HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Rehan Ahmed Yusufi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

نیکی کیا ہے

’’نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کرلیے یامغرب کی طرف،
بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کواوریوم آخراورملائکہ کواوراللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اوراس کے پیغمبروں کودل سے مانے۔
اورمال کی محبت کے باوجود اسے رشتے داروں اور یتیموں، مسکینوں ،مسافروں،مددکے لیے ہاتھ پھیلانے والوں اورغلاموں کی رہائی پرخرچ کرے۔
اورنمازقائم کرے اورزکوٰۃ دے۔
اورنیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہدکریں تواسے وفاکریں۔
اورتنگی اورمصیبت کے وقت میں اورحق وباطل کی جنگ میں صبرکریں۔یہ ہیں راستبازلوگ اوریہی لوگ متقی ہیں۔‘‘(البقرۃ 2: 177)


عنوان اور مطالبات

آیت کی ابتدا ہی کو ہم نے عنوان بنالیا ہے۔سورہ بقرہ کا یہ وہ مقام ہے جہاں یہود و نصاریٰ کو دنیا کی رہنمائی کے منصب سے معزول کیے جانے کے بعد مسلمانوں کو یہ منصب تفویض کیا گیا ہے اور پھر ان کو شریعت کے احکام دیے جارہے ہیں۔ اس آیت میں اصول کے طور پر یہ بیا ن کیا جارہا ہے کہ سابقہ امتیں شریعت کے معاملات میں ظاہرپرستی کا شکار ہوگئیں۔ انہوں نے اللہ کی دی ہوئی شریعت کو چھوڑ کر اپنے خود ساختہ تصورات اور اعمال کو اہم تر بنادیا۔ پھر ان میں اتنا غلو کیا کہ نیکی و بدی کا معیار ہی ان کے خو دساختہ تصورات بن گئے۔ چنانچہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ خود بیان کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک اصل میں نیکی کیا ہوتی ہے۔وہ کیا معیارات ہیں جن کی بنیاد پر ایک شخص خدا کا وفادار قرار پاتا ہے۔چنانچہ آیت کے اختتام پر یہ بتادیا گیا ہے کہ یہی لوگ ایمان کے دعویٰ میں سچے ہیں اور یہی لوگ اصل میں متقی ہیں۔

1۔ظاہرپرستی کی نفی (نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کرلیے یامغرب کی طرف)

وضاحت: اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو کچھ ظاہری اعمال کا پابند بنایا ہے۔ مثلاً نماز توحید کے اقرار کا سب سے بڑا عملی مظہر ہے۔ تاہم مذہبی لوگ اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے اعمال پر مطمئن نہیں رہتے بلکہ اپنی طرف سے ان پر اضافے کرتے چلے جاتے ہیں۔یہاں پر اصل شریعت کی نہیں بلکہ اضافوں کی نفی کی جارہی ہے۔ جیسا کہ یہود ونصاریٰ کواللہ کی عبادت کا حکم دیا گیا اور اس کے لیے بیت المقدس کو قبلہ بنایا گیا۔لیکن ان کے لیے رب کی عبادت سے زیادہ یہ بات اہم ہوگئی تھی کہ بیت المقدس کا مشرقی حصہ قبلہ ہے یا مغربی حصہ۔ایسے رویوں کے نتیجے میں لوگوں میں بدعات عام ہوجاتی ہیں، شریعت مسخ ہوجاتی ہے ، اس کی روح اور مقاصد فراموش کردیے جاتے ہیں۔ اسی لیے یہ واضح کردیا گیا ہے کہ خدا سے وفاداری اور نیکی کا معیار کبھی بھی اس طرح کا ظاہر پرستانہ رویہ نہیں ہوسکتا۔

