HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Rehan Ahmed Yusufi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

عقلمندوں کا رویہ

’’زمین اورآسمانوں کی پیدائش اوررات اوردن کے باری باری آنے میں ان عقلمند لوگوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں جو:
اٹھتے،بیٹھتے اورلیٹتے،ہرحال میں خداکویادکرتے ہیں۔
اور آسمانوں اورزمین کی ساخت میں غوروفکرکرتے ہیں۔
(وہ بے اختیاربول اٹھتے ہیں) پروردگار،یہ سب کچھ تونے فضول اوربے مقصد نہیں بنایا ہے، توپاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے۔پس اے رب،ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے ،تونے جسے دوزخ میں ڈالااسے درحقیقت بڑی ذلت ورسوائی میں ڈال دیا، اور پھر ایسے ظالموں کاکوئی مددگارنہ ہوگا۔مالک،ہم نے ایک پکارنے والے کوسناجوایمان کی طرف بلاتاتھااورکہتاتھاکہ اپنے رب کومانو۔ہم نے اس کی دعوت قبول کرلی،پس اے ہمارے آقا،جوقصورہم سے ہوئے ہیں ان سے درگزرفرما،جوبرائیاں ہم میں ہیں انھیں دور کردے اورہماراخاتمہ نیک لوگوں کے ساتھ کر۔خداوند، جووعدے تونے اپنے رسولوں کے ذریعہ سے کیے ہیں ان کوہمارے ساتھ پوراکراورقیامت کے دن ہمیں رسوائی میں نہ ڈال،بے شک تواپنے وعدے کے خلاف کرنے والانہیں ہے۔‘‘، (آل عمران 3: 190-194)


عنوان اور مطالبات

یہ عنوان پہلی ہی آیت میں بیان ہوگیا ہے۔ اس میں خدا اور آخرت کی معرفت میں جینے والوں کی خصوصیات بیان کی گئی ہیں۔ یہ مومنانہ کردار کے اعلیٰ ترین اوصاف ہیں۔ ان کے بغیر کبھی کوئی سچی دینداری وجود میں نہیں آسکتی۔

1۔کھڑے بیٹھے لیٹے اللہ کی یاد (اٹھتے،بیٹھتے اورلیٹتے،ہرحال میں خداکویادکرتے ہیں)

وضاحت:کائنات میں موجود نعمتیں انسان کو ہر لمحہ رب کی یاد دلاتی ہیں۔ دل کی دھڑکن، خون کی گردش، سانس کی ڈوری لمحہ لمحہ اسے یاد دلاتے ہیں کہ وہ پل رہا ہے اور کوئی اسے پال رہا ہے۔ اس کی غذا، پانی،ہوا، اہل وعیال کی نعمتیں، انفس و آفاق کی ہر ہر نشانی میں موجود ربوبیت کے آثار کبھی اسے خدا سے بے تعلق نہیں رہنے دیتے۔ ایسا بندہ ہمیشہ ر ب کی یاد میں جیتا ہے۔ اس کا سب سے اعلیٰ نمونہ تو خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے۔ آپ کی دعائیں اس کیفیت کا اعلیٰ ترین نمونہ ہیں۔ یہی ہر مسلمان کے لیے بہترین ماڈل بھی ہے۔

حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب بھی اور جہاں بھی بیٹھ کے کچھ بندگان خدا، اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو لازمی طور پر فرشتے ہر طرف سے ان کے گرد جمع ہوجاتے ہیں اور ان کو گھیرلیتے ہیں اور رحمت الہٰی ان پر چھا جاتی ہے اور ان کو اپنے سایہ میں لے لیتی ہے اور ان پر سکینہ کی کیفیت نازل ہوتی ہے اور اللہ اپنے ملائکہ مقربین میں ان کا ذکر فرماتا ہے۔ (مسلم)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کا ارشاد ہے کہ جس وقت بندہ میرا ذکر کرتا ہے اور میری یاد میں اس کے ہونٹ حرکت کرتے ہیں تو اس وقت میں اپنے اس بندہ کے ساتھ ہوتا ہوں۔ (بخاری)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کا ارشاد ہے کہ میرامعاملہ بندہ کے ساتھ اس کے یقین کے مطابق ہے۔ اور میں بالکل اس کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے۔ اگر وہ مجھے اپنے جی میں اس طرح یاد کرے کہ کسی اور کو خبر بھی نہ ہو تو میں بھی اس کو اسی طرح یاد کروں گا۔ اور اگر وہ دوسرے لوگوں کے سامنے مجھے یاد کرے تو میں ان سے بہتر بندوں کی جماعت میں اس کاذکر کروں گا۔ (بخاری، مسلم)

