’’اے لوگو!جوایمان لائے ہو،یہ بڑھتااورچڑھتاسودکھاناچھوڑدو۔
اوراللہ سے ڈرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔اس آگ سے بچوجوکافروں کے لیے مہیّاکی گئی ہے۔
اوراللہ اوررسول کی اطاعت کرو،توقع ہے کہ تم پررحم کیاجائے گا۔
دوڑکرچلواس راہ پر جو تمھارے رب کی بخشش اوراس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اورآسمانوں کے برابر ہے۔ یہ پرہیز گاروں کے لیے تیار ہے۔
ان کے لیے جو ہر حال میں اپنامال خرچ کرتے ہیں خواہ بدحال ہوںیاخوش حال۔
جوغصے کوپی جاتے ہیں۔
اوردوسروں کے قصورمعاف کردیتے ہیں۔۔۔ایسے نیک لوگ اللہ کوبہت پسندہیں۔۔۔
اورجن کاحال یہ ہے کہ اگرکبھی کوئی فحش کام ان سے سرزدہوجاتاہے یاکسی گناہ کاارتکاب کرکے وہ اپنے اوپرظلم کربیٹھتے ہیں تومعاًاللہ انھیںیادآجاتاہے اوراس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں۔۔۔کیونکہ اللہ کے سوااورکون ہے جوگناہ معاف کرسکتاہو ۔
اور وہ دیدہ ودانستہ اپنے کیے پراصرارنہیں کرتے۔
ایسے لوگوں کی جزا ان کے رب کے پاس یہ ہے کہ وہ ان کومعاف کردے گااورایسے باغوں میں انھیں داخل کرے گاجن کے نیچے نہریں بہتی ہونگی اوروہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ کیسا ا چھابدلہ ہے نیک عمل کرنے والوں کے لیے۔‘‘،(آل عمران 3: 130-136)
یہ مجموعہ آیات جنگ احد سے متعلق نازل ہونے والی آیات کے بیچ میں ہے۔ اس جنگ میں بعض مسلمانوں کی کمزوریوں کی بنا پر اہل ایمان کو وقتی شکست اٹھانی پڑی تھی۔اللہ تعالیٰ نے شکست کے بعد نازل ہونے والی تسلی کی ان آیات میں اس کردار کی خصوصیات بیان کرنا بھی ضروری سمجھا ، جو اگر ایک دفعہ پیدا ہوجائے تو ہر جنگ میں انسان فتحیاب ہوتا ہے۔خاص کر اس جنگ میں جو انسان کو جنت کے حصول کے لیے شیطان کے خلاف لڑنی ہوتی ہے۔یہ وہ جنت ہے جس کی وسعت کے سامنے آسمان و زمین کی وسعت کوئی چیز نہیں۔اس جنت کے حصول پر ان آیات میںیہ کہہ کر ابھارا گیا ہے کہ دوڑو اس جنت کی طرف جس کاعرض آسمان و زمین کے برابر ہے۔جنت کی اسی خصوصیت کو ہم نے عنوان بنالیا ہے۔
1۔سود سے پرہیز (اے لوگو!جوایمان لائے ہو،یہ بڑھتااورچڑھتاسودکھاناچھوڑدو)
وضاحت:سود خوری دوسروں پر ظلم کرکے اپنا پیسہ بڑھانے کا ایک طریقہ ہے۔ ان آیات میں خدا کی جنت کے حصول پر ابھارا گیا ہے اور اس کے حاصل کرنے کے لیے مطلوب خصوصیات گنوائی گئی ہیں۔ لیکن اس راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ حب مال ہے، اس لیے پہلے مرحلے پر یہ واضح کردیا گیا ہے کہ جس شخص کی زندگی کا مقصدہر قیمت پر مال کمانا ہو وہ کبھی اس راہ کا مسافر نہیں بن سکتا۔یہاں بلاشبہ سود خوری ہی کی ممانعت ہے، مگر آگے انفاق کے حکم کے اسلوب سے واضح ہوجائے گا کہ اصل مسئلہ حب مال کی ذہنیت کا خاتمہ ہے۔
حدیث: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:سوداتنابڑاگناہ ہے کہ اُس کے اگرسترحصے کیے جائیں توسب سے ہلکاحصہ اس کے برابرہوگاکہ آدمی اپنی ماں سے بدکاری کرے۔ (ابن ماجہ، رقم 2274)
حدیث: ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ سات ہلاکت میں ڈال دینے والی چیزوں سے بچو، عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ سات ہلاک کرنے والی چیزیں کونسی ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا اور جادو کرنا اور کسی نفس کا قتل کرنا جسے اللہ نے حرام کیا سوائے حق کے اور یتیم کا مال کھانا، سود کھانا، جہادمیں دشمن کے مقابلہ سے بھاگنا اور پاکدامن عورتوں پر بدکاری کی تہمت لگانا۔( صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 263)
