HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Rehan Ahmed Yusufi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

قیامت کو جھٹلانے والے کا کردار

’’تم نے دیکھا اس کو جوآخرت کی جزا و سزاکوجھٹلاتاہے؟
وہی توہے جویتیم کودھکے دیتاہے۔
اورمسکین کوکھاناکھلانے کی ترغیب نہیں دیتا۔
پس تباہی ہے ان نمازپڑھنے والوں کے لیے جواپنی نمازسے غفلت برتتے ہیں۔
جوریاکاری کرتے ہیں۔
ضرورت کی چیزیں (لوگوں کو)دینے سے گریزکرتے ہیں۔‘‘ (الماعون 107)


عنوان و مطالبات

سورۃ القلم کی طرح یہاں بھی اسلام کے مخالفین کے کردار کا بیان ہے۔اس سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ ایک سچی دعوت کے مخالفت کرنے والے لوگ اکثر پست سیرت لوگ ہی ہوا کرتے ہیں۔بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعوت آخرت پر ایمان کی دعوت تھی جس کا کفار مکہ نے انکار کردیا تھا۔ بدقسمتی سے آج یہ صفات ان مسلمانو ں کے عام کردار کا حصہ بن چکی ہیں جو بظاہر آخرت کے منکر نہیں۔ مگر قرآن ان صفات کا سر عنوا ن ’’انکار آخرت ‘‘کو بناکر یہ پیغام دے رہا ہے کہ جن لوگوں میں یہ صفات ہوں گی، وہ درحقیقت آخرت کی سزا و جزاکے ماننے والے نہیں۔

1۔سزا و جزا کا انکار (تم نے دیکھا اس کو جوآخرت کی سزا و جزاکوجھٹلاتاہے؟)

وضاحت: کفار مکہ نے آخرت کی سزا و جزا کا انکار کردیا تھا۔ا ن کا نقطہ نظر یہ تھا کہ اول تو یہ سزا جزا بعید از عقل چیز ہے۔ بالفرض یہ سزا جزا برپا بھی ہوئی تو انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اللہ نے دنیا میں جو نعمتیں انہیں دی ہیں، وہی آخرت میں بھی دیں گے۔ ان کے بت ان کی سفارش کرکے انہیں اللہ کی پکڑ سے بچالیں گے۔ بدقسمتی سے ہر دور کے بدکردار لوگ ایسی ہی تاویلوں سے خود کو آخرت کی سزاجزا سے بری الذمہ سمجھتے ہیں۔ مگر زیادہ وقت نہ گزرے گا کہ ا ن کی یہ غلط فہمی دور ہوجائے گی۔جبکہ دوسری طرف اہل ایمان ہمیشہ دنیا کی زندگی پر آخرت کو ترجیح دیتے ہیں اور سچی خدا پرستانہ زندگی گزارتے ہیں۔

حدیث:حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص دنیا کو اپنا محبوب بنائے گا وہ اپنی آخرت کاضرور نقصان کرے گا، اور جو کوئی آخرت کو محبوب بنائے گا، وہ اپنی دنیا کا ضرور نقصان کرے گا، پس فنا ہو جانے والی دنیا کے مقابلے میں باقی رہنے والی آخرت اختیار کرو۔(مسند احمد)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے اور جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ مہمان کی ضیافت کرے اور جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔ (صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 957)

2۔یتیم کی تذلیل (وہی توہے جویتیم کودھکے دیتاہے)

وضاحت: عنوان نمبر 10میں سنگدلی کی ایک صفت گزرچکی ہے۔ یہ اسی صفت کا ایک اور مظہر ہے۔اسی طرح یہ بات بھی بار بار آچکی ہے کہ یتیم کے مال کو اس کے حوالے کیا جائے اور یتیموں پر اپنا مال خرچ کیا جائے۔مگر سزا و جزاسے غافل شخص نہ صرف ان سب باتوں پر عمل نہیں کرتا بلکہ کوئی یتیم اس کے پاس آجائے تو اسے دھکے دے کر اور اس کی تذلیل کرکے نکال دیتا ہے۔ یہ معاملہ کسی یتیم ہی کا نہیں بلکہ ہر کمزور کے ساتھ وہ یہی کرتا ہے۔

حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمانوں کے گھرانوں میں بہترین گھرانہ وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہو، اور مسلمانوں کے گھروں میں بدترین گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ برا سلوک کیا جائے۔ (سنن ابن ماجہ)

3۔کھانا کھلانے پر نہ ابھارنا (اورمسکین کوکھاناکھلانے کی ترغیب نہیں دیتا)

وضاحت: عنوان نمبر 10میں ’بھلائی سے روکنے ‘ کی صفت کے تحت اس بات کی وضاحت کی جاچکی ہے کہ ایک بخیل شخص انفاق سے بچنے کے لیے پہلے مرحلے پردوسروں کو روکتا ہے تاکہ اس کے لیے مسئلہ پیدا نہ ہو۔ یہاں اس کی انتہائی شکل کا بیان ہے کہ ایسا انسان کھاناکھلانے کی بنیادی ضرورت میں بھی یہی رویہ اختیار کرتا ہے۔

حدیث: عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ کس قسم کا اسلام بہتر ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کھانا کھلاؤ جس کو جانتے ہو اور جس کو نہ جانتے ہو (سب کو) سلام کرو۔ (صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 11)

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بہترین صدقہ یہ ہے کہ تو کسی بھوکے کو پیٹ بھرکھانا کھلائے۔ (مشکوۃ)

حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیمار کی عیادت کرو، اور بھوکے کو کھاناکھلاؤ، اور قیدی کی رہائی کا انتظام کرو۔ (بخاری)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ عزوجل قیامت کے دن کہے گا: اے آدم کے بیٹے! میں نے تجھ سے کھانا مانگا تھا تو نے نہیں کھلایا، تو وہ کہے گا کہ اے میرے رب! میں تجھے کیوں کر کھلاتا جب کہ تو سب لوگوں کی پرورش کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کہے گا: تجھے خبر نہیں کہ تجھ سے میرے فلاں بندے نے کھانامانگا تھا لیکن تو نے اسے نہیں کھلایا۔ کیا تجھے خبر نہیں کہ اگر تو اسے کھلاتا تو اپنے کھلائے ہوئے کھانے کو میرے ہاں پاتا۔ اے آدم کے بیٹے! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا، لیکن تو نے مجھے نہیں پلایا۔ وہ کہے گا کہ اے میرے رب! میں تجھے کیسے پلاتا جب کہ تو خود رب العالمین ہے۔ اللہ تعالیٰ کہے گا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا لیکن تو نے اسے پانی نہیں دیا، اگر تو اسے پانی پلا دیتا تو وہ پانی میرے ہاں پاتا۔ (مسلم)

4۔نماز سے غفلت (پس تباہی ہے ان نمازپڑھنے والوں کے لیے جواپنی نمازسے غفلت برتتے ہیں)

وضاحت:یہ وہ صفت ہے جو بتاتی ہے کہ یہ ساری صفات ان لوگوں میں بھی پائی جاتی ہیں جو بظاہر نمازیں پڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ نماز پڑھنا ایسے لوگوں کی مذہبیت کا ایک اظہار ہے، مگر اس طرح کے لوگوں کے لیے نماز ایک رسم و عادت سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ چنانچہ ان کی نماز ان تمام اصولوں کی مکمل خلاف ورزی ہوتی ہے جو ’قرآن کے مطلوب انسان ‘ کے ضمن میں جگہ جگہ پیچھے بیان ہوچکے ہیں۔اس کو یہاں’نمازسے غفلت‘ کے جامع عنوان سے تعبیر کیا گیا ہے۔

حدیث:حضرت ابوالدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میرے خلیل ومحبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت فرمائی ہے کہ اللہ کے ساتھ کبھی کسی چیز کو شریک نہ کرنا اگرچہ تمھارے ٹکڑے کر دیے جائیں اور تمھیں آگ میں بھون دیاجائے۔ اورخبردار کبھی بالارادہ نماز نہ چھوڑنا، کیونکہ جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑدی تو اس کے بارے میں وہ ذمہ داری ختم ہوگئی جو اللہ کی طرف سے اس کے وفادار اور صاحب ایمان بندوں کے لیے ہے، اورخبردار شراب کبھی نہ پینا کیونکہ وہ ہربرائی کی کنجی ہے۔ (ابن ماجہ)

