باب چہارُم
حضرت موسیٰ ؑ سے غلط طور پر منسوب ’صعودِ موسیٰ‘ (Assumption of Moses) ۱ نامی ایک کتاب میں محمدرسول اللہ ﷺ کے متعلق ایک عجیب و غریب پیشین گوئی بیان کی گئی ہے۔ میرے ایک فاضل دوست جناب محمد فاروق کمال ۲ نے مجھے اس کتاب سے متعارف کرایا تھا۔ ’صعودِ موسیٰ‘ (Assumption of Moses) نامی یہ کتاب ابتداءً گیارہ سو سطور پر مشتمل تھی، جس کا قریباً نصف حصہ دریافت ہو چکا ہے۔ یہ ’صعودِ موسیٰ‘ آرایچ چارلز کی تالیف 'The Apocrypha and Pseudepigrapha of the Old Testament in English' میں شامل ہے۔اس کتاب کے ایڈیٹر نے کتاب کے مقدمے میں لکھا ہے کہ ابتداءً یہ کتاب ۷ء تا۲۹ء کے درمیان کسی وقت عبرانی زبان میں لکھی گئی تھی۔ پہلی صدی عیسوی میں اِس کا یونانی زبان میں ترجمہ مَنَصّۂ شہود پر آ گیا تھا۔ پانچویں صدی تک اِس کتاب کے یونانی ترجمے کا لاطینی زبان میں ترجمہ ہو گیا تھا۔ اس ترجمے کا ایک بڑا حصہ کریانی (Ceriani) نے شہرمیلان کی ایمبروشین لائبریری کے چھٹی صدی کے ایک مسودے کی صورت میں دریافت کیا تھا۔ اُس نے ۱۸۶۱ء میں اسے شائع کرایا تھا۔ یہ مسودہ چھٹی صدی کاایک 'Palimpsest' ۳ ہے۔ ۴ جناب ایڈیٹر لکھتے ہیں:
It is not, as scholars have supposed, the actual work of the original Latin translator, but only a fragmentary copy of that version; for our text contains duplicate renderings and attempts at a better translation, which were primarily marginal glosses, but afterwards introduced by a copyist into the text. ۵
یہ ابتدائی لاطینی مترجم کا اپناکام نہیں ہے، جیسا کہ بعض علما کا خیال ہے، بلکہ یہ اُس ترجمے کے صرف کچھ حصے کی نقل ہے؛ کیونکہ ہمارا یہ متن دُہرے اور بہتر ترجمے کی کوششوں پر مشتمل ہے، جو ابتداءً حاشیے میں دی گئی توضیحات تھیں، لیکن بعد میں کسی نقل نویس نے اِنھیں اصل متن میں شامل کر دیا تھا۔
موجودہ کتاب اس لاطینی ورشن کا ، جو یونانی ورشن سے لاطینی میں ترجمہ کیا گیا تھا، انگریزی ترجمہ ہے، لیکن یونانی ورشن اس کی اصل صورت نہیں۔ ممکن ہے کہ اصلاً یہ عبرانی زبان میں ترتیب دیا گیا ہو اور بعد میں اس کا یونانی ترجمہ کیا گیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ کتاب کے ایڈیٹر کا خیال ہے :
In some cases we must translate, not the Latin, but the Hebrew presupposed by it; (...). Frequently it is only through retranslation that we can understand the source of the corruptions in the text.۶
بعض حالتوں میں ہمیں لاطینی سے نہیں بلکہ اس عبرانی سے ترجمہ کرنا چاہیے جس کے متعلق فرض کیا جاتا ہے کہ وہ اس سے پہلے موجود تھا؛ (...)۔اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جب ہم(فرضی طور پر) ترجمے سے ترجمہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو متن میں تحریف کا ماخذ دریافت کر لیتے ہیں۔
اس کتاب کا مصنف نہ تو صدوقی(Sadducee) ۷ تھا، نہ اس زمانے کے کٹر یہودیوں کے گروہ (Zealots)۸ کا فرد یا ایسینی(Essene) ،۹ بلکہ فریسیوں۱۰ کے ایک درویش صفت۱۱ گروہ ( Quietist Pharisaic) کا فرد تھا۔
’صعودِ موسیٰ ‘ نامی زیر مطالعہ کتابچہ بارہ ابواب، جنھیں پیراگراف کہنا زیادہ مناسب لگتا ہے، پر مشتمل ہے۔ ان میں سے ہر ایک میں کم وبیش بیس سطور ہیں۔ آغاز ہی میں پہلے باب میں حضرت موسیٰ ؑ ، حضرت یوشعؑ بن نون کو اپنے پا س بلاتے اور فرماتے ہیں:
That the time of the years of my life is fulfilled and I am passing away to sleep with my fathers even in the presence of all the people. And receive thou this writing that thou mayst know how to preserve the books which I shall deliver unto thee.۱۲
میرا جام عمر لب ریز ہو چکا ہے اور میں سب لوگوں کی موجودگی ہی میں اپنے آباواجداد کے ساتھ ابدی نیند سونے جارہا ہوں۔ اب تم یہ تحریر سنبھال رکھو تاکہ تمھیں معلوم ہو جائے کہ جو کتابیں میں تمھارے حوالے کروں، ان کی حفاظت کیسے کی جانی ہے۔
حضرت موسیٰں، یوشعؑ کو مزید بتاتے ہیں:
That he might be the minister of the people (...), and that he might bring the people into the land given to their fathers, that it should be given to them according to the covenant and the oath.۱۳
تاکہ وہ لوگوں کا خادم و ناظم ہوسکے(...)، اور تاکہ وہ لوگوں کو اس ملک میں لے جا سکے جو ان کے آباو اَجداد کو دیا گیاتھا۔ اور تاکہ یہ ملک میثاق اور قسم کے مطابق ان کے حوالے کیا جائے۔
ان سطور سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کتابچہ کچھ ایسی اطلاعات پر مشتمل ہے جو حضرت موسیٰ ؑ کے نزدیک نہایت اہم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اسے اپنی مُہلتِ حیات پوری ہونے پر اپنی وصیت یا ’عہد‘۱۴ کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔یہ جاننے کے لیے کہ مضمون کس طرح آگے بڑھ رہا ہے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہر باب کے مشمولات کے خاکے کا ایک مختصر سا مطالعہ کر لیا جائے۔
