HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Rehan Ahmed Yusufi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

شیطان کن کا ساتھی اور کن کا نہیں

’’اورتم سب اللہ کی بندگی کرو،اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ بناؤ۔
ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤکرو، قرابت داروں اوریتیموں اورمسکینوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ،اورپڑوسی رشتہ دارسے،اجنبی ہمسایہ سے،پہلوکے ساتھی اور مسافر سے،اوران لونڈی غلاموں سے جوتمہارے قبضہ میں ہوں،احسان کامعاملہ رکھو۔
بے شک اللہ تعالیٰ کسی ایسے شخص کوپسندنہیں کرتاجوتکبرکرنے والاہواوراپنی بڑائی پرفخر کرے۔
اورایسے لوگ بھی اللہ کوپسندنہیں ہیں جوکنجوسی کرتے ہیں اوردوسروں کوبھی کنجوسی کی ہدایت کرتے ہیں۔
اورجوکچھ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیاہے اسے چھپاتے ہیں اورایسے ناشکرے لوگوں کے لیے ہم نے رسواکن عذاب مہیّاکررکھاہے۔
اوروہ لوگ بھی اللہ کوناپسندہیں جواپنے مال محض لوگوں کودکھانے کے لیے خرچ کرتے ہیں اوردرحقیقت نہ اللہ پرایمان رکھتے ہیں نہ روزآخرپر۔سچ یہ ہے کہ شیطان جس کارفیق ہوا اسے بہت ہی بری رفاقت میسرآئی۔‘‘ (النسا 4: 36-38)


عنوان و مطالبات

سورہ نسامیں مسلمانوں کی معاشرتی زندگی سے متعلق احکام دیے گئے ہیں ان احکام کے خاتمے پر فوراً ہی اس کردار کا بیان ہے جو اصل میں مطلوب ہے۔ آخر میں کچھ رذائل کا ذکر ہے اور یہ بتادیا گیا ہے کہ جن لوگوں میں یہ رذائل ہوں گے ان کا ساتھی دراصل شیطان ہوتا ہے۔اسی کو ہم نے سر عنوان بنالیا ہے۔

1۔اللہ کی عبادت کرنا اور شرک سے بچنا (اورتم سب اللہ کی بندگی کرو،اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ بناؤ)

وضاحت:تنہا اللہ ہی کی عبادت کرنا اور شرک سے پرہیز یہی اصل دین ہے۔یہاں اللہ کی بندگی کا یہ مطالبہ بہت سے دیگر مطالبات کے ساتھ سب سے پہلے بیان ہواہے۔اس سے معلوم ہوا کہ انسان پر سب سے بڑا حق اس کے پروردگار کا ہے۔اس کا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانو ں کے سب سے بڑے محسن ہیں۔انسا ن کے پاس جو کچھ ہے سب اللہ کی عطا ہے۔ان مہربانیوں کے جواب میں جو بہترین چیز انسان کے پاس اللہ کو دینے کے لیے ہے وہ بندگی کا نذرانہ ہے۔مگر افسوس کہ انسان اپنی اس قیمتی متاع کو غیر اللہ کی نذر کردیتا ہے۔

حدیث:حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں ( ایک سفر میں ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک گدھے پر سوار تھاجس کا نام عفیر تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے معاذ!کیا آپ جانتے ہیں کہ اللہ کے اپنے بندوں پر کیا حقوق ہیں؟ اور بندوں کے اللہ پر کیا حق ہیں؟ میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ کا بندوں پر حق یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ بنائیں، اور بندوں کا اللہ پر حق یہ ہے کہ جو اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں بناتے انہیں عذاب نہ دیں۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کیا میں اس بات کی لوگوں کو اطلاع نہ دے دوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں کو مت بتاؤ وہ بھروسہ کر کے بیٹھ جائیں گے۔ ( صحیح البخاری، الجہاد والسیر، باب اسم الفرس والحمار، حدیث2856)

