HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Rehan Ahmed Yusufi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

جنت کی عزت کا مستحق کون ہے

  ’’بے شک انسان بے صبراپیداکیاگیاہے،جب اس پرمصیبت آتی ہے توگھبرااٹھتاہے اورجب اسے خوشحالی نصیب ہوتی ہے توبخل کرنے لگتاہے۔
مگروہ لوگ(اس عیب سے بچے ہوئے ہیں)جونمازپڑھنے والے ہیں،جواپنی نمازکی ہمیشہ پابندی کرتے ہیں۔
اورجن کے مالوں میں سائل اورمحروم کاایک مقررحق ہے۔
اوروہ جوروزجزاکوبرحق مانتے ہیں۔
اورجواپنے رب کے عذاب سے ڈرتے ہیں کیونکہ ان کے رب کاعذاب ایسی چیزنہیں ہے جس سے کوئی بے خوف ہو۔
اورجواپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔بجزاپنی بیویوںیااپنی مملوکہ عورتوں کے جن سے محفوظ نہ رکھنے میں ان پرکوئی ملامت نہیں،البتہ جواس کے علاوہ کچھ اورچاہیں وہی حدسے تجاوزکرنے والے ہیں۔
اورجواپنی امانتوں کی حفاظت اوراپنے عہدکاپاس کرتے ہیں۔
اورجواپنی شہادتوں کو ادا کرنے والے ہیں۔
اورجواپنی نمازکی حفاظت کرتے ہیں۔یہ لوگ عزت کے ساتھ جنت کے باغوں میں رہیں گے۔‘‘ (معارج 70: 19-35)


عنوان و مطالبات

یہاں اکثر و بیشتر وہی چیزیں بیان ہوئی ہیں جو عنوان نمبر 6’جنت کی کامیابی کون پائے گا‘ میں بیان ہوئی ہیں۔آیات کے آخرمیں یہ بتادیا گیا ہے کہ یہی لوگ جنت میں عزت کا مقام حاصل کریں گے۔

1۔بے صبرا پن (بے شک انسان بے صبراپیداکیاگیاہے،جب اس پرمصیبت آتی ہے تو گھبرا اٹھتا ہے اورجب اسے خوشحالی نصیب ہوتی ہے توبخل کرنے لگتاہے)

وضاحت:یہاں جس صفت کی مذمت کی گئی ہے ، و ہ جلدبازی اور بے صبرے پن کی وہ روش ہے جس میں انسان فوری نفع و نقصان کو حتمی سمجھ لیتا ہے۔ ایسے شخص پر اگر تنگی و مصیبت آجائے توگھبراکرواویلا شروع کردیتا اور مایوس و دل شکستہ ہوجاتا ہے۔اوراگر خوشحالی آجائے تو اسے خدا کا فضل سمجھنے کے بجائے اپنے زور بازو کا نتیجہ سمجھ کر بخیل بن جاتا ہے۔ یہ تھڑدلاپن گویا دورخی تلوار ہے جو مشکل حالات میں شکوہ شکایت اور خوشحالی میں بخل کی دھارسے روح ایمانی کو کاٹ ڈالتی ہے۔

حدیث: انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک عورت کے پاس سے گزرے جو قبر پر رو رہی تھی، تو آپ نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور صبر کرو، عورت نے کہا کہ دور ہوجا، تجھے وہ مصیبت نہیں پہنچی جو مجھے پہنچی ہے اور نہ تو اس مصیبت کو جانتا ہے۔ اس نے آپ کو پہچانا نہیں۔جب اس کو بتایا گیا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے کے پاس آئی اور وہاں دربان نہ پائے اور عرض کیا کہ میں نے آپ کو پہچانا نہ تھا، آپ نے فرمایا کہ صبر صدمہ کی ابتداء کے وقت ہی ہوتا ہے۔(صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1206)

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میں اپنے بندے کو اس کی دو محبوب چیزوں یعنی دو آنکھوں کی وجہ سے آزمائش میں مبتلا کرتا ہوں اور وہ صبر کرتا ہے تو میں اس کے عوض اس کو جنت عطا کرتا ہوں۔ (صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 613)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی دن نہیں گزرتا مگر یہ کہ اللہ کی طرف سے دوفرشتے اترتے ہیں، جن میں سے ایک فرشتہ (خرچ کرنے والے بندے کے لیے دعا کرتاہے) کہتا ہے کہ اے اللہ! خرچ کرنے والے کو اچھا عوض دے۔ دوسرا فرشتہ (بخیلوں کے بارے میں بددعاکرتاہے) کہتا ہے کہ: اے اللہ! بخل کرنے والے کو تباہی وبربادی سے دوچار کردے۔ (بخاری، مسلم)