دوسرے باب میں حضرت موسیٰ ؑ حضرت یوشعؑ کو بتاتے ہیں:
Thou shalt bless and give to them individually and confirm unto them their inheritance in me.۱۵
تم انھیں برکت دینا او رانھیں فرداً فرداً عطاکرنا او رانھیں اس بات کی یقین دہانی کرانا کہ انھیں میرے وجود میں وراثت حاصل ہے۔
وہ اسے) یوشعؑ کو( علاقائی انداز میں نبیوکدنضر۱۶ کی فتح تک کی تاریخ کے اَہم نِکات اور نمایاں خدوخال سے بھی مختصراً آگاہ کرتے ہیں۔تیسرے باب میں حضرت موسیٰ ؑ نبیوکدنضرکے ہاتھوں یروشلم کی تباہی کے مختصر حالات بیان کرتے ہیں۔ چوتھے باب میں دانیال کی آمد، ان کی اسیری سے رہائی اور ان کی بابل کی جلاوطنی سے اپنے وطن یروشلم۱۷ واپسی کے لیے دعا کے بارے میں اطلاع دیتے ہیں۔ پانچویں باب میں سلوسی (Seleucidae)، یونانی بادشاہوں اور جرنیلوں کے قبضے کا ذکر ہے۔ بعدا زاں مرتد یہودی قوم کوانٹیوکس کی ذات کی صورت میں سزادی گئی۔ چھٹے باب میں نام لیے بغیر تباہیوں کا بیان ہے۔
چھٹے باب کے خاتمے کے بعد مصنف کا اپنا دور زندگی شروع ہوتاہے۔ اب وہ ماضی کے واقعات اور مستقبل کی پیشین گوئیاں بیان نہیں کرسکتے تھے۔ اب وہ صرف چند مبہم سی پیشین گوئیاں اور معماتی علامات ہی بیان کرسکتے تھے۔ ساتویں باب کے غدار ، صرف ذاتی مفادات او رخوشیوں کے طالب، پیٹو اور دھوکے باز لوگوں کا اطلاق صدوقیوں ہی پر کیاجاسکتاہے۔ ایڈیٹر کے خیال کے مطابق عذاب الٰہی کا دوسرا دورانٹیوکس ایپی فینز۱۸ کی تعذیب ۱۹ کاٹھیک ٹھیک بیان ہے۔
جہاں تک نویں باب کا تعلق ہے، اس میں حضرت موسیٰ ؑ یا الہام سے سرشار جو بھی ولی یا نقل نویس اس کتاب کے مصنف ہوں، سات خوابیدگان (یعنی اصحابِ کہف) کے رومی حکمران دقیانوس۲۰ (Decius) کی تعذیب سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے ایک غار میں پناہ لینے کے واقعے کی پیشین گوئی کرتے ہیں۔ یہ واقعہ قرآن کریم کی اٹھارھویں سور ت (سورۃ الکہف ،یعنی غار) میں بھی درج ہے۔ اگرچہ کتاب کا ایڈیٹر باب نہم میں مذکور اس واقعے کو ۲۔ مکابیون ۵:۱۸ میں مذکور کسی دوسرے الیعزر نامی غیرمتعلقہ شخص سے منسلک کرتا ہے، جس کانام یہاں Taxoدرج ہے، جو سردار نقل نویسوں میں سے ایک تھا اور ۴۔مکابیون ۵:۳ کے مطابق ایک کاہن تھا، لیکن اس واقعے کا شہر افسوس (Ephesus)کے ساتھ سونے والوں کے واقعے پراطلاق زیادہ بامعنی ہے۔ اس باب کے چند اقتباسات سے اس کی وضاحت ہوجائے گی:
Then in that day there shall be a man of the tribe of Levi, whose name shall be Taxo, who having seven sons shall speak to them exhorting (them): \'Observe, my sons, behold a second ruthless (and) unclean visitation [trouble or disaster considered as a punishment from God (Oxf. Adv. Learner\'s Encyclopedic Dic., p. 1010)] has come upon the people, and a punishment merciless and far exceeding the first. (...). Now, therefore, my sons, hear me (...). Let us fast for the space of three days and on the fourth let us go into a cave which is in the field, and let us die rather than transgress the commands of the Lord of Lords, the God of our fathers. For if we do this and die, our blood shall be avenged before the Lord.۲۱
تب ان دنوں میں وہاں قبیلۂ لاوی کا ایک شخص ہوگا جس کا نام Taxoہوگا ۔ اس کے سات بیٹے ہوں گے جنھیں وہ نہایت سنجیدگی سے تنبیہ کرتے ہوئے کہے گا: ’میرے بیٹو! توجہ کرو، دیکھو لوگوں پر ایک بے رحم اور ناپاک عذاب الٰہی نازل ہوچکا ہے،جو ایک ایسی سزا ہے جو پہلی سے کہیں زیادہ اور بے رحمانہ ہے۔ (...)۔لہٰذا میرے بیٹو! اب میری بات سنو۔ (...)۔ آؤ پہلے تو ہم تین دن کے روزے رکھیں۔ چوتھے دن ہم ایک غار میں چلے جائیں جو میدان میں واقع ہے۔ اگر ہم یہ کرکے مریں گے تو خداوند کے حضور ہمارا خون رائیگاں نہیں جائے گا اور اس کابدلہ لیاجائے گا‘۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ اِفْسُس کے سات خوابیدگان کا واقعہ حضرت عیسیٰ ؑ او رمحمد رسول اللہ ﷺ کے درمیانی عرصے کی مذہبی دنیا کا بہت بڑا اور نہایت اہم واقعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ نے یہ واقعہ حضرت یوشعؑ سے بیان کرناضروری سمجھا۔
یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ کتاب ’صعودِ موسیٰ‘ پہلی صدی عیسوی کی پہلی چوتھائی میں حضرت عیسیٰ ؑ کی بعثت سے پہلے لکھی گئی تھی۔ اس طرح یہ کتاب’ اصحاب کہف‘ کا واقعہ اس کے وقوع سے دو سو سال قبل بیان کررہی ہے۔ اس لحاظ سے یہ اس واقعے اور بذات خود اس کتاب کی صحت و صداقت کی نہایت واضح شہادت ہے۔
اب اس عہدنامے کے سب سے زیادہ اہم باب، یعنی دسویں باب کی باری آتی ہے، جو اس کے اہم ترین او رمرکزی مضمون کے بیان پر مشتمل ہے۔یہ محمد رسول اللہﷺ کی آمد کے واقعے سے متعلق ہے۔ اس کی چند سطورذیل میں نقل کی جاتی ہیں:
And then His kingdom shall appear throughout all His creation,
(...)
