’’بنی اسرائیل سے ہم نے پختہ عہدلیاتھاکہ اللہ کے سواکسی کی عبادت نہ کرنا۔
اور ماں باپ ،رشتے داروں،یتیموں اورمسکینوں کے ساتھ نیک سلوک کرنا۔
اورلوگوں سے بھلی بات کہنا۔
اورنمازقائم کرنااورزکوٰۃدینا،مگرتھوڑے آدمیوں کے سواتم سب اس عہدسے پھرگئے اور اب تک پھرے ہوئے ہو۔
پھرذرایاد کرو،ہم نے تم سے مضبوط عہدلیاتھاکہ آپس میں ایک دوسرے کاخون نہ بہانا اورنہ ایک دوسرے کوگھرسے بے گھرکرنا۔تم نے اس کااقرارکیاتھا،تم خوداس پرگواہ ہو۔ ‘‘ (البقرہ 2: 84-83)
اللہ کا دین ہر دور میں ایک ہی رہا ہے۔ اس کی اصل بنیاد ایمان و اخلاق کی دعوت ہے۔ یہی بات ان آیات میں بنی اسرائیل کے حوالے سے بیان کی جارہی ہے کہ ان کے سامنے بھی اصل دعوت ایمان و اخلاق ہی کی رکھی گئی تھی۔اسی عہد کو ہم نے بطور عنوان کے تجویز کردیا ہے۔اس عہد کے اہم ترین مطالبات درج ذیل ہیں۔
1۔ایک اللہ ہی کی عبادت (’’اسرائیل کی اولادسے ہم نے پختہ عہدلیاتھاکہ اللہ کے سواکسی کی عبادت نہ کرنا)
وضاحت: توحید دین کی اصل ہے۔اللہ تعالیٰ کو لوگوں نے ہر دور میں مانا ہے مگر اس کے ساتھ عبادت میں کسی نہ کسی پہلو سے دوسروں کو شریک کردیا ہے۔ لوگ بہت سی تاویلات کرکے اپنی عبادت اور محبت کا رخ غیر اللہ کی طرف موڑ دیتے ہیں۔ یہ بنی اسرائیل کے ہاں بھی ہوتا تھا۔ چنانچہ اسی رویے سے بچنے کا ان سے عہد لیا گیا تھا۔عبادت میں صرف نماز ہی شامل نہیں بلکہ ہر نوعیت کے مراسم عبودیت کو اللہ تعالیٰ کے لیے خاص کرنا ضروری ہے۔
حدیث: احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کروگویا تم اسے دیکھ رہے ہو۔ اس لیے کہ اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تو تمہیں دیکھ رہا ہے۔(مسلم، رقم 93)
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں تھے کہ ایک بدوی سامنے آکھڑاہوا ، اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ناقہ کی مہار پکڑلی۔ پھر کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے وہ بات بتاؤ جو جنت سے مجھے قریب اور آتش دوزخ سے دور کرے۔ راوی کابیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رک گئے، پھر اپنے رفقاء کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا اور فرمایا کہ اس کو اچھی توفیق ملی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعرابی سائل سے فرمایا کہ: ہاں! ذرا پھر کہنا تم نے کس طرح کہا؟ سائل نے اپنا وہی سوال پھر دہرایا۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عبادت اور بندگی کرتے رہو صرف اللہ کی اور کسی چیز کو اس کے ساتھ کسی طرح بھی شریک نہ کرو، اور نماز قائم کرتے رہو، اور زکوۃ ادا کرتے رہو، اور صلہ رحمی کرو۔ یہ بات ختم فرما کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بدوی سے کہا کہ اب ہماری ناقہ کی مہار چھوڑدو۔ (مسلم)
2۔مفادات کے بغیر حسن سلوک (اور ماں باپ ،رشتے داروں،یتیموں اورمسکینوں کے ساتھ نیک سلوک کرنا)
وضاحت:اس دنیا میں سب سے مشکل کام مفادات کے بغیر لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا ہے۔ کچھ رشتے اور تعلقات دنیا میں ایسے ہوتے ہیں، جنہیں ہماری سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے ، مگر بدلے میں وہ ہمیں مادی طور پر کچھ نہیں دے سکتے۔ان میں سر فہرست رشتہ بوڑھے والدین کا ہے۔والدین انسان پر سب سے زیادہ احسان کرتے ہیں، مگر ایک عمر میں آکر وہ مکمل طور پر اولاد کے محتاج ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ ان کے ساتھ حسن سلوک قرآن کے لازمی مطالبات میں سے ایک ہے۔
