عَنْ عَبْدِ اللہِ قَال: دَخَلْتُ عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یُوعَکُ، فَمَسِسْتُہُ بِیَدِی، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللہِ إِنَّکَ لَتُوعَکُ وَعْکًا شَدِیدًا، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَجَلْ إِنِّی أُوعَکُ کَمَا یُوعَکُ رَجُلَانِ مِنْکُمْ، قَالَ: فَقُلْتُ: ذَلِکَ أَنَّ لَکَ أَجْرَیْنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَجَلْ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَا مِنْ مُسْلِمٍ یُصِیبُہُ أَذًی مِنْ مَرَضٍ، فَمَا سِوَاہُ إِلَّا حَطَّ اللہُ بِہِ سَیِّءَاتِہِ، کَمَا تَحُطُّ الشَّجَرَۃُ وَرَقَہَا. (رقم۶۵۵۹)
عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوااور آپ کوشدیدبخارتھا۔میں نے ہاتھ سے چھو کر دیکھا اورعرض کیا: یارسول اللہ،آپ کو تو بہت تیزبخارہے۔
آپ نے فرمایا:ہاں،(ایساہی ہے)۔ مجھے تم لوگوں سے دوگناتیزبخارہوتاہے۔
اس پرمیں نے کہا:اوریہی وجہ ہے کہ آپ کودوگنااجربھی ہے۔
آپ نے جواب دیا:ہاں۔
پھرفرمایا:کسی مسلمان کو بیماری آن گھیرتی ہے یاکوئی دوسری تکلیف پہنچتی ہے تواس کے بدلے میں اللہ اس کے گناہوں کواس طرح جھاڑدیتاہے ،جس طرح (خزاں میں) درختوں سے پتے جھڑجایاکرتے ہیں۔دَخَلَ شَبَابٌ مِنْ قُرَیْشٍ عَلَی عَاءِشَۃَ وَہِیَ بِمِنًی، وَہُمْ یَضْحَکُونَ، فَقَالَتْ: مَا یُضْحِکُکُمْ؟ قَالُوا: فُلَانٌ خَرَّ عَلَی طُنُبِ فُسْطَاطٍ، فَکَادَتْ عُنُقُہُ أَوْ عَیْنُہُ أَنْ تَذْہَبَ، فَقَالَتْ: لَا تَضْحَکُوا، فَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا مِنْ مُسْلِمٍ یُشَاکُ شَوْکَۃً، فَمَا فَوْقَہَا إِلَّا کُتِبَتْ لَہُ بِہَا دَرَجَۃٌ، وَمُحِیَتْ عَنْہُ بِہَا خَطِیءَۃٌ. (رقم۶۵۶۱)
سیدہ عائشہ(حج کے ایک مقام)، منی میں ٹھیری ہوئی تھیں کہ قریش کے چند نوجوان ہنستے ہوئے ان کے پاس حاضرہوئے ۔
سیدہ نے استفسارکیا:کیاوجہ ہے کہ آپ لوگ اس طرح ہنس رہے ہیں؟
انھوں نے کہا:فلاںآدمی خیمے کی رسیوں سے اُلجھ کرکچھ یوں گراکہ ہم سمجھے اس کی گردن ٹوٹی یا آنکھ ضائع ہوئی۔(بس اسی بات پرہماری ہنسی چھوٹ گئی)۔
آپ نے فرمایا:یوں کسی پرہرگزنہ ہنساکرو۔میں نے اللہ کے رسول کو فرماتے ہوئے سناہے کہ مسلمان کوکانٹاچبھے یااس سے کم ترکوئی تکلیف ہو،اس کے بدلے میں اللہ کے ہاں اس کے لیے ایک اجرلکھ دیاجاتااورایک گناہ اس کے حساب سے مٹا دیا جاتاہے۔دَخَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی أُمِّ السَّاءِبِ أَوْ أُمِّ الْمُسَیِّبِ فَقَالَ: مَا لَکِ؟ یَا أُمَّ السَّاءِبِ أَوْ یَا أُمَّ الْمُسَیِّبِ تُزَفْزِفِینَ؟ قَالَتْ: الْحُمَّی، لَا بَارَکَ اللہُ فِیہَا، فَقَالَ: لَا تَسُبِّی الْحُمَّی، فَإِنَّہَا تُذْہِبُ خَطَایَا بَنِی آدَمَ، کَمَا یُذْہِبُ الْکِیرُ خَبَثَ الْحَدِیدِ. (رقم۶۵۷۰)
ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک (خاتون)،ام سائب کے ہاں تشریف لے گئے۔اس کی خیریت دریافت کی اورپوچھا:کیابات ہے تم اس طرح کانپ رہی ہو؟
اس نے کہا:بخارمیں،اس کاناس ہو!مبتلاہوگئی ہوں۔
آپ نے فرمایا:بخارکوکیوں برابھلاکہتی ہو؟( درست ہے کہ یہ تکلیف دہ ہے ، مگر)یہ بھی حقیقت ہے کہ گناہوں کویہ آدمی سے اس طرح دور کر دیتاہے، جس طرح بھٹی لوہے کی میل کودورکر دیتی ہے۔عَن عَطَاءَ بْنِ أَبِی رَبَاحٍ قَالَ: قَالَ لِی ابْنُ عَبَّاسٍ: أَلَا أُرِیکَ امْرَأَۃً مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ؟ قُلْتُ: بَلَی، قَالَ: ہَذِہِ الْمَرْأَۃُ السَّوْدَاءُ ، أَتَتِ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: إِنِّی أُصْرَعُ وَإِنِّی أَتَکَشَّفُ، فَادْعُ اللہَ لِی، قَالَ: إِنْ شِءْتِ صَبَرْتِ وَلَکِ الْجَنَّۃُ، وَإِنْ شِءْتِ دَعَوْتُ اللہَ أَنْ یُعَافِیَکِ، قَالَتْ: أَصْبِرُ، قَالَتْ: فَإِنِّی أَتَکَشَّفُ فَادْعُ اللہَ أَنْ لَا أَتَکَشَّفَ فَدَعَا لَہَا. (رقم۶۵۷۱)
ابن ابی رباح بیان کرتے ہیں کہ سیدناابن عباس نے مجھ سے کہا: تم ایک جنتی عورت کودیکھناچاہوگے؟
میں نے عرض کیا:(حضرت)،کیوں نہیں؟
انھوں نے کہا:اس حبشی عورت کودیکھ رہے ہو۔یہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئی اورآپ سے درخواست کی کہ مجھے مرگی کادورہ پڑتاہے جس سے میں( ہوش وحواس کھوبیٹھتی ہوں ،حتٰی کہ) اپنے لباس اورپردے کی جگہوں سے غافل ہوجاتی ہوں،اس لیے آپ اللہ سے میرے لیے دعاکردیجیے۔
آپ نے ارشادفرمایا:تم اصرارکرتی ہوتومیں تمھاری صحت کی دعاکیے دیتا ہوں، لیکن اگرتم صبرکروتو(میں بشارت دیتا ہوں کہ)اس کے بدلے میں تمھیں خدا کی جنت ملے گی۔
اس نے جواب دیا:(یارسول اللہ)،میں صبرہی کروں گی۔آپ میرے لیے بس یہ دعاکردیجیے کہ(اس حالت میں مجھے اس قدر ہوش رہاکرے کہ ) میں بے لباس نہ ہوجایا کروں۔
اس پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے (یہی )دعافرمادی۔
____________