HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Rehan Ahmed Yusufi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کا کردار

اور تم بات نہ سنوہرایک:
بہت قسمیں کھانے والے،
ذلیل،
اشارہ باز،
چغلیاں لگانے والے ،
بھلائی سے روکنے والے،
حدسے تجاوزکرنے والے ،
حق مارنے والے،
سنگدل،
اوران سب عیوب کے ساتھ بداصل شخص کی۔
یہ کردار اس وجہ سے ہوا کہ وہ مال و اولاد والا ہے۔
جب اس کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں توکہتا ہے ، یہ تو اگلوں کے افسانے ہیں۔ ‘‘ (القلم 68: 10-15)


عنوان و مطالبات

یہ سورۃ القلم کی آیات ہیں۔ اس سورہ کے آغاز پر بتایا گیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بہترین اخلاق و کردار کے مالک ہیں۔ پھر ان آیا ت میں آپ کے مخالفین کی پست کرداری کی منظر کشی کی گئی ہے۔ اس کردار کی ہر صفت وہ ہے جس کا تصور بھی ایمان کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتا۔

1۔بہت قسمیں کھانا (اور تم بات نہ سنوہرایک بہت قسمیں کھانے والے)

وضاحت:آیت میں ’ حلّاف‘کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی بہت زیادہ قسمیں کھانے والاشخص ہے۔قسم انسا ن کی سچائی کا ثبوت ہوتی ہے، لیکن بہت زیادہ قسمیں کھانا انسان کے کردار کی پستی کی دلیل ہوتی ہے۔ یہ کام وہی شخص کرتا ہے جس کی سچائی اس کے اعمال کی بنا پر پہلے ہی مشکوک ہو۔ چنانچہ ایسے جھوٹے لوگ دوسروں کو اپنی سچائی کا یقین دلانے کے لیے ہر بات پر قسم کھاتے ہیں۔جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے منافقین کے متعلق قرآن میں آیا ہے کہ وہ قسمیں کھاکھاکر اپنی کردار سازی کیا کرتے تھے۔چنانچہ یہاں اصل مراد وہ جھوٹا شخص ہے جو قسموں کے ذریعے سے جھوٹ کو سچ ثابت کرتا ہے۔

حدیث: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے حاکم کے سامنے جھوٹی قسم کھائی تاکہ اس کے ذریعے کسی مسلمان کا مال مارلے، تو قیامت کے دن اللہ کے سامنے اس حال میں اس کی پیشی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ اس پر سخت غضبناک اور ناراض ہونگے۔ (بخاری، مسلم)

حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے قسم کھا کر کسی مسلمان کا حق ناجائز طور پر مارلیا، تو اللہ نے ایسے آدمی کے لیے دوزخ واجب کردی ہے اور جنت کو اس پر حرام کردیا ہے۔ حاضرین میں سے کسی شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!اگرچہ وہ کوئی معمولی ہی چیز ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! اگرچہ جنگلی درخت پیلوکی ٹہنی ہی ہو۔ (مسلم)

حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی کا مال جھوٹی قسم کھا کر مارلے گا وہ اللہ کے سامنے کوڑھی ہو کر پیش ہوگا۔(ابوداؤد)

حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا : خرید وفروخت میں زیادہ قسمیں اٹھانے سے اپنے آپ کو بچاؤ۔ پس اس سے سودا تو زیادہ بکتا ہے لیکن برکت مٹ جاتی ہے۔ (مسلم)

2۔ ذلیل ہونا (مھین یاذلیل)

وضاحت: ’مھین‘عربی میں ذلیل و حقیر آدمی کو کہتے ہیں۔یہاں اس سے مراد ایسا انسان ہے جو اپنی گھٹیاحرکتوں کی بنا پر عزت نفس اور وقار گنوابیٹھا ہو۔ اپنی خواہشات کے پیچھے اعلیٰ اخلاقی رویوں کو پامال کرنا اس کا معمول ہو۔کردار کی بلندی ان لوگوں کا خاصہ ہوتی ہے جنھیں اپنی عزت نفس کا پاس ہو۔ مگر جو لوگ مفادات کے لیے عزت نفس کو بھی قربان کردیں ، ایسے لوگ کچھ دنیوی فائدے تو شاید حاصل کرلیں ، مگر اخلاقی طور پر وہ دیوالیہ ہوجاتے ہیں۔پھرعزت نفس کھونے کے بعد یہ لوگ ہر اخلاقی حدکو پار کرکے اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