2۔کائنات پر غور و فکر (اور آسمانوں اورزمین کی ساخت میں غوروفکرکرتے ہیں)

وضاحت:سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات کے ضمن میں ہم نے بیان کیا تھا کہ ایمان غیب میں رہ کر لایا جاتا ہے مگر یہ علم وعقل پر مبنی ہوتا ہے تعصبات پر نہیں۔ایک بندہ مومن عقلی وجود ہوتا ہے۔ وہ اپنے گرد موجود وسیع و عریض کائنات سے بے نیاز ہوکر زندگی نہیں گزارسکتا۔ جب جب وہ اس کائنات، زمین و آسمان، ان کی پیدائش اور ساخت اور اپنے لیے ان میں موجود رحمت و برکت کے سلسلے کو دیکھتا ہے تو بے اختیار اسے خدا یاد آجاتا ہے۔ اسی طرح وہ دیکھتا ہے کہ دن و رات کا ایک سلسلہ جاری ہے۔ مگر ہر صبح اور ہر شام اسے موت سے قریب کررہی ہے۔ اسے احساس ہوتا ہے کہ اس انتہائی بامعنی کائنات میں گزرتے صبح و شام اسے یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کے پاس مہلت عمل ختم ہورہی ہے۔ جس رب نے اسے اتنی نعمتیں دی ہیں، ایک روز اس کے حضور پیش ہوکر اسے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔چنانچہ دعاوآہ و زاری کی ایک کیفیت بے اختیار اس پر طاری ہوتی ہے۔اس کا غور و فکر اسے خدا کی یاداورآخرت کی پیشی کی اس نفسیات میں زندہ رکھتا ہے۔

حدیث: ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ میں میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر میں ایک رات رہا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ان کے ہاں تھے جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہا تو آپ عبادت کے لیے اٹھ گئے اور آسمان کی طرف دیکھا اور یہ آیت پڑھی کہ بے شک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے اور دن رات کے بدلنے میں عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔(آل عمران190) (صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1147)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک شخص اپنے بستر پر چت لیٹا ہوا تھا۔ اوپر کو منہ تھا۔ اچانک اس کی نظر آسمان اور ستاروں پر پڑی۔ تو اس نے کہا: میں شہادت دیتا ہوں کہ تیرا ایک مالک اور خالق ہے۔ اے اللہ مجھے بخش دے۔ اللہ نے اس کی طرف (رحمت کی) نظر فرمائی اور بخش دیا۔ (ابن حبان)

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خلق میں غور کرو، خالق (کی ذات) میں غور نہ کرو کیونکہ تم اس کا اندازہ نہیں کرسکتے۔ (بحوالہ ایضاً)

3۔دعا وآہ و زاری ( اے رب،ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے،تونے جسے دوزخ میں ڈالااسے درحقیقت بڑی ذلت ورسوائی میں ڈال دیا، اور پھر ایسے ظالموں کاکوئی مددگارنہ ہوگا۔۔۔بے شک تواپنے وعدے کے خلاف کرنے والانہیں ہے)