2۔اللہ کا تقویٰ (اوراللہ سے ڈروتاکہ تم فلاح پاؤ۔اس آگ سے بچوجوکافروں کے لیے مہیّاکی گئی ہے)
وضاحت: اس کی وضاحت پیچھے گزرچکی ہے۔البتہ ان آیات میں اللہ کے تقویٰ یعنی اس کے ڈر کے ساتھ اس کی آگ سے بھی ڈرایا گیا ہے۔جس سے یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ خدا کا ڈر محض ایک اخلاقی ہدایت نہیں بلکہ اس ہدایت کو نظر انداز کرنے والوں کو ایک روز جہنم کی آگ کا سامنا کرنا ہوگا۔
حدیث: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تمھاری آگ جہنم کی آگ کا سترہواں حصہ ہے۔ عرض کیا یا رسول اللہ (جلانے کے لیے تو) یہی آگ کافی ہے۔ فرمایادوزخ کی آگ اس آگ سے انہتر گنا زیادہ کردی گئی ہے ۔ ہر جز دنیا کی آگ کی گرمی رکھتا ہے۔(متفق علیہ)
3۔اللہ اور رسول کی اطاعت ( اوراللہ اوررسول کی اطاعت کرو،توقع ہے کہ تم پررحم کیاجائے گا)
وضاحت:قرآن کے ان منتخب مقامات میں ہم اس کردار کو بیان کررہے ہیں جو اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے۔ اس کردار کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ جب کبھی اس کے سامنے اللہ اور اس کے رسول کا کوئی حکم آجاتا ہے تو انسان کا سر ہر حال میں جھک جاتا ہے۔یہاں کردار کی یہ خصوصیت سود خوری کے پس منظر میں بیان ہوئی ہے مگر مومن کے کردار کی یہ خوبی زندگی کے ہر اس موڑ پر ظاہر ہوتی ہے جہاں ایک طرف اللہ اور اس کے رسول کے احکام ہوں اور دوسری طرف اس کی خواہشات ، تعصبات یا مفادات ہوں۔یہی رویہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا ضامن ہے۔
حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ (صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 2007)
4۔تنگی و خوشحالی میں انفاق (جو ہر حال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں خواہ بدحال ہوںیاخوش حال)
وضاحت: ایک دفعہ پھر مال خرچ کرنے کو ایک مطلوب عمل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔انفاق کے بہت سے پہلو پیچھے بیان ہوچکے ہیں، مگر یہاں اس کا ایک خاص پہلو بیان کیا جارہا ہے۔ یعنی انفاق صرف اچھے حالات تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ تنگی کی صورت میں بھی انسان جنت کی خواہش میں اپنے مال کا ایک حصہ راہ خدا میں خرچ کرتا ہے۔
حدیث:حضرت عدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے ہر شخص سے اللہ براہ راست گفتگو کرے گا۔ اس وقت وہاں نہ تو اس کا کوئی ترجمان ہوگا اور نہ کوئی اوٹ ہوگی جو اسے چھپالے۔ یہ شخص اپنے دائیں جانب دیکھے گا تو سوائے اپنے اعمال کے اور کوئی اسے دکھائی نہ دے گا۔ پھر بائیں طرف تاکے گا تو ادھر بھی سوائے اپنے اعمال کے اور کوئی دکھائی نہ دے گا۔ پھر سامنے کی طرف نظردوڑائے گا تو ادھر بھی صرف دوزخ دیکھے گا۔ تو اے لوگو! آگ سے بچنے کی فکر کرو، ایک کھجور کا آدھا حصہ ہی دے کر سہی۔ (متفق علیہ)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قیام گاہ پہنچے اور دیکھا کہ ان کے پاس چھواروں کا ایک ڈھیر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے آئندہ کے لیے ذخیرہ بنایاہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال! کیا تمھیں اس کا ڈر نہیں ہے کہ کل قیامت کے دن آتش دوزخ میں تم اس کی تپش اور سوزش دیکھو۔ اے بلال! جو مال پاس آئے اس کو اپنے پراور دوسروں پر خرچ کرتے رہو اور عرش عظیم کے مالک سے قلت کا خوف نہ کرو۔ (البیہقی)
5۔غصے کو پی جانا (جوغصے کوپی جاتے ہیں)