2۔دوام نماز (مگروہ لوگ(اس عیب سے بچے ہوئے ہیں)جونمازپڑھنے والے ہیں،جواپنی نمازکی ہمیشہ پابندی کرتے ہیں)

وضاحت:بے حوصلہ پن کی اس صفت سے نمازی محفوظ رہتے ہیں۔ نماز یہاں ایمان کے قائم مقام کے طور پر بیان ہوئی ہے۔ یعنی جو نمازی نہیں اس میں ایمان بھی نہیں۔یہاں یہ بھی واضح کردیا گیا ہے کہ نمازی وہ ہوتا ہے جس کی نماز میں دوام ہو۔یعنی وہ نمازی نہیں جوکبھی کبھار نماز پڑھے یا مصیبت آنے پر مسجد کی طرف دوڑ لگادے، بلکہ خوشی و غمی ہر حال میں نماز کی پابندی کرنے والے لوگ ہی نمازی ہوتے ہیں۔

حدیث:حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اس دنیا سے رخصت ہوتے وقت آخری کلام یہ تھا کہ نماز کی پابندی کرنا اور اپنے غلاموں باندیوں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا۔( مسند احمد:جلد اول:حدیث نمبر 552)

حضرت عبادہ بن العامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: پانچ نمازیں اللہ نے فرض کی ہیں جس نے اس کے لیے اچھی طرح وضو کیا اور ٹھیک وقت پر ان کو پڑھا اور رکوع سجود بھی جیسے کرنے چاہئیں ویسے ہی کیے اور خشوع کے ساتھ ان کو ادا کیا تو ایسے شخص کے لیے اللہ کا پکا وعدہ ہے کہ وہ اس کو بخش دے گا اور جس نے ایسا نہیں کیا، تو اس کے لیے اللہ کا کوئی وعدہ نہیں ہے، چاہے گا تو اس کو بخش دے گا اور چاہے گا تو سزادے گا۔ (مسند احمد، ابی داؤد)

3۔انفاق (اورجن کے مالوں میں سائل اورمحروم کاایک مقررحق ہے)

وضاحت:نماز کے ساتھ انفاق کا ذکر ہے۔انفاق کو یہاں ’حق معلوم‘ یعنی مقرر حق قرار دیا گیا ہے۔ مراد یہ ہے کہ ان کے مال میں کم ازکم ایک حصہ تو بہرحال غریبوں ہی کے لیے مقررہے۔ اس کا دینا احسان نہیں، نہ دینا جرم ہے۔ یہ غریب وہ بھی ہوسکتے ہیں جو خود آگے بڑھ کر سوال کریں اور وہ بھی جوتنگی و پریشانی کے باوجود خاموش رہیں۔ ایسے لوگوں کو تلاش کرنا چاہیے اور ان کے حالات سے اندازہ کرکے خود ان کی مدد کرنا چاہیے۔ان کے مانگنے کا انتظار کرکے نیکی کا موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ بعض لوگ عزت نفس کی وجہ سے کبھی ہاتھ نہیں پھیلاتے۔

حدیث: ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ سات شخص جن کو اللہ تعالیٰ اپنے سائے میں رکھے گا جس دن اس کے سائے کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہوگا (ان میں سے ایک )وہ شخص ہے جس نے خیرات کی چھپا کر یہاں تک کہ جو داہنے ہاتھ سے دیا بائیں ہاتھ کو اس کی خبر نہیں ہوئی۔( موطا امام مالک:جلد اول:حدیث نمبر 1640)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ایک بکری ذبح کی گئی (اور اس کا گوشت تقسیم کردیاگیا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ: بکری میں سے کیا باقی رہا؟ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے عرض کیا کہ: صرف ایک دست (بازو)باقی رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس دستکے علاوہ جو اللہ کی راہ میں تقسیم کردیا گیا دراصل وہی باقی ہے اور کام آنے والا ہے۔ (ترمذی)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میرے پاس احدپہاڑ کے برابر سونا ہوتو میرے لیے بڑی خوشی کی بات یہ ہوگی کہ تین راتیں گزرنے سے پہلے اس کو راہ خدا میں خرچ کردوں اور میرے پاس اس میں سے کچھ باقی نہ رہے سوائے اس کے کہ میں قرض اداکرنے کے لیے اس میں سے کچھ بچالوں۔ (بخاری)