2۔انسانوں کے ساتھ حسن سلوک (ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤکرو، قرابت داروں اوریتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ،اورپڑوسی رشتہ دارسے،اجنبی ہمسایہ سے،پہلوکے ساتھی اور مسافر سے،اوران لونڈی غلاموں سے جوتمہارے قبضہ میں ہوں،احسان کامعاملہ رکھو)

وضاحت: اس آیت میں والدین، قرابت داروں،یتیموں،مسکینوں،پڑوسی اجنبی اور قرابت دار پڑوسی،رفیق سفر،مسافر،غلام سے حسن سلوک کی ہدایت ہے۔اس حسن سلوک میں ادائے حقوق،ان لوگوں پر خرچ کرنا ، اچھی طرح گفتگو اور معاملہ کرنا سب شامل ہیں۔ان تعلقات میں سے بیشتر پر ہم پیچھے گفتگو کرچکے ہیں۔جو نئے تعلقات مذکور ہیں ان میں سب سے زیادہ نمایاں ذکر پڑوسیوں کا ہے۔

انسان اپنی زندگی گھروالوں کے علاوہ سب سے زیادہ پڑوسیوں کے ساتھ گزارتا ہے۔ان کی تین اقسام بیان کی گئی ہیں۔ ایک رشتہ دار پڑوسی جس سے دوہرا تعلق ہوجاتا ہے۔ دوسرا وہ پڑوسی جو رشتہ دار نہ ہو اور تیسرا عارضی پڑوسی جو رفیق سفر ہو یا رفیق مجلس یاکہیں اور ملنے والا ہم نشین، ان سب کے ساتھ حسن سلوک کی ہدایت ہے۔جو شخص پڑوسیوں کے ساتھ احسان کرنے کے بجائے انہیں ایذا دے وہ بدترین شخص ہے۔

اس آیت میں لونڈی غلاموں سے حسن سلوک کا بھی ذکر ہے۔ زمانہ قدیم میں غلامی کا رواج تھا، اس لیے دین نے لونڈی غلاموں کو بھی حسن سلوک کا مستحق قرار دیا۔ دور جدید میں گھریلو ملازم، دفتر اور دکان میں کام کرنے والے ماتحت وغیرہ سب اس میں شامل ہیں۔

حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا: خدا کی قسم وہ شخص ایمان نہیں رکھتا۔ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کون ایمان نہیں رکھتا؟ فرمایا: وہ شخص جس کاپڑوسی اس کی تکلیفوں سے محفوظ نہ رہے۔ (بخاری)

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبرائیل امین مجھے پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی برابرتاکید کرتے رہے، یہاں تک کہ میں نے خیال کیا کہ پڑوسی کو پڑوسی کا وارث بنا دیں گے۔ (متفق علیہ)

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص مومن نہیں ہے جو خود تو پیٹ بھر کر کھائے اور اس کا پڑوسی جو اس کے پہلو میں رہتا ہے، بھوکا رہے۔ (مشکوۃ)

۴۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا: اے ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! جب تو شوربا پکائے تو کچھ پانی زیادہ کردے اور اپنے پڑوسیوں کی خبر گیری کر۔ (مسلم)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے مسلمان عورتو ! کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کو ہدیہ دینے کو حقیر نہ سمجھے اگرچہ وہ ایک بکری کی کھری ہی کیوں نہ ہو۔ (بخاری، مسلم)

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: میرے دوپڑوسی ہیں تو ان میں سے کس کے ہاں ہدیہ بھیجوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس پڑوسی کے ہاں جس کا گھر تیرے گھر سے زیادہ قریب ہو۔ (بخاری)

ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: فلاں عورت بہت زیادہ نفل نمازیں پڑھتی، نفل روزے رکھتی اور صدقہ کرتی ہے اور اس لحاظ سے وہ مشہور ہے، لیکن اپنے پڑوسیوں کو اپنی زبان سے تکلیف پہنچاتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جہنم میں جائے گی۔ اس آدمی نے پھر کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! فلاں عورت کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہ نفل روزے کم رکھتی ہے اور بہت کم نفل نماز پڑھتی ہے اور پنیر کے کچھ ٹکڑے صدقہ کرتی ہے، لیکن اپنی زبان سے پڑوسیوں کو تکلیف نہیں پہنچاتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جنت میں جائے گی۔ (مشکوۃ)

حضرت قعبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن جن دو آدمیوں کا مقدمہ سب سے پہلے پیش ہوگا، وہ دوپڑوسی ہوں گے۔ (مشکوۃ)

حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: پڑوسی کے حقوق تم پر یہ ہیں کہ اگر وہ بیمار ہوجائے تو اس کی عیادت اور خبر گیری کرو اور اگر انتقال کر جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جاؤ اور اگر وہ قرض مانگے تو اس کو قرض دو، اور اگر وہ کوئی برا کام کر بیٹھے تو پردہ پوشی کرو، اور اگر اسے کوئی نعمت ملے تو اس کو مبارک باد دو، اور اگر کوئی مصیبت پہنچے تو تعزیت کرو، اور اپنی عمارت اس کی عمارت سے اس طرح بلند نہ کرو کہ اس کے گھر کی ہوا بند ہوجائے، اور تمھاری ہانڈی کی مہک اس کے لیے باعث ایذاء نہ ہو الایہ کہ اس میں سے تھوڑا سا کچھ اس کے گھر بھی بھیج دو۔ (طبرانی)

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پڑوسی تین قسم کے ہیں۔ ایک وہ پڑوسی جس کا صرف ایک ہی حق ہو اور وہ سب سے کم درجے کا پڑوسی ہے، اور دوسرا وہ پڑوسی جس کے دوحق ہوں اور تیسرا وہ جس کے تین حق ہوں، ایک حق والا وہ مشرک پڑوسی ہے جس سے کوئی رشتہ داری بھی نہ ہو۔ دوحق والا وہ پڑوسی ہے جو پڑوسی ہونے کے ساتھ مسلم بھی ہو۔ اس کا ایک حق مسلمان ہونے کی وجہ سے ہوگا اور دوسرا پڑوسی ہونے کی وجہ سے۔ اور تین حق والا پڑوسی وہ ہے جو پڑوسی بھی ہو، مسلم بھی ہو اور رشتہ دار بھی ہو۔ تو اس کا ایک حق مسلمان ہونے کا ہوگا، دوسرا حق پڑوسی ہونے کا اور تیسرا حق رشتہ داری کا ہوگا۔ (مسند بزار)

3۔تکبر (بے شک اللہ تعالیٰ کسی ایسے شخص کوپسندنہیں کرتاجواپنے پندارمیں مغرورہواوراپنی بڑائی پرفخر کرے)

وضاحت: لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے میں جو ذہنیت سب سے بڑھ کر رکاوٹ ڈالتی ہے وہ یہ کہ انسان اپنے مال و مقام کو اپنی محنت کا نتیجہ سمجھے۔دوسروں پر احسان وہ کرتا ہے جو رب کی بڑائی میں جیتا ہے۔ اپنی بڑائی میں جینے والا نہ رب کا شکر گزار ہوتا ہے اور نہ بندو ں کے ساتھ احسان کرتا ہے۔ایسا شخص لوگوں پر احسان تو کیا کرے گا، وہ متکبرانہ باتوں سے دوسروں پر دھونس جماتا اور ان کے دل زخمی کرتا ہے۔اپنی بڑائی کے محل میں جینے والے ایسے شیخی خورے لوگ خدا کو سخت ناپسند ہیں۔

حدیث: عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کوئی آدمی دوزخ میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہوگا اور کوئی ایسا آدمی جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی تکبر ہوگا۔( کتاب صحیح مسلم جلد 1 حدیث نمبر 267)

