HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Rizwan Ullah

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

والدین سے حسن سلوک

جَاءَ رَجُلٌ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صَحَابَتِی؟ قَالَ:أُمُّکَ، قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَال: ثُمَّ أُمُّکَ، قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَال: ثُمَّ أُمُّکَ، قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ثُمَّ أَبُوکَ(وفی روایۃ) ثُمَّ أَدْنَاکَ أَدْنَاکَ. (رقم۶۵۰۰۔۶۵۰۱)
ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوااورآپ سے سوال کیا: (اے اللہ کے رسول)، میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟
آپ نے جواب دیا:تمھاری ماں۔
اس نے پوچھا:اس کے بعدکون ؟
آپ نے فرمایا:تمھاری ماں ۔
اس شخص نے پھراستفسارکیا:(یارسول اللہ)،اس کے بعدکون؟
آپ نے پھربھی یہی فرمایا: تمھاری ماں۔
اس کے چوتھی بار پوچھنے پر فرمایا:اب تمھاراباپ۔اوراس کے بعد جو کوئی تم سے رشتے میں جتناقریب ہو ،(اتناہی وہ تمھارے حسن سلوک کا زیادہ حق دارہے)۔
أَقْبَلَ رَجُلٌ إِلَی نَبِیِّ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أُبَایِعُکَ عَلَی الْہِجْرَۃِ وَالْجِہَادِ، أَبْتَغِی الْأَجْرَ مِنَ اللہِ، قَالَ: فَہَلْ مِنْ وَالِدَیْکَ أَحَدٌ حَیٌّ؟ قَالَ: نَعَمْ، بَلْ کِلَاہُمَا، قَالَ: فَتَبْتَغِی الْأَجْرَ مِنَ اللہِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَارْجِعْ إِلَی وَالِدَیْکَ فَأَحْسِنْ صُحْبَتَہُمَا(وفی روایۃ) فَفِیہِمَا فَجَاہِد. (رقم۶۵۰۴، ۶۵۰۷)
ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیااورکہا:میں آپ کے ہاتھ پرہجرت اور جہادکی بیعت کرناچاہتاہوں اور اس سے مقصود کچھ اورنہیں، صرف یہ ہے کہ اپنے خدا سے اس کااجرپاؤں۔
آپ نے پوچھا:کیاتمھارے والدین میں سے کوئی اس وقت زندہ ہے؟
اس نے جواب دیا:جی ہاں،بلکہ ماں اورباپ ،دونوں ہی زندہ ہیں؟
آپ نے اس سے مزیدتاکیدچاہی:اورتم خداسے اجرکے طالب بھی ہو؟
اس نے کہا:ایسا ہی ہے۔
فرمایا:پھراس طرح کروکہ (یہاں ہجرت کرکے آرہنے کے بجاے)اپنے گھر کو لوٹ جاؤ اوران کے ساتھ بھلے طریقے سے رہو اور(کفارسے جہادکرنے کے بجاے)ان کی خدمت میں اپنی کوششیں صرف کرو۔
قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:رَغِمَ أَنْفُہُ، ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُہُ، ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُہُ، قِیلَ: مَنْ؟ یَا رَسُولَ اللہِ، قَال: مَنْ أَدْرَکَ وَالِدَیْہِ عِنْدَ الْکِبَرِ، أَحَدَہُمَا أَوْ کِلَیْہِمَا، ثُمَّ لَمْ یَدْخُلِ الْجَنَّۃَ. (رقم۶۵۱۱)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اُس شخص کابہت برا ہوا۔
آپ نے (حددرجہ افسوس سے)اس بات کوتین مرتبہ دہرایا۔
پوچھاگیا:اے اللہ کے رسول ،کس شخص کابراہوا؟
فرمایا:اس شخص کاجس کے والدین میں سے کوئی ایک یاپھردونوں بڑھاپے کی حالت میں اس کے پاس موجودتھے، مگروہ (ان کی خدمت کرکے)جنت نہ کماسکا۔
کَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا خَرَجَ إِلَی مَکَّۃَ،کَانَ لَہُ حِمَارٌ یَتَرَوَّحُ عَلَیْہِ إِذَا مَلَّ رُکُوبَ الرَّاحِلَۃِ، وَعِمَامَۃٌ یَشُدُّ بِہَا رَأْسَہُ، فَبَیْنَا ہُوَ یَوْمًا عَلَی ذَلِکَ الْحِمَارِ إِذْ مَرَّ بِہِ أَعْرَابِیٌّ فَقَالَ: أَلَسْتَ ابْنَ فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ؟قَالَ: بَلَی، فَأَعْطَاہُ الْحِمَارَ، وَقَالَ: ارْکَبْ ہَذَا وَالْعِمَامَۃَ، قَالَ: اشْدُدْ بِہَا رَأْسَکَ، فَقَالَ لَہُ: بَعْضُ أَصْحَابِہ(وفی روایۃ) أَصْلَحَکَ اللہُ إِنَّہُمُ الْأَعْرَابُ وَإِنَّہُمْ یَرْضَوْنَ بِالْیَسِیرِ، فَقَالَ عَبْدُ اللہِ: إِنَّ أَبَا ہَذَا کَانَ وُدًّا لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، وَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُول: إِنَّ أَبَرَّ الْبِرِّ صِلَۃُ الْوَلَدِ أَہْلَ وُدِّ أَبِیہِ. (رقم۶۵۱۳، ۶۵۱۵)
سیدناابن عمرجب(حج یاعمرہ کے لیے)مکہ جاتے توسفرکے دوران میں اپنے ساتھ ایک گدھابھی رکھتے ۔ اونٹ کی (تکلیف دہ) سواری سے تھک جاتے توآرام کی غرض سے گدھے پرسوارہولیتے۔اسی طرح ایک عمامہ بھی ان کے پاس ہوتاجس کو وہ (سورج کی تمازت سے بچنے کے لیے)سر پرباندھ لیاکرتے تھے۔ایک مرتبہ اثناے سفر میں ایک دیہاتی ملا جوانھیں اپنی جان پہچان کامعلوم ہوا۔ تعارف ہوچکا توآپ نے اپناگدھااورسر کاعمامہ اس کو دیتے ہوئے فرمایا: لیجیے،اس پرسوار ہو جائیے اورسر پریہ عمامہ بھی باندھ لیجیے۔
اس پرآپ کے ساتھیوں کوبڑاتعجب ہوا۔انھوں نے کہا:خدا آپ کا بھلا کرے! یہ دیہاتی لوگ تو کسی چھوٹی اورنکمی شے پربھی خوش ہوجاتے ہیں(اورآپ نے صحرائی سفرکی نہایت اہم چیزیں، اس شخص کو عنایت کردیں)؟
ابن عمرنے جواب دیا:بھئی!(یہ سب کچھ میں نے اس لیے کیاہے کہ) اس دیہاتی کے والد( میرے باپ)، عمربن خطاب کے دوست تھے ، اورمیں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سناہے کہ اولادکے لیے یہ بہت بڑی نیکی ہے کہ وہ اپنے باپ کے دوست احباب (اوران )کے گھروالوں سے بھلائی کرے۔

____________

 

B