وضاحت:انسان کو بارہا ناگوار باتوں اور ناپسندیدہ چیزوں پر غصہ آجاتا ہے۔ یہ اگر کردار کی مستقل صفت بن جائے تو بہت برے نتائج پیدا کرتا ہے۔ اس لیے بندہ مومن سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ غصہ کے مواقع پر بھی خود کو قابو میں رکھے گا۔
حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ ایک آدمی نے (جوغالباً مزاج کا تیز تھا) نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ مجھے نصیحت فرمائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غصہ نہ کیا کرو اس نے کئی بار عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہی فرماتے رہے کہ غصہ نہ کرو۔( صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1069)
حضرت عطیہ سعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: غصہ شیطانی اثر کا نتیجہ ہے، اور شیطان آگ سے پیدا کیاگیا ہے، اور آگ صرف پانی سے بجھتی ہے، تو جس کسی کو غصہ آئے، اسے چاہیے کہ وضوکرے۔ (ابوداؤد)
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جواپنی زبان کی حفاظت کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کے عیب پر پردہ ڈالے گا۔ اور جو اپنے غصے کو روکے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن عذاب کو اس سے ہٹائے گا۔ اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے گا، خدا اسے معاف کردے گا۔ (مشکوۃ)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی بندہ نے کسی چیز کا کوئی گھونٹ ایسا نہیں پیا جو اللہ کے نزدیک غصہ کے اس گھونٹ سے افضل ہو، جسے کوئی بندہ اللہ کی رضا کی خاطر پی جائے۔ (مسند احمد)
حضرت سہل بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جوشخص غصے کو پی جائے جبکہ اس میں اتنی طاقت ہے کہ اپنے غصے کے تقاضے کو وہ پورا کرسکتا ہے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ساری مخلوق کے سامنے اس کو بلائیں گے، اور اس کو اختیار دیں گے کہ حوارانِ جنت میں سے جس حور کو چاہے اپنے لیے انتخاب کرلے۔ (ترمذی، ابوداؤد)
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین چیزیں مومنانہ اخلاق میں سے ہیں۔ ایک یہ کہ جب کسی شخص کو غصہ آئے تو اس کا غصہ اس سے ناجائز کام نہ کرائے۔ دوسری یہ کہ جب وہ خوش ہوتو اس کی خوشی اسے حق کے دائرے سے باہر نہ نکالے۔ اور تیسرے یہ کہ قدرت رکھنے کے باوجود دوسرے کی چیز نہ ہتھیالے جس کے لینے کا اسے حق نہیں ہے۔ (مشکوۃ)
6۔لوگوں کو معاف کردینا (اوردوسروں کے قصورمعاف کردیتے ہیں)
وضاحت: غصہ بلاوجہ آئے یا صرف اپنی جھنجھلاہٹ کا ایک اظہار ہو تو بلاشبہ بہت ہی بری چیز ہے۔ مگر کبھی کبھار انسان کا غصہ اس لیے برحق ہوتا ہے کہ دوسروں نے واقعی غلطی کی ہوتی ہے۔ مگر ایسے میں بھی دین کی تعلیم یہ ہے کہ لوگوں کو معاف کردینا بہترین عمل ہے۔ یہی وہ خصوصیات ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کی پسندیدگی کی سند دی گئی ہے۔
حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے پوچھا: اے میرے رب! آپ کے نزدیک آپ کے بندوں میں سے کون سب سے پیارا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے کہا: وہ جو انتقامی کاروائی کی قدرت رکھنے کے باوجود معاف کردے۔ (مشکوۃ )
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں اپنے خادم کا قصور کتنی دفعہ معاف کروں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو کوئی جواب نہیں دیا اور خاموش رہے ۔ اس نے پھر وہی عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!میں اپنے خادم کو کتنی دفعہ معاف کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر روز ستر دفعہ۔ (ترمذی)