حدیث: حضرت ابوبراء رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ یہ آیت ہمارے متعلق نازل ہوئی۔ انصار جب حج کر کے واپس ہوتے تو اپنے گھروں کے دروازے سے داخل نہ ہوتے بلکہ گھروں کی پشت کی طرف سے داخل ہوتے، ایک انصاری شخص آیا اور اپنے گھر کے دروازے سے داخل ہوا تو اسے عار دلائی گئی، تو یہ آیت نازل ہوئی کہ نیکی کی بات یہ نہیں ہے کہ تم اپنے گھروں میں ان کی پشت سے آؤ بلکہ نیکی یہ ہے کہ گناہ سے بچو اور تم گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ۔ (صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1688)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ تمھارے جسموں اورتمھاری صورتوں اورتمھارے صرف ظاہری اعمال کو نہیں دیکھتا بلکہ تمھارے دلوں کو دیکھتا ہے۔(مسلم)۔

2۔ایمان باللہ اور اس کے اجزا (بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کواوریوم آخراورملائکہ کواوراللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اوراس کے پیغمبروں کودل سے مانے)

وضاحت:یہاں ایمان سے مراد ایمان مفصل اور ایمان مجمل کو زبانی یاد کرنا نہیں۔ بلکہ وہ حقیقی ایمان ہے جس کے متعلق اقبال نے کہا تھا۔

تو عرب ہو یا عجم ہو تیر ا لا الہ الا
لغت غریب جب تک تیرا دل نہ دے گواہی

یعنی جب تک لاالہ الا اللہ سچے دل سے نہ کہا جائے ایک اجنبی زبا ن کا جملہ ہی رہے گا۔اللہ پر ایمان کا مطلب یہ ہے کہ اسے تنہا معبود اور کارساز سمجھا جائے۔ ہر عبادت کے لیے اس کی طرف رخ اور ہر مشکل میں اسی سے مدد طلب کی جائے۔خود کو اس کے حوالے کردیا جائے۔

ایمان اصل میں اللہ ہی پر ایمان کا نام ہے۔ باقی ایمانیات اسی کے اجزا اور فروع ہیں۔جیسے آخرت پر ایمان کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جس امتحان میں ڈالا ہے ایک روز وہ اس کا نتیجہ بھی سنائیں گے اور اسی کی بنیاد پر ابدی جنت یا جہنم میں رہنا ہوگا۔ملائکہ پر ایمان اس بات کا اظہار ہے کہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ ہر چند کہ غیب میں ہیں، مگر پوری طرح دنیا کے معاملات کو اپنی گرفت میں رکھتے ہیں۔دنیا میں صرف انہی کا حکم نافذ ہوتا ہے جس پرایک نوری مخلوق یعنی فرشتے عملدرآمد کراتے ہیں۔ کتابوں اور انبیا پر ایمان یہ بتاتا ہے کہ باقی مخلوقات کے برعکس جو ہر حال میں ان کے حکم پر عمل کرنے کے پابند ہیں، انسانوں کو مہلت عمل دی گئی ہے اور اس مہلت عمل میں صحیح راہ بتانے کے لیے وہ اپنی کتابیں اور نبی بھیجتے رہتے ہیں۔ آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آخری کتاب قرآن ہے۔ جو قیامت تک اللہ کی مرضی سے انسانوں کو آگاہ کرتے رہیں گے۔

حدیث: ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے، یکایک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ایک شخص آیا اور اس نے (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) پوچھا کہ ایمان کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر اور اسکے فرشتوں پر اور (آخرت میں) اللہ کے ملنے پر اور اللہ کے پیغمبروں پر ایمان لاؤ اور قیامت کا یقین کرو۔( صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 49)

3۔اپنے مال کو دوسروں پر خرچ کرنا (اورمال کی محبت کے باوجود اسے رشتے داروں اور یتیموں، مسکینوں ،مسافروں،مددکے لیے ہاتھ پھیلانے والوں اورغلاموں کی رہائی پرخرچ کرے)

وضاحت:انفاق کے بعض نئے پہلو اس آیت میں بیان کیے گئے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ یوں تو مال ہر حال میں انسان کو محبوب ہوتاہے مگر تنگی اور بدحالی میں یہ محبوب تر ہوجاتا ہے۔ ایسے حالات میں انفاق زیادہ اجر کا باعث ہے۔یعنی جتنے زیادہ مشکل حالات میں مال خرچ کیا جائے گا اتنا ہی اجر بڑھ جائے گا۔اسی بات کی یہاں تلقین کی گئی ہے۔