4۔تصدیق آخرت (اوروہ جوروزجزاکوبرحق مانتے ہیں)

وضاحت: یہاں آخرت پر ایمان کا نہیں بلکہ تصدیق کا ذکر ہے۔ آخرت پر ایمان کی تصدیق عمل صالح سے ہوتی ہے۔ اسی کو یہاں بیان کیا گیا ہے کہ یہ لوگ آخرت کی تصدیق کرتے ہیں یعنی اپنے عمل سے تصدیق کرتے ہیں۔ جیسے اوپر انفاق کا ذکر ہوا ہے۔ اپنے مال کو اخلاقی حق کی بنیاد پر دوسروں کو دینا، آخرت پر یقین کا کامل اظہار ہے۔

حدیث: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: میں نے جہنم کی آگ سے زیادہ خطرناک چیز کوئی نہیں دیکھی کہ جس سے بھاگنے والا سورہا ہے اور جنت سے زیادہ عمدہ چیز نہیں دیکھی جس کا چاہنے والا بھی سو رہاہے۔ (ترمذی)

5۔خشیت (اورجواپنے رب کے عذاب سے ڈرتے ہیں کیونکہ ان کے رب کاعذاب ایسی چیز نہیں ہے جس سے کوئی بے خوف ہو)

وضاحت: بندہ مومن کے اعمال کا اصل محرک یہ ہوتا ہے کہ وہ رب کی پکڑ سے ڈرتا ہے۔ ایسا شخص کبھی اپنے اعمال پر نازاں وفرحاں نہیں ہوتا۔بلکہ یہ سوچ کر ڈرتا ہے کہ اس کی نیکی معلوم نہیں کہ قبول ہو یا نہیں۔اسی طرح یہ خشیت اسے ہمیشہ رب کی نافرمانی سے باز رکھتی ہے۔

حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ سب سے زیادہ معزز اور بزرگ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو سب سے زیادہ اللہ کا خوف رکھتا ہو۔( صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 611)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے خوف اور ہیبت سے جس بندۂ مومن کی آنکھوں سے کچھ آنسو نکلیں، اگرچہ وہ مقدار میں بہت کم، مثلاً مکھی کے سربرابر (یعنی ایک قطرہ ہی کے بقدر) ہوں پھر وہ آنسو بہہ کر اس کے چہرے پر پہنچ جائیں تو اللہ تعالیٰ اس چہرہ کو آتشِ دوزخ کے لیے حرام کردے گا۔ (ابن ماجہ )

6 ۔حفظ فروج

7۔عہد و امانت کی پاسداری (اورجواپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔۔۔اورجواپنی امانتوں کی حفاظت اوراپنے عہدکاپاس کرتے ہیں)

یہ دونوں خصوصیات انہی الفاظ کے ساتھ عنوان نمبر 6’جنت کی کامیابی کون پائے گا‘ میں آچکی ہیں۔وہاں ان پرتفصیلی گفتگو ہوچکی ہے۔تاہم ان دونوں کے متعلق مزید یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جس معاشرے میں عفت و عصمت بے وقعت ہوجائے اور عہد اور امانت کے بارے میں لوگ بے پروا ہوجائیں وہاںآخر کار تمام خاندانی اور سماجی اقدار ختم ہوجاتی ہیں۔

انسان اور جانوروں میں اصل فرق اقدار کا ہے۔جانور صرف مفاد اور خواہش کے تحت حرکت کرتے ہیں۔ جانوروں میں رشتے نہیں ہوتے۔ وہاں نر کے لیے مادہ صرف ایک مادہ ہوتی ہے اور کچھ نہیں۔وہ احساس امانت اور عہد کی پاسداری کے تصور سے ناواقف ہوتے ہیں۔ وہ صرف جبلت کو جانتے ہیں۔ اگر انسان بھی حیا ، عہد، امانت، اقدار کو بھول کرجبلت ، خواہش اور مفاد کو زندگی بنالیں، عہد کو توڑیں، امانت میں خیانت کریں اور زنا وبدکاری میں عام ہوجائیں تو ا ن میں اور جانورو ں میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔سوائے اس کے کہ جانوروں کا جنگل اس کے بعد بھی باقی رہتا ہے، مگر انسانی معاشرے اس کے بعد تباہ ہوجاتے ہیں۔

