’’ الف، لام، میم۔ یہ کتاب الہٰی ہے۔اس کے کتاب ہونے میں کوئی شک نہیں۔ ہدایت ہے خداسے ڈرنے والوں کے لیے۔
ان لوگوں کے لیے جوغیب میں رہتے ہوئے ایمان لاتے ہیں۔
اورنمازقائم کرتے ہیں۔
اورجوکچھ ہم نے ان کوبخشاہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
اوران کے لیے جوایمان لاتے ہیں اس چیزپرجوتم پراتاری گئی ہے اورجوتم سے پہلے اتاری گئی ہے۔
اورآخرت پریہی لوگ یقین رکھتے ہیں۔یہی لوگ اپنے رب کی ہدایت پرہیں اوریہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔‘‘(البقرۃ 2: 1-5)
ہم نے جو عنوان قائم کیا ہے وہ ابتداہی میں آیت نمبر 2 میں بیان ہوگیا ہے۔جبکہ پانچویں آیت میں یہ تصریح کردی گئی ہے کہ یہی لوگ دنیا کی ہدایت اور جنت کی فلاح پانے والے ہیں۔ سورہ بقرہ کی یہ آیات مدینہ میں نازل ہونے والی ابتدائی آیات میں سے ہیں جب یہود کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی گئی تھی۔ چنانچہ یہاں مطالبات اسی پس منظر میں کیے گئے ہیں۔
1۔تقویٰ (ہدایت ہے خداسے ڈرنے والوں کے لیے)
وضاحت:تقویٰ کا لفظی مطلب بچنا ہے۔قرآن کا مقصد چونکہ جہنم کے نقصان اور جنت کی محرومی سے بچانا ہے اس لیے اس کی یہ دعوت صرف ان لوگوں کی سمجھ میں آسکتی ہے جو ’تقویٰ ‘ یعنی نقصان اور محرومی سے بچنے کی نفسیات میں جی رہے ہوں۔ ایک عام انسان اپنی زندگی اسی ’تقویٰ‘ کے اصول پر گزارتا ہے۔ یعنی وہ ہر نقصان اور تکلیف سے بچنا چاہتاہے۔ اس کی ساری تگ و دو بھوک، پیاس، بے گھری، بے روزگاری وغیرہ سے بچنے کے لیے ہوتی ہے۔ اس طرح ہر انسان اصل میں متقی ہوتا ہے۔قرآن بس اتنا کہتاہے کہ اپنے تقویٰ کا رخ دنیا کے ساتھ آخرت کی طرف بھی کرلو۔ یعنی آخرت کے نقصان سے بچنے کی بھی فکر کرلو۔یہی لوگ قرآن کی اصطلاح میں متقی ہیں۔جو لوگ ان معنوں میں متقی نہیں قرآن کا کوئی مطالبہ ان پر موثر نہیں ہوتا۔
یہاں سمجھ لینا چاہیے کہ سورہ بقرہ میں چونکہ شریعت دی جارہی ہے ، اس لیے ا س مقام پر بھی اور آگے اس سورت میں بے گنتی مقامات پر اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ ہدایت تو اللہ تعالیٰ دیتے ہیں، مگر اس سے فائدہ صرف تقویٰ کی نفسیات میں جینے والے لوگ اٹھاتے ہیں۔ خوف خدا اور فکر آخرت پر مبنی تقویٰ کی اس نفسیات سے زمانہ رسالت کے یہود بھی فارغ تھے اور ایک اقلیتی گروہ کو چھوڑ کرآج کے مسلمان بھی فارغ ہیں۔
حدیث:حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: تم کو اپنی ذات سے نہ کسی گورے کے مقابلے میں بڑائی حاصل ہے نہ کسی کالے کے مقابلے میں ۔ البتہ، تقویٰ یعنی خوف خداکی وجہ سے تم کسی کے مقابلے میں بڑے ہوسکتے ہو۔ (مسند احمد)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ سے ڈرے اس کے لیے مالداری میں کوئی حرج نہیں، اور صحت مندی صاحب تقویٰ کے لیے دولت مندی سے بھی بہتر ہے اور خوشحالی بھی اللہ کی نعمتوں میں سے ہے۔ (مسند احمد)
2۔غیب میں رہ کر ایمان لانا (ان لوگوں کے لیے جوغیب میں رہتے ہوئے ایمان لاتے ہیں)
وضاحت: آج کے نسلی مسلمانوں کو شائد اس قرآنی مطالبے کی اہمیت کا اندازہ نہ ہو مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ابتدائی زمانے میں ایمان لانے والوں کی یہ اہم ترین خصوصیت تھی۔ آپ کے ابتدائی مخاطبین آپ کی دعوت کے ثبوت کے لیے حسی معجزات طلب کرتے تھے۔ وہ فرشتوں کے نزول اور آسمانی نشانیوں کے ظہور کا مطالبہ کرتے تھے۔ قرآن نے یہ اصول بیان کردیا کہ معجزات صرف نبیوں کے ساتھ ظاہر ہوتے ہیں اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ اس لیے آپ کے معاصرین کو کوئی حسی معجزہ نہیں دکھایا جائے گا تاکہ بعد میں آنے والے لوگ بھی کسی معجزے کی فرمائش نہ کرسکیں۔ جو معجزہ پہلے لوگوں کے لیے حجت تھا یعنی قرآن وہی بعد میں آنے والوں کے لیے بھی ہوگا۔