اس انفاق کے سب سے زیادہ مستحق قرابت دار ہیں۔ پھر یتیم و مسکین جیسے محروم لوگ۔ مسافر چونکہ ایک نوع کی بے کسی میں ہوتا ہے، اس لیے اس پر خرچ کرنے کی بڑی فضیلت ہے، چاہے وہ تنگدست نہ بھی ہو۔ اگر تنگدست ہونے کی صورت میں ہی مسافروں پر خرچ کرنے کی تلقین ہوتی تو مساکین سے الگ ان کا ذکر کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔اسی طرح سائلین یعنی مانگنے والوں کا الگ سے ذکر کیا گیا ہے۔مساکین سے الگ ان کا ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جو لوگ مانگ بیٹھیں تو ان کے حال کی تحقیق کی زیادہ ضرورت نہیں۔ اگر ممکن ہو تو ان کی مدد کردی جائے وگرنہ نرمی سے معذرت کرلی جائے۔ وہ جھوٹ بولیں گے تو اس کا وبال انہی پر ہوگا۔البتہ جن لوگوں کے بارے میں صاف معلوم ہو کہ یہ پیشہ ور اور دھوکہ باز ہیں، وہ اس مدد میں شامل نہیں ہیں۔آخری چیز لوگوں کو غلامی سے چھڑانا ہے۔ آج کل کے دور میں یہ مسئلہ تو نہیں لیکن کسی شخص پرکوئی مصیبت آجائے، قرض ،بیماری، حادثہ یا کسی اور نوعیت کی مشکل میں گرفتار لوگوں پر انفاق کرنا اسی مد میں شامل ہے۔

حدیث:حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مال میں سوائے زکوۃ کے اور بھی حق ہیں پھر آپ نے لیس البران لو لو وجوھکم الایۃ (’’نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے ۔۔۔) تلاوت فرمائی۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صدقہ اللہ کے غضب کو ٹھنڈاکرتا ہے اور بری موت کو دفع کرتا ہے۔ (ترمذی)

مرثد بن عبداللہ تابعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ کرام نے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی ہے کہ قیامت کے دن مومن پر اس کے صدقہ کا سایہ ہوگا۔ (مسند احمد)

4۔نماز اور زکوٰۃ (اورنمازقائم کرے اورزکوٰۃ دے)

وضاحت:یہاں جس طور پر ان دو عظیم عبادات کا ذکر ہوا ہے۔یعنی انفاق کے بعد زکوٰۃ اور ایمان کے بعد نماز کو بیان کیا گیا ہے، اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں انہیں ایمان و انفاق کی قانونی شکل کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔یعنی نماز اللہ پر ایمان کے اظہار اور زکوۃ انفاق کی قانونی شکل ہے۔ اسی سے یہ بات واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ دین کے ہر ظاہری حکم کی نفی نہیں کرتے بلکہ ان اضافوں کی نفی کرتے ہیں جو لوگ خود گھڑ لیتے ہیں۔وگرنہ شریعت کے احکام کی پابندی ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔اس سے ان لوگوں کی نفی بھی مقصود ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر ایمان رکھتے ہیں تو نماز کی کیا ضرورت ہے۔جو قانون اللہ تعالیٰ نے خود مقرر کیا ہے، اس سے کم کوئی چیز وہ قبول نہیں کریں گے۔

حدیث:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ارشاد فرمایا: بتلاؤ اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر نہر جاری ہو جس میں روزانہ پانچ دفعہ وہ نہاتا ہو تو کیا اس کے جسم پر کچھ میل کچیل رہے گا؟ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا کہ کچھ بھی نہیں باقی رہے گا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بالکل یہی مثال پانچ نمازوں کی ہے، اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے خطاؤں کو دھوتا اور مٹاتاہے۔ (بخاری، مسلم)