And He will appear to punish the Gentiles,
And He will destroy all their idols.
(...).
And do thou, Joshua (the son of) Nun, keep these words and this book;
For from my death [assumption] until His advent there shall be CCL times.
And this is the course of the times which they shall pursue till they are consummated.
And I shall go to sleep with my fathers.
Wherefore, Joshua thou (son of) Nun, (be strong and) be of good courage; (for) God hath chosen (thee) to be minister in the same covenant.۲۲
اور تب اس کی بادشاہت ۲۳ اس کی تمام مخلوق میں رونماہوگی۔۲۴
(...)۔
اور وہ غیریہودی اقوام۲۵ کو سزادینے کے لیے ظاہر ہوگا۔
اور وہ ان کے تمام بت۲۶ تباہ کردے گا۔
(...)۔۲۷
اورنون (کے بیٹے) یوشع ، تم یہ کرو کہ ان الفاظ اور اس کتاب پر قائم اور ان سے وابستہ رہو۔ کیونکہ میری موت (صعود) سے لے کر اس کی آمد۲۸ تک سی سی ایل ٹائمز۲۹ (CCLTimes) کا عرصہ ہوگا۔
اور ان کے اوقات و حالات یہی رخ اختیار کریں گے، حتیٰ کہ وہ پایۂ تکمیل تک پہنچ جائیں (یاوہ ختم ہوجائیں) اور میں اپنے آباواَجداد کے ساتھ ابدی نیند سونے چلاجاؤں گا۔
اس لیے اے نون (کے بیٹے) یوشع ، تم (مضبوط ہوجاؤ اور) خوب حوصلہ پیدا کرو، (کیونکہ) خداوند تعالیٰ نے (تمھیں) اسی میثاق میں خادم و منتظم ہونے کے لیے چن لیا ہے۔
باب گیارہ میں حضرت موسیٰ ؑ زور دے کر حضرت یوشعؑ کو ان کی ذمہ داریوں کی یاد دہانی کراتے ہیں۔ حضرت یوشعؑ اپنے ذمے ڈالے گئے کام سے افسردہ بھی ہیں اور خوف زدہ بھی۔ بالآخرباب بارہ میں حضرت موسیٰ ؑ حضرت یوشعؑ کی ہمت افزائی کرتے اور ان کا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔وہ انھیں یقین دلاتے ہیں کہ خداوند تعالیٰ کی مرضی پوری ہوگی، اور غالب ہوگی، اور ان کی تفویض شدہ ذمے داری کی تکمیل میں اللہ کی مدد ان کے شامل حال رہے گی۔ اور اس کے ساتھ ہی ہمارا یہ کتابچہ اختتام کو پہنچتا ہے۔
_______
۱ یہ کتاب سب سے پہلے۱۹۱۳ء میں شائع شدہ کتابThe Apocrypha and Pseudepigrapha of the O.T. in English\', ed. by R. H. Charles with many scholars, (Oxf. Univ. Press, 1979). کے صفحات ۴۱۴تا ۴۲۴پر شائع ہوئی تھی۔اس کے صفحات۴۰۷ تا ۴۱۳ پر اس کتاب ’صعودِ موسیٰ ‘کا تعارف دیا گیا ہے۔
۲ مسٹر محمد فاروق کمال ایک معروف اسکالر ہیں۔ وہ متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ اُن کی بعض کتابوں کے نام یہ ہیں: (i) Vindication of the Crescent, (ii) Crescent Versus the Cross, (iii)
Isla#m for the West, (iv) Muh~ammad (pbAh), Rasu#lulla#h (Urdu#).
اُن کی یہ کتابیں ڈیفینڈرز آف اسلام ٹرسٹ، 28، ایمپریس روڈ،لاہور سے دستیاب ہیں۔اُنھوں نے علمی دُنیا میں پہلی دفعہ اپنی کتابوں میں اس پیشین گوئی کا حوالہ دیا ہے۔جہاں تک میرے مطالعے کا تعلق ہے، میں نے جناب محمد فاروق کمال کے علاوہ اور کسی مسلمان عالم کی طرف سے اس کتاب کا کوئی حوالہ یا ذکر نہیں دیکھا۔
۳ 'Palimpsest' سے مراد کسی تحریری مواد یا مسودے کا ایسا ٹکڑا ہوتاہے جس پر لکھی ہوئی ابتدائی تحریر مٹا دی گئی ہو تاکہ اس پر کوئی دوسری تحریر لکھی جا سکے۔تحریری مواد کا یہ ٹکڑا بالعموم ہرن یا کسی ایسے ہی جانور کی کھال یا پیپائرس پر لکھا ہوتا ہے۔
۴ ملاحظہ کیجیے : \'The Apocrypha and Pseudepigrapha of the Old Testament in English\',
Vol. II, ed. R.H. Charles in conjunction with many scholars, (The Oxf. Univ. Press, 1979), 407, 8.
