بیان ہیں۔یہ صفات درج ذیل ہیں۔
1۔اسلام (بالیقین جومرداورجوعورتیں مسلم ہیں)
وضاحت:اسلام کی اصل اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کردینا ہے۔جنت کے حصول کی بنیادی شرط یہ ہے کہ انسان کا اختیار خود پر سے ختم ہوجائے۔وہ زندگی کے ہر معاملے میں یہ دیکھے کہ رب کی مرضی کیا ہے۔خدا کی مرضی کو اب قیامت تک کے لیے مذہب اسلام ہی کے ذریعے سے جانا جاسکتا ہے، اس لیے اس کی تعلیمات کو اختیار کرنا اور اللہ و رسول کے ہر حکم کے سامنے جھک جانا ہی اس صفت میں مطلوب ہے۔اس اطاعت کا سب سے بڑا اظہار اللہ کی عبادت کاوہ نظام ہے جو دین اسلام میں قائم کیا گیا ہے۔
حدیث: ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے، یکایک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ایک شخص آیا اور اس نے (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) پوچھا کہ اسلام کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ شرک نہ کرو اور نماز پڑھو اورفرض زکوۃ ادا کیا کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔ ( صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 49)
2۔ ایمان (مومن ہیں)
وضاحت: مومن دنیا میں اپنا اظہار اسلام کے ذریعے سے کرتا ہے ، لیکن اس کی یہ اطاعت مجبورانہ نہیں ہوتی بلکہ کچھ اصولوں اور کچھ معتقدات کے تحت ہوتی ہے۔ یہی ایمانیات ہیں۔ان ایمانیات کی وضاحت پیچھے جگہ جگہ ہوچکی ہے۔
حدیث:حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے (ایک طویل حدیث میں) روایت ہے کہ آنے والے شخص نے (جو درحقیقت جبرائیل ؑ تھے) حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: بتائیے ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تم اللہ کو، اس کے فرشتوں کو، اس کی بھیجی ہوئی کتابوں کو، اس کے رسولوں کو اور آخرت کو حق جانو اور حق مانو، اور اس بات کو بھی مانوکہ دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے، خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔ چاہے وہ خیر ہو چاہے شر۔ (مسلم)
3۔قنوت یا فرمانبرداری (فرمانبردار ہیں)
4۔صدق و سچائی (راست بازہیں)
5۔صبرو استقامت (صابرہیں)
ان تینوں صفات پر عنوان نمبر16میں’’دنیا پرستی اورخدا پرستی کا فرق‘‘کے تحت تفصیلی بات ہوچکی ہے۔تاہم یہا ں اہم بات یہ ہے کہ ایک منافق دنیا کو دکھانے کو ایمان و اسلام کا کسی درجہ میں مظاہرہ کردیتاہے، مگر یہ صفات ایک منافق میں بالکل موجود نہیں ہوتیں۔ان صفات کا خلاصہ یہ ہے کہ سچامومن سرکش نہیں بلکہ حکم الہی کے سامنے سرجھکانے والا اور اطاعت گزار ہوتا ہے۔ وہ جھوٹ کے بجائے سچائی کی بنیاد پر زندگی گزارتا ہے۔مشکلات میں بے حوصلہ ہوجانے کے بجائے وہ راہ حق پر استقامت سے ڈٹا رہتا ہے اور ہر مشکل کو حوصلے سے جھیلتا ہے۔
حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ (صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 2007)
سفیان بن اسید حضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ سب سے بڑی خیانت یہ ہے کہ تم اپنے بھائی سے کوئی بات کہو اور وہ تمھاری بات کو سچ سمجھے، حالانکہ تم نے جو بات اس سے کہی وہ جھوٹی تھی۔ (ابوداؤد)
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص صبر کرے گا اللہ تعالی اسے صبر عطا کرے گا اور کسی شخص کو صبر سے بہتر اور کشادہ تر نعمت نہیں ملی۔( صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1382)
حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اے فرزند آدم! اگر تو نے شروع صدمہ میں صبر کا اور میری رضا اور ثواب کی نیت کی، تو میں نہیں راضی ہوں گا کہ جنت سے کم اور اس کے سوا کوئی ثواب تجھے دیاجائے۔ (ابن ماجہ)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن مردوں اور عورتوں پر وقتاً فوقتاً آزمائش آتی رہتی ہیں۔ کبھی خود اس پر مصیبت آتی ہے، کبھی اس کا لڑکا مرجاتا ہے، کبھی اس کا مال تباہ ہوجاتا ہے (اور وہ ان تمام مصیبتوں میں صبر اختیار کرلیتا ہے) یہاں تک کہ جب وہ اللہ سے ملتا ہے تو اس حال میں ملتا ہے کہ اس کے نامۂ اعمال میں کوئی گناہ نہیں ہوتا۔ (ترمذی)