اس پس منظر میں غیب میں رہ کر ایمان لانے کا مطلب یہ ہوا کہ مسلمانوں کا ایمان عقلی بنیادوں پر قائم ہوتا ہے۔ قدیم انسان ہوا کو دیکھ نہیں سکتا تھا مگر اس کے آثار محسوس کرکے اسے مانتا تھا۔ آج کا انسان زمین کی قوت کشش کو دیکھ نہیں سکتا مگر سائنسدانوں کی تحقیق کی بنیاد پر وہ مانتا ہے کہ زمین کی ایک قوت کشش ہے۔ اسی طرح دین کا ہر ایمانی مطالبہ ،جس میں انسان کو غیبی حقائق یعنی خدا، فرشتوں اور جنت و جہنم کو مان لینے کی دعوت دی جاتی ہے، قرآن عقلی بنیادوں ہی پر ثابت کرتا ہے۔
اس بات کو سمجھ لینے کے بعد جو شخص بھی قرآن پڑھے گا وہ جان لے گا کہ کیوں اللہ تعالیٰ پورے قرآن میں ایمانیات پر عقلی دلائل دیتے رہتے ہیں۔ کیوں وہ مظاہرِفطرت اور تاریخی آثار کو بار بار لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔جو شخص اس پہلو سے قرآن کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرے گا وہ کبھی قرآن سے ہدایت حاصل نہیں کرسکتا۔
حدیث: حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے (ایک طویل حدیث میں) روایت ہے کہ آنے والے شخص نے (جو درحقیقت جبرائیل علیہ السلام تھے) حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: بتائیے ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تم اللہ کو، اس کے فرشتوں کو، اس کی بھیجی ہوئی کتابوں کو، اس کے رسولوں کو اور آخرت کو حق جانو اور حق مانو، اور اس بات کو بھی مانوکہ دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے، خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔ چاہے وہ خیر ہو چاہے شر۔ (مسلم)
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کا ارادہ اور اس کے نفس کا میلان میری لائی ہوئی ہدایت کے تابع نہ ہوجائے۔ (مشکوۃ)
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کی نگاہ میں اس کے باپ، اس کے بیٹے اور سارے انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔ (بخاری، مسلم)
3۔نماز کا قائم کرنا (اورنمازقائم کرتے ہیں)
وضاحت:نماز دین کا بنیادی مطالبہ ہے۔یہ عام حالات میں سب سے بڑا عمل ہے، جو بندہ اپنے رب کے لیے کرسکتا ہے۔ یہ قیام، رکوع، سجود کی شکل میں عبادتِ رب اور اظہار بندگی کا خوبصورت ترین نمونہ ہے۔جو شخص رب کی پرستش، اس کی یاد اور اس کی محبت کی اس اعلیٰ ترین سطح سے منہ موڑتا ہے وہ حدیث کے الفاظ میں گویا کہ کفر کا ارتکاب کردیتا ہے۔ یہاں نماز کے قیام کی اہمیت اس لیے بہت زیادہ ہے کہ یہود نے اپنی نمازوں کو ضائع کردیا تھا۔ ختم نبوت کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے یہ اہتمام تو فرمادیا کہ نماز کی شکل آج بھی الحمدللہ امت میں پوری طرح قائم ہے لیکن نماز کی اسپرٹ جو یاد الہی ہے، اس سے اکثر نماز پڑھنے والے مسلمان بھی غفلت میں رہتے ہیں۔
حدیث: حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ارشاد فرمایاکہ: جو بندہ نماز اہتمام سے ادا کرے گا تو وہ قیامت کے دن اس کے واسطے نور ہوگی،اور دلیل ہوگی، اور اس کے لیے نجات کا ذریعہ بنے گی، اور جس شخص نے نماز کی ادائیگی کا اہتمام نہیں کیا تو وہ اس کے واسطے نہ نور بنے گی، نہ برہان اور نہ ذریعہ نجات، اور وہ بدبخت قیامت میں قارون، فرعون، ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا۔ (مسند احمد)
حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن سردی کے ایام میں باہر تشریف لے گئے اور درختوں کے پتے (خزاں کے سبب سے) ازخودجھڑ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک درخت کی دوٹہنیوں کو پکڑا (اور ہلایا) تو ایک دم اس کے پتے جھڑنے لگے، پھر حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا: اے ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ! میں نے کہا حاضر ہوں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب مومن بندہ خالص اللہ کے لیے نماز پڑھتا ہے تو اس کے گناہ ان پتوں کی طرح جھڑجاتے ہیں۔ (مسند احمد)
4۔انفاق (اورجوکچھ ہم نے ان کوبخشاہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں)
