HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Rehan Ahmed Yusufi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

ایک مرد صالح کی نصیحت

’’ہم نے لقمان کوحکمت عطاکی تھی کہ اللہ کاشکرگزارہو۔جوکوئی شکرکرے اس کاشکراس کے اپنے ہی لیے مفیدہے۔اورجوکفرکرے توحقیقت میں اللہ بے نیازاورآپ سے آپ محمود ہے۔
یادکروجب لقمان اپنے بیٹے کونصیحت کررہاتھاتواس نے کہا’بیٹا!خداکے ساتھ کسی کوشریک نہ کرنا،حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑاظلم ہے‘۔
اوریہ حقیقت ہے کہ ہم نے انسان کواپنے والدین کاحق پہچاننے کی خودتاکیدکی ہے۔اس کی ماں نے ضعف پرضعف اٹھاکراسے اپنے پیٹ میں رکھااوردوسال اس کادودھ چھوٹنے میں لگے۔(اسی لیے ہم نے اس کونصیحت کی کہ)میراشکراوراپنے والدین کا شکر بجالا، میری ہی طرف تجھے پلٹناہے۔لیکن اگروہ تجھ پردباؤڈالیں کہ میرے ساتھ توکسی ایسے کوشریک کرے جسے تونہیں جانتاتوان کی بات توہرگزنہ مان۔اوردنیامیں ان کے ساتھ نیک برتاؤکرتا رہ۔
اوران کے طریقے کی پیروی کرجومیری طرف متوجہ ہیں۔پھرتم سب کوپلٹنامیری ہی طرف ہے،اس وقت میں تمہیں بتادوں گاکہ تم کیسے عمل کرتے رہے ہو۔
(اورلقمان نے کہاتھاکہ)بیٹا،کوئی چیزرائی کے دانہ کے برابربھی ہواورکسی چٹان میں یا آسمانوں یازمین میں کہیں چھپی ہوئی ہو،اللہ اسے نکال لائے گا۔وہ باریک بیں اور باخبر ہے۔
اے میرے بیٹے !،نمازکا اہتمام رکھ،
نیکی کاحکم دے اوربدی سے منع کر،
اورجومصیبت بھی پڑے اس پرصبرکر، یہ وہ باتیں ہیں جن کی بڑی تاکیدکی گئی ہے۔
اورلوگوں سے منہ پھیرکربات نہ کر،نہ زمین پراکڑکرچل،اللہ کسی خودپسنداورفخرجتانے والے شخص کوپسندنہیں کرتا۔
اپنی چال میں اعتدال اختیارکراوراپنی آوازذراپست رکھ،سب آوازوں سے زیادہ بری آوازگدھوں کی آوازہوتی ہے۔‘‘(لقمان 31: 12-19)


عنوان و مطالبات

یہ حضرت لقمان کی نصیحت ہے جو انہوں نے اپنے بیٹے کو کی تھی۔حضرت لقمان عرب کے ایک مشہور حکیم و دانا شخص تھے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ان کی نصیحت کو نقل کرکے اسے یہ سند عطا کردی کہ یہی کچھ اللہ تعالیٰ کو بھی مطلوب ہے۔ یہی وہ خصوصیات ہیں جو صالحین کی سیرت بھی رہی ہیں اور ان کی اپنی اولاد کو نصیحت بھی۔

1۔شکر (ہم نے لقمان کوحکمت عطاکی تھی کہ اللہ کاشکرگزارہو۔جوکوئی شکرکرے اس کاشکراس کے اپنے ہی لیے مفیدہے۔اورجوکفرکرے توحقیقت میں اللہ بے نیازاورآپ سے آپ محمود ہے۔ )

وضاحت:اللہ کا شکر ادا کرنا ایمان کی اصل ہے۔جو شخص شکر گزار ہوتا ہے اس کی نعمتیں بڑھتی ہیں اور جو ناشکری کا رویہ اختیار کرتا ہے وہ اللہ کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔کیونکہ اللہ کسی کا محتاج نہیں سب اللہ کے محتاج ہیں۔سو انسان اگر خود پر اللہ کا فضل چاہے تو شکر گزار رہے اور ناشکری سے بچے کیونکہ اللہ ناشکروں کو پسند نہیں کرتا۔

حدیث: سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھتے تو اس قدر قیام فرماتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں مبارک پرورم آجاتا۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ ایسا کیوں کرتے ہیں حالانکہ آپ کے اگلے پچھلے سب گناہ بخش دیے گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے عائشہ کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں۔ (صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2629)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ لوگ جو تم سے مال ودولت اور دنیاوی جاہ و مرتبہ میں کم ہیں، ان کی طرف دیکھو (تو تمھارے اندر شکر کا جذبہ پیدا ہوگا) اور ان لوگوں کی طرف نہ دیکھو جو تم سے مال و دولت اور دنیاوی سازوسامان میں بڑھے ہوئے ہیں، تاکہ جو نعمتیں تمھیں اس وقت ملی ہوئی ہیں، وہ تمھاری نگاہ میں حقیر نہ ہوں۔ (مسلم )