حدیث:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :پانچ چیزیں، پانچ چیزوں سے آتی ہیں۔ جس قوم نے بھی عہد توڑا اللہ نے ان کے دشمن کو ان پر مسلط کردیا۔ جس قوم نے بھی اللہ کے نازل کردہ حکم کے خلاف فیصلہ کیا ان میں افلاس ضرور پھیل گیا۔ جس قوم میں بدکاری کھلم کھلا ہوئی، ان میں موت ضرور پھیلی۔ جس قوم نے بھی ناپ تول میں کمی بیشی کی اس سے زمین کی روئیدگی ضرور روک دی گئی اور اس قوم کو قحط میں مبتلا کیا گیا، اور جس قوم نے زکوۃ روکی اس سے بارش روک دی گئی۔ (رواہ الحاکم)

8۔شہادت (اورجواپنی شہادتوں کو ادا کرنے والے ہیں)

وضاحت:گواہی کو اداکرنا ایک بنیادی دینی مطالبہ ہے۔شہادت نہ چھپانی چاہیے نہ اس میں کمی بیشی کرنی چاہیے۔گواہی کی اصل اہمیت یہ ہے کہ انسانی معاشرے بغیر عدل کے چل نہیں سکتے ۔ اور عدل بغیر گواہی کے نہیں ہوسکتا۔اس لیے کے ہر مقدمے میں دونوں فریق اپنی بات سامنے رکھتے ہیں۔ ایک منصف کے پاس عام حالات میں کوئی راستہ ہی نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ ایک تیسرا فریق گواہی دے کر اصل معاملے کو بیان کرے۔ جب یہ گواہ کسی ڈر یا مفاد کی بنا پر شہادت دینے سے رک جاتے ہیں تو عدل نہیں ہوپاتا۔ اس سے بڑا گناہ یہ ہے کہ گواہی دینے والے جھوٹی گواہی دیں۔کیونکہ ایسی صورت میں مظلوم ہی مجرم بن جاتا ہے۔

حدیث: ابوبکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں سب سے بڑا گناہ نہ بتاؤں؟ ہم لوگوں نے عرض کیا کہ ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے ساتھ شریک کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا، اس وقت آپ تکیہ لگائے ہوئے بیٹھے تھے، پھر (سیدھے ہوکر) بیٹھ گئے اور فرمایا سن لو جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا، سن لو! جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا، آپ اسی طرح (بار بار) فرماتے رہے یہاں تک کہ ہم نے کہا کہ آپ خاموش نہ ہوں گے۔( صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 916)

9۔حفظ صلوٰۃ (اور جواپنی نمازکی حفاظت کرتے ہیں۔یہ لوگ عزت کے ساتھ جنت کے باغوں میں رہیں گے)

اس کی تفصیل عنوان نمبر 6’جنت کی کامیابی کون پائے گا‘ میں آچکی ہے۔تاہم یہ بات قابل توجہ ہے کہ ان خصوصیات کے آغاز پر نماز پر استقامت اور یہاں اس کی حفاظت کا حکم ہے۔ حفاظت صلوٰۃ ایک بڑی جامع تعبیر ہے۔ جس میں ہر طرح کے حالات میں نماز پر قائم رہنا، اسے وقت پر پڑھنا،باجماعت پڑھنااچھی طرح پڑھناوغیرہ سب شامل ہیں۔ نماز چونکہ توحید کا اظہار ہے ، اس لیے سچی دینداری اسی سے شروع ہوتی اور اسی پر ختم ہوتی ہے۔

حدیث: حضرت ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا جو شخص اس کی پابندی کرے گا تو یہ اس کے لئے قیامت کے دن روشنی ، دلیل اور نجات کا سبب بن جائے گی اور جو شخص نماز کی پابندی نہیں کرے گا تو وہ اس کے لئے روشنی دلیل اور نجات کا سبب نہیں بنے گی اور وہ شخص قیامت کے دن قارون، فرعون، ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہو گا۔( مسند احمد:جلد سوم:حدیث نمبر 2073)

____________

 

B