قَالَت عَاءِشَۃُ: أَنَّ رَجُلًا اسْتَأْذَنَ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: اءْذَنُوا لَہُ، فَلَبِءْسَ ابْنُ الْعَشِیرَۃِ، أَوْ بِءْسَ رَجُلُ الْعَشِیرَۃِ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَیْہِ أَلَانَ لَہُ الْقَوْلَ، قَالَتْ عَاءِشَۃُ: فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللہِ قُلْتَ لَہُ الَّذِی قُلْتَ، ثُمَّ أَلَنْتَ لَہُ الْقَوْلَ؟ قَالَ: یَا عَاءِشَۃُ إِنَّ شَرَّ النَّاسِ مَنْزِلَۃً عِنْدَ اللہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، مَنْ وَدَعَہُ، أَوْ تَرَکَہُ النَّاسُ اتِّقَاءَ فُحْشِہِ. (رقم۶۵۹۶)
سیدہ عائشہ بیان کرتی ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہونے کی اجازت چاہی ۔آپ نے اجازت دے دی اور(اس کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے )فرمایا:یہ شخص اپنے قبیلے کانہایت براآدمی ہے۔
لیکن جب وہ اندرآیاتوآپ نے اس کے ساتھ بہت نرم انداز میں گفتگوفرمائی۔
(بعد میں)سیدہ نے سوال کیا:اللہ کے رسول،پہلے توآپ نے اس کے بارے میں جوکچھ کہناتھا،وہ کہہ دیا،(مگرکیاوجہ ہوئی کہ جب وہ سامنے آیاتو)آپ نے اس کے ساتھ بڑے نرم لہجے میں بات کی؟
آپ نے جواب دیا:عائشہ،(میں سخت لہجے میں کیوں کسی سے بات کرنے لگا، اس لیے کہ)قیامت کے دن خداکے نزدیک وہ شخص انتہائی برا ہوگا، جس کی سخت گوئی سے بچنے کی خاطرلوگ اس سے ملناہی چھوڑدیں۔
____________