HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Rehan Ahmed Yusufi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

دنیا پرستی اور خدا پرستی کا فرق

’’لوگوں کے لیے یہ مرغوبات نفس۔۔۔عورتیں،اولاد،سونے چاندی کے ڈھیر،چیدہ گھوڑے، مویشی اورزرعی زمینیں۔۔۔بڑی خوش نمابنادی گئی ہیں،مگریہ سب دنیاکی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں۔
حقیقت میں جوبہترٹھکاناہے،وہ تواللہ کے پاس ہے۔
کہو:میں تمہیں بتاؤں کہ ان سے زیادہ اچھی چیزکیاہے؟جولوگ تقویٰٰ کی روش اختیار کریں، ان کے لیے ان کے رب کے پاس باغ ہیں،جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے،پاکیزہ بیویاں ان کی رفیق ہوں گی اوراللہ کی رضاسے وہ سرفراز ہوں گے۔ اللہ اپنے بندوں کے رویّے پرگہری نظررکھتاہے۔یہ وہ لوگ ہیں،جوکہتے ہیں کہ ’مالک!ہم ایمان لائے،ہماری خطاؤں سے درگزر فرما اور ہمیں آتش دوزخ سے بچالے۔‘
یہ لوگ صبرکرنے والے ہیں،
راستبازہیں،
فرمانبردار ہیں،
اورراہ خدا میں خرچ کرنے والے ہیں،
اوررات کی آخری گھڑیوں میں اللہ سے مغفرت چاہنے والے ہیں۔‘‘(آل عمران3: 14-17)


عنوان اور مطالبات

خدا نے انسان کے سامنے جو منصوبہ رکھا ہے اس میں اسے اپنی زندگی کا ایک بہت قلیل حصہ اس دنیا میں اور بقیہ ختم نہ ہونے والا حصہ آخرت میں گزارنا ہے۔ مگر بدقسمتی سے انسان اس دنیا کی زندگی کو ابدی سمجھ کر آخرت کو بھول جاتا ہے۔ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا کی وہ کیا چیزیں ہیں جن کی محبت میں مبتلا ہوکر انسان جنت کو بھول جاتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی بتایاگیا ہے کہ یہ جنت کن لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ہم نے عنوان مجموعہ آیات کے اس مقام سے اخذکیاہے جہاں اللہ تعالیٰ نے دنیا کو چند روزہ سرو سامان قرار دیا اور جو اللہ کے پاس ہے یعنی جنت اس کو زیادہ بہتر ٹھکانہ قرار دیا۔

1۔دنیا پرستی سے بچنا (لوگوں کے لیے یہ مرغوبات نفس۔۔۔عورتیں،اولاد،سونے چاندی کے ڈھیر،چیدہ گھوڑے، مویشی اورزرعی زمینیں۔۔۔بڑی خوش نمابنادی گئی ہیں)

وضاحت: پہلا مطالبہ یہاں یہ ہے کہ انسان دنیا پرستی سے بچے۔ان آیات میں جن مرغوباتِ نفس کا ذکر ہے وہ نزول قرآن کے وقت کے اعتبار سے ہے۔ آج کے لحاظ سے انہیں اس طرح بیا ن کیا جاسکتا ہے کہ انسان کے لیے صنفی کشش، اہل و عیال، مال و دولت، کاروبار اور جائیداد، گاڑی اور اسٹیٹس وغیرہ محبوب بنادیے گئے ہیں۔ خیال رہے کہ یہاں یہ نہیں کہا جارہا ہے کہ یہ چیزیں حرام یا ناجائز ہیں۔ صرف ان کی ’تزئین ‘پر تنقید ہے۔ یعنی یہ چیزیں نگاہوں میں اس طرح بس جائیں کہ خدا، اس کی جنت اور اس کی رضا سے انسان غافل ہوجائے۔ اور اس میں کیا شک ہے کہ ان چیزوں سے بڑھ کر انسان کو کوئی چیز خدا کی یاد سے غافل نہیں کرتی۔چنانچہ اس آیت کا مطالبہ ان چیزوں کو چھوڑنا نہیں، بلکہ ان میں پڑ کر غافل ہوجانے سے بچنا ہے۔

حدیث: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ بازار سے گزر تے ہوئے کسی بلندی سے مدینہ منورہ میں داخل ہو رہے تھے اور صحابہ