5. The Apocrypha and Pseudepigrapha of the OT, 409.
6. The Apocrypha and Pseudepigrapha of the OT, 410.
۷ صدوقی(Sadducee): یہ دوسرے ہیکل کے دور کا ایک یہودی فرقہ ہے۔ اہم کاہن اور طبقۂ اُمرا (اشرافیہ) کے ارکان صدوقی فرقے سے تعلق رکھتے تھے، جنھیں سیاسی اور معاشی زندگی میں بڑا اثرورسوخ حاصل تھا۔ ان کے نزدیک مذہب بنیادی طور پر ہیکل کی رسومِ عبادت اور قربانی سے تعلق رکھتا تھااور مجرد ایمان کی کوئی حیثیت نہ تھی۔ اُن کے نقطۂ نظر کے مطابق فرد اورگروہ کو آخرت میں جزا اور سزا کی توقع رکھے بغیر اس دُنیا میں اپنی بہتری کے لیے کوشاں رہنا چاہیے۔ صدوقیوں کا مستقبل کی زندگی (آخرت)، قیامت یا روح کی ابدیت پر کوئی ایمان نہ تھا۔ وہ روحوں اور فرشتوں کے وجود سے بھی انکاری تھے۔ صدوقیوں کی ساری قوت اور وجود کا رشتہ ہیکل کی رسوم اور عبادات سے وابستہ تھا، اور ہیکل کی تباہی کے بعد وہ بھی ختم ہو گئے۔ (See The Standard Jewish Enc., ed. Cecil Roth [London: W. H.
Allen, 1959], P. 1639; and Enc. of The DSS, ed. L. S. Schiffman, J. C. Vanderkam [Oxford Univ. Press, 2000], 2:812).
یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ پہلے اور دوسرے ہیکل کا بھی قارئین سے تعارف کرا دیا جائے۔پہلا ہیکل یا ہیکلِ سلیمانی [Soloman's Temple] تو حضرت سلیمان ؑ نے ۹۵۰ق م کے لگ بھگ بنوایا تھا جو ۵۸۶ق م میں بابل کے بادشاہ نبیوکد نضر(جسے اُردو میں عام طور پر ’بخت نصر‘ کہا جا تاہے) کے ہاتھوں تباہ وبربادکر کے بنیادوں سے اُکھاڑ دیا گیا تھا۔ دوسرا ہیکل زَرُبّابل کا ہیکل [Zerubbabel\'s Temple] کہلاتا ہے۔ یہ سلطنت بابل کے ۵۳۹ق م میں سائرس ایرانی کے ہاتھوں خاتمے کے بعد قریباً ۵۱۵ق م میں مکمل ہوا۔ ۲۰ق م میں بادشاہ ہیروداعظم نے اسے تھوڑا تھوڑا گرا کر دوبارہ بنوانا شروع کیا۔ تعمیر کا یہ کام ۶۴ء تک وقفے وقفے سے جاری رہا۔ ۷۰ء میں رومی جرنیل ٹائیٹس [Titus] نے یروشلم فتح کر کے اسے جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ بعد میں اس کا نام و نشان ختم کر دینے کے لیے اس جگہ ہل چلوا کر اس کی بنیادیں بھی اُکھڑوا دیں۔ اس کے بعد پچھلے دو ہزار سال سے اب تک اس ہیکل کا صفحۂ ہستی پر کوئی وجود نہیں۔ صرف ایک ’دیوارِ گریہ‘ باقی رہ گئی تھی جو اب تک موجود ہے۔ بادشاہ ہیروداعظم کے ہاتھوں دوسرے ہیکل کو گروا کر تعمیر کرائے جانے والے ہیکل کو تیسرا ہیکل یا ہیرود کا ہیکل بھی کہا جاتا ہے، لیکن یہود کو تیسرے ہیکل والی بات زیادہ پسند نہیں، بلکہ وہ اسے دوسرے ہیکل ہی کا تسلسل سمجھتے ہیں۔
۸ زیلوٹ(Zealot) : یہ دوسرے ہیکل کے زمانے کی بنیادی طور پرایک سیاسی پارٹی تھی۔اس کی بنیاد ۶ ء میں یہوداہ گیلی لِین (Judah Galilean) اور صدوق کاہن (Zadoc the Priest) نے رکھی تھی۔اُن کا دعویٰ تھا کہ خداوند تعالیٰ صرف یہودی قوم کا حاکم ہے۔ اُن کی جدوجہد ایک تو غیر ملکی حکومت کے خلاف تھی اور دوسرے اُن یہودیوں کے خلاف جنھوں نے اس غیر ملکی حکومت کو تسلیم کیا تھا۔جب ۷۰ء میںیروشلم کا آخری محاصرہ ہواتو اس پر اُن کا کنٹرول تھا۔(ملاحظہ کیجیے:'The Standard Jewish Enc., p. 1955-56; and Enc. of The DSS, 2:1007')
۹ ایسین(Essene ) : یہ فلسطین کا دوسرے ہیکل کے زمانے کے اختتام کے وقت کاایک مذہبی فرقہ تھا۔ یہ فریسیوں سے قریب تھے۔وہ روح کی لافانیت اورجزا و سزاپر ایمان رکھتے تھے، لیکن جسمانی طور پر دوبارہ اُٹھائے جانے کو نہیں مانتے تھے۔ وہ غلامی اور ذاتی ملکیت کے بھی خلاف تھے ۔ وہ عام طور پر مجرد رہتے تھے، لیکن انسانیت کی بقا کے لیے کچھ لوگ شادی بھی کر لیتے تھے۔ وہ جانوروں کی قربانی کے خلاف تھے۔ اس فرقے میں داخل ہونے والوں کے لیے شروع میں ۳ سالہ آزمائشی دور پورا کرنا ضروری تھا۔ اس کے بعد انھیں، بطور مکمل رُکن کے، گروہ میں شامل کر لیا جاتا تھا، لیکن اس سے پہلے انھیں فرقے کے راز ظاہر نہ کرنے کا حلف اُٹھانا پڑتا تھا۔فِیلو کے زمانے میں اُن کی تعداد ۴ ہزار تھی۔ دوسرے ہیکل کی تباہی کے بعد اُن کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ ایسینیوں کے بارے میں معلومات زیادہ تر فِیلو اور جوزیفس کے ذریعے ہی سے حاصل ہوتی ہیں۔ بحیرۂ مردار کے طوامیر کی دریافت سے ایسینیوں کے اعتقادات ، اُن کی نوعیت اورشاید اُن کے ابتدائی مسیحیت سے تعلقات پر روشنی پڑتی ہے، جنھوں نے ان سے بہت کچھ لیا ہے۔ (ملاحظہ کیجیے:'The Standard Jewish Enc., p. 639-40; and Enc. of The DSS, 1:262')