وضاحت:نماز کے ساتھ یہ دین کا دوسرا مطالبہ ہے جو قرآن جگہ جگہ دہرا تاہے۔ان آیات میں یہ وضاحت کردی گئی ہے کہ انفاق کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کا انفاق اصل میں اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے ہوتا ہے۔ وہ انفاق کرکے نہ اللہ پر احسان کرتے ہیں نہ اس کے بندوں پر۔ بلکہ صرف اپنا بھلا کرتے ہیں۔
حدیث:حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر مسلمان پر صدقہ لازم ہے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ اگر کسی کے پاس صدقہ کرنے کے لیے کچھ نہ ہو تو وہ کیا کرے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے دست وبازو سے محنت کرے اور کمائے۔ پھر اس سے خود بھی فائدہ اٹھائے اور صدقہ بھی کرے۔ عرض کیا گیا کہ اگر وہ یہ نہ کرسکتا ہو تو کیا کر ے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی پریشان حال محتاج کا کوئی کام کرکے اس کی مدد ہی کر دے۔ عرض کیا گیا اگر وہ یہ بھی نہ کرسکے تو کیا کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اپنی زبان ہی سے لوگوں کو بھلائی اور نیکی کے لیے کہے۔ لوگوں نے عرض کیا، اگر وہ یہ بھی نہ کرسکے تو کیا کرے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کم از کم) اپنے شر سے اوروں کو محفوظ رکھے (یعنی اس سے کسی کو تکلیف اور ایذا نہ پہنچے) یہ بھی اس کے لیے ایک طرح کا صدقہ ہے۔ (بخاری، مسلم)
5۔بلا تعصب ایمان (اوران کے لیے جوایمان لاتے ہیں اس چیزپرجوتم پراتاری گئی ہے اورجوتم سے پہلے اتاری گئی ہے)
وضاحت:ایمان کا ایک پہلو تو اوپر بیان ہوا کہ یہ غیب میں رہ کر عقلی امکانات کی بنیاد پر بعض حقائق کو مان لینے کا نام ہے۔اس کا دوسرا پہلو ان آیات میں خاص یہود کے پس منظر میں بیان کیا گیا ہے۔ یعنی وہ کہتے تھے کہ ہم خدا اور نبیوں کے ماننے والے ہیں ، مگر ان کتابوں کو مانتے ہیں جو انبیائے بنی اسرائیل پر نازل ہوئیں۔اللہ تعالیٰ اس کے برعکس یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ایمان کے ساتھ تعصب جمع نہیں ہونا چاہیے۔ اگر یہ بات ثابت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے رسول ہیں تو پھر ان پر نازل ہونے والی کتاب کو نہ ماننے کی کوئی گنجائش نہیں۔بندہ مومن اپنے فرقہ اور گروہ کے حق سے دلچسپی نہیں رکھتا، بلکہ خدا کے نازل کردہ حق سے دلچسپی رکھتا ہے۔ چاہے یہ حق اپنے گروہ کی طرف سے پیش ہو یا کسی اور گروہ کے کسی شخص کی طرف سے۔
حدیث: ابوبردہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین شخص ایسے ہیں کہ جن کے لئے دوگنا ثواب ہے (ا ن میں سے ایک ) وہ شخص ہے جو اہل کتاب میں سے ہو اپنے نبی پر ایمان لایا ہو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایمان لائے ۔(صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 97)
6۔آخرت پر یقین (اورآخرت پریہی لوگ یقین رکھتے ہیں)
آخرت پر یقین قرآن کی اصل دعوت ہے۔ وہ لوگوں کو خدا کے ابدی منصوبے سے روشناس کرانے آیا ہے۔ یعنی اصل دنیا تو آخرت کی دنیا ہے۔ یہ دنیا تو محض امتحان ہے۔ یہاں کا ملنا کھونا، ہنسنا رونا،خوشی غم،کامیابی ناکامی سب امتحان ہے۔ اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے۔ جس شخص کو یہ یقین نہ ہو وہ کبھی قرآن کی ہدایت کونہیں پاسکتا۔شروع میں جس تقویٰ کا ذکر ہوا ہے وہ اس یقین کے بغیر کبھی پیدا نہیں ہوسکتا۔اسی لیے یہاں آخرت پر ایمان سے زیادہ یقین کا مطالبہ کیا گیا ہے۔یہی یقین پھر عمل صالح کی شکل میں ڈھل جاتا ہے۔
حدیث: حضرت ابوشریح خزاعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص اللہ تعالی اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے ہمسائے سے اچھا سلوک کرنا چاہئے اور جو شخص اللہ تعالی اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہئے کہ اپنے مہمان کا اکرام کرے اور جو شخص اللہ تعالی اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہئے کہ اچھی بات کہے یا پھر خاموش رہے۔( صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 178 )
____________