کر ام رضی اللہ تعالیٰ عنہم آپ کے دونوں طرف تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیڑ کا ایک بچہ جو چھوٹے کانوں والا تھا اسے مرا ہوا دیکھا آپ نے اس کا کان پکڑ کر فرمایا تم میں سے کون اسے ایک درہم میں لینا پسند کرے گا؟ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا ہم میں سے کوئی بھی اسے کسی چیز کے بدلے میں لینا پسند نہیں کرتا اور ہم اسے لے کر کیا کریں گے؟ آپ نے فرمایا کیا تم چاہتے ہو کہ یہ تمھیں مل جائے؟ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا اللہ کی قسم اگر یہ زندہ بھی ہوتا تو پھر بھی اس میں عیب تھا کیونکہ اس کا کان چھوٹا ہے حالانکہ اب تو یہ مردار ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی قسم اللہ کے ہاں یہ دنیا اس سے بھی زیادہ ذلیل ہے جس طرح تمہارے نزدیک یہ مردار ذلیل ہے۔ (صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2921)

2۔خدا کی رضا اور جنت کو مقصود بنانا (کہو:میں تمہیں بتاؤں کہ ان سے زیادہ اچھی چیزکیاہے؟ جو لوگ تقویٰٰ کی روش اختیار کریں، ان کے لیے ان کے رب کے پاس باغ ہیں،جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے،پاکیزہ بیویاں ان کی رفیق ہوں گی اوراللہ کی رضاسے وہ سرفراز ہوں گے)

وضاحت: ان آیات کا دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ انسان ہر لحظہ یاد رکھے کہ خدا کی نظر میں یہ دنیا انتہائی حقیر اور معمولی جگہ ہے۔ اصل زندگی، اصل عیش اور اصل کامیابی آخرت کی ہے جہاں نہ صرف دنیا کی ساری نعمتیں آخری درجہ میں جمع کردی جائیں گی بلکہ وہ نعمتیں بھی دی جائیں گی جو انسان کے تصور سے باہر ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ نعمتیں رب کی رضا کے ساتھ ملیں گی۔چنانچہ رب کی رضا اور اس کی جنت کی خواہش ہی بندہ مومن کی زندگی کا مقصود ہونا چاہیے۔یہی دین کا بنیادی مطالبہ ہے جسے یہاں بیان کیا گیا ہے۔جنت جن لوگوں کو ملے گی ان کی صفات آگے آرہی ہیں۔

احادیث: حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جنتیوں کو مخاطب کرکے فرمائیں گے: اے اہل جنت! وہ عرض کریں گے: اے ہمارے رب! ہم حاضر ہیں آپ کی بارگاہ قدس میں اور ساری خیر اور بھلائی آپ ہی کے قبضے میں ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ ان بندوں سے فرمائیں گے: تم خوش ہو؟ یہ بندے عرض کریں گے: اے پروردگار! جب آپ نے ہمیں وہ کچھ نصیب فرمایا جو اپنی کسی مخلوق کو نہیں دیا، تو ہم کیوں راضی اور خوش نہ ہوں گے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: کیا میں تمھیں اس سب سے اعلیٰ وافضل ایک چیز اور دوں؟ وہ بندے عرض کریں گے: پروردگار! وہ کیا چیز ہے جو اس جنت اور اس کی ان نعمتوں سے بھی افضل ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: میں تم کو اب اپنی دائمی اور ابدی رضا مندی اور خوشنودی کا تحفہ دیتا ہوں۔ اس کے بعد اب میں کبھی تم پر ناراض نہ ہوں گا۔ (بخاری، مسلم)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ کچھ تیار کررکھا ہے جسے کسی آنکھ نے نہیں دیکھا ہے، جس کے بارے میں کسی کان نے نہیں سناہے اور نہ کوئی انسان کبھی اس کا تصور کرسکا ہے۔ تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو ’’پھر جیسا کچھ آنکھ کی ٹھنڈک کا سامان ان کے اعمال کی جزا میں، ان کے لیے چھپا کر رکھا گیا ہے اس کی کسی متنفس کو خبر نہیں ہے‘‘۔ (السجدہ32:17) (بخاری، مسلم)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، یہ دونوں بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی طرف سے ایک پکارنے والا جنت میں جنتیوں کو مخاطب کرکے پکارے گا کہ یہاں صحت ہی تمھارا حق ہے، اور تندرستی ہی تمھارے لیے مقدر ہے، اس لیے اب تم کبھی بیمار نہ پڑوگے اور یہاں تمھارے لیے زندگی اور حیات ہی ہے اس لیے اب تمھیں کبھی موت نہ آئے گی اور تمھارے واسطے جوانی اور شباب ہی ہے، اس لیے اب کبھی تمھیں بڑھاپا نہیں آئے گا، اور تمھارے واسطے یہاں چین اور عیش ہی ہے، اس لیے اب کبھی تمھیں کوئی تنگی اور تکلیف نہ ہوگی۔ (مسلم)