حضرت اغر مزنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میرے دل پر غفلت آجاتی ہے اسی وجہ سے میں دن میں سو مرتبہ اللہ سے استغفار کرتا ہوں۔ (صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2361)

5۔ریاکاری (جوریاکاری کرتے ہیں)

وضاحت:نیکی کے کام کرنا دنیا میں عزت و توقیر کا سبب ہوتا ہے اس لیے آخرت پر یقین نہ رکھنے والا بھی یہ سارے کام ضرور کرتا ہے، مگر صرف دنیا میں عزت و نیک نامی کے لیے۔اس کی نماز، انفاق اور دیگر نیک کاموں کا محرک یہی ہوتا ہے کہ لوگ اس عمل کو دیکھیں اور اس کی تعریف کریں۔ خدا کے ہاں ایسے کاموں کا کوئی اجر نہیں۔

حدیث: حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو آدمی لوگوں کو سنانے کے لئے کوئی کام کرے گا تو اللہ تعالی بھی اس کی ذلت لوگوں کو سنائے گا اور جو آدمی لوگوں کے دکھاوے کے لئے کوئی کام کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے ریاکاروں کی سزا دے گا۔ (صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2979)

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اعمال کا دارومدار صرف نیت پر ہے اور آدمی کو وہی کچھ ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہوگی۔ (مثلاً) جس نے اللہ اور رسول کے لیے ہجرت کی ہوگی، واقعی اس کی ہجرت اللہ اور رسول کی طرف ہوگی۔ اور جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے ہوگی تو اس کی ہجرت دنیا کے لیے یا عورت کے لیے ہی شمار ہوگی۔ (متفق علیہ)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تمھاری شکل وصورت اور تمھارے مال کو نہ دیکھے گا، بلکہ تمھارے دلوں کو اور تمھارے اعمال کو دیکھے گا۔ (مسلم)

6۔لوگوں کی معمولی مدد بھی نہ کرنا (اورمعمولی ضرورت کی چیزیں(لوگوں کو)دینے سے گریزکرتے ہیں)

وضاحت:یہ مال کی محبت کا بدترین مظاہر ہ ہے کہ انسان دنیاکو دکھانے کے لیے تو خرچ کرے مگر جب یہ محرک نہ ہو تو پھر چھوٹی چھوٹی چیزوں سے بھی دوسروں کی مدد نہ کرے۔ اس کا سبب سورہ ھمزہ(2:104) میں بیان ہوا ہے کہ ایسا شخص ہمیشہ مال جمع کرنے اور اسے گننے میں لگا رہتا ہے۔ایسے شخص کو اپنے مال میں معمولی سی کمی بھی بہت بری لگتی ہے۔حُب مال ہی اصل میں وہ بدترین صفت ہے جو ان تمام خصوصیا ت کو پیدا کرتی ہے۔

حدیث: ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اعمال میں سے کونسا عمل سب سے افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ پر ایمان اور اس کے راستے میں جہاد ۔ میں نے عرض کیا کہ کونسا غلام آزاد کرنا سب سے افضل ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو اس کے مالک کے نزدیک سب سے اچھا اور قیمتی ہو، میں نے عرض کیا کہ اگر میں ایسا نہ کر سکوں تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کسی کے کام میں اس سے تعاون کرو یا کسی بے ہنر آدمی کے لئے کام کرو، میں نے عرض کیا کہ اگر میں ان میں سے بھی کوئی کام نہ کر سکوں تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھو اس لئے کہ اس کی حیثیت تیری اپنی جان پر صدقہ کی طرح ہو گی۔ (صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 251)

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کے ہاں سالن کی ہانڈی پکے تو اسے چاہیے کہ شوربہ زیادہ کرلے، پھر اس میں سے کچھ پڑوسیوں کو بھی بھیج دے۔ (طبرانی)

____________

 

B