HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Rehan Ahmed Yusufi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

جنت کا راستہ

نبوت مذہب کا بنیادی عقیدہ ہے۔اس حوالے سے ایک اہم سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کس وجہ سے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت و رسالت کا خاتمہ کردیا۔ اس سوال کا جواب بہت سادہ ہے اگر یہ واضح ہوجائے کہ حضرات پیغمبرعلیہم السلام کیا کرنے آتے تھے۔

پیغمبروں کی آمد کا بنیادی مقصد لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے اس منصوبے سے آگاہ کرنا ہوتا تھا جس کے تحت یہ دنیا بسائی گئی ہے ۔ یعنی یہ دنیا دارالامتحان ہے اور انسان کی حقیقی زندگی آخرت میں شروع ہوگی جہاں جنت اور جہنم میں سے کوئی ایک انجام اس کا منتظر ہے۔جنت اللہ کی فرمانبرداری کا نتیجہ ہے اور جہنم ا س کی نافرمانی کا۔

انبیا علیہم السلام لوگوں کو نہ صرف اس منصوبے سے آگاہ کرتے بلکہ یہ بھی بتاتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کن چیزوں سے راضی ہوتے اور کن سے ناراض ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام آخری دفعہ سرور کائنات حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے دنیا کو ملا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ فضیلت عطا فرمائی کہ آپ کا لایا ہوا پیغام یعنی قرآن مجید اب قیامت کے دن تک بالکل اسی طرح محفوظ کردیا گیا جس طرح وہ آپ پر نازل ہوا تھا۔ اس کے ساتھ ہی قرآن مجید پر عمل کا ایک بہترین نمونہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت واحادیث کی شکل میں محفوظ ہوگیا۔اصل پیغام کی مکمل حفاظت ہی وہ بنیادی سبب ہے جس کی بنا پر سلسلہ نبوت و رسالت کو ختم کردیا گیا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی حکمت کاملہ کی بنا پر قرآن مجید میں متعدد مضامین جمع ہیں۔اس میں دین کی اصل دعوت جس کا اوپر بیان ہوا بھی ہے اور اس کے دلائل بھی ہیں۔اس دعوت کی تفصیل بھی ہے اور اسے ماننے اور اس کا انکار کرنے کے نتائج کا بھی بیان ہے۔یہ دعوت پچھلے رسولوں نے کس طرح دی اور انہیں کیا جواب ملا یہ بھی اس کتاب کا موضوع ہے اور آخری نبی کے ماننے اور نہ ماننے والوں کی تفصیلی روداد بھی اس میں شامل ہے۔

اس کے ساتھ ہی اس کتاب الٰہی میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا وہ کیا راستہ ہے جو جنت تک جاتا ہے اور نافرمانی کی وہ کیا راہیں ہیں جو جہنم کے انجام سے انسان کو دوچار کرسکتی ہیں۔ہم عام انسانوں کے لحاظ سے یہ آخری حصہ اہم ترین ہے ۔ کیونکہ یہی وہ چیز ہے جو اگر ہمیں یاد رہے تو بر ے انجام سے بچ سکیں گے ۔اسے اختصار کے ساتھ ایمان اور عمل صالح کہا گیا ہے۔ مگر قرآن مجید میں یہ اہم ترین بات ایک ساتھ بیان نہیں ہوئی بلکہ پورے قرا ن میں بکھری ہوئی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اس گنہہ گار کو اس سعادت سے سرفراز کیا کہ اس نے قران مجید میں جابجا بکھری ہوئی اس دعوت ایما ن وعمل صالح کی تفصیل کو اکٹھا کرکے ایک ساتھ بیان کردیا ہے۔ یہ میرے اس کام کا ایک حصہ ہے جو میں پورے قرآن مجید پر کررہا ہوں جس میں قرآن مجید کی دعوت، دلائل اور اس کے مطالبات کو الگ الگ مرتب کررہا ہوں۔ اس کام میں سب سے پہلے دعوت ایمان و عمل صالح کو کئی برس قبل توفیق باری تعالیٰ سے میں نے مکمل کرلیا تھا، تاہم میری خواہش تھی کہ اس کی اشاعت احادیث کے ساتھ ہی ہو۔ کیونکہ قرآن مجید کے نقشے پر زندگی کے حقیقی رنگ اگر کسی نے بکھیرے ہیں تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ ہی ہے جسے ہماری ماں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے ایسے بیا ن کیا کہ کان خلقہ القران، (صحیح مسلم ، رقم 1773) یعنی قران مجید ہی آپ کے اخلاق کا بیان ہے۔یہ وہ بے نظیر نمونہ ہے جس کی بنا پر قرآن مجید نے آپ کو صاحب خلق عظیم (القلم 4:68) قرار دیا۔

میں اپنی عدیم الفرصتی کی بنا پر یہ کام نہیں کرپارہا تھا۔مگر پھر برادر عزیز مبشر نذیر نے کچھ احادیث کا انتخاب کیا۔ پھر میرے عزیز بھائی پروفیسر عقیل نے ہر مجموعہ آیات کی مناسبت سے احادیث جمع کردیں۔ میرا مکمل اطمینان پھر بھی نہیں ہوا۔ آخر کار میں نے محترم ڈاکٹر عبدالباری صاحب کے سامنے مضامین کے اعتبار سے مرتب احادیث کے بعض مجموعے رکھ کر درخواست کی اور ان کی محنت شاقہ سے الحمدللہ یہ کام پورا ہوا۔ گرچہ میرا احساس ہے کہ ابھی بہت کچھ بہتری کی گنجائش باقی ہے، مگر اب اتنا اطمینان ہے کہ میں اس کتاب کو آخر کار شائع کررہا ہوں۔

لوگ ’’جب زندگی شروع ہوگی ‘‘کو میری سب سے بڑی تصنیف سمجھتے ہیں، لیکن میرے لیے سب سے بڑی سعادت ’’قران کا مطلوب انسان‘‘ کی اشاعت ہے۔ یہ اول تا آخر اللہ تعالیٰ کے الفاظ میں اس راستے کا بیان ہے جو اصل زندگی کے آغاز پر ہم سب کو جنت کے بہترین انجام سے ہمکنار کرسکتا ہے۔

’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ کو پڑھ کر لوگوں کے دلوں میں جنت میں جانے اور جہنم کے انجام سے بچنے کی خواہش شدت سے پیدا ہوئی تھی۔ مگر جنت خواہش سے نہیں عمل سے ملتی ہے۔ یہ بندہ عاجز قرآن مجید کے مستند ترین الفاظ اور احادیث کے اسوہ حسنہ کی روشنی میں وہ راستہ بھی جنت کے چاہنے والوں کے سامنے رکھ رہا ہے جو انہیں سیدھا ان کی منزل تک پہنچادے گا۔ میری خواہش ہے کہ ہر مسلما ن اس کتاب کو پڑھے اور دوسروں کو پڑھائے۔ اس لیے کہ یہ میری تصنیف نہیں کلام الہی کا بیان ہے۔ اس سے زیادہ سیدھی اور سچی بات کوئی نہیں ہوسکتی۔

بندہ عاجز

ابو یحییٰ

یکم جون 2013

____________

 

B