حدیث:حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کی نیت اپنی سعی وعمل سے آخرت کی طلب ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے دل کو غنا نصیب فرمادیں گے۔ اور اس کے پراگندہ حال کو درست فرمادیں گے، اور دنیا اس کے پاس خود بخود ذلیل ہوکر آئے گی۔ اور جس شخص کی نیت دنیا طلب کرنا ہوگی، اللہ تعالیٰ محتاجی کے آثار اس کی بیچ پیشانی میں اس کے چہرے پر پیدا کردیں گے۔ اور اس کے حال کو پراگندہ کردیں گے اور یہ دنیا اس کو بس اسی قدر ملے گی جس قدر اس کے واسطے پہلے سے مقدر ہوچکی ہوگی۔ (ترمذی)

3۔اشارہ باز ہونا (اشارہ باز)

وضاحت: دوسرے انسانوں کی تحقیر کا ایک عام طریقہ یہ ہے کہ ان پر اشارے کیے جائیں اور فقرے کسے جائیں۔ ان کی انسانی کمزوریوں کو اپنے طنز و مذاق کا موضوع بنایا جائے۔ ان پر پھبتی چست کی جائے اور ان کی نقل اتاری جائے۔ یہی وہ صفت ہے جسے یہاں بیان کیا گیا ہے۔

حدیث:حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں کسی کی نقل اتارنا پسند نہیں کرتا، چاہے اس کے بدلے مجھے بہت سی دولت ملے۔ (ترمذی)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے (لہذا) نہ خود اس پر ظلم وزیادتی کرے، نہ اس کو بے یار و مددگار چھوڑے، نہ اس کی تحقیر کرے۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینۂ مبارک کی طرف تین دفعہ اشارہ کرکے فرمایا) تقویٰ یہاں ہوتا ہے۔ کسی آدمی کے لیے یہی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے، اوراس کی تحقیر کرے۔ مسلمان کی ہر چیز دوسرے مسلمان کے لیے حرام ہے۔ اس کا خون بھی، اس کا مال بھی اور اس کی آبرو بھی۔ (مسلم)

4۔چغل خوری کرنا (چغلیاں لگانے والے )

وضاحت: انسانوں میں پھوٹ ڈلوانے کا یہ سب سے موثر نسخہ ہوتا ہے۔لگائی بجھائی اور چغل خوری سے دوستوں، رشتہ داروں اور دوسرے تعلقات میں دراڑ ڈالنا بہت آسان ہوتا ہے۔اسی سے لوگوں کو دوسروں سے کاٹ کر اپنے ساتھ ملایا جاتا ہے ۔اس کے علاوہ کسی طاقتور آدمی کے سامنے دوسروں کی چغل خوری کرنا بہت سے ذاتی مفادات کے حصول کا سبب بن جاتا ہے۔مگر یہی وہ رویہ ہے جو رب کوبے حد ناپسند ہے۔

حدیث: ہمام بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی حاکم تک لوگوں کی باتیں نقل کرتا تھا، حضرت ہمام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ پھر وہ آدمی ہم میں آکر بیٹھ گیا تو حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ چغل خور جنت میں داخل نہیں ہوگا۔( صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 291)

حضرت عبدالرحمن بن غنم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اسماء بنت یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے بہترین بندے وہ ہیں جن کو دیکھ کر اللہ یاد آئے، اور بدترین بندے وہ ہیں جو چغلیاں کھانے والے، دوستوں میں جدائی ڈالنے والے ہیں۔ اور جو اس کے طالب اور ساعی رہتے ہیں کہ اللہ کے پاک دامن بندوں کو کسی گناہ سے ملوث یا کسی مصیبت اور پریشانی میں مبتلا کریں۔ (مسند احمد)

۳۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے ساتھیوں میں سے کوئی کسی دوسرے کی بات مجھے نہ پہنچایا کرے۔ میں چاہتا ہوں کہ میں جب تم لوگوں میں آؤں تو میرا دل (سب کی طرف سے) صاف اور بے روگ ہو۔ (ابوداؤد)

5۔بھلائی سے روکنے والا (بھلائی سے روکنے والے)

وضاحت: انسانی کردار کا یہ ایک انتہائی منفی پہلو ہے کہ آدمی نہ خود کسی بھلائی کی طرف پیش قدمی کرتا ہے اور نہ دوسروں کو ایسا کرنے دیتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ دوسرے خیر میں آگے بڑھیں گے تواسے بھی بڑھنا پڑے گا۔ یہ اس شخص کو گوارا نہیں ہوتا۔ اس لیے وہ پہلے مرحلے ہی پر دوسروں کو انفاق اور دوسری نیکیوں سے روکتا ہے تاکہ اس کے بخل اور برائی کا پول نہ کھل سکے۔

