قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:لَلَّہُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَۃِ عَبْدِہِ الْمُؤْمِنِ، مِنْ رَجُلٍ فِی أَرْضٍ دَوِّیَّۃٍ مَہْلِکَۃٍ، مَعَہُ رَاحِلَتُہُ عَلَیْہَا طَعَامُہُ وَشَرَابُہُ،فَنَامَ فَاسْتَیْقَظَ وَقَدْ ذَہَبَتْ، فَطَلَبَہَا حَتَّی أَدْرَکَہُ الْعَطَشُ، ثُمَّ قَالَ: أَرْجِعُ إِلَی مَکَانِیَ الَّذِی کُنْتُ فِیہِ، فَأَنَامُ حَتَّی أَمُوتَ، فَوَضَعَ رَأْسَہُ عَلَی سَاعِدِہِ لِیَمُوتَ، فَاسْتَیْقَظَ وَعِنْدَہُ رَاحِلَتُہُ وَعَلَیْہَا زَادُہُ وَطَعَامُہُ وَشَرَابُہُ، فَاللہُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَۃِ الْعَبْدِ الْمُؤْمِنِ مِنْ ہَذَا بِرَاحِلَتِہِ وَزَادِہِ. (رقم۶۹۵۵)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مثال بیان کی:(فرض کرو)،کوئی شخص کسی بیابان میں سفرکررہاہو۔اس کے پاس ایک سواری ہوکہ جس پراس کاکھانااورپانی لداہواہو۔پھروہ(چلتے چلتے تھک جائے اورسواری سے اترکرزمین پر) سو رہے۔ جب نیند سے بیدار ہوتودیکھے کہ اس کی سواری(اس کے سامان سمیت)کہیں بھاگ کھڑی ہوئی ہے۔وہ (ہرسو)اس کوتلاش کرے ،یہاں تک کہ پیاس سے اس کابرا حال ہوجائے۔اس کے بعد(انتہائی مایوسی کے عالم میں)کہے کہ میں پڑاؤکے مقام پر لوٹ آتاہوں تاکہ وہیں سو رہوں (اور اس وقت تک سوتارہوں)جب تک مجھے موت نہ آ لے۔چنانچہ وہ سرتلے بازورکھ کرلیٹ جاتاہے تاکہ(نیندکی حالت ہی میں) مرجائے۔ مگر( کچھ دیرکے بعد) اس کی آنکھ کھلتی ہے توکیادیکھتاہے کہ اس کی سواری اس کے زادِراہ سمیت ،اس کے پاس کھڑی ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس شخص کوجتنی خوشی اپنے سامان اورسواری( کے لوٹ آنے) سے ہوسکتی ہے ،اس سے زیادہ خوشی خدا کو اس وقت ہوتی ہے، جب اس کا ایمان والاکوئی بندہ(گناہ کرگزرتاہے ،مگرپھرسے )اس کی طرف لوٹ آتاہے۔
____________