۱۰ فریسی(Pharisee) : فریسی کے معنی غالباً ’جدا کرنا‘ ہے، یعنی دوسروں سے میل جول سے گریز کرنا، تاکہ قربانی اور عبادت کے رسوم خالص رہیں اور اِن میں کوئی بگاڑ پیدا نہ ہو۔ یہ فلسطین کے دوسرے ہیکل کے زمانے کے دوران کا ایک یہودی مذہبی اور سیاسی گروہ تھا۔ وہ قومی زندگی کواُس زبانی قانون میں بیان کیے گئے شرعی فریم ورک ہی کے دائرۂ کار میں رکھنا پسند کرتے تھے، جسے وہ تحریری قانون، یعنی بائبل سے کم اہم نہیں سمجھتے تھے۔ وہ خدائی تقدیر کو تو مانتے تھے، لیکن انسان کو بھی اپنے اعمال کا ذمہ دار قراردیتے تھے۔ صدوقیوں کے برعکس وہ زندگی بعد موت، مُردوں کے دوبارہ اُٹھائے جانے، مسیحا کی آمد اور جزا و سزا کے دن پر ایمان رکھتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ فریسیت نے یہودیوں کی اخلاقی حالت مضبوط کرنے اور اُن میں لچک پیدا کرنے کے سلسلے میں بنیادی کردار ادا کیا، جس کے ذریعے سے یہودیت بعد میں آنے والے مصائب کو برداشت کرنے کے قابل ہو سکی۔ یہ تحریک تاریخی یہودیت کے ساتھ ساتھ چلتی رہی۔) ملاحظہ کیجیے :The Standard Jewish Enc., p. 1497-98; and Enc. of The DSS, 2:657)
۱۱ عقیدۂ تسلیم و رضا اور توکل(Quietism) :یہ ایک ایسا مذہبی نظام ہے جو اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ انسان کو تمام خواہشات ترک کر دینا چاہیے اور خدا وند تعالیٰ اور اُس کی پیدا کی ہوئی چیزوں پر غوروفکر کر کے امن حاصل کرنا چاہیے۔
12.The Apocrypha and Pseudepigrapha of the OT, 415.
13. The Apocrypha and Pseudepigrapha of the OT, 414.
۱۴ اصل میں اس کتابچے کا نام ’عہدنامہ موسیٰ‘ (Testament of Moses)ہے، نہ کہ’صعودِ موسیٰ‘ (The Assumption of Moses)۔ ایڈیٹر نے اپنے مقدمے میں حوالہ نمبر۲ کے عنوان کے تحت ان الفاظ میں اس کی نشاندہی کی ہے کہ’موجودہ کتاب حقیقت میں ’’عہدنامہ موسیٰ‘‘ ہے نہ کہ’’صعودِ موسیٰ‘‘ جوصرف چند یونانی اقتباسات میں محفوظ ہے‘۔
15. The Apocrypha and Pseudepigrapha of the OT, 415 f.
۱۶ نبیو کدنضر(جسے اُردو میں عام طور پر ’بخت نصر‘ کہا جاتا ہے) ۶۰۵ ق م سے ۵۶۲ تک بابل کا بادشاہ رہا، اس کے باپ کانام نابو پلسر(Nabupolassar) تھا (جو ایک کلدانی سردار تھا)۔ اسے اشوریوں نے میسوپوٹیمیا (عراق) کے انتہائی جنوب میں سمندری علاقوں کا گورنرمقرر کیاتھا۔ اشوریا، جو اس وقت زوال پذیر تھا، کی کمزوری نے نابو پلسر کو ۶۲۶ ق م میں اس بات کی جرأ ت دلائی کہ وہ بغاوت کرکے اپنے طورپر بابل کابادشاہ ہونے کا اعلان کردے۔ اس کے بیٹے نبیو کدنضر نے ۵۸۷ تا ۵۸۶ ق م میں ایک طویل اور تکلیف دہ محاصرے کے بعد یروشلم کو فتح کرکے تاخت و تاراج کردیا۔
۱۷ ملاحظہ فرمائیے: The Apocrypha and Pseudepigrapha of the OT, 417.
۱۸ اینٹیوکس ایپی فینزs) (Antiochus Epiphane۱۷۵ سے ۱۶۳ ق م تک شام کا بادشاہ رہا، ’ایپی فینز کا مطلب ہے: عظیم یا ممتاز ، اس کی یونانی تہذیب و ثقافت کے پرچار کے ذریعے سے سیاسی استحکام و اتحاد حاصل کرنے کی پالیسی کی یہودیوں نے پُر تشدُّد مزاحمت کی۔ اس نے ۱۶۹ ق م میں یروشلم پر حملہ کرکے ہیکل کو تباہ و برباد کردیااور ۱۶۷ ق م میں یہودیت کا مکمل قلع قمع کرنے کاعزم لے کر نئی اور نہایت شدید چڑھائی کردی ۔ یہودی رسومِ عبادت کو ممنوع قرار دے کر ان کے لیے موت کی سزامقرر کی۔ ہیکل کا تقدس پامال کیا او رمشرکانہ رسومِ عبادت نافذ کیں۔ اس کے نتیجے میں مکابیوں کی بغاوت شروع ہوئی۔ جس کے بعد اینٹیوکس ایران کی طرف پسپا ہوگیا۔ وہیں اس کا انتقال ہوگیا۔
۱۹ ملاحظہ فرمائیے: The Apocrypha and Pseudepigrapha of the OT, 420.
