ہمارا معاشرہ اپنی اساس میں ایک دینی معاشرہ ہے۔تاہم یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ تمام تر دینی جدو جہد کے باوجود بھی ہمارا معاشرہ ہرگزرتے دن کے ساتھ اخلاقی انحطاط کی طرف بڑھ رہا ہے۔فرد کی زندگی سے سکون اورمعاشرے سے جان مال آبرو کا تحفظ ختم ہوچکا ہے۔ہمارے ذاتی ،خاندانی، کاروباری اور سماجی تعلقات توڑ پھوڑ کا شکار ہیں۔روحانیت کا بحران ہے۔مادیت کا عروج ہے۔ مذہب پسندی اب تعصب اور ہٹ دھرمی کا نام بن چکی ہے۔ ہرگروہ خود کو حق اور دوسروں کو باطل سمجھتا ہے۔مسلمان ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔ ملاوٹ، عہد شکنی، رشوت سے لے کر بدعات و منکرات تک ہر چیز مسلمانوں میں پائی جاتی ہے۔ اگرکچھ نہیں پایا جاتا تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیر ت طیبہ اور آپ کے خلق عظیم ہیں جس کوسامنے رکھ کردینِ حق کی دعوت انسانیت کو دی گئی تھی۔
یہ وہ صورتحال ہے جس میں لمحہ بھر ٹھہر کر ہمیں سوچنا چاہیے کہ مسئلہ کہاں ہے۔ہمارے نزدیک مسئلہ اس سوال کے جواب میں پوشیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے کیا چاہتے ہیں۔ اس سوال کا جو جواب دوسروں نے دیا ہے، اس پر کوئی تبصرہ کیے بغیر ہم اس سوال کا وہ جواب آپ کے سامنے رکھیں گے جو خود اللہ تعالیٰ نے دیاہے۔مگر اس کے لیے ہم اپنی کسی تحقیق، اجتہاد ، رائے ، فہم اور غور فکر کو سامنے نہیں رکھیں گے بلکہ اللہ کے اپنے کلام کی روشنی میں ۔۔۔نہیں ۔۔۔نہیں۔۔۔کلام کی روشنی میں نہیں،بلکہ اس کے اپنے صریح الفاظ میں یہ بتائیں گے کہ اللہ تعالیٰ کیا چاہتے ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے بہت زیادہ ذہانت کی ضرورت نہیں ہے کہ اس سوال کا سب سے بہتر اور صحیح جواب قرآن پاک ہی دے سکتا ہے۔اور بلاشبہ قرآن کریم نے یہ جواب دیا ہے۔ ہماری خدمت صرف یہ ہے کہ ہم اس جواب کو بعینہٖ آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں۔
ابھی تک اللہ تعالیٰ کے نام پر جو کچھ کہا جاتا رہا ہے وہ سب جانتے ہیں۔ اس کتاب میںآپ پروردگار عالم کے اپنے الفاظ میں سن لیجیے کہ وہ آپ سے کیا چاہتا ہے۔آج تک اگر نہیں سنا ہے تو آج دل تھام کرسن لیجیے کہ آپ کا رب آپ سے کیا چاہتا ہے۔ صراط مستقیم کیا ہے۔اللہ کن باتوں کا حکم دیتا اور کن سے روکتا ہے۔جنت کی کامیابی کون پائے گا ۔رحمان کے بندو ں کی خصوصیات کیاہیں۔قرآن کن لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔ صالحین اور انبیا کا طریقہ کیا ہے۔ خداکی پسند و ناپسندکیا ہے۔ نیکی کیا ہوتی ہے۔ قرآن ان جیسے متعدداسالیب میں یہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے کیا چاہتے ہیں۔
یاد رکھیے قیامت کے دن خدا کے احتساب کی بنیادیں بہت سادہ ہوں گی۔اس کا ایک نمونہ شیطان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی اس گفتگو میں قرآن پاک میں موجود ہے، جو قصۂ آدم و ابلیس کے حوالے سے بیان ہوا ہے۔یعنی جب میرا حکم معلوم تھاتو تمھاری نگاہ کسی اور چیز کی طرف کیوں گئی؟ کیوں دوسری چیزیں تمھارے لیے اہم ہوگئیں؟کیوں میری بات کو تم نے قابل توجہ نہیں سمجھا؟کیوں میرے الفاظ تمھارے لیے مسئلہ نہیں بنے؟ تمھاری فکر، تمھارے اجتہاد، تمھاری رائے کا وزن کیا میرے صریح حکم سے زیادہ تھا ؟
ہم نہیں جانتے کہ جن لوگوں کا عمل اس مطالبہ کے مطابق نہ ہوا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے محفوظ کلام میں اور اپنے الفاظ میں، قیامت تک کے لیے لوگوں کے سامنے رکھا ہے، وہ اس روز کیا کریں گے۔
ہم یہ چاہتے ہیں کہ اگر، آپ کے دل میں جنت کی معمولی سی بھی خواہش ہے تو ایک دفعہ ضرور قرآن میں موجود خدا کے اس جواب کو پڑھیں جو وہ جنت میں جانے کے خواہش مندوں کو دیتاہے۔ہمیں یقین ہے کہ اس کے بعد ،جنت کے خواہشمند کسی شخص کی توجہ، کسی اور طرف نہیں ہوسکتی۔
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے دیا جلا کے سرِبام رکھ دیا
بہت سے علمی اور فکری نوعیت کے سوالا ت ہیں جو ابھی شاید کسی ذہن میں باقی ہوں۔ ہم ان کا جواب انشاء اللہ اس کتاب کے آخر میں ایک مفصل مضمون میں دیں گے۔
____________