4۔بخل کرنا اور دوسروں کواس کی تلقین کرنا (اورایسے لوگ بھی اللہ کوپسندنہیں ہیں جوکنجوسی کرتے ہیں اوردوسروں کوبھی کنجوسی کی ہدایت کرتے ہیں)

وضاحت: شیخی خورے لوگ بہت بخیل بھی ہوتے ہیں۔ کسی ضرور تمند پر خرچ کرنا ان کے لیے سزا سے کم نہیں ہوتا۔ اپنے اس پست کردار کو چھپانے کے لیے یہ لوگ دوسروں کو بھی انفاق سے روکتے ہیں۔کیونکہ دوسروں نے خرچ کرنا شروع کردیا تو یہ نکو بن جائیں گے اور یہ ان شیخی خوروں کو گوارا نہیں ہوتا۔ایک بندہ مومن نہ تومتکبر ہوسکتا ہے اور نہ بخیل۔

حدیث: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بندوں پر کوئی صبح نہیں آتی، مگر اس میں دو فرشتے نازل ہوتے ہیں، ان میں سے ایک کہتا ہے کہ اے اللہ خرچ کرنے والے کو اس کا بدل عطا فرما اور دوسرا کہتا ہے اے اللہ بخل کرنے والے کو تباہی عطا کر۔ (صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1356)

5۔اللہ کی نعمتوں کو چھپانا (اورجوکچھ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیاہے اسے چھپاتے ہیں۔ایسے ناشکرے لوگوں کے لیے ہم نے رسواکن عذاب مہیّاکررکھاہے)

وضاحت: یہ اس کردار کی ایک اور خصوصیت ہے کہ جب کوئی ایسی مد سامنے آجائے جہاں نہ دوسروں کوانفاق سے روک سکیں اور نہ خود اپنا عدم اطمینان ظاہر کرسکیں تو اپنے مسائل کا رونا شروع کردیتے ہیں۔ذمہ داریوں، اخراجات، نقصانات اور پریشانیوں کی ایک نئی داستان، یہ لوگ ہر اس موقع پر گھڑ لیتے ہیں جب انفاق کا موقع آجائے۔جو شخص اللہ کے فضل کو چھپاکر مسائل کا دُکھڑا روتا رہے، وہ خدا کی نظر میں سخت ناشکرا ہوتا ہے۔اور ایسے لوگوں کا انجام ایک رسواکن عذاب کے سوا اورکچھ نہیں۔تاہم بہت سے لوگوں کے ہاں یہ نیت کی خرابی سے زیادہ یہ ایک فطری کمزوری ہوتی ہے، انہیں اس کی اصلاح کرنی چاہیے۔

حدیث: حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی اپنے بندے پر اپنی نعمت کا اظہار پسند کرتا ہے۔ (جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 723 )

ابوالاحوص تابعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد (مالک بن فضلہؓ) سے روایت کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں بہت معمولی اور گھٹیا قسم کے کپڑے پہنے ہوئے تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کیا تمھارے پاس کچھ مال ودولت ہے؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں (اللہ کا فضل ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ کس نوع کا مال ہے؟ میں نے عرض کیا کہ مجھے اللہ نے ہر قسم کا مال دے رکھا ہے، اونٹ بھی ہیں، گائے بیل بھی ہیں، بھیڑ بکریاں بھی ہیں، گھوڑے بھی ہیں، غلام باندیاں بھی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب اللہ نے تم کو مال ودولت سے نوازا ہے تو پھر اللہ کے انعام واحسان اور اس کے فضل وکرم کا اثر تمھارے اوپر نظر آنا چاہیے۔ (مسند احمد۔ سنن نسائی)

6۔ریا کاری (اوروہ لوگ بھی اللہ کوناپسندہیں جو اپنا مال محض لوگوں کودکھانے کے لیے خرچ کرتے ہیں اوردرحقیقت نہ اللہ پرایمان رکھتے ہیں نہ روزآخرپر۔سچ یہ ہے کہ شیطان جس کارفیق ہوا اسے بہت ہی بری رفاقت میسرآئی)