۲۰ سی میسیئس کوئنٹس ڈیسیس (C. Messius Quintus Decius) ۲۴۹ ق م سے ۲۵۱ ق م تک روم کا حکمران رہا۔ ’دی اوکسفرڈ ڈکشنری آف دی کرسچین چرچ‘ ایڈیشن دوم (لندن :اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس ۱۹۷۴ء) کے صفحہ ۳۸۴ پر درج ہے :
After Emp. Philip\'s defeat and death near Verona, Decius was accepted by the Senate. In the next year he undertook the first systematic persecution of the Christians, beginning with the execution of Fabian, Bishop. of Rome, in Jan. 250. In June all citizens were required to furnish proof of having offered sacrifice to the Emperor; and, though many gave way or escaped through bribery, thousands were put to death. (...) The persecution, which was probably initiated to combat the allegedly fissiparous [reproducing with fission] influence of Christianity, was ended by the death of Decius in June 251.
شاہ فلپ کی ویروناکے قریب شکست اور وفات کے بعد سینیٹ نے ڈیسیس کو حکمران تسلیم کرلیا۔ اگلے سال ہی اس نے مسیحیوں کی منظم تعذیب کا سلسلہ شروع کردیا۔ اس نے اس کاآغاز جنوری ۲۵۰ ء میں روم کے بشپ فیبین (Fabian)کی سزائے موت سے کیا۔ جون میں تمام شہریوں سے کہاگیا کہ وہ حکمران کے نام پر قربانی پیش کیے جانے کا ثبوت فراہم کریں۔ اگر چہ بہت سے لوگوں نے رشوت دے کر جان بچائی یا راہِ فرار اختیار کی تاہم ہزاروں لوگوں کو قتل کردیاگیا۔(...)یہ تعذیب، جو غالباً اس لیے شروع کی گئی تھی کہ مسیحیت کے اثرو رسوخ کو، جو ایک دھماکے کی صورت میں پھیل رہا تھا روکاجاسکے، جون ۲۵۱ء میں ڈیسیس کی موت کے ساتھ ختم ہوگئی۔
سات خوابیدگان، یعنی ’Seven Sleepers‘(قرآن کے اصحاب کہف) کا واقعہ قریباً ۲۵۰ء سے ۴۴۷ء تک کے عرصے پر پھیلا ہوا ہے۔ انھوں نے مسیحی مذہب قبول کرلیا تھا۔اس وقت کا رومی حکمران ڈیسیئس (Decius)مسیحیت اور مسیحیوں کے سخت خلاف تھا۔ جب وہ اس کے سامنے لائے گئے تو اس نے انھیں تین دن کی مہلت دی کہ وہ اپنے موقف پر نظر ثانی کرلیں اور اپنے بت پرستی کے پرانے مذہب کی طرف لوٹ آئیں، وگرنہ انھیں قتل کردیاجائے گا۔ وہ فرار ہوگئے۔ اور شہر افسس (Ephesus)،جو عام طور پر شہرافسوس کے نام سے مشہور ہے، کے باہر ایک غار میں روپوش ہوگئے۔ وہاں وہ رومی شہنشاہ ڈیسےئس (Decius) کے عہدِ حکومت میں قریباً ۲۵۰ء میں اس پُر اَسرار غار میں ایک معجزانہ نیند میں سوگئے۔ وہ ۴۴۷ ء میں رومی شہنشاہ تھیوڈو سےئس دوم (Theodosius II)کے دور میں بیدار ہوئے۔ رومی سلطنت پہلے ہی مسیحی مذہب قبول اور اختیار کرچکی تھی۔
یہ ایک اہم واقعہ تھا جو تیسری سے پانچویں صدی پر پھیلا ہواتھا۔’ صعودِ موسیٰ‘ پہلی صدی عیسوی کے پہلے اورتیسرے عشرے کے دوران میں کسی وقت عبرانی زبان میں لکھی گئی تھی۔ اس کا ایک ایسے واقعے کا حقیقی بیان ،جو اس کی تدوین کے صدیوں بعد رونما ہوناتھا، اس کی صحت و صداقت کی تصدیق کرتاہے۔
