HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Rehan Ahmed Yusufi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

جنت کے خریداروں کی صفات

’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اوران کے مال جنت کے بدلے خریدلیے ہیں۔
وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اورمارتے اورمرتے ہیں۔ان سے(جنت کاوعدہ) اللہ کے ذمے ایک پختہ وعدہ ہے توراۃ اور انجیل اورقرآن میں۔اورکون ہے جواللہ سے بڑھ کراپنے عہد کو پوراکرنے والاہو؟پس خوشیاں مناؤاپنے اس سودے پرجوتم نے خداسے چکا لیا ہے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔
اللہ کی طرف باربارپلٹنے والے۔
اس کی بندگی بجالانے والے۔
اس کی تعریف کے گن گانے والے۔
اس کی خاطرزمین میں گردش کرنے والے۔
اس کے آگے رکوع اورسجدے کرنے والے۔
نیکی کاحکم دینے والے،بدی سے روکنے والے۔
اوراللہ کی حدودکی حفاظت کرنے والے،(اس شان کے ہوتے ہیں وہ مومن جواللہ سے خریدوفروخت کایہ معاملہ کرتے ہیں)اوراے نبی ان مومنوں کوخوشخبری دے دو۔ ‘‘ (التوبہ 9: 111-112)


عنوان و مطالبات

جنت ایک مومن کی زندگی کا نصب العین ہوتی ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے اہل ایمان کو جنت ایک معاہدے کی صورت میں بیچ دی ہے۔اس سودے میں اہل ایمان سے جو مطالبات کیے گئے ہیں وہ درج ذیل ہیں۔

1۔ جہاد (وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اورمارتے اورمرتے ہیں)

وضاحت: جہاد شریعت اسلامی کا ایک عظیم اور ابدی حکم ہے۔قرآن میں جگہ جگہ اس کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ تاہم جہاد میں انسانی جان لینے اور دینے کی نوبت آتی ہے۔اس حکم کو حدود وقیود کے ساتھ بیان نہ کیا جائے تو بدترین فساد پیدا ہوسکتا ہے۔ اس لیے قرآن حکیم نے جہاد کے فضائل کے ساتھ اس کے قانون اوراس حوالے سے عائد ہونے والے پابندیوں کو بھی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ا ن آیات میں جہاد کی فضیلت کے ساتھ دو اہم ترین باتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔

ایک یہ کہ یہ فضیلت ان لوگوں کو ملے گی جن کا جہاد اپنی قوم، اپنے گروہ، اپنے تعصبات اور کسی قوم کی دشمنی کے بجائے خالص اللہ کی رضاکے لیے اور اس کی راہ میں ہوتا ہے۔دوسری اہم حقیقت یہاں یہ بیان ہوئی ہے کہ جہاد ہمیشہ دوطرفہ میدان جنگ میں ہوتا ہے جہاں دونوں فریق ایک دوسرے کی جان کے درپے ہوتے ہیں ۔ایسے میں لوگ مرتے بھی اور مارتے بھی ہیں۔کسی نہتے شخص کو قتل کرنا جو پرامن ہو اور جنگ میں شریک نہ ہو کسی صورت میں جہاد نہیں ہے۔اس پر کسی فضیلت کا تو کیا سوال ہے بلکہ وہ ساری وعیدیں اس پر لاگو ہوجائیں گی جو پیچھے انسانی جان کی حرمت کو پامال کرنے والے شخص کے لیے بیان ہوئی ہیں۔ ان میں ابدی جہنم کی سزا بھی شامل ہے۔

حدیث: ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کونسا عمل افضل ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول پر ایمان لانا، کہا گیا کہ پھر کونسا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کرنا، کہا گیا کہ اس کے بعد کونسا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ حج مبرور (مقبول حج)۔ (صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 25)

حدیث: ابو موسیٰ اشعری کا بیان ہے کہ ایک شخص حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا کہ کوئی مال غنیمت حاصل کرنے کے لیے لڑتا ہے، کوئی شہرت اور ناموری کے لیے لڑتا ہے، کوئی اپنی بہادری دکھانے کے لیے لڑتا ہے، فرمائیے کہ ان میں سے کس کی لڑائی اللہ کی راہ میں ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ اللہ کی راہ میں لڑائی تو صرف اس کی ہے جو محض اللہ کا بول بالا کرنے کے لیے میدان میں اترے۔(بخاری ، رقم 2810)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اس حال میں مرا کہ نہ تو اس نے کبھی جہاد کیا اور نہ اپنے دل میں اس کی تمنا کی، تو وہ نفاق کی ایک صفت پر مرا۔ (مسلم)

