عَنْ حَنْظَلَۃَ الْأُسَیِّدِیِّ قَالَ: وَکَانَ مِنْ کُتَّابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ. قَالَ: لَقِیَنِی أَبُو بَکْرٍفَقَالَ: کَیْفَ أَنْتَ یَا حَنْظَلَۃُ؟ قَالَ: قُلْتُ: نَافَقَ حَنْظَلَۃُ، قَالَ: سُبْحَانَ اللہِ مَا تَقُولُ؟ قَالَ: قُلْتُ: نَکُونُ عِنْدَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، یُذَکِّرُنَا بِالنَّارِ وَالْجَنَّۃِ، حَتَّی کَأَنَّا رَأْیُ عَیْنٍ، فَإِذَا خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، عَافَسْنَا الْأَزْوَاجَ وَالْأَوْلَادَ وَالضَّیْعَاتِ، فَنَسِینَا کَثِیرًا، قَالَ أَبُو بَکْرٍ: فَوَاللہِ إِنَّا لَنَلْقَی مِثْلَ ہَذَا، فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَأَبُو بَکْرٍ، حَتَّی دَخَلْنَا عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: نَافَقَ حَنْظَلَۃُ، یَا رَسُولَ اللہِ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: وَمَا ذَاکَ؟ قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللہِ نَکُونُ عِنْدَکَ، تُذَکِّرُنَا بِالنَّارِ وَالْجَنَّۃِ، حَتَّی کَأَنَّا رَأْیُ عَیْنٍ، فَإِذَا خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِکَ، عَافَسْنَا الْأَزْوَاجَ وَالْأَوْلَادَ وَالضَّیْعَاتِ، نَسِینَا کَثِیرًا، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ إِنْ لَوْ تَدُومُونَ عَلَی مَا تَکُونُونَ عِنْدِی، وَفِی الذِّکْرِ، لَصَافَحَتْکُمُ الْمَلَاءِکَۃُ عَلَی فُرُشِکُمْ وَفِی طُرُقِکُمْ، وَلَکِنْ یَا حَنْظَلَۃُ سَاعَۃً وَسَاعَۃً ثَلَاثَ مَرَّات. (رقم۶۹۶۶)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب، حنظلہ اَلاُ سَیدی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میری ملاقات سیدنا ابوبکر سے ہوئی۔انھوں نے خیریت پوچھی تومیں نے عرض کیا: (آپ خیریت پوچھتے ہیں؟ یہاں تو فکرآن پڑی ہے کہ یہ) حنظلہ منافق ہوگیاہے۔
انھوں نے حیران ہوکرکہا:سبحان اللہ !تم جانتے ہویہ کیابات کررہے ہو؟
میں نے جواب دیا:( ہاں ،خوب جانتاہوں۔اصل میں بات یہ ہے کہ)ہم لوگ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضرہوتے اوروہ جنت اوردوزخ کے احوال سناکرہمیں نصیحت فرمارہے ہوتے ہیں تو ایساتاثرہوتاہے کہ یہ دونوں مقامات ہماری آنکھوں کے سامنے آن کھڑے ہوئے ہیں۔ لیکن وہاں سے اٹھ کرجب ہم گھروں کو آجاتے اوربیوی بچوں اوردوسرے مشاغل میں مصروف ہوجاتے ہیں تو(ان نصیحت بھری باتوں میں سے )بہت کچھ بھول جاتے ہیں۔
یہ سن کرابوبکرکہنے لگے:(یہ امر تم سے خاص نہیں)،ہم سب کابھی یہی معاملہ ہے۔
حنظلہ کہتے ہیں کہ اس کے بعدمیں اورابوبکر،دونوں اٹھے اوررسول اللہ کی خدمت میں حاضرہوگئے۔
میں نے آپ سے عرض کیا:اے اللہ کے رسول،حنظلہ تو منافق ہوگیا۔
اس بات پرآپ نے( بھی حیرت کااظہارکیااور)مجھ سے دریافت فرمایا:اچھا! وہ کیسے؟
حنظلہ کہتے ہیں کہ میں نے وہی بات آپ کے سامنے بیان کردی جس کا ذکر میں نے ابوبکرکے سامنے کیاتھا۔
آپ نے (ساری بات سنی اور)ہمیں یوں سمجھایا: تمھارے ایمان کی جوکیفیت میری مجلس میں ہوتی ہے، اگروہ ہروقت طاری رہتی تو(تم انسان کہاں رہتے، بلکہ فرشتے بن جاتے ۔اس صورت میں سب پردے چھٹ جاتے اورتمھارے ہم نسل) فرشتے،اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے ،تمھاری خواب گاہوں اورتمھارے راستوں پرتم سے ملاکرتے۔
اس کے بعدتین مرتبہ فرمایا:حنظلہ، (انسان توایساہی ہوتاہے )،گھڑی میں کچھ اورگھڑی میں کچھ۔
____________