21. The Apocrypha and Pseudepigrapha of the OT, 421.
22. The Apocrypha and Pseudepigrapha of the OT, 421-3.
۲۳ ظاہر بات ہے کہ اس کی بادشاہت سے وہ’ قانون الٰہی‘ مراد ہے جو اس کے پیغمبر کے ذریعے سے ظاہر ہوا۔
۲۴ جہاں تک اسرائیلیوں کا تعلق ہے، تو ان کے ہاتھوں’ خدا کی بادشاہت‘ کبھی ’اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق پر ظاہر‘ نہیں ہوئی۔ انھیں اپنی پوری تاریخ میں کبھی یہ توفیق نصیب نہ ہوئی کہ وہ’ قانون الٰہی‘ جیسا کیسا بھی وہ ہو، کنعان سے باہر، اسرائیلیوں کے علاوہ دوسری اقوام پر (یعنی Gentilesپر) نافذاورقائم کرسکیں۔ یہ محمدرسول اللہﷺ ہی ہیں جن کے ذریعے سے خدا کی بادشاہت اس کی تمام مخلوق پر نمودار ہوئی، یعنی جغرافیائی یا نسلی شناخت سے قطع نظر کلام الٰہی اس دور کے لوگوں پر روشن ہوا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بائبل میں یہ بات عام ہے کہ لفظ ’تمام‘ کثرت تعداد کے مفہوم میں استعمال کیاجاتاہے۔ بائبل میں مبالغہ آرائی کا استعمال بہت زیادہ ہے، ہر صاحبِ علم جانتا ہے کہ اگرچہ طوفان نوحؑ بہت بڑے رقبے پر محیط تھا، تاہم یہ تمام روئے زمین پر محیط نہ تھا۔ لیکن بائبل نے اسے ایک عالمی معاملے کے طورپر پیش کیاہے۔ بائبل میں درج ہے:
اور پانی زمین پر بہت ہی زیادہ چڑھا۔ اور سب اونچے پہاڑ، جو دنیا میں ہیں چھپ گئے (پیدایش ۷: ۱۹) ۔
انگریزی کے ’کنگ جیمز ورشن‘ کے متن میں اس کے لیے مندرجہ ذیل الفاظ درج ہیں:
And the waters prevailed exceedingly upon the earth; and all the high hills, that were under the whole heaven, were covered. (Gen. 7:19 KJV)
اور بھی متعدد مثالیں ہیں جن میں ’تمام‘ بڑی آزادی سے ایک بڑی مقدار یا تعدادکے لیے استعمال کیاگیاہے۔ اسی طرح یہاں بھی’ جو دنیا میں ہیں‘یا’ Upon the earth under the whole heaven‘ کے الفاظ بھی صرف’ ایک بڑے حصے ‘کے مفہوم کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔
۲۵ حضرت موسیٰ ؑ کی یہ پیشین گوئی ،کہ صرف اسی کے ذریعے سے ’وہ (خداوندتعالیٰ) غیراقوام کو سزادینے کے لیے نمودار ہوگا‘، بھی محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات پر صادق آتی ہے۔ یہود کی پوری تاریخ میں اس طرح کا کوئی کام نہیں ہوا۔
۲۶ یہ بات بھی کہ وہ ان کے تمام بت تباہ و برباد کردے گا، صرف محمدرسول اللہ ﷺ ہی کے ذریعے سے پوری ہوئی۔ اے گیوم Guillaume’لائف آف محمد‘ مطبوعہ کراچی ۲،۱، اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس ۱۹۷۴ کے صفحہ ۵۵۲ پر لکھتا ہے:
The apostle entered Mecca on the day of the conquest and it contained 360 idols which Ibli#s had strengthened with lead. The apostle was standing by them with a stick in his hand, saying, \'The truth has come and falsehood has passed away; verily falsehood is sure to pass away\' (al-Isra 17.82). Then he pointed at them with his stick and they collapsed on their backs one after the other.
When the apostle prayed the noon prayer on the day of the conquest he ordered that all the idols which were round the Ka\'ba should be collected and burned with fire and broken up. Fad~a#la b. al-Mulawwih~ al-Laythi#, a poet commemorating the day of the conquest, said:
Had you seen Muhammad [pbAh] and his troops
The day the idols were smashed when he entered,
You would have seen God\'s light become manifest
And darkness covering the face of idolatry.
فتح کے روز رسول اللہ[ﷺ]مکے میں داخل ہوئے اور اس میں تین سو ساٹھ بت تھے، جنھیں ابلیس نے سیسے کے ذریعے سے مضبوطی کے ساتھ لگایاہواتھا۔ رسول اللہ[ ﷺ ]اپنے ہاتھ میں ایک چھڑی لیے ان کے پاس کھڑے تھے اور فرمارہے تھے:’حق آگیا اور باطل ختم ہوگیا، بے شک باطل تو ہے ہی ختم ہونے والا‘۔(الاسراء ۷:۱۱۲)۔ پھر آپ ؐاِن کی طرف اپنی چھڑی سے اشارہ کرتے اور وہ یکے بعد دیگرے پیٹھ کے بل گرکر ڈھیر ہوتے گئے۔
فتح کے دن جب رسول اللہ ]ﷺ[ نے ظہر کی نماز پڑھی تو آپؐ نے حکم دیا کہ کعبے کے گردو نواح میں جتنے بت ہیں، انھیں اکٹھے کرکے آگ سے جلادیا جائے اور توڑ دیاجائے۔ فتح کے دن کی یاد میں فضالہ بن ملَوِّح اللیثی نامی شاعر کہتاہے:
اگرتم محمد اور ان کی فوجوں کو اس دن دیکھتے جس دن اس کی آمد پر بتوں کو توڑا گیاتوتم دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ کانور نمودار ہے اور بت پرستی کے چہرے پر تاریکی چھاگئی ہے۔
سرولیم میور نے ’دی لائف آف محمد‘[ﷺ] (مطبوعہ ایڈنبرا جون گرانٹ ۳۱ جارج چہارم پل ۱۹۲۳ ء) میں صفحہ ۴۰۸ پر یہ واقعہ ان الفاظ میں درج کیا ہے:
The abused, rejected, exiled Prophet now had the rebellious city at his feet. Moh~ammad [pbAh] was Lord of Mecca. (...). Then, pointing with his staff to the idols one by one that stood around, he commanded them to be hewn down. 'Truth hath come,' he cried in the words of the Kor\'a#n, as the great image of Hubal, reared in front of the Ka\'ba, fell with a crash;-'Truth hath come, and falsehood gone; for falsehood verily vanisheth away.'