اقربا کا معاملہ بھی ایسا ہے کہ ان رشتوں میں وقت اور حالات کے تحت دراڑ پڑ سکتی ہے۔ مفادات الگ ہونے سے دوریاں پیدا ہوسکتی ہیں۔اس کو روکنے کی واحد شکل یہ ہے کہ لوگ اقربا کے ساتھ نیکی کرنا اپنی ذمہ داری سمجھیں، چاہے ان سے کوئی مفاد وابستہ ہو یا نہیں۔اسی رویے سے معاشرتی زندگی کا سارا حسن پیدا ہوتا ہے۔اسی طرح اگر کبھی اقربا سے اختلافات ہوجائیں اور احسان کا رویہ اختیار کرنا آسان نہ ہو تو کم از کم ان کے حقوق کی ادائیگی کسی صورت میں نہ روکی جائے۔
یتیم و مسکین معاشرے کے کمزور ترین طبقات ہوتے ہیں۔ ان سے چونکہ قرابت کا تعلق بھی نہیں ہوتا اس لیے انہیں نظر انداز کرنا عین ممکن ہے۔ چنانچہ قرآن خاص طور پر ان کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا ، ان پر احسان نہیں بلکہ خدا کی اطاعت کا ایک لازمی تقاضہ ہے۔اس کے بغیر خدا سے محبت کا ہر دعویٰ ایک جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ہے۔
حدیث: حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت سے محروم رہیں گے جن کے دلوں میں دوسرے آدمیوں کے لیے رحم نہیں اور جودوسروں پر ترس نہیں کھاتے۔ (بخاری ومسلم)
حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ماں باپ کا اولاد پرکیا حق ہے؟ فرمایا: وہ دونوں تیری جنت اور دوزخ ہیں۔ (ابن ماجہ)
زینب زوجہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عورتوں کے گروہ! صدقہ اور خیرات کرو اگرچہ اپنے زیور سے ہی ہو۔ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور ایک دوسری عورت نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! جو یتیم اپنی پرورش میں ہواس کو اگر صدقہ دے تو کفایت کرے گا یا نہیں۔ فرمایا کہ ایسے دینے میں دوثواب ہیں ایک ثواب رشتہ داری کا اور ایک صدقہ کا۔ (بخاری)
۴۔ سلمان بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسکین کو صدقہ دینا تو صدقہ ہی ہے اور رشتہ دار کو صدقہ دینا صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی ہے۔ (مسند احمد، ترمذی، ابن ماجہ)
3۔لوگوں سے اچھی بات بولنا (اورلوگوں سے بھلی بات کہنا)
وضاحت:انسان اکثر اپنی زبان سے لوگوں کو دکھی کردیتے ہیں۔لیکن ایک بندہ مومن سے خدا کا مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی زبان سے کسی کو دکھ نہ پہنچے۔غیبت،بہتان تراشی، تضحیک و تذلیل، طعنہ زنی، چغل خوری، سخت کلامی جیسے رزائل تو دور کی بات ہیں، خدا کے بندوں کے منہ سے ہمیشہ لوگوں کے لیے اچھی باتیں نکلتی ہیں۔ یہ بات جس میں نہیں وہ بندہ مومن نہیں۔
اسی طرح یہ بات بھی اس حکم سے نکلتی ہے کہ بندہ مومن نیکی اور خیر کی باتیں ہی دوسروں تک پہنچاتا ہے۔اس کا کلام اچھائی ہی کی تلقین کرنے والا ہوتا ہے نہ کہ برائی کی دعوت دینے والا۔
حدیث:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ ایک بات اپنی زبان سے نکالتاہے جو اللہ کی خوشنودی کے لیے ہوتی ہے، وہ اس کا خیال نہیں کرتا لیکن اللہ تعالیٰ اس کی بدولت اس کے درجے بلند کرتا ہے۔ اسی طرح آدمی خدا کو ناراض کرنے والی بات زبان سے لاپرواہی کے ساتھ نکالتا ہے جو اسے جہنم میں گرادیتی ہے۔ (بخاری)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھی اور میٹھی بات بھی ایک صدقہ ہے۔(بخاری)
حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میرے بارے میں جن باتوں کا حضور کو خطرہ ہوسکتا ہے ان میں زیادہ خطرناک اور خوفناک کیا ہے؟ سفیان کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک پکڑ کے فرمایا: سب سے زیادہ خطرہ اس سے ہے۔ (ترمذی)
4۔نماز اور زکوٰۃ (اورنمازقائم کرنااورزکوٰۃدینا،مگرتھوڑے آدمیوں کے سواتم سب اس عہدسے پھرگئے اور اب تک پھرے ہوئے ہو)
یہ دونوں مطالبات پیچھے بھی آچکے ہیں اور قرآن مجید میں بکثر ت ان کا ذکر ہے۔سورہ بقرہ کے اس مقا م سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہ مطالبات کوئی نئے نہیں ہیں بلکہ ہر دور میں اللہ پر ایمان کا ایک لازمی تقاضہ رہے ہیں۔
حدیث: حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو مسلمان بندہ اچھی طرح وضو کرے، پھر اللہ کے حضور میں کھڑا ہوکر پوری قلبی توجہ اور یکسوئی کے ساتھ دورکعت نماز پڑھے، تو جنت اس کے لیے ضرور واجب ہو جائے گی۔ (مسلم)
حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کعبہ کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا تو فرمایا: رب کعبہ کی قسم! وہ لوگ بڑے خسارے میں ہیں، میں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان! کون لوگ ہیں جو بڑے خسارے میں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ لوگ جو بڑے دولت مند اور سرمایہ دار ہیں۔ ان میں سے وہی لوگ خسارے سے محفوظ ہیں جو اپنے آگے پیچھے اور دائیں بائیں (ہرطرف خیر کے مصارف میں) اپنی دولت کشادہ دستی کے ساتھ صرف کرتے ہیں۔ مگر دولت مندوں اور سرمایہ داروں میں ایسے بندے بہت کم ہیں۔ (بخاری، مسلم)
5۔جان مال آبرو کا تحفظ (پھرذرایاد کرو،ہم نے تم سے مضبوط عہدلیاتھاکہ آپس میں ایک دوسرے کاخون نہ بہانا اورنہ ایک دوسرے کوگھرسے بے گھرکرنا۔تم نے اس کااقرارکیاتھا،تم خوداس پرگواہ ہو)
وضاحت: انسانی جان مال اور آبرو کو اللہ تعالیٰ بیحد اہمیت دیتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہر انسان کی جان مال آبرو اہم ہے مگر اپنے ہم مذہب، ہم قوم لوگوں کے معاملے میں اگر یہ تحفظ اٹھ جائے تو ایسا معاشرہ برباد ہوجاتا ہے۔اسی لیے بنی اسرائیل سے یہ عہد لیا گیاکہ وہ ایک دوسرے کی جان مال آبرو کے تحفظ کو یقینی بنائیں گے۔ دین کا یہ مطالبہ آج کے دن تک اسی طرح باقی ہے۔ کسی ذاتی، سیاسی، سماجی اور معاشی وجہ سے اس کی خلاف ورزی نہیں کی جاسکتی۔جو یہ کرے گا اس کا ٹھکانہ جہنم کی آگ کے سواکچھ اور نہیں۔
حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ ایک دوسرے پر حسد نہ کرو اور نہ ہی تناجش کرو (تناجش بیع کی ایک قسم ہے ) اور نہ ہی ایک دوسرے سے بغض رکھو اور نہ ہی ایک دوسرے سے رو گردانی کرو اور تم میں سے کوئی کسی کی بیع پر بیع نہ کرے اور اللہ کے بندے بھائی بھائی ہو جاؤ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے ذلیل کرتا ہے اور نہ ہی اسے حقیر سمجھتا ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینہ مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا تقویٰ یہاں ہے کسی آدمی کے برا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر پورا پورا حرام ہے اس کا خون اور اس کا مال اور اس کی عزت و آبرو۔ (کتاب صحیح مسلم جلد 3 حدیث نمبر 2044)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ مسلم وہ ہے جس کی زبان درازیوں اور دست درازیوں سے مسلمان محفوظ رہیں۔ اور مومن وہ ہے جس کی طرف سے اپنی جانوں اور مالوں کے بارے میں لوگوں کو کوئی خوف وخطرہ نہ ہو۔ (ترمذی، نسائی)
____________