حدیث: حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ کے احکام کو توڑتے ہوئے دیکھتا ہے مگر ٹوکتا نہیں، اس کے ساتھ رواداری برتتا ہے، ان دونوں کی مثال ایسی ہے جیسے کہ کچھ لوگوں نے ایک کشتی لی۔ اس کشتی میں مختلف درجے ہیں، اوپر نیچے۔ چند آدمی اوپر کے حصے میں بیٹھے اور چند نچلے حصے میں، تو جو لوگ نچلے حصے میں بیٹھے تھے، وہ پانی کے لیے اوپر والوں کے پاس سے گذرتے تاکہ سمندر سے پانی بھریں تو اوپر والوں کو اس سے تکلیف ہوتی۔ آخر کار نیچے کے لوگوں نے کلہاڑی لی اور کشتی کے پیندے کو پھاڑنے لگے۔ اوپر کے لوگ آئے اور کہا تم یہ کیا کرتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہمیں پانی کی ضرورت ہے اور سمندر سے پانی اوپر جاکر ہی بھرا جاسکتا ہے اور تم ہمارے آنے جانے سے تکلیف محسوس کرتے تو اب ہم کشتی کے تختوں کوتوڑ کر سمندر سے پانی حاصل کریں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مثال دے کربیان فرمایا: اگر اوپر والے نیچے والوں کا ہاتھ پکڑ لیتے اور سوراخ کرنے سے روک دیتے ہیں تو انہیں بھی ڈوبنے سے بچالیں گے اور اپنے کو بھی بچالیں گے، اور اگر انہیں اس حرکت سے نہیں روکتے اور چشم پوشی اختیار کرتے ہیں تو انہیں بھی ڈبوئیں گے اور خود بھی ڈوبیں گے۔(بخاری)

حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ جب خیرات کرنے کا حکم آیا تو ہم مزدوری پر بوجھ اٹھایا کرتے تھے۔ ایک دن ابوعقیل آدھا صاع کھجور لے کر آئے اور ایک شخص عبدالرحمن بن عوف بہت زیادہ مال لے کر آئے۔ منافق کہنے لگے اللہ اس حقیر خیرات سے بے پروا ہے اور یہ زیادہ مال دکھانے کے لئے لایا گیا ہے۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی کہ منافق خیرات کرنے والوں کو عیب لگاتے ہیں جو کم دیتا ہے اسے حقیر کہتے ہیں اور جو زیادہ دیتا ہے اسے ریاکاری پر محمول کرتے ہیں۔ (صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر1784)

6۔حد سے بڑھنے والا ( حدسے تجاوزکرنے والے )

وضاحت: ایسا کردار دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتا ہے۔ وہ ان پر ظلم و زیادتی کرتا ہے۔ ان کی جان ، مال، آبرو پر حملے کرتا ہے۔حدود کی یہی پامالی یہاں مراد ہے۔ظلم و ستم اور دوسروں پر زیادتی کا یہ رویہ روز قیامت بدترین نتائج کا باعث بنے گا۔

حدیث:حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ظلم قیامت کے دن ظالم کے لیے سخت اندھیرا بن جائے گا۔

حضرت اوس بن شرحبیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ جو شخص کسی ظالم کا ساتھ دے کر اسے قوت پہنچائے اور و ہ جانتا ہو کہ یہ شخص ظالم ہے تو اسلام سے خارج ہے۔(مشکوٰۃ)

7۔حق تلفی کرنے والا (حق مارنے والے)

وضاحت: اس صفت سے مراد یہ ہے کہ ایسا شخص اپنے ذمے عائد کسی حق کو پورا کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ اسے صرف اپنے حقوق سے دلچسپی ہوتی ہے، مگر دوسروں کے حقوق کے معاملے میں وہ بے حس ہوتا ہے۔

حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حق ہیں۔پوچھا گیا وہ کیا حق ہیں تو فرمایا:جب تو مسلمان بھائی سے ملے تو اسے سلام کر ،جب وہ تجھے دعوت دے تو اس کی دعوت قبول کر،جب وہ تجھ سے خیر خواہی چاہے تو اس سے خیر خواہی کر،جب اسے چھینک آجائے اور وہ الحمدللہ کہے تو اس کا جواب دے اور وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کر اور جب وہ مرجائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جا۔

8۔سنگدل ہونا (سنگدل)

وضاحت: اوپر جو اعمال بیان ہوئے ہیں یہ اس کی اصل وجہ ہے۔ یعنی جو انسان سنگدل ہے، بے حس ہے ،وہ یہی سب کچھ کرے گا۔نرمی خدا کو بیحد پسند ہے اور سنگدلی اتنی ہی ناپسند۔

حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے مصدوق سیدناالقاسم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ نہیں نکالاجاتا رحمت کا مادہ مگر بدبخت کے دل سے۔ (مسند احمد، ترمذی)

۲۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بوسہ لیا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اقرع بن حابس بیٹھے ہوئے تھے۔ اقرع نے کہا: میرے دس بیٹے ہیں، میں نے ان میں سے کسی ایک کا بھی بوسہ نہیں لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھ کر فرمایا: جو کسی پر رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ (بخاری، مسلم)