7۔فواحش اور گناہ کے ارتکاب کے بعد توبہ (اورجن کاحال یہ ہے کہ اگرکبھی کوئی فحش کام ان سے سرزدہوجاتاہے یاکسی گناہ کاارتکاب کرکے وہ اپنے اوپرظلم کربیٹھتے ہیں تومعاًاللہ انھیںیادآجاتاہے اوراس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں)
وضاحت: انسان کو امتحان کے لیے اس دنیا میں پیدا کیا گیا ہے۔ یہاں قدم قدم پر اس کے سامنے وہ گندگیاں آتی ہیں جو اس کے حیوانی اور نفسانی جذبات کے لیے تو بڑی پرکشش ہوتی ہیں، مگر اس کے اخلاقی وجود کو ناپاک کردیتی ہیں۔ ایک مومن اس کیچڑ سے بچنے کی کوشش کرتا ہے، مگر کبھی کبھار اس کا پاؤں اس میں پڑسکتا ہے۔ ایک بندہ مومن اس حادثے کے بعد غافل نہیں رہتابلکہ اس کیچڑ کو گندگی سمجھ کر فوراً توبہ کے آنسوؤں سے دھونے کی کوشش کرتا ہے۔جو شخص فواحش اور گناہوں کی گندگیوں کو گندگی نہ سمجھے وہ کبھی مومن نہیں ہوسکتا۔
حدیث: حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ پر اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے، جس کا جنگل میں کھویا ہوا اونٹ اسے پھر دوبارہ مل جائے۔ (صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1236)
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ رات کو اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ جس شخص نے دن میں کوئی گناہ کیا ہے وہ رات میں اللہ کی طرف پلٹ آئے اور دن میں وہ ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ رات میں اگر کسی نے گناہ کیا ہے تو وہ دن میں اپنے رب کی طرف پلٹے اور گناہوں کی معافی مانگے، حتیٰ کے سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہو۔ (مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی چاہو اور اس کی طرف پلٹ آؤ۔ مجھے دیکھو! میں دن میں سو سو بار اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں۔ (مسلم)
8۔گناہ پر اصرار سے بچنا (اور وہ دیدہ ودانستہ اپنے کیے پراصرارنہیں کرتے)
وضاحت:جنت کے حصول کے لیے گناہ پر توبہ ہی کافی نہیں بلکہ اس راستے کو بھی بدلنے کی ضرورت ہوتی ہے جو انسان کو گناہ کی سمت لے جاتا ہے۔ جو یہ نہ کرے وہ بار بار گناہ کرتا رہتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کبھی توبہ کی توفیق اگر نصیب ہوگئی تھی تو وہ بھی چھن جاتی ہے اور پھر انسان گناہ کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے۔
حدیث:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب کوئی بندہ کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگا دیا جاتا ہے۔ پھر وہ اگر اسے ترک کر دے یا استغفار کرے اور توبہ کرے تو اس کا دل صاف ہو جاتا ہے اور اگر دوبارہ گناہ کرے تو سیاہی بڑھا دی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ سیاہی اس کے دل پر چھا جاتی ہے اور یہی وہ ران ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے(کلا بل ران علی قلوبہم ما کانوا یکسبون، المطففین 83: 14) یعنی ہرگز نہیں بلکہ ان کے (برے) کاموں سے ان کے دلوں پر زنگ لگ گیا ہے) میں کیا ہے۔ ( جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1285)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرمایا کرتے تھے: اے اللہ مجھے اپنے ان بندوں میں سے کردے جو نیکی کریں تو خوش ہوں اور ان سے جب کوئی غلطی اور برائی سرزدہوجائے تو تیرے حضور میں استغفار کریں۔ (ابن ماجہ)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گناہ سے توبہ کر لینے والا گنہگار بندہ بالکل اس بندے کی طرح ہے جس نے گناہ کیا ہی نہ ہو۔ (ابن ماجہ)
____________