HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Rizwan Ullah

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

لعنت ملامت

عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ قَالَ: بَیْنَمَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی بَعْضِ أَسْفَارِہِ، وَامْرَأَۃٌ مِنَ الْأَنْصَارِ عَلَی نَاقَۃٍ، فَضَجِرَتْ فَلَعَنَتْہَا، فَسَمِعَ ذَلِکَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:خُذُوا مَا عَلَیْہَا وَدَعُوہَا، فَإِنَّہَا مَلْعُونَۃٌ، قَالَ عِمْرَانُ: فَکَأَنِّی أَرَاہَا الْآنَ تَمْشِی فِی النَّاسِ، مَا یَعْرِضُ لَہَا أَحَد. (رقم۶۶۰۴)
عمران بن حُصین بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی سفرمیں تھے۔(قافلے میں) ایک اونٹنی پرسوارکوئی انصاری عورت بھی تھی۔اونٹنی(کسی وجہ سے) بدکنے اوربلبلانے لگی تواس نے اس پرلعنت کرناشروع کردی۔
آپ نے سناتولوگوں سے فرمایا:اس پرجوکچھ لدا ہواہے ،وہ اُتارلواوراس کوآزاد چھوڑدو،اس لیے کہ اس پرلعنت کی گئی ہے۔
راوی کہتے ہیں کہ میں دیکھ رہاتھاکہ وہ اونٹنی لوگوں کے درمیان میں چل پھر رہی ہے ،مگر(آپ کاحکم ہونے کی و جہ سے )ہرکوئی اس سے بے پرواہوچکاہے۔
سِرْنَا مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی غَزْوَۃِ بَطْنِ بُوَاطٍ، وَہُوَ یَطْلُبُ الْمَجْدِیَّ بْنَ عَمْرٍو الْجُہَنِیَّ، وَکَانَ النَّاضِحُ یَعْتَقِبُہُ مِنَّا الْخَمْسَۃُ وَالسِّتَّۃُ وَالسَّبْعَۃُ، فَدَارَتْ عُقْبَۃُ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ عَلَی نَاضِحٍ لَہُ، فَأَنَاخَہُ فَرَکِبَہُ، ثُمَّ بَعَثَہُ فَتَلَدَّنَ عَلَیْہِ بَعْضَ التَّلَدُّنِ، فَقَالَ لَہُ: شَأْ، لَعَنَکَ اللہُ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:مَنْ ہَذَا اللَّاعِنُ بَعِیرَہُ؟ قَالَ: أَنَا، یَا رَسُولَ اللہِ قَالَ: انْزِلْ عَنْہُ، فَلَا تَصْحَبْنَا بِمَلْعُونٍ، لَا تَدْعُوا عَلَی أَنْفُسِکُمْ، وَلَا تَدْعُوا عَلَی أَوْلَادِکُمْ، وَلَا تَدْعُوا عَلَی أَمْوَالِکُمْ، لَا تُوَافِقُوا مِنَ اللہِ سَاعَۃً یُسْأَلُ فِیہَا عَطَاءٌ ، فَیَسْتَجِیبُ لَکُم. (رقم۷۵۱۵)
جابربن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک غزوہ کے لیے ،جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوابن عمرو جُہنی کی تلاش تھی، سفر کررہے تھے۔سواریوں کی اس قدر قلت تھی کہ پانچ، چھ یاسات آدمی، باری باری اونٹ پرسوارہوتے۔ ایک انصاری کی باری آئی تو اس نے اونٹ کوبٹھایااوراس پرسوارہوگیا۔جب اس کو اٹھانا چاہا تو اس نے کچھ شوخی دکھائی۔اس پراس شخص نے کہا:خداتجھ پرلعنت کرے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سناتوپوچھا:یہ کون ہے جواپنے اونٹ پرلعنت کر رہاہے؟
اس شخص نے جواب دیا:اے اللہ کے رسول،یہ میں ہوں۔
آپ نے فرمایا:اس اونٹ سے اترجاؤ(اوراس کو چھوڑدو)،اس لیے کہ ہمارے قافلے کے ساتھ وہ نہیں چلے گاجس پرلعنت کی گئی ہو۔
اس کے بعدفرمایا: نہ اپنے اوپرلعنت کرونہ اپنی اولاداوراپنے مال پر۔بعض وقت اللہ کے ہاں مقررہیں کہ اس میں جومانگا جائے گا، عطاکردیاجائے گا (اور ہو سکتا ہے یہ بددعااسی وقت میں مانگی جارہی ہو،چنانچہ ایساکرکے )اس وقت کے موافق ہوجانے کی کوشش نہ کرو۔
قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَا یَنْبَغِی لِصِدِّیقٍ أَنْ یَکُونَ لَعَّانًا. (رقم۶۶۰۸)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے:ایک سچے(مسلمان) کے لیے یہ بالکل جائز نہیں ہے کہ وہ بات بات پرلعنت کرتاہو۔
بَعَثَ عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ مَرْوَانَ إِلَی أُمِّ الدَّرْدَاءِ بِأَنْجَادٍ مِنْ عِنْدِہِ، فَلَمَّا أَنْ کَانَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ قَامَ عَبْدُ الْمَلِکِ مِنَ اللَّیْلِ فَدَعَا خَادِمَہُ، فَکَأَنَّہُ أَبْطَأَ عَلَیْہِ، فَلَعَنَہُ، فَلَمَّا أَصْبَحَ قَالَتْ لَہُ أُمُّ الدَّرْدَاءِ : سَمِعْتُکَ اللَّیْلَۃَ، لَعَنْتَ خَادِمَکَ حِینَ دَعَوْتَہُ، فَقَالَتْ: سَمِعْتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَا یَکُونُ اللَّعَّانُونَ شُفَعَاءَ وَلَا شُہَدَاءَ ، یَوْمَ الْقِیَامَۃِ.(رقم۶۶۱۰)
ابن مروان نے امِ درداء کی طرف گھرکاکچھ سامان بھیجا۔(کچھ عرصہ بعد کی جب وہ اس کے ہاں ٹھیری ہوئی تھیں،بات ہے کہ ) ایک رات وہ نیند سے اٹھااوراپنے خادم کو(کسی کام سے) آوازدی۔آنے میں دیرہوئی تواس نے (غصے میں آکر)اس پرلعنت ملامت کرنا شروع کر دی۔
صبح کے وقت ام درداء نے اس سے کہا:(بڑے افسوس کی بات ہے)! رات میں نے سناتم اپنے خادم پرلعنت کررہے تھے ۔
اس کے بعدبیان کیاکہ میں نے اپنے شوہر، ابودردا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان سناہے کہ بات بات پردوسروں کولعنت کرنے والے (قیامت کے روزخودبھی عزت نہ پائیں گے ۔چنانچہ) نہ شفیع ہوں گے اورنہ شہید۔
قِیلَ: یَا رَسُولَ اللہِ ادْعُ عَلَی الْمُشْرِکِینَ، قَالَ: إِنِّی لَمْ أُبْعَثْ لَعَّانًا، وَإِنَّمَا بُعِثْتُ رَحْمَۃ. (رقم۶۶۱۳)
ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہاگیاکہ آپ مشرکین پر بددعا کریں، مگر آپ نے( یک سرانکارکردیااور) فرمایا: میں لوگوں پرلعنت کرنے والابناکر نہیں بھیجا گیا،بلکہ مجھے تو ان کے لیے رحمت بناکربھیجاگیاہے۔
قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: اللہُمَّ إِنَّمَا مُحَمَّدٌ بَشَرٌ، یَغْضَبُ کَمَا یَغْضَبُ الْبَشَرُ، وَإِنِّی قَدِ اتَّخَذْتُ عِنْدَکَ عَہْدًا لَنْ تُخْلِفَنِیہِ، فَأَیُّمَا مُؤْمِنٍ آذَیْتُہُ، أَوْ سَبَبْتُہُ، أَوْ جَلَدْتُہُ، فَاجْعَلْہَا لَہُ کَفَّارَۃً، وَقُرْبَۃً، تُقَرِّبُہُ بِہَا إِلَیْکَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ. (رقم۶۶۲۲)
ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوان الفاظ میں دعاکرتے ہوئے سنا:
اے اللہ،میں ایک انسان ہوں، اس لیے انسانوں کی طرح بعض اوقات غصے میں بھی آجاتاہوں۔(لیکن مجھے اس بات کا اطمینان ہے کہ ) میراتجھ سے ایک عہد ہے کہ جس کو توضرورپوراکرے گا۔وہ یہ کہ( اس غصے کی وجہ سے ) کسی مسلمان کومجھ سے تکلیف پہنچے، میں اس کو برابھلاکہوںیااسے کوئی سزادے دوں توتواس چیزکواس کے گناہوں کاکفارہ بنادے گااور قیامت کے دن اس کو اپناقرب بھی عطا فرمائے گا۔
عَن أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: کَانَتْ عِنْدَ أُمِّ سُلَیْمٍ یَتِیمَۃٌ، وَہِیَ أُمُّ أَنَسٍ، فَرَأَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْیَتِیمَۃَ، فَقَالَ: آنْتِ ہِیَہْ؟ لَقَدْکَبِرْتِ، لَا کَبِرَ سِنُّکِ، فَرَجَعَتِ الْیَتِیمَۃُ إِلَی أُمِّ سُلَیْمٍ تَبْکِی، فَقَالَتْ أُمُّ سُلَیْمٍ: مَا لَکِ؟ یَا بُنَیَّۃُ قَالَتِ الْجَارِیَۃُ: دَعَا عَلَیَّ نَبِیُّ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا یَکْبَرَ سِنِّی، فَالْآنَ لَا یَکْبَرُ سِنِّی أَبَدًا، أَوْ قَالَتْ قَرْنِی فَخَرَجَتْ أُمُّ سُلَیْمٍ مُسْتَعْجِلَۃً تَلُوثُ خِمَارَہَا، حَتَّی لَقِیَتْ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَا لَکِ یَا أُمَّ سُلَیْمٍ؟ فَقَالَتْ: یَا نَبِیَّ اللہِ أَدَعَوْتَ عَلَی یَتِیمَتِی قَالَ: وَمَا ذَاکِ یَا أُمَّ سُلَیْمٍ؟ قَالَتْ: زَعَمَتْ أَنَّکَ دَعَوْتَ أَنْ لَا یَکْبَرَ سِنُّہَا وَلَا یَکْبَرَ قَرْنُہَا، قَالَ فَضَحِکَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: یَا أُمَّ سُلَیْمٍ أَمَا تَعْلَمِینَ أَنَّ شَرْطِی عَلَی رَبِّی، أَنِّی اشْتَرَطْتُ عَلَی رَبِّی فَقُلْتُ: إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، أَرْضَی کَمَا یَرْضَی الْبَشَرُ، وَأَغْضَبُ کَمَا یَغْضَبُ الْبَشَرُ، فَأَیُّمَا أَحَدٍ دَعَوْتُ عَلَیْہِ، مِنْ أُمَّتِی، بِدَعْوَۃٍ لَیْسَ لَہَا بِأَہْلٍ، أَنْ یَجْعَلَہَا لَہُ طَہُورًا وَزَکَاۃً، وَقُرْبَۃً یُقَرِّبُہُ بِہَا مِنْہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃ.(رقم۶۶۲۷)
انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ ام سُلَیم کے گھرمیں ایک یتیم لڑکی جو بعد میں انس کی والدہ ہوئیں، رہتی تھی۔ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دیکھا تو حیرت سے فرمایا:بھئی!یہ تم ہی ہو؟خدانہ کرے !اب توکافی بڑی ہوگئی ہو۔
یہ سنناتھاکہ وہ لڑکی روتی ہوئی ام سلیم کے پاس آگئی ۔
ام سلیم نے پوچھا:بیٹا،کیابات ہے ،کیوں رورہی ہو؟
اس نے جواب دیا:اللہ کے نبی نے مجھے بددعادے دی ہے کہ خدانہ کرے میں بڑی ہو جاؤں۔اب مجھے یقین ہے کہ میری عمرکچھ زیادہ نہ ہوگی ( اورمیں بہت جلد مر جاؤں گی)۔
ام سلیم نے یہ سناتوجلدی سے سرپرچادراوڑھی اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوگئیں۔
آپ نے پوچھا:ام سلیم کیابات ہوئی؟
انھوں نے کہا:اے اللہ کے نبی،کیاآپ نے میری بچی کو بددعا دی ہے؟
آپ نے متعجب ہوکرپوچھا:ام سلیم ،یہ تم کیاکہہ رہی ہو؟
انھوں نے عرض کیا:(حضور)،وہ کہتی ہے کہ آپ نے ان لفظوں میں اس کوبددعا دی ہے: خدانہ کرے تم بڑی ہو!
یہ سنناتھاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے۔پھرفرمایا: (اگران لفظوں سے اس نے یہی سمجھاہے توپھربھی تم پریشان نہ ہو)۔کیا تم جانتی نہیں ہوکہ میں نے اپنے پروردگار سے ایک عہدکررکھاہے؟میں نے اس سے کہاہے کہ میں ایک انسان ہوں، اس لیے انسانوں کی طرح کسی سے خوش ہوتاہوں توکبھی ناراض بھی ہوجاتا ہوں۔ چنانچہ اگر میں اپنی امت میں سے کسی شخص کوبددعا دوں اور وہ اس کامستحق نہ ہو تو میری اس بددعا کواس کے تزکیے اورطہارت کاباعث بنادے اورقیامت کے دن اس کو اپنا قرب بھی عطافرما۔

____________

 

B