وضاحت:بندہ مومن کا کائنات پر غور و فکر اسے یاد دلاتا ہے کہ کائنات بے حد و حساب ہے اور اس کی زندگی محدود۔ موت ایک روز آکر زندگی کی ساری معنویت کو ختم کردے گی۔اس کی عقل اسے یہ بتاتی ہے کہ ایسا ہونا نہیں چاہیے۔وہ جان لیتاہے کہ یہ کائنات اس کے قبرستان کے طور پر نہیں بنائی گئی بلکہ اس کے ابدی گھر کے طور پر بنائی گئی ہے۔ وہ جان لیتا ہے کہ اس دنیا کی زندگی، زندگی نہیں امتحان ہے۔ زندگی تو آخرت میں شروع ہوگی۔ایسے مومن بے اختیار پکار اٹھتے ہیں کہ اے رب تو ہمیں اس زندگی کے خسارے اور رسوائی سے بچالے۔ہمارا واحد کارنامہ یہ ہے کہ ہم نے ایک پکارنے والے کو سنا اور صرف عقلی بنیادوں پر تیرے آثار دیکھ کر ایمان لے آئے۔ ہمارے ماضی میں جو گناہ ہم سے ہوئے ہیں انہیں معاف کردے۔ حال میں جو برائیاں ہم میں ہیں انہیں دور کردے اور آنے والے کل میں اپنے وفاداروں کے ساتھ ہمارا انجام فرما۔جنت کے جو وعدے تونے ہم سے اپنے رسولوں کے ذریعے سے کیے اور ہم نے بن دیکھے انہیں مان لیا ، ان وعدوں کو ہم سے پورا کر۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس دنیا میں توہم تیرے نافرمانوں کی مخالفت مول لے لیں اور کل قیامت کے دن اپنی کمزوریوں کی بنا پر ہم تیری گرفت میں آجائیں۔ اس لیے اس روز ہمارے گناہوں کی بنا پر ہمیں رسوا مت کردیجیو۔

حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تک آدمی کسی گناہ یا قطع رحمی اوردعاکی قبولیت میں جلدی نہ کرے اس وقت تک بندہ کی دعا قبول کی جاتی رہتی ہے عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جلدی کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ کہے میں نے دعا مانگی تھی لیکن مجھے معلوم نہیں کہ میری دعا قبول ہوئی ہو ۔ پھر وہ اس بات سے نا امید ہو کر دعا مانگنا چھوڑ دیتا ہے۔ (صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2439)

حضرت نعمان بن بشر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دعا عین عبادت ہے۔ (ترمذی، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ)

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دعا عبادت کا مغز اور جوہر ہے۔ (ترمذی)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے یہاں کوئی چیز اور کوئی عمل دعا سے زیادہ عزیز نہیں۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جس کے لیے دعا کا دروازہ کھل گیا اس کے لیے رحمت کے دروازے کھل گئے۔ اور اللہ کو سوالوں اور دعاؤں میں سب سے زیادہ محبوب یہ ہے کہ بندے اس سے عافیت کی دعا کریں۔ (ترمذی)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اللہ سے نہ مانگے اس پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے۔ (ترمذی)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دعا کارآمد اور نفع مند ہوتی ہے ان حوادث میں بھی جو نازل ہوچکے ہیں اور ان میں بھی جو ابھی نازل نہیں ہوئے۔ اے خدا کے بندو! دعا کا اہتمام کرو۔ (ترمذی)

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمھارے پروردگار میں بدرجۂ غایت حیااور کرم کی صفت ہے۔ جب بندہ اس کے آگے مانگنے کے لیے ہاتھ پھیلاتا ہے تو اس کو شرم آتی ہے کہ ان کو خالی واپس کرے۔ (ترمذی، ابوداؤد)

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمھیں وہ عمل بتاؤں جو تمھارے دشمنوں سے تمھارا بچاؤ کرے اور تمھیں بھر پور روزی دلائے۔ وہ یہ ہے کہ اپنے اللہ سے دعا کیا کرو رات میں اور دن میں، کیونکہ دعا مومن کا خاص ہتھیار یعنی اس کی خاص طاقت ہے۔ (مسند ابویعلیٰ)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ سے مانگو اور دعا کرو تو اس یقین کے ساتھ کرو کہ وہ ضرور قبول کرے گا اور عطا فرمائے گا، اور جان لو اور یاد رکھو کہ اللہ اس کی دعا قبول نہیں کرتا جس کا دل اللہ سے غافل اور بے پروا ہو۔ (ترمذی)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی یہ چاہے کہ پریشانی اور تنگی کے وقت اللہ اس کی دعا قبول فرمائے، تو اس کو چاہیے کہ عافیت اور خوشحالی کے زمانہ میں دعا زیادہ کیا کرے۔ (ترمذی)

____________

 

B