3۔تقویٰ اور ایمان (یہ وہ لوگ ہیں،جوکہتے ہیں کہ ’مالک!ہم ایمان لائے،ہماری خطاؤں سے درگزر فرما اور ہمیں آتش دوزخ سے بچالے۔)

وضاحت: تقویٰ اور ایمان کی تفصیلات پہلے گزرچکی ہیں۔ البتہ یہاں یہ پہلو اضافی ہے کہ یہ دونوں مل کر ایک طرف عمل صالح میں ڈھلتے ہیں تو دوسری طرف انسان میں فخر و غرور اور غفلت وبے پروائی کے بجائے اپنے عمل کو کچھ نہ سمجھ کر رب کے سامنے گڑگڑانے کی نفسیات پیدا کرتے ہیں۔ایسا مومن اپنے اعمال کو دیکھنے کے بجائے اپنے گناہوں کی معافی اور جہنم کے عذاب سے بچنے کی فکر زیادہ کرتا ہے۔ جبکہ غافل لوگ نیک عمل سے غافل رہتے ہیں اور خود کو جنت کا حقدار سمجھتے ہیں۔

حدیث: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں نے جہنم کی آگ سے زیادہ خطرناک چیز کوئی نہیں دیکھی کہ جس سے بھاگنے والا سورہا ہے۔ اور جنت سے زیادہ عمدہ چیز نہیں دیکھی جس کا چاہنے والا بھی سو رہا ہے۔ (ترمذی)

4۔صبر (یہ لوگ صبرکرنے والے ہیں)

وضاحت: یہاں سے اس کردار کے نمایاں اوصاف بیان کیے جارہے ہیں جو تقویٰ و ایمان پیدا کردیتے ہیں۔ یہ چونکہ دنیا پرستی کے تقابل میں آرہے ہیں اس لیے ان میں ایک خاص مفہوم پیداہورہا ہے۔ جیسے صبر یہاں خاص ان معنوں میں ہے کہ دنیوی خواہشات کو قابو میں رکھنے کے لیے صبر بنیادی صفت ہے۔ اسی لیے اسے سرفہرست رکھا گیا ہے۔جو یہ نہ کرے وہ ان چیزوں ہی کو اپنا مقصود بنالیتاہے جن کا ذکر اوپر ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں اس کی خواہشاتِ نفسانی اس کا معبود بن جاتی ہیں،(الفرقان:43)

حدیث:عبدالرحمن ابن ابی لیلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومن آدمی کا بھی عجیب حال ہے کہ اس کے ہر حال میں خیر ہی خیر ہے اور یہ بات کسی کو حاصل نہیں سوائے اس مومن آدمی کے کہ اگر اسے کوئی راحت بھی پہنچی تو اس نے شکر کیا تو اس کے لئے اس میں بھی ثواب ہے اور اگر اسے کوئی نقصان پہنچا اور اس نے صبر کیا تو اس کے لئے اس میں بھی ثواب ہے۔( صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 3003)

5۔صدق (راستبازہیں)

وضاحت: صدق و سچائی یوں تو ہر اعتبار سے ایک اعلیٰ صفت ہے مگر یہاں دنیا پرستی کے تقابل میں اس کا ذکر یہ واضح کررہا ہے کہ جو شخص دنیا کو اپنا مقصود بنالے وہ سب سے بڑھ کر سچائی کا گلا گھونٹ دینے والا بن جاتا ہے۔ اس لیے کہ یہ دنیا خود ایک دھوکے کی جگہ ہے اور اس میں کامیابی کے لیے اکثر دھوکہ ،جھوٹ اور دو عملی کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ جس کی توقع کسی طور ایک بندہ مومن سے نہیں کی جاسکتی۔

حدیث:حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم پر سچ بولنا لازم ہے کیونکہ سچ بولنا نیکی کا راستہ دکھاتا ہے اور نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے اور انسان لگاتار سچ بولتا رہتا ہے اور سچ بولنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے ہاں سچا لکھ دیا جاتا ہے اور تم لوگ جھوٹ بولنے سے بچو کیونکہ جھوٹ برائی کا راستہ دکھاتا ہے اور برائی دوزخ کا راستہ دکھاتی ہے اور انسان لگاتار جھوٹ بولتا رہتا ہے جھوٹ بولنے کا متمنی رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے ہاں جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔ (صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2142)