2۔شرک سے پرہیز (یادکروجب لقمان اپنے بیٹے کونصیحت کررہاتھاتواس نے کہا’بیٹا!خداکے ساتھ کسی کوشریک نہ کرنا،حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑاظلم ہے‘۔)

وضاحت:اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی ناشکری شرک کرنا ہے۔شرک صرف اسی کا نام نہیں کہ خدا کے ساتھ کسی اور کومعبود مانا جائے بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات، صفات اور اختیارات اور حقوق میں کسی اور کو شریک کرنا بھی شرک ہے۔یہاں پر یہ بات بھی واضح کردی گئی ہے کہ شرک سب سے بڑا گناہ ہے۔ دوسری جگہوں پر یہ وضاحت بھی ملتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر گناہ کو معاف کرسکتے ہیں، مگر شرک کرنے کو وہ معاف نہیں کریں گے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس جبرئیل علیہ السلام آئے اور مجھے یہ خوشخبری سنائی کہ آپ کی امت میں سے جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے وہ داخل جنت ہو گا تو میں نے کہا: گو اس نے زنا کیا ہو، گو اس نے چوری کی ہو، آپ علیہ السلام نے فرمایا: ہاں! گو اس نے زنا اور چوری کی ہو۔ (بخاری ومسلم)

3۔ماں باپ کی شکر گزاری(( ہم نے اس کونصیحت کی کہ)میراشکراوراپنے والدین کا شکر بجالا)

وضاحت: اللہ تعالیٰ کے نزدیک اپنے حقوق کے بعد سب سے اہم حق والدین کاہے۔ اس لیے اپنے ساتھ ان کی شکر گزاری کی تلقین کی گئی ہے۔ماں کے خصوصی ذکر سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ خدمت اور شکر گزاری میں اس کا حق باپ سے زیادہ ہے۔لیکن اگر والدین شرک اور خدا کی نافرمانی پر ابھاریں تو ان جیسی ہستی کی بات کی بھی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ خدا کے حق سے بڑا کسی کا حق نہیں ہے۔

حدیث: حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور اس نے عرض کیا میں ہجرت اور جہاد کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم (کے ہاتھ پر) بیعت کرتا ہوں اور اللہ تعالی سے اس کا اجر چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تیرے والدین میں سے کوئی زندہ ہے؟ اس نے عرض کیا جی ہاں بلکہ دونوں زندہ ہیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اللہ سے اس کا اجر چاہتے ہو؟ اس نے عرض کیا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے والدین کی طرف جا اور ان دونوں سے اچھا سلوک کر۔ (صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2010)

4۔نیک لوگوں کی پیروی (اوران کے طریقے کی پیروی کرجومیری طرف متوجہ ہیں)

وضاحت: شرک کے معاملے میں والدین کی پیروی سے منع کرنے کے ساتھ ہی یہ بھی بتادیا گیا ہے کہ انسان کو اگر پیروی کرنی ہے تو ا ن لوگوں کی کرنی چاہیے جو خدا پرست ہیں۔ یہیں سے یہ بات واضح ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے راستے سے ہٹے ہوئے ہیں ، ایسے لوگوں کی پیروی اللہ تعالیٰ کو قطعاً پسند نہیں۔

حدیث:حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے اچھا طریقہ جاری کیا اور اس میں اس کی اتباع کی گئی تو اس کے لیے بھی اس کے متبعین کے برابر ثواب ہوگا اور ان کے ثواب میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ جبکہ اگر کسی نے برائی کے کسی طریقے کو رواج دیا اور لوگوں نے اس کی اتباع کی تو اس کے لیے بھی اتنا ہی گناہ ہوگا جتنا اس کی اتباع کرنے والوں کے لیے اور ان کے گناہ میں کوئی کمی نہیں آئے گی(ترمذی ، 585 )۔

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نیک ساتھی اور برے ساتھی کی مثال اس طرح ہے جیسے کستوری والا اور آگ کی بھٹی دھونکنے والا۔ کستوری والا یا تو تجھے عطیہ دے گا یا تو خود اس سے خرید لے گا پھر تو اس سے پاکیزہ خوشبو پالے گا۔ اور بھٹی دھونکنے والا یا تو تیرے کپڑے جلا ڈالے گا یا تو اس سے بدبودار ہوا پائے گا۔ (بخاری، مسلم)

5۔خدا کے علم سے ڈرتے رہنا (کوئی چیزرائی کے دانہ کے برابربھی ہواورکسی چٹان میں یا آسمانوں یازمین میں کہیں چھپی ہوئی ہو،اللہ اسے نکال لائے گا۔وہ باریک بیں اور باخبر ہے)

وضاحت:انسان کا عمل جتنا بھی چھوٹا ہو اور کسی بھی جگہ چھپ کر کیا جائے ، اللہ تعالیٰ اس سے واقف رہتے ہیں۔وہ رائی کے دانے کے برابر عمل کو بھی قیامت کے دن نامہ اعمال میں پیش کردیں گے۔ یہ یقین انسان کو نیکی پر ابھارتا اور گناہوں سے روکتا ہے۔ یہی تقوٰی کی اساس ہے۔

حدیث:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابوالقاسم علیہ السلام نے فرمایا: قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر (اللہ کے قہرو جلال اور قیامت وآخرت کے لرزہ خیز ہولناک احوال کے متعلق) تمھیں وہ سب معلوم ہوجائے، جو مجھے معلوم ہے، تو تمھارا ہنسنا بہت کم ہوجائے اور رونا بہت بڑھ جائے۔ (بخاری)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص ڈرتا ہے وہ شروع رات میں چل دیتا ہے اور جوشروع رات میں چل دیتا ہے، وہ عافیت کے ساتھ اپنی منزل پر پہنچ جاتا ہے۔ یادرکھواللہ کاسودا سستا نہیں بہت مہنگا اور بہت قیمتی ہے۔ یاد رکھو اللہ کا وہ سودا جنت ہے۔ (ترمذی)

6۔نماز (اے میرے بیٹے !نمازکا اہتمام رکھ)

وضاحت: نماز خدا کی شکرگزاری کا سب سے بڑا اظہار ہے، اس لیے اس کا یہاں خاص کر ذکر آیا ہے۔مگر ان نصیحتوں کا ایک اور پہلو ہے جس پر توجہ رکھنا ضروری ہے وہ یہ کہ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو بااہتمام یہ نصائح فرمائی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ اولاد کی تربیت کا خصوصی اہتما م کریں اور ان تمام اچھی بری چیزوں کے حوالے سے خاص طور پر بٹھاکر نصیحت کریں۔ نماز چونکہ سب سے بڑا دینی حکم ہے اس لیے والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس حوالے سے اولاد کو نصیحت کرتے رہیں۔

حدیث: حضرت جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز پڑھنے اور زکوٰۃ دینے اور ہر مسلمان سے خیر خواہی کرنے (کے اقرار) پر بیعت کی۔( صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 56)

حضرت سعید بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ باپ اولاد کو جو کچھ دیتا ہے، اس میں سب سے بہتر عطیہ اس کی اچھی تعلیم وتربیت ہے۔ (مشکوۃ)

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی اولاد کا اکرام کرو، اور (اچھی تربیت کے ذریعے) ان کو حسن ادب سے آراستہ کرو۔ (ابن ماجہ)

7۔امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (اے میرے بیٹے ! نیکی کاحکم دے اوربدی سے منع کر)

وضاحت:معروف سے مراد وہ ا چھائیاں ہیں جو انسانیت کے نزدیک مسلم ہیں جبکہ منکر اس کی ضد ہے۔ ایک مومن معاشرے کے خیر و شر سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ اس لیے وہ ہمیشہ لوگوں کو اچھائیوں کی تلقین اور برائیوں سے باز رہنے کی نصیحت کرتا ہے۔

حدیث: حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے کسی نیک کام کی طرف (کسی بندے کی) رہنمائی کی تو اس کو اس نیک کام کے کرنے والے بندے کے اجر کے برابر ہی اجر ملے گا۔ (مسلم)

حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم اس پاک ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے تم پر لازم ہے اور تم کو تاکید ہے کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے رہو، یا پھر ایسا ہوگا کہ اللہ تم پر اپنا کوئی عذاب بھیج دے گا، پھر تم اس سے دعائیں کرو گے اور تمھاری دعائیں قبول نہیں کی جائیں گی۔ (ترمذی)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی شخص (اپنے دائرہ اختیار میں) کوئی برائی دیکھے تو اسے چاہیے کہ ہاتھ سے اس کا ازالہ کرے۔ پھر اگر اس کی ہمت نہ ہوتو زبان سے، اور اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو دل سے اسے ناگوار سمجھے اور یہ ایمان کا ادنیٰ ترین درجہ ہے۔ (مسلم)

8۔صبر (اورجومصیبت بھی پڑے اس پرصبرکر، یہ وہ باتیں ہیں جن کی بڑی تاکیدکی گئی ہے)

وضاحت:صبر کے کئی پہلو ہیں۔ مثلاً ناگہانی آفتوں پر صبر، دین حق پراستقامت کے لیے ماحول کے تقاضوں کے خلاف ثابت قدمی ، نفس وشیطان کی ترغیبات کے خلاف مزاحمت وغیرہ۔ مگر یہا ں صبر کا وہ خاص پہلو نمایاں ہے جوامر بالمعروف اورنہی عن المنکرکرتے ہوئے پیش آنے والی مشکلات کے معاملے میں کیا جاتا ہے۔ یہ کام بڑی حکمت اور صبر کا تقاضہ کرتا ہے، اسی لیے خاص کر یہاں اس کی تلقین کی گئی ہے۔ لیکن صبر کی ضرورت انسان کو زندگی میں ہر ہر پہلو سے پڑتی ہے اور ہر پہلو سے صبر کا بڑا اجر ہے۔

حدیث:حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آزمائش جتنی سخت ہوگی اتنا ہی بڑا انعام ملے گا، اور اللہ تعالیٰ جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو انہیں آزمائشوں میں ڈالتا ہے۔ پس جو لوگ اللہ کے فیصلے پر راضی رہیں اور صبر کریں تو اللہ ان سے خوش ہوتا ہے اور جولوگ آزمائش میں اللہ سے ناراض رہیں تو اللہ بھی ان سے ناراض ہوجاتا ہے۔ (ترمذی)

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص صبر کرے گا اللہ تعالی اسے صبر عطا کرے گا اور کسی شخص کو صبر سے بہتر اور کشادہ تر نعمت نہیں ملی۔( صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1382)

9۔تکبر سے پرہیز (اورلوگوں سے منہ پھیرکربات نہ کر،نہ زمین پراکڑکرچل،اللہ کسی خودپسند اور فخر جتانے والے شخص کوپسندنہیں کرتا)

وضاحت: یہاں تکبر کے دو مظاہر بیان کیے گئے ہیں۔ایک اکڑ کی چال۔اس کی تفصیلی وضاحت عنوان نمبر 5 ’اللہ تعالیٰ کی پسند و ناپسند کا فیصلہ ‘ کے تحت گزرچکی ہے۔تکبر کا دوسرا مظہر دوسرے لوگوں سے بے رخی برتنا ہے۔ یہاں لوگوں سے مرادظاہر ہے کہ کمزور اور غریب لوگ ہیں۔ یہاں یہ بھی واضح کردیا گیا ہے کہ تکبر کا یہ رویہ اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے۔

حدیث: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جس شخص کے دل میں رائی کے ایک دانے کے برابر بھی غرور ہو، وہ جنت میں داخل نہیں ہو سکتا۔(ابو داؤد،رقم 4091)

حارث بن وہب خزاعی سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ کیا میں تمہیں اہل جنت کی خبر نہ دوں ۔وہ ہر کمزور اور حقیر ہے، اگر اللہ پر کوئی قسم کھالے تو اللہ اس کو پورا کردے۔ کیا میں تمہیں دوزخ والوں کی خبر نہ دوں وہ شریر مغرور اور تکبر والے لوگ ہیں۔(: صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 2032)

10۔گفتار و رفتار میں اعتدال (اپنی چال میں اعتدال اختیارکراوراپنی آوازذراپست رکھ،سب آوازوں سے زیادہ بری آوازگدھوں کی آوازہوتی ہے)

وضاحت: یہ تکبر کے برعکس انکساری کے رویے کے مظاہر ہیں۔ یعنی اکڑ کے بجائے اعتدال کی چال چلنا۔اس پراوپرسورہ فرقان عنوان نمبر1 میں بات کی جاچکی ہے۔ انکساری کا دوسرا مظہر لوگوں کے ساتھ نرمی سے بات کرنا ہے۔اہل ایمان کو اسی کی تلقین کی گئی ہے۔ جبکہ بلند آواز سے لوگوں کی تحقیر کرنے والے شخص کی آواز کو اللہ تعالیٰ نے گدھے کی آواز سے تشبیہ دے کر اس کی برائی بیان کی ہے۔

حدیث: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تم کو ایسے شخص کی خبر نہ دوں جو دوزخ کے لیے حرام ہے، اور دوزخ کی آگ اس پر حرام ہے؟ (سنومیں بتاتا ہوں، دوزخ کی آگ حرام ہے) ہر ایسے شخص پر جو مزاج کا تیز نہ ہو، نرم ہو، لوگوں سے قریب ہونے والا ہو۔ نرم خو ہو۔ (ابوداؤد، ترمذی)

عبداللہ بن سرجس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھی سیرت، اور اطمینان ووقار سے اپنے کام انجام دینے کی عادت اور میانہ روی ایک حصہ ہے نبوت کے چوبیس حصوں میں سے۔ (ترمذی)

____________

 

B