مالک بن حویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم سب جوان اور ہم عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آئے اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیس راتیں ٹھہرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہایت مہربان اور نرم دل تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس چیز کا خیال ہوگیا کہ ہمیں اپنے وطن جانے کا اشتیاق ہوگیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے پوچھا کہ تم اپنے گھروں میں سے کس کو چھوڑ کر آئے ہو؟ تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس سے باخبر کردیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنے گھروں کی طرف واپس جاؤ اور ان میں ٹھہرو اور ان کو دین کی باتیں سکھاؤ اور جب نماز کا وقت آجائے تو تم میں سے کوئی اذان دے پھر تم میں سے جو سب سے بڑا ہو وہ تمہارا امام بنے۔ (صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 1530)

9۔بد اصل ہونا (اوران سب عیوب کے ساتھ بداصل)

وضاحت: یہاں وہ شخص مرادہے جوکسی ایک خاندان یا قوم کا فرد ہونے کے باجود اپنا تعلق دوسروں سے ملائے۔ یہ کام انسان عام طور پر عزت ومرتبے کے حصول کے لیے کرتا ہے یا مفادات کے لیے۔ اسی لیے یہ چیزقابل مذمت ٹھہری ہے۔

حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مومن آدمی بھولا بھالا (دھوکہ کھانے والا) اور شریف ہوتا ہے اور فاسق انسان دھوکہ باز اور کمینہ ہوتا ہے۔( سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1362)

10۔نعمتیں پاکر غافل ہونا (یہ کردار اس وجہ سے ہوا کہ وہ مال و اولاد والا ہے)

وضاحت: نعمتیں اس دنیا میں امتحان کے لیے دی جاتی ہیں۔انسان کوخدا کی نعمتوں پر شکر گزار ہونا چاہیے، مگر جب مال و اولاد اور دیگر نعمتیں ملنے پر انسان خدا کو بھول جائے اور غفلت کا مظاہرہ کرے تو وہ کردار وجود میں آتا ہے جس کا اوپر تفصیلی ذکر ہوا۔ اس لیے یہ خود ایک انتہائی منفی رویہ ہے کہ کوئی شخص خدا کی نعمتیں پا کر غافل ہوجائے۔

حدیث: حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کے اس عمل سے بڑا خوش ہوتا ہے کہ وہ کچھ کھائے اور اس پر اللہ کی حمد اور اس کا شکر کرے یاکچھ پیئے اور اس پر اس کی حمد اور شکر ادا کرے۔ (مسلم)

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اس آدمی کی طرف دیکھو کہ جو تم سے کم تر درجہ میں ہے اور اس آدمی کی طرف نہ دیکھو کہ جو درجہ میں تم سے بلند ہو تاکہ تم اللہ کی نعمتوں کو حقیر نہ سمجھنے لگ جاؤ۔ (صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2933)

11۔آیات الٰہی کی تکذیب (جب اس کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں توکہتا ہے ، یہ تو اگلوں کے افسانے ہیں)

وضاحت: مشرکین جب قرآن سنتے تو اس کا مذاق اُڑاتے تھے۔قرآن کی تکذیب کے لیے ان کا ایک موثر حربہ یہ تھا کہ وہ قرآن کوقصے کہانیوں کی نوعیت کی کوئی چیز قرار دیتے تھے۔

آج ہم مسلمان سمجھتے ہیں کہ قرآن کی تکذیب کرنے والوں اور مذاق اڑانے والوں کا رویہ ہم میں نہیں ہے۔ مگر آج کا مسلمان قرآن سے اتنا دور ہے کہ اس کا رویہ تکذیب سے کچھ کم نہیں۔ ہم قرآن کا حکم سنتے ہیں، مگر مانتے نہیں۔ آیات الہی سنتے ہیں، مگر دل میں یقین پیدا نہیں ہوتا، اللہ کی مرضی ومنشا کو صاف صاف سنتے ہیں، مگر پھر بھی زندگی نہیں بدلتی۔ یہ سب بھی ایک نوعیت کی تکذیب ہی ہے۔قرآن میں تورات کے حوالے سے یہود کے اسی رویے کو’ تکذیب ‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ (الجمعہ62:5)

حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (اللہ تعالیٰ نے فرمایا) مجھے ابن آدم نے جھٹلایا حالانکہ اس کے لئے یہ مناسب نہ تھا اور مجھ کو اس کا جھٹلانا تو اس کا یہ کہنا ہے کہ میں اسے دوبارہ زندہ نہیں کروں گا جیسا کہ میں نے پہلی بار اس کو پیدا کیا اور مجھ کو اس کا گالی دینا یہ کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیٹا بنا لیا ہے حالانکہ میں بے نیاز ہوں کہ نہ میں نے کسی کو جنا اور نہ میں کسی سے جنا گیا ۔ (صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 2092)

____________

 

B