مکے کاسرکش و باغی شہر جہاں رسول اللہ[ﷺ] کے ساتھ بد سلوکی اور بد زبانی کی گئی ، آپؐ کو مسترد کیا گیا ، اور جلاوطن کیا گیا، آج آپؐ کے قدموں میں تھا، محمدرسول اللہ[ﷺ] آج مکے کے حاکم و آقاتھے۔ (...)۔ پھر ان بتوں کی طرف جو آپؐ کے ارد گرد کھڑے تھے، ایک ایک کرکے اپنی چھڑی کے ساتھ اشارہ کرتے ہوئے آپؐ نے حکم دیا کہ انھیں توڑ کر پیوندِ خاک کردیاجائے۔ جب ہبل کاوہ عظیم بت جو کعبے کے سامنے تعمیر کیاگیا تھا، ایک دھماکے کے ساتھ گرا ، تو آپؐ نے قرآن کے الفاظ ’حق آگیا ‘ بلندآواز سے دہرائے۔ ’حق آگیا اور باطل دم توڑ گیا، یقیناً باطل تو ہے ہی ختم ہونے والا‘۔
جہاں تک اسرائیلیوں کا تعلق ہے تو ان کے تمام بت تباہ و برباد کرنے کا تو کیا ذکر ، وہ تو اپنی تاریخ کے متعدد ادوار میں خود بھی بتوں کی پوجا کرنے لگے تھے۔ یہ بات بائبل میں کئی مرتبہ صریح الفاظ میں درج ہے۔
۲۷ ’صعودِ موسیٰ‘کے مصنف یا اس کے بعد کے کسی مدون نے یہاں بعض سطور اسرائیلیوں کے متعلق شامل کردی ہیں، لیکن وہ متن سے اتنی واضح طور پر غیر متعلق ہیں کہ ہرغیر متعصب قاری بآسانی سمجھ جائے گا کہ ان کا مضمون سے کوئی واسطہ نہیں اور محض الحاقی ہیں، تاہم ذیل میں بطور حوالہ انھیں بھی نقل کیاجارہاہے:
ؔ Then thou, O Israel, shalt be happy,
And thou shalt mount upon the necks and wings of the eagle,
And they shall be ended.
And God will exalt thee,
And He will cause thee to approach to the heaven of the stars,
In the place of their habitation.
And thou shalt look upon from on high and shalt see thy enemies in Ge[henna],
And thou shalt recognize them and rejoice,
And thou shalt give thanks and confess thy Creator.
تب ، اے اسرائیل،تو خوش ہوگا، او رتوشاہین کے پروں اور گردنوں پر سوار ہوگا، اور وہ ختم ہوجائیں گے۔ اور خداوندتعالیٰ تیرا رتبہ بلند کرے گا۔ وہ تجھے تاروں والے آسمان تک ان کی جائے قیام میں پہنچائے گا اورتوبلندی سے نظر ڈالے گا۔ اور اپنے دشمنوں کو جہنم میں دیکھے گا، او رتوانھیں پہچان لے گا اور خوشی منائے گا۔ اور تو اپنے خالق کا شکر بجالائے گا اور اسے مانے گا۔
ٌٌٌٌٌٌ۲۸ میری موت (صعود) سے لے کر اس کی آمد تک ، کے الفاظ یہ واضح کرتے ہیں کہ یہاں بیان کردہ تمام واقعات اس شخص سے متعلق ہیں جس کی آمد کایہاں ذکر کیاگیاہے۔
۲۹ میری موت(صعود) سے لے کر اس کی آمدتک ’سی سی ایل ٹائمز‘ کا عرصہ ہوگا، کے جملے میں کلیدی الفاظ ’سی سی ایل ٹائمز‘ کے بارے میں ’صعودِ موسیٰ‘ کے ایڈیٹر نے اپنے ذیلی حاشیے میں وضاحت کی ہے۔
CCL times, i.e. 250 year weeks, or 1,750 years. (...), which gives the same date for the Messiah\'s coming.
’سی سی ایل ٹائمز ‘، یعنی ۲۵۰ ہفت سالے، یا۰ ۱۷۵ سال ۔ یہ مسیحا کی آمد کے لیے وہی تاریخ دیتا ہے۔
لیکن پہلی بات تو یہ ہے کہ’ صعود‘ کے اس باب میں مسیحا کی آمد کاکوئی ذکر نہیں ، بلکہ خداکی بادشاہت کا ذکر ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر مسیحا سے مراد حضرت عیسیٰ ؑ لیے جائیں تو اعدادو شمار بالکل غلط ثابت ہوتے ہیں، حضرت عیسیٰ ؑ حضرت موسیٰ ؑ سے قریباً بارہ صدی بعد میں آئے تھے، جبکہ حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا کہ ان (حضرت موسیٰ ؑ ) کی وفات اور اس کی (آنے والے کی ، وہ حضرت عیسیٰ ؑ ہوں ، یاکوئی اور) آمد کے درمیان ۱۷۵۰ سال کا وقفہ ہوگا۔ اب یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ یہ صرف محمد رسول اللہﷺ ہی کی ذات ہے جو حضرت موسیٰ ؑ کی وفات کے ٹھیک ’سی سی ایل ٹائمز‘ بعد آئے ہیں۔ ایڈیٹر کے مطابق ’سی سی ایل ٹائمز‘ سے مراد ۲۵۰ ہفت سالے، یعنی ۱۷۵۰ سال ہیں۔ قارئین آگاہ ہوں گے کہ رومن گنتی کے اعتبار سے ’سی‘ سے مراد ایک سو ہے۔ اور ’سی سی‘ سے مراد دوسو۔ اسی طرح ’ایل‘ پچاس کے لیے آتا ہے۔ اگر یہ’ ایل‘ اپنے سے کسی بڑے عدد کے بعد آئے تو اسے اس میں جمع کردیاجاتاہے۔ اِس طرح ’سی سی ایل‘ سے مراد ہوا، ۱۰۰+۱۰۰+۵۰ جو صریحاً ۲۵۰ بنتاہے۔ یہاں انگریزی میں جس عبرانی لفظ کا ترجمہ ’ٹائمز‘ کیاگیاہے ، وہ’ ہفت سالہ‘ بنتاہے، جیسا کہ کتاب کے ایڈیٹر نے وضاحت کردی ہے۔ ’ ہفت سالہ‘ سے مراد ہے: ’سات سال کی اکائی‘ جیسے کہ ’ہفتہ‘ سے مراد ’سات دن کی اکائی‘ ہیں۔ اس طرح۲۵۰ ’ ہفت سالے‘ سے مراد ہوا۔۰ ۲۵x۷=۱۷۵۰ سال۔
____________