حضرت مقداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ بلاشبہ خوش نصیب ہے وہ شخص جو فتنوں سے محفوظ رہا (یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمائی)، لیکن جو امتحان اور آزمائش میں ڈالاگیا، پھر بھی حق پر جما رہا تو اس کے کیا کہنے۔ ایسے آدمی کے لیے شاباشی ہے۔ (ابوداؤد)
6۔خشوع (اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں)
وضاحت: خشوع یا اللہ کے سامنے جھکنا دراصل اللہ کی معرفت کا ثمرہ ہے۔ خد اکی عظمت کا احساس جتنا بڑھتا ہے، اتنا ہی یہ انسان کو خاشع بناتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ گناہ سے بچتا اور نیکیوں میں بڑھتا چلا جاتا ہے۔اس سے قبل اس کا ذکر نماز میں ہوا تھا۔ مگر یہاں یہ اہل ایما ن کی مستقل صفت کے طور پر بیان ہوا ہے۔یعنی ان کی زندگی مکمل طور پر ایک عظیم ہستی کے احساس میں گزرتی ہے اور یہ احساس ان پر خشوع کی کیفیت کو طاری رکھتا ہے۔ظاہر ہے کہ منافق ان کیفیات سے ہمیشہ محرو م ہوتا ہے گو ظاہر میں وہ کتنا ہی خشوع دکھائے۔
حدیث:حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم نفاق والے خشوع سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ صحابہ نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! نفاق والا خشوع کیسا ہوتا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بدن کا خشوع اور دل کا نفاق۔ (مسند احمد)
7۔انفاق (صدقہ دینے والے ہیں)
وضاحت: اس صفت پر بھی جگہ جگہ بات ہوچکی ہے۔ تاہم یہاں منافقین کے پس منظر میں یہ بات اہم ہے کہ مال خرچ کرنے سے ان کی جان جاتی تھی۔ جبکہ بندہ مومن تو تنگی ہو یا خوشحالی ہر حال میں اللہ کے لیے اپنا مال خرچ کرتا ہے۔چاہے اللہ کے دین کی نصرت کا موقع ہو یا بندوں کی مدد کا۔
حدیث:حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس مسلم نے کسی دوسرے مسلم بھائی کو جس کے پاس کپڑا نہیں تھا، پہننے کو کپڑا دیا، اللہ تعالیٰ اس کو جنت کا سبز لباس پہنائے گا۔ اور جس مسلم نے دوسرے مسلم بھائی کو بھوک کی حالت میں کھانا کھلایا اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے پھل اور میوے کھلائے گا۔ اور جس مسلم نے پیاس کی حالت میں دوسرے مسلم بھائی کو پانی پلایا تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت کی سربمہر شراب طہور پلائے گا۔ (ابی داؤد، ترمذی)
8۔روزہ (روزہ رکھنے والے ہیں)
وضاحت:نماز و زکوٰۃ کی عبادات کا تو بار بار ذکر آیا ہے۔ یہاں روزے کا ذکر بھی اہل ایمان کی ایک مستقل صفت کے طور پر کیا گیا ہے۔اس سے فرض کے علاوہ نفل روزوں کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے۔روز ہ چونکہ ایک بالکل ذاتی نوعیت کی عبادت ہے اس لیے یہ ایک مخلص انسان کے ایمان کا آخری ثبوت ہوتا ہے۔
حدیث:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کے ہر نیک عمل کا ثواب دس سے سات سو گنا تک بڑھایا جاتا ہے، مگر اللہ کا ارشاد ہے کہ روزہ اس عام قانون سے بالاتر ہے۔ وہ بندہ کی طرف سے خاص میرے لیے ایک تحفہ ہے اور میں ہی اس کا اجر و ثواب دوں گا۔ میرا بندہ میری رضا کے واسطے اپنی خواہشات نفس اور کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے۔ روزہ دار کے لیے دومسرتیں ہیں۔ ایک افطار کے وقت اور دوسری اپنے مالک کی بارگاہ میں شرف با زیابی کے وقت اور قسم ہے کہ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے۔ اور روزہ ڈھال ہے۔ جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو چاہیے کہ وہ بے ہودہ اور فحش باتیں نہ بکے اور شورو شغب نہ کرے۔ اگر کوئی دوسرا اس سے گالی گلوچ یا جھگڑا کرے تو کہے کہ میں روزے سے ہوں۔ (بخاری، مسلم)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو لوگ رمضان کے روزے ایمان و احتساب کے ساتھ رکھیں گے ان کے سب گزشتہ گناہ معاف کردئیے جائیں گے اور ایسے ہی جو لوگ ایمان و احتساب کے ساتھ رمضان کی راتوں میں قیام کریں گے ان کے بھی سب پچھلے گناہ معاف کردئیے جائیں گے اور اسی طرح جو لوگ شب قدر میں ایمان و احتساب کے ساتھ نوافل پڑھیں گے انکے بھی سارے پچھلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔(بخاری، مسلم)
حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جنت کے دروازوں میں سے ایک خاص دروازے کا نام ’’باب الریان‘‘ ہے۔اس دروازے سے قیامت کے دن صرف روزہ داروں کا داخلہ ہوگا۔ ان کے سوا کوئی اس دروازے سے داخل نہیں ہوسکے گا۔ اس دن پکارا جائے گاکہ کدھر ہیں وہ بندے جو اللہ کے لیے روزے رکھا کرتے تھے اور بھوک پیاس کی تکلیف اٹھایا کرتے تھے؟ وہ اس پکار پر چل پڑیں گے۔ ان کے سوا کسی کا اس دروازے سے داخلہ نہیں ہوسکے گا۔ جب وہ روزہ دار اس دروازے سے جنت میں پہنچ جائیں گے تو یہ دروازہ بند کر دیا جائے گا، پھر کسی کا اس سے داخلہ نہیں ہو سکے گا۔ (بخاری، مسلم)
9۔حفظ فروج (اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں)
وضاحت:حفظ فروج اصل میں زنا سے بچنا ہے۔اس پر کئی جگہ بات ہوچکی ہے۔ لیکن یہاں یہ اہل ایمان کی ایک مستقل صفت کے طور پر آئی ہے۔ اس لیے اس سے مراد عفت اور ضبطِ نفس پر مبنی وہ رویہ ہے جس میں انسان زنا کے ساتھ زنا پر ابھارنے والی اور صنفی ہیجان پیدا کرنے والی چیزوں سے بچتا اوردین کے ان احکام کو اختیار کرتا ہے جو عفت اور پاکدامنی کے فروغ کا سبب بنتے ہیں۔ یہ احکام جو سورہ نور میں بیان ہوئے ہیں یہ واضح کرتے ہیں کہ جب کبھی مرد و زن کے اختلاط کا کوئی موقع ہوتا تو مردوں اور خواتین کو کن آداب کا لحاظ کرنے چاہیے۔ اس میں مردو زن کے لیے نگاہو ں کی حفاظت، عریانی سے پرہیز اور خواتین کے لیے زیب و زینت کوچھپانے اور سینے کو چادر سے بااہتمام ڈھانکنے رکھنا شامل ہیں۔
حدیث:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب آدمی زنا کرتا ہے توزنا کرتے وقت ایمان اس کے اندر سے نکل کر سائبان کی طرح اس کے اوپر معلق ہوجاتا ہے۔ جب وہ باز آجاتا ہے تو ایمان اس کی طرف لوٹ آتا ہے۔ (ابوداؤد، ترمذی)
10۔ذکر کثیر (اوراللہ کوکثرت سے یادکرنے والے ہیں)
وضاحت: اللہ کا ذکر یہاں اہل ایمان کی ایک مستقبل صفت کے طور پر آیا ہے۔اس سے قبل عنوان نمبر18’’عقلمندوں کا رویہ‘‘میں ’کھڑے بیٹھے لیٹے اللہ کی یاد‘کے تحت بات ہوچکی ہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ ذکر الہی ایک مستقل صفت اس وقت بنتا ہے جب انسان بیٹھے، لیٹے اور کھڑے غرض ہر حال میں اللہ کو یاد کرے۔ یہ یاد ممکن نہیں جب تک انسان ہر لمحہ اللہ کے بارے میں سوچ نہ رہا ہو۔ اس کی اعلیٰ ترین شکل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں ان دعاؤں کی شکل میں نظر آتی ہے جو زندگی کے ہر معمول کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ یہی ذکر کثیر کی بہترین شکل ہے۔
حدیث: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس شخص کی مثال جو اپنے رب کو یاد کرتا ہے، اس شخص کی سی ہے جس کے اندر زندگی پائی جاتی ہے۔ اور اس شخص کی مثال جو اللہ کو یاد نہیں کرتا ایسی ہے جیسے کہ کوئی میت۔(بخاری، مسلم)
حضرت ابوالدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تم کو وہ عمل بتاؤں جو تمھارے سارے اعمال میں بہتر اور تمھارے مالک کی نگاہ میں پاکیزہ تر ہے اور تمھارے درجوں کو دوسرے تمام اعمال سے زیادہ بلند کرنے والا ہے، اور راہ خدا میں سونااور چاندی خرچ کرنے سے بھی زیادہ اس میں خیرہے، اور اس جہاد سے بھی زیادہ تمھارے لیے اس میں خیر ہے جس میں تم اپنے دشمنوں اور خدا کے دشمنوں کو موت کے گھاٹ اتارو اور وہ تمھیں ذبح کریں اور شہید کریں۔ صحابہ نے عرض کیا: ہاںیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ایسا قیمتی عمل ضرور بتائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ اللہ کاذکر ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
____________