2۔توبہ کرنے والے (اللہ کی طرف باربارپلٹنے والے)

وضاحت: توبہ کو یہاں اہل ایمان کا ایک مستقل وصف قرار دیا گیا ہے۔ جس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ایسا نہیں کہ بندہ مومن کبھی غلطی نہیں کرتا بلکہ جب کبھی اس پر غفلت یا بھول طاری ہوتی ہے وہ فوراً رجوع کرتا ہے۔ اسی طرح اس کے نیک اعمال بھی اسے مغرور نہیں کرتے بلکہ خدا کی عظمت کے احساس سے اسے اپنا ہر عمل اتنا حقیر لگتا ہے کہ وہ مسلسل نیکیاں کرتا ہے اور پھر بھی توبہ کرتا رہتا ہے۔

حدیث:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے فرمایا میں اپنے بندے کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہوں جس کا وہ میرے ساتھ گمان کرتا ہے اور جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں ۔اللہ کی قسم اللہ اپنے بندے کی توبہ پر اس سے زیادہ خوش ہوتا ہے جتنا تم میں سے کوئی اپنی گمشدہ سواری کو جنگل میں پا لینے سے خوش ہوتا ہے۔ اور جو ایک بالشت میرے قریب ہوتا ہے میں ایک ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہوں اور جو ایک ہاتھ میرے قریب ہوتا ہے میں دو ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہوں اور جو میری طرف چل کر آتا ہے میری رحمت اس کی طرف دوڑ کر آتی ہے۔ (صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2455)

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر آدمی خطا کار ہے اور خطاکاروں میں وہ بہت اچھے ہیں جو (خطا وقصور کے بعد) مخلصانہ توبہ کریں اور اللہ کی طرف رجوع ہوجائیں۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

3۔عبادت گزار (اس کی بندگی بجالانے والے)

وضاحت:خدا کے دین کی مدد کرتے ہوئے ایسا نہیں ہوتا کہ بندہ مومن اس کی عبادت سے غافل ہوجاتا ہے۔ بلکہ عبادت گزاری کا عنصر اور بڑھ جاتا ہے۔وہ فرض عبادات تک محدود نہیں رہتا بلکہ نوافل کی بھی کثرت اختیار کرتا ہے۔ یہی چیزعبادت گزاری کو اس کی زندگی کا مستقل وصف بنادیتی ہے۔

حدیث:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالی سات قسم کے آدمیوں کو اپنے سایہ میں لے گا جس دن کہ اس کے سایہ کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا، امام عادل اور وہ جوان جس نے اپنی جوانی اللہ کی راہ میں صرف کی ہو اور وہ مرد جس نے اللہ کو تنہائی میں یاد کیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، اور وہ آدمی جس کا دل مسجد میں اٹکا ہوا ہے اور وہ دو آدمی جو آپس میں خدا کے لئے محبت کریں اور وہ جسے کوئی منصب والی عورت اپنی طرف بلائے اور وہ کہے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور وہ جو پوشیدگی سے اس طرح صدقہ کرے کہ بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو کہ دائیں ہاتھ نے کیا دیا۔ (صحیح بخاری:جلد سوم: حدیث نمبر 1711)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین چیزیں ہیں جن کی طرف دیکھ کر اللہ خوش ہوتا ہے۔ ایک اس آدمی کو دیکھ کر جو رات میں اٹھ پڑتا ہے۔ دوسرے ان لوگوں کو دیکھ کر جو نماز میں صف بند ہوتے ہیں۔ تیسرے ان لوگوں کو دیکھ کر جو دشمن کے مقابلے میں لڑنے کے لیے صفیں قائم رکھتے ہیں۔ (بحوالہ ایضاً)

4۔حمد اورشکر گزار (اس کی تعریف کے گن گانے والے )

وضاحت:بندہ مومن خدا کے دین کی مدد میں اپنا جان مال سب لگادیتا ہے ، مگر یہ اس کے لیے نقصان کا نہیں بلکہ فائدے کا سودا ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ ہر دم رب کی حمد و ثنا بیان کرتا ہے۔ یہ حمدوثنااور شکرگزاری جنت کی نعمتوں پر بھی ہوتی ہے ، دین کی خدمت کی توفیق پر بھی اور دنیا میں ملنے والی مادی نعمتوں پر بھی۔ مومن نہ ناشکرا ہوتا ہے نہ نعمتوں میں پڑ کر غافل ہونے والا۔

حدیث:سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کوئی خوشی کی خبر آتی یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بشارت دی جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کا شکر کرتے ہوئے سجدے میں گر جاتے تھے۔(سنن ابوداودحدیث نمبر 2774)

حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کونسا مال بہتر ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہترین مال اللہ کو یاد کرنے والی زبان شکر کرنے والا دل اور مومن بیوی ہے جو اسے اس کے ایمان میں مدد دے۔

( جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1037)

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے اور ہم نے آپ کو تروتازہ کھجوریں کھلائیں اور ٹھنڈا پانی پلایا۔ اس پر حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ان نعمتوں میں سے ہیں جن کے بارے میں تم سے سوال کیا جائے گا۔(مسند احمد)

5۔’سیاحت‘ کرنے والے (اس کی خاطرزمین میں گردش کرنے والے)

وضاحت: سیاحت کے لفظی معنی زمین پر چلنے پھرنے کے ہیں۔ لیکن یہاں مراد اللہ کی رضا کے حصول اور اس کے دین کی مدد کے لیے دوڑ دھوپ کرنے کے ہیں۔اس میں وہ تمام سرگرمیاں شامل ہیں جو مومن اپنی اصلاح، دین کو سمجھنے سمجھانے، اسے پھیلانے کے لیے کرتا ہے اور اس میں اپنا آرام و راحت قربان کردیتا ہے۔

حدیث: حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک صبح کو راہ خدا میں نکلنا یا ایک شام کو نکلنا دنیا و ما فیہا سے بہتر ہے۔ (بخاری،مسلم)

حضرت ابو عبس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی بندے کے قدم راہ خدا میں چلنے سے گرد آلود ہوئے ہوں، پھر ان کو دوزخ کی آگ چھوسکے۔ (بخاری)

حضرت عمروبن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دین جب شروع ہوا تو وہ غریب (لوگوں کے لیے اجنبی اور کسمپرسی کی حالت میں) تھا۔ پس شادمانی ہوغرباء کے لیے اور (غربا سے مراد) وہ لوگ ہیں جو اس فساد اور بگاڑ کی اصلاح کی کوشش کریں گے جو میرے بعد میرے طریقہ میں لوگ پیدا کریں گے۔ (ترمذی)

6۔رکوع و سجدہ کرنے والے (اس کے آگے رکوع اورسجدے کرنے والے)

وضاحت:اوپر عبادت گزاری کے بعد یہاں رکوع وسجدہ کی تعبیر خاص طور پر نفل اور تنہائی میں پڑھی جانے والی نمازوں کے لیے استعمال ہوئی ہے۔اس سے ان نمازوں کی اہمیت کااندازہ کیا جاسکتا ہے۔

حدیث:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ، میں نے خود سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے: فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز رات میں پڑھی جانے والی نماز ہے۔ (مسند احمد)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے سردار حاملین قرآن اور نماز شب اداکرنے والے ہیں۔ (البیہقی)

7۔امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے (نیکی کاحکم دینے والے،بدی سے روکنے والے)

وضاحت: اوپر بیان کردہ زیادہ تر خصوصیات اپنی ذات سے متعلق تھیں، مگر اس صفت کا تعلق دوسروں سے ہے۔ یعنی یہ لوگ خود نہ صرف جنت میں جانا چاہتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی اس میں لے جانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے لیے لوگوں کو نیکی و معروف کی تلقین اور منکرات سے بچنے کی تاکید کرتے ہیں۔

حدیث:حضرت جریربن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ کسی قوم میں کوئی آدمی ہو جو ایسے اعمال کرتا ہو جو گناہ اور خلاف شریعت ہیں اور اس قوم اور جماعت کے لوگ اس کی قدرت اور طاقت رکھتے ہوں کہ اس کی اصلاح کردیں اور اس کے باوجود اصلاح نہ کریں تو ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ مرنے سے پہلے کسی عذاب میں مبتلا فرمائے گا۔ (ابی داؤد، ابن ماجہ)

حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب بنی اسرائیل خدا کی نافرمانیوں کے کام کرنے لگے تو ان کے علما نے انہیں روکا، لیکن وہ نہیں رکے، تو ان کے عالم ان کی مجلسوں میں بیٹھنے لگے اور ان کے ساتھ کھانے پینے لگے۔ جب ایسا ہوا تو اللہ نے ان سب کے دل ایک جیسے کردیے اور پھر حضرت داؤد علیہ السلام اور عیسیٰ بن مریم علیہ لسلام کی زبان سے ان پر لعنت کی۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے نافرمانی کی راہ اختیار کی اور اسی میں بڑھتے چلے گئے۔ حدیث کے راوی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگائے بیٹھے تھے، پھر سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا: نہیں! اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، تم ضرور لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے رہوگے اور برائیوں سے روکتے رہوگے اور ظالم کا ہاتھ پکڑو گے اور ظالم کو حق پر جھکاؤ گے۔ اگر تم لوگ ایسا نہ کرو گے تو تم سب کے دل بھی ایک ہی طرح کے ہوجائیں گے اور پھر اللہ تمھیں اپنی رحمت اور ہدایت سے دورپھینک دے گا۔ جس طرح بنی اسرائیل کے ساتھ اس نے معاملہ کیا۔ (مشکوۃ)

8۔اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے (اوراللہ کی حدودکی حفاظت کرنے والے)

وضاحت: اللہ تعالیٰ نے فطری طور پر انسان کو بہت سی حدود کا پابند کیا ہے۔ ان کا ذکر منکرات کے عنوان سے پیچھے گزرا ہے۔ اسی طرح انہو ں نے ایک شریعت دی ہے ، جس میں زندگی کے بعض معاملات کے بارے میں کچھ حدود کا پابند کیا ہے۔ ایک مومن ہمیشہ ان حدود کا پاس رکھتا ہے اور ان کے قریب بھی نہیں پھٹکتا۔

’’حدود کی حفاظت ‘‘کا یہ وہ عظیم حکم ہے جو اس پور ی شریعت اور اس کے تمام احکام کا احاطہ کرلیتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہم مسلمانوں کو عطا فرمائی ہے۔ تاہم شریعت کے بیشتر قانونی احکام علی الاطلاق نہیں بلکہ اکثر حالات و احوال کے لحاظ سے فرض ہوتے ہیں۔تاہم جب جب بندہ مومن کے سامنے شریعت کا کوئی بھی مطالبہ آتا ہے تو اسے اللہ اور اس کے رسول کا حکم سمجھ کر اس کا سر جھک جاتا ہے۔

حدیث:نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ حلال ظاہر ہے اور حرام (بھی ظاہر ہے) اور دونوں کے درمیان میں شبہ کی چیزیں ہیں کہ جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے، پس جو شخص شبہ کی چیزوں سے بچے اس نے اپنے دین اور اپنی آبرو کو بچالیا اور جو شخص شبہے (کی چیزوں) میں مبتلا ہوجائے (اس کی مثال ایسی ہے) جیسے کہ جانور شاہی چراگاہ کے قریب چر رہا ہو جس کے متعلق اندیشہ ہوتا ہے کہ ایک دن اس کے اندر بھی داخل ہو جائے (لوگو! آگاہ ہو جاؤ کہ ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہے، آگاہ ہو جاؤ کہ اللہ کی چراگاہ اس کی زمین میں اس کی حرام کی ہوئی چیزیں ہیں، خبردار ہو جاؤ! کہ بدن میں ایک ٹکڑا گوشت کا ہے، جب وہ سنور جاتا ہے تو تمام بدن سنور جاتا ہے اور جب وہ خراب ہو جاتا ہے تو تمام بدن خراب ہو جاتا ہے، سنو وہ ٹکڑا دل ہے۔( صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 51)۔

____________

 

B