سفیان بن اسید حضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ سب سے بڑی خیانت یہ ہے کہ تم اپنے بھائی سے کوئی بات کہو اور وہ تمھاری بات کو سچ سمجھے، حالانکہ تم نے جو بات اس سے کہی وہ جھوٹی تھی۔ (ابوداؤد)

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سچا اور امانت دار سوداگر انبیاء، صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہوگا۔ (ترمذی)

6۔قنوت یا فرمانبرداری (فرمانبردار ہیں)

وضاحت: قنوت اصل میں رب کی بندگی کے احساس میں جینا ہے۔ اسے حاضر و ناظر جان کر اس کے سامنے جھکے رہنا ہے۔یہی احساس انسان کو سب سے بڑھ کر نفسانی خواہشات کو معبود بنالینے سے روک دیتا ہے۔یہ احساس ہر نیکی کی جڑ ہے اور ہربرائی سے انسان کو بچاتا ہے۔یہ احساس عبادات ہی میں نہیں بلکہ معاملات میں بھی انسان کو محتاط رکھتا ہے۔ایسا مومن مسجد ہی میں نہیں بلکہ بازار اور گھر میں بھی اللہ کی مقرر کردہ حدود کی پابندی کرتا ہے۔ اس کی دنیا کبھی اس کی آخرت کا نقصان نہیں کرتی۔گویا فرمانبرداری ایمان کا اصل چہرہ ہے جو عمل کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔

حدیث: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: جانتے ہو اللہ واحد پر ایمان لانے کا کیا مطلب ہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی بہتر علم رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ آدمی اس حقیقت کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، اور نماز ٹھیک طریقے پر اداکرے اور زکوۃ دے اور رمضان کے روزے رکھے۔ (مشکوۃ)

7۔انفاق (اورراہ خدا میں خرچ کرنے والے ہیں،)

وضاحت: اس کی وضاحت پیچھے ہوچکی ہے۔ مگر یہاں دنیا پرستی سے متضادجس کردار کا یہ صفت حصہ ہے ، وہاں اس کی موجودگی یہ بتاتی ہے کہ یہ بندہ اپنے پیسے سے دنیا نہیں بلکہ جنت خریدنے میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔چنانچہ وہ دنیا کے لیے اتنا خرچ کرتا ہے جتنا یہاں رہنا ہے اور آخرت کے لیے اتنا جتنا وہاں رہنا ہے۔

حدیث:حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے آدم کے فرزندوں! اللہ کی دی ہوئی دولت جو اپنی ضرورت سے فاضل ہو اس کا راہ خدا میں صرف کردینا تمھارے لیے بہتر ہے اور اس کا روکنا تمھارے لیے براہے، اور ہاں گزارے کے بقدر رکھنے پر کوئی ملامت نہیں۔ اور سب سے پہلے ان پر خرچ کرو جن کی تم پر ذمہ داری ہے۔ (مسلم)

8۔تہجد میں استغفار (اوررات کی آخری گھڑیوں میں اللہ سے مغفرت چاہنے والے ہیں)

وضاحت: پیچھے ایمان و تقویٰ کے ذیل میں اس صفت کی وضاحت ہم نے کردی ہے۔ یہاں اس بات کو دہراکر یہ اشارہ دیا جارہا ہے کہ انسان کتنی بھی کوشش کرلے یہ دنیا بہرحال انسان کو غفلت اور گناہ میں مبتلا کرتی ہے۔ سو ایک بندہ مومن کا کام یہ نہیں کہ وہ اپنے گناہوں کو معمولی سمجھے۔ بلکہ وہ اس معاملے میں اتنا حساس ہوجائے کہ خدا کے حضورمعافی کے لیے ان اوقات میں حاضر ہو جس میں معافی ملنے کا سب سے زیادہ امکان ہوتا ہے۔یعنی سحر کی وہ ساعتیں جب نہ دنیوی معاملات کی الجھنیں ہوتی ہیں، نہ بندے کے آنسوؤں کو دیکھنے والی نگاہیں اور نہ اس کی آہوں کو سننے والے کان۔ کوئی ہوتا ہے تو صرف رب کی رحمت اور اس کی مغفرت بندے کے ساتھ ہوتی ہے۔

حدیث: ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارا رب تبارک وتعالیٰ ہر رات کو آسمان دنیا کی طرف اترتا ہے، جس وقت کہ آخری تہائی رات باقی رہتی ہے، اور فرماتا ہے کہ کون ہے جو مجھے پکارے، تو میں اس کی پکار کو قبول کروں؟ کون ہے جو مجھ سے مانگے تو میں اسے دوں؟ کون ہے جو مجھ سے مغفرت چاہے تو میں اسے بخش دوں۔ (صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1078)

____________

 

B