وضاحت: یہ اس کردار کی ایک اور خصوصیت ہے۔ یعنی لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرنا۔ریاکاری یوں تو ہر مقام پر بدترین جرم ہے لیکن تکبر،شیخی خوری ، بخل اور ناشکری کے اس مجموعے میں تو یہ سونے پر سہاگہ ہوتی ہے۔ جس کردار کا اوپر ذکر ہورہا ہے وہ جب خرچ کرنے پر مجبور ہوتا ہے تو اس کا سبب صرف یہ ہوتا ہے کہ لوگوں سے داد وصو ل کرنی اور واہ واہ سمیٹنی ہے۔اپنے عمل سے یہ لوگ بتادیتے ہیں کہ انہیں نہ رب سے دلچسپی ہے نہ آخرت کی کامیابی سے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو شیطان کے رفیق کار ہوتے ہیں۔خدا تو ان کے اس خرچ کو قبول نہیں کرتا۔ کوئی اگر اس کی داد دیتاہے تو یہی ان کا دوست، شیطان دیتا ہے۔ان کا انجام بھی قیامت کے دن شیطان کے ساتھ جہنم کی آگ میں ہوگا۔

حدیث:حضرت شدادبن اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: جس نے دکھاوے کے لیے نماز پڑھی اس نے شرک کیا اور جس نے دکھاوے کے لیے روزہ رکھا اس نے شرک کیا اور جس نے دکھاوے کے لیے صدقہ خیرات کیا اس نے شرک کیا۔ (مسند احمد )

محمودبن لبید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تمھارے بارے میں سب سے زیادہ خطرہ ’شرک اصغر‘ کا ہے۔ بعض صحابہ نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! شرک اصغر کاکیا مطلب ہے؟ آپؐ نے فرمایا، ’’ریا‘‘۔ (مسند احمد)

ابوسعید بن ابی فضالی رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ؐصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ قیامت کے دن، جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ہے، سب آدمیوں کو جمع کرے گا تو ایک منادی یہ اعلان کرے گا کہ جس شخص نے اپنے کسی ایسے عمل میں جو اس نے اللہ کے لیے کیا کسی اور کو بھی شریک کیا تھا وہ اس کابدلہ اسی دوسرے سے جاکر طلب کرے، کیونکہ اللہ تعالیٰ سب شرکاء سے زیادہ شرک سے بے نیاز ہے۔ (مسند احمد)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سناکہ: قیامت کے دن تین آدمیوں کا فیصلہ سب سے پہلے سنایا جائے گا۔۔۔ (ان میں سے )تیسرا آدمی وہ ہوگا جسے اللہ نے دنیا میں کشادگی بخشی تھی اور ہر قسم کی دولت سے نوازا تھا۔ ایسے شخص کو خدا کی جناب میں پیش کیا جائے گا اور وہ اسے اپنی سب نعمتیں بتائے گا۔ وہ ساری نعمتوں کا اقرار کرے گا کہ ہاں! یہ سب نعمتیں اسے دی گئی تھیں۔ تب اس سے اس کا رب پوچھے گا: میری نعمتوں کو پاکر تو نے کیا کام کیے؟ وہ جواب میں عرض کرے گا: جن جن راستوں میں خرچ کرنا تیرے نزدیک پسندیدہ تھا، ان سب راستوں میں، میں نے تیری خوشنودی کے لیے خرچ کیا۔ اللہ فرمائے گا: جھوٹ کہا تونے۔ یہ سارا مال تو نے اس لیے لٹایا تھا کہ لوگ تجھے سخی کہیں۔ سو! یہ لقب دنیا میں تجھے مل گیا۔ پھر حکم ہوگا کہ اسے چہرے کے بل گھسیٹتے ہوئے لے جاؤ اور آگ میں ڈال دو۔ چنانچہ اسے لے جاکر آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ (مسلم)

____________

 

B