جو کچھ اب تک بیان ہوا ،اس کا ماحصل یہ ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ نے اپنے مرنے سے پہلے ایک اہم بشارت دی تھی کہ ان کے بعد کوہِ شعیر سے حضرت عیسیٰ ؑ طلوع ہوں گے، جن کے بعد مکے کے بیابان میں ’کوہِ فاران‘ پر نبوتِ خداوندی جلوہ گر ہوگی۔ ظاہرہے کہ مکے کے پہاڑوں پر اب تک حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے علاوہ کوئی ذات جلوہ گر نہیں ہوئی۔ اب ہم بشارت کے بقیہ اوصاف پر گفتگو کریں گے۔
بائبل کی محولہ بالا عبارتِ بشارت میں ،’فاران ہی کے پہاڑسے جلوہ گر ہوا‘سے بالکل متصل آگے ارشاد ہے: ’دس ہزار قدسیوں کے ساتھ آیا‘۔
تاریخ شاہد ہے کہ فتح مکہ کے وقت حضرت محمدﷺدس ہزار پاک باز (قدسی: یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ رمضان کے مہینے کی وجہ سے ان میں سے روزہ دار بھی تھے۔ روزے کی حالت میں تقویٰ و پاک بازی کا وصف انسان میں بتدرجۂ اَتَم موجود ہوتا ہے) صحابہؓ کے ساتھ مکے کے پہاڑوں پر جلوہ گرہوئے تھے اور آپؐ نے وہاں پر اپنے ساتھیوں کو اپنے اپنے خیموں کے ساتھ آگ روشن کرنے کا حکم دیا تھا، تاکہ اہلِ مکہ کو مسلمانوں کی قوت و تعداد کا اندازہ ہوجائے، وہ اس لشکر جرار سے ہیبت زدہ ہو کر مقابلے میں آنے کی جرأت نہ کر سکیں اور حرمِ مکہ بغیر کسی خونریزی کے فتح ہوسکے۔ اس طرح ’دس ہزار قدسیوں کے ساتھ فاران کے پہاڑ پر جلوہ گر ہونے ‘کی پیشین گوئی آنحضرتﷺکی ذات پر پوری طرح صادق آتی ہے اور تاریخِ عالم میں محمد رسول اللہﷺکے علاوہ کسی اور شخصیت پر اس کا ذرا بھی اطلاق نہیں ہوتا۔
’دس ہزار قدسیوں کے ساتھ آیا‘ (He came with ten thousands of saints...KJV)کے الفاظ اس پیشین گوئی کے تعین کے سلسلے میں بