HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Rehan Ahmed Yusufi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

ابدی نعمتیں کن کے لیے ہیں

’’جوکچھ بھی تم لوگوں کودیاگیاہے وہ محض دنیاکی چندروزہ زندگی کاسروسامان ہے،اورجوکچھ اللہ کے ہاں ہے وہ بہتربھی ہے اورپائیداربھی۔وہ ان لوگوں کے لیے ہے جو:
ایمان لائے ہیں۔
اوراپنے رب پربھروسہ کرتے ہیں۔
اورجوبڑے بڑے گناہوں اوربے حیائی کے کاموں سے پرہیزکرتے ہیں۔
اوراگر غصّہ آجائے تودرگزرکرجاتے ہیں۔
اورجواپنے رب کی دعوت پر لبیک کہتے ہیں۔
اور نمازقائم کرتے ہیں۔
اور ان کا نظام شوریٰ پر ہوتا ہے۔
اورہم نے جوکچھ بھی رزق انہیں دیاہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
اورجب ان پرزیادتی کی جاتی ہے تواس کامقابلہ کرتے ہیں۔۔۔برائی کابدلہ ویسی ہی برائی ہے،پھرجوکوئی معاف کردے اوراصلاح کرے اس کااجراللہ کے ذمہ ہے،اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ اورجولوگ ظلم ہونے کے بعدبدلہ لیں ان کوملامت نہیں کی جاسکتی، ملامت کے مستحق تووہ ہیں جودوسروں پرظلم کرتے ہیں اورزمین میں ناحق زیادتیاں کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے۔
اور جس نے صبر کیا اورمعاف کیا ،تو بے شک یہ بڑی اولوالعزمی کے کاموں میں سے ہے۔‘‘ (شوریٰ 42: 36-43)


عنوان و مطالبات

دنیا کی فانی نعمتیں انسان کو اکثر دھوکے میں ڈال دیتی ہیں۔حالانکہ جو نعمتیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کے لیے جنت میں تیار کررکھی ہیں وہ دنیا کی نعمتوں سے زیادہ اچھی بھی ہیں اوروہ فانی نہیں بلکہ ہمیشہ رہنے والی ہیں۔یہ نعمتیں جن لوگوں کو ملیں گی ان کی خصوصیات درج ذیل ہیں۔

1۔ایمان (اورجوکچھ اللہ کے ہاں ہے ۔۔۔وہ ان لوگوں کے لیے ہے جوایمان لائے ہیں)

وضاحت: خدا کے مطلوب انسان کی پہلی خصوصیت ایمان ہے۔اپنے تعصبات اور حالات کے جبر کے باوجود جو لوگ ایمان لاتے ان کا ایمان ہی اتنا قیمتی ہوتا ہے کہ نجات کے لیے کافی ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ ہر مقام پر ایمان کے ساتھ کچھ دیگر اعمال کا بھی مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ گویا ایمان کے لازمی اجزا ہیں۔یہاں بھی ایمان کے بعد ان مطالبات کی تفصیل کی گئی ہے۔

حدیث: ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے، یکایک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ایک شخص آیا اور اس نے (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) پوچھا کہ ایمان کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر اور اسکے فرشتوں پر اور (آخرت میں) اللہ کے ملنے پر اور اللہ کے پیغمبروں پر ایمان لاؤ اور قیامت کا یقین کرو،( صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 49)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایمان کی ستر سے بھی کچھ اوپر شاخیں ہیں اور ان مین سب سے اعلیٰ اور افضل تو لاالہ الاللہ کا قائل ہونا ہے اور ان میں ادنیٰ درجے کی چیز اذیت اور تکلیف دینے والی چیزوں کا راستہ سے ہٹا دینا ہے اور حیا ایمان کی ایک اہم شاخ ہے۔ (بخاری ومسلم)

حضرت عبادہ بن صابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناہے، آپ ارشاد فرماتے تھے کہ: جو کوئی شہادت دے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت وبندگی کے لائق نہیں ہے اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں، تو اللہ نے اس شخص پر دوزخ کی آگ حرام کردی ہے۔ (مسلم)

2۔توکل (اوراپنے رب پربھروسہ کرتے ہیں)

وضاحت: توکل اہل ایمان کی بنیادی اور لازمی صفات میں سے ایک ہے۔ توکل رکھنے والے اہل ایمان زندگی کے ہر سرد و گرم میں اللہ پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ وہ مشکلات میں مایوس نہیں ہوتے اور نعمتوں کو اپنا کمال سمجھنے کے بجائے خدا کی عطا سمجھتے ہیں۔ انہیں اس بات پر بھی بھروسہ ہوتا ہے کہ خدا نے جنت کے جو وعدے کیے ہیں وہ انہیں ضرور پورا کرے گا۔

حدیث: حصین بن عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ تو انہوں نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں سے ستر ہزار آدمی جنت میں بغیر حساب کے داخل ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو جھاڑ پھونک نہیں کرتے، اور نہ شگون لیتے ہیں اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔( صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1393)

حضرت عمروبن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی کا دل ہروادی میں بھٹکتا رہتا ہے، تو جو شخص اپنے دل کو وادیوں میں بھٹکنے کے لیے چھوڑدے گا تو اللہ کو پروانہ ہوگی کہ اسے کون سی وادی تباہ کرتی ہے، اور جو شخص اللہ پر توکل کرے گا، اللہ تعالیٰ اسے ان وادیوں اور راستوں میں بھٹکنے اور تباہ ہونے سے بچائے گا۔ (مشکوۃ، ابن ماجہ)

3۔اثم اور فواحش کی نوعیت کے بڑے گناہوں سے بچنا (اورجوبڑے بڑے گناہوں اوربے حیائی کے کاموں سے پرہیزکرتے ہیں)

وضاحت: ’اثم‘ گناہوں کی وہ قسم ہے جس کا تعلق انسانوں کی حق تلفی سے ہے اور جن کا برا ہونا انسانی معاشروں میں ایک مسلمہ ہو۔فواحش ان چیزوں کو کہتے ہیں جو بے حیائی اور جنسی بے راہروی پر مبنی ہوں۔ یہاں اور سورہ نجم آیت 32میں ان دونوں کے حوالے سے بڑے بڑے گناہوں پر تنبیہ کی گئی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان اپنے مزاج اور خواہشات کی بناپران گناہوں کی ابتدائی شکلوں میں ملوث ہوسکتا ہے۔ مگر اس کا مطلب چھوٹے گناہوں کے بارے میں کھلی چھوٹ نہیں۔چھوٹے گناہ جب عادت بن جائیں تو بڑے گناہ کا ارتکاب باآسانی ہوجاتا ہے۔

حدیث:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح، اور حلال وحرام کے درمیان کچھ امور غیر واضح ہیں جن کو بہت آدمی نہیں جانتے پس جو شخص ان مشتبہ امور سے بچا رہا وہ اپنی آبرو اور دین کو بے داغ بچالے گا اور جو مشتبہات میں پڑ گیا(آخرکار) حرام میں پڑجائے گا جیسے کوئی چرواہا اگر محفوظ چراہ گاہ کے آس پاس چراتا ہے تو اغلب ہے کہ وہ چراگاہ کے اندر بھی جا پڑے۔ (متفق علیہ)

4۔غصہ پر قابو اور درگزر (اوراگر غصّہ آجائے تودرگزرکرجاتے ہیں)

وضاحت: باہمی معاملات میں بارہا دوسروں کا رویہ انسانوں کو غصہ دلانے کا سبب بن جاتا ہے۔ مگر بندہ مومن سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اشتعال دلانے کے مواقع پر بھی غصہ میں نہ آئے اور لوگوں کو معاف کرنے کی روش اختیار کرے۔اسی سے یہ بات بھی واضح ہے کہ بلاوجہ غصہ کرنا کس درجہ کی ناپسندیدہ بات ہے۔

حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ طاقتور آدمی پہلوان نہیں ہوتا صحابہ کرام نے عرض کیا اے اللہ کے رسول پھر طاقتور کون آدمی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو غصہ کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھ سکے۔ (صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2147)

5۔اللہ کی پکار کا جواب (اورجواپنے رب کی دعوت پر لبیک کہتے ہیں)

وضاحت: اللہ تعالیٰ نے انسان کو خیر و شر کا شعور دے کر اس دنیا میں بھیجا ہے ۔ پھر اس دنیا میں شیطان کے پیرو بھی ہیں اور رحمان کی طرف بلانے والے بھی ہیں۔اہل ایمان ہر موقع پر شیطان کے بجائے رحمان کی پیروی کرتے اور اسی کی پکار کا جواب دیتے ہیں ،چاہے یہ کام کتنا ہی مشکل کیوں نہ لگے۔ اللہ کی طرف بلانے کی یہ پکار آخری دفعہ نبی آخر الزماں نے کامل صورت میں بلند کی تھی اور اب قیامت تک یہ پکار قرآن کریم کی پکار ہے جس کا جواب دینا ہم میں سے ہر شخص پر فرض ہے۔

حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس آیت یعنی ’’اے رسول! اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے ‘‘(الشعراء26:214)کے نزول کے بعد کھڑے ہوئے تو ارشاد فرمایا کہ اے گروہ قریش (یا اسی جیسا کوئی اور کلمہ فرمایا) اللہ کی اطاعت کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں میں تمہارے کسی کام نہیں آ سکتا ہوں اے بنی عبد مناف! اللہ کے ہاں میں تمہارے کسی کام نہیں آ سکتا اے عباس بن عبد المطلب ! اللہ کے ہاں میں تمہارے کسی کام نہیں آ سکتا ۔اے صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پیغمبر خدا کی پھوپھی! میں خدا کے سامنے تمہارے کسی کام نہیں آ سکتا ۔اے فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم میرے مال سے سب کچھ لے سکتی ہو مگر جب تک نیک عمل نہیں کروگی خدا کے سامنے میں تمہارے کسی کام نہیں آ سکتا۔(صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1887 )

6۔نماز (اور نمازقائم کرتے ہیں)

رب کی پکار پر لبیک کہنے کے بعد جو پہلا مطالبہ اہل ایمان کے سامنے آتا ہے و ہ نماز کا ہوتا ہے۔ چنانچہ پنج وقتہ نماز کی ادائیگی ایمان کی سب سے بڑی شناخت اور فرمانبرداری کا سب سے بڑا اظہارہے۔قرآن کریم سورہ عنکبوت میں یہ بھی واضح کرتا ہے کہ نماز فواحش و منکرات اور دیگر گناہوں سے روکتی ہے۔ یہی وہ چیزیں ہیں جن سے رکنے کا مطالبہ ابتدائی آیات میں کیا گیا ہے۔ نماز اس پہلو سے بھی بڑی اہم ہے کہ وہ گناہ سے روکتی بھی ہے اور انہیں دھوتی بھی ہے۔

حدیث: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ بتاؤ کہ اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر ایک نہر ہو جس میں وہ روزانہ پانچ مرتبہ نہائے تو کیا اُس کے جسم پر میل نام کی کوئی چیز باقی رہ جائے گی؟ لوگوں نے عرض کیا: اس صورت میں تو یقیناً میل کا کوئی شائبہ باقی نہ رہے گا۔ آپ نے فرمایا: یہ پانچ نمازوں کی مثال ہے۔ اللہ ان کے ذریعے سے بالکل اسی طرح گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔(بخاری، رقم 528)

7۔مشاورت (اور ان کا نظام شوریٰ پر ہوتا ہے)

وضاحت: انسان تنہا زندگی نہیں گزارتا بلکہ لوگوں میں جیتا ہے۔مسلمان جب اجتماعیت میں ڈھلتے ہیں تو دین کا مطالبہ یہ ہے کہ وہ اپنا نظم اجتماعی باہمی مشاورت کے اصول پر قائم کریں۔نہ کہ آمریت اور نسل و خاندان کے بادشاہی طریقے پر۔

حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امانت دار یعنی خیرخواہ ہو، خیانت کار یعنی بدخواہ نہ ہو۔ (مسلم)

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امین ہو اوروہی مشورہ دے جو اپنے لیے پسند کرتا ہو۔ (طبرانی)

حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس سے مشورہ طلب کیا جائے اس کو امانتدار ہونا چاہیے خواہ مشورہ دے یا نہ دے۔ (طبرانی)

8۔انفاق (اورہم نے جوکچھ بھی رزق انہیں دیاہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں)

قرآن کریم میں نماز کے ساتھ جگہ جگہ انفاق یا اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا مطالبہ بیان کیا جاتا ہے۔نماز حقوق رب کی جامع ہے تو انفاق حقوق العباد کا سب سے بڑااظہار ہے۔ یہاں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ انسان جو خرچ کرتا ہے وہ درحقیقت اللہ کے دیے ہوئے ہی میں سے ہوتا ہے۔ اس لیے یہ کسی پر احسان نہیں بلکہ اللہ کے دیے ہوئے میں سے کچھ حصہ اس کے حکم پر اس کے بندوں کو دینا ہے۔

حدیث:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر بندے کو اللہ کا پیغام ہے کہ اے آدم کے فرزند! تو (میرے ضرورت مندبندوں پر) اپنی کمائی خرچ کر، میں اپنے خزانہ سے تجھ کو دیتا رہوں گا۔ (بخاری، مسلم)

حضرت اسما بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: تم اللہ کے بھروسہ پر اس کی راہ میں کشادہ دستی سے خرچ کرتی رہو اور گنومت۔ اگر تم اس کی راہ میں اس طرح حساب کرکے دوگی تو وہ بھی تمھیں حساب ہی سے دے گا۔ اور دولت جوڑ جوڑ کر اور بندکرکے نہ رکھو ورنہ اللہ بھی تمھارے ساتھ یہی معاملہ کرے گا۔ لہذا تھوڑا بہت جو ہوسکے اور جس کی توفیق ملے راہ خدا میں کشادہ دستی سے دیتی رہو۔ (بخاری، مسلم)

9۔عدل کے ساتھ بدلہ لینا (اورجب ان پرزیادتی کی جاتی ہے تواس کامقابلہ کرتے ہیں۔۔۔برائی کابدلہ ویسی ہی برائی ہے)

وضاحت: اوپر غصہ کی حالت میں معافی کا حکم دیا گیا ہے مگر بعض اوقات عملاً انسان ایسی زیادتی کرتے ہیں جن کا بدلہ لینا معاشرے کے لیے بہتر ہوتا ہے۔ اسی کا یہاں حکم دیا گیا ہے۔ اسی اصول پر اسلام جرائم کی سزائیں مقرر کرتا ہے جیسے قتل کی سزا موت ہے۔اسلام میں ظلم کو بلا سبب برداشت کرتے رہنا کوئی دینداری نہیں ہے۔انسان بدلہ لے سکتا ہے۔ تاہم یہاں یہ بتادیا گیا ہے کہ جب زیادتی کا ارتکاب ہو تو اس کا بدلہ اتنا ہی لیا جائے۔ جواب میں زیادتی نہ کی جائے۔

حدیث: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب بھی دو امروں کے درمیان اختیار دیا گیا تو ان میں سے آسان صورت کو اختیار کیا جب تک کہ وہ گناہ کی بات نہ ہو، اگر گناہ کی بات ہوتی تو اس سے بہت زیادہ دور رہتے، خدا کی قسم آپ نے کبھی اپنے لئے انتقام نہیں لیا، جب تک محرمات الہیہ کی خلاف ورزی نہ ہو، اور جب اس کی خلاف ورزی کی ہو تو اللہ کے لئے انتقام لیتے۔ (صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1690)

10۔صبر اور درگزر (اور جس نے صبر کیا اورمعاف کیا ،تو بے شک یہ بڑی اولوالعزمی کے کاموں میں سے ہے)

وضاحت: ظلم کے باوجود معاف کردینا بہرحال ایک بہت افضل عمل ہے۔یہ عزیمت کی راہ ہے۔اور یہ بتادیا گیا ہے کہ یہ مشکل راہ صرف وہی لوگ چل سکتے ہیں جوصبر کی صفت اپنے اندر رکھتے ہوں۔

حدیث:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس بندہ پر کوئی ظلم و زیادتی کی جائے اور وہ محض اللہ کے لیے اس سے درگزر کرے (اور انتقام نہ لے) تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اس کی بھر پور مدد فرمائیں گے۔ (مسند احمد)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کی جناب میں عرض کیا: پروردگار! آپ کے بندوں میں کون آپ کی بارگاہ میں زیادہ باعزت ہیں؟ ارشاد فرمایا: وہ بندے جو (قصوروارپر) قابوپانے کے بعد، اس کو معاف کردیں۔ (البیہقی)

____________

 

B