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ: جس مال میں سے زکوۃ نہ نکالی جائے اور اسی میں ملی جلی رہے تو وہ مال کو تباہ کرکے چھوڑتی ہے۔ (مشکوۃ)

5۔عہد کو پورا کرنا (اورنیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہدکریں تواسے وفاکریں)

وضاحت: ایفائے عہد انسانی کردار کی اعلیٰ ترین خصوصیت ہے، جسے عام طور پر کوئی مذہبی عمل نہیں سمجھا جاتا۔ مگر ہمارا دین اسے نیکی کے لازمی مظاہر میں شامل کرتا ہے۔ایفائے عہد کوئی معمولی شے نہیں۔ خدا اور بندوں کے سارے حقوق اصل میں اخلاقی اور قانونی نوعیت کے معاہدے ہوتے ہیں۔اس لیے جس نے اس ایک صفت کو اختیار کرلیا وہ باقی تمام معاملات میں ٹھیک ہوجاتا ہے۔ یہ صفت بار بار آچکی ہے مگر یہاں اس کا یہ پہلو بہت اہم ہے کہ وہ جب عہد کرلیتے ہیں تو لازماً اسے پورا کرتے ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ باقاعدہ عہد کرنے کے بعد اس کی خلاف ورزی کا تصور بھی ان کے لیے ممکن نہیں۔ چاہے کتنی بھی مشقت اس کے لیے انہیں جھیلنی پڑے۔اس کی ایک مثال صلح حدیبیہ کے موقع پر ابو جندل پر ہونے والے مظالم کے باجود ان کو دل پر پتھر رکھ کر کفار کے حوالے کرنے کا واقعہ ہے۔

حدیث: جس شخص میں عہد کی پاسداری نہیں اس میں کوئی دینداری نہیں ہوتی (مسنداحمد، رقم12406)

6۔صبر (اورتنگی اورمصیبت کے وقت میں اورحق وباطل کی جنگ میں صبرکریں)

وضاحت: ایفائے عہد کے ساتھ یہ انسانی کردار کی دوسری اعلیٰ ترین خوبی ہے۔یہاں صبر کے تین مواقع کا ذکر ہے۔ ایک مالی تنگی ، دوسرے بیماری، اور تیسرے جنگ۔ یہی تین مواقع زندگی میں مشکل ترین ہوتے ہیں۔جو ان مواقع پر آنے والی سختیوں میں ثابت قدم رہا، کفر و شرک ، نافرمانی اور بد اخلاقی سے محفوظ رہا۔ نیکی اور پرہیز گاری پر قائم رہا۔اس کے لیے بلاشبہ دنیا ہی میں جنت کی بشارت قرآن نے باربار دی ہے۔ اور کئی جگہ جنت کو صرف اس ایک صفت یعنی صبر کا بدلہ قرار دیا گیا ہے۔

حدیث: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو بندہ کسی جانی یا مالی مصیبت میں مبتلا ہو اور وہ کسی سے اس کا اظہار نہ کرے اور نہ لوگوں سے شکوہ شکایت کرے تو اللہ کا ذمہ ہے کہ وہ اس کو بخش دیں گے۔ (الطبرانی فی الاوسط)

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے بعض انصاری صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ طلب فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو عطا فرمایا ۔انہوں نے پھر مانگا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو عطا فرمایا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس موجود مال ختم ہوگیا۔ تو فرمایا میرے پاس جو کچھ ہوتا ہے اس کو ہرگز تم سے بچا کر نہ رکھوں گا۔ جو شخص سوال سے بچتا ہے اللہ اس کو بچاتا ہے اور جو استغناء اختیار کرتا ہے اللہ اسے غنی کر دیتا ہے اور جو صبر کرتا ہے اللہ اسے صبر دے دیتا ہے جو کچھ تم میں سے کسی کو دیا جائے وہ بہتر ہے اور صبر سے بڑھ کر کوئی وسعت نہیں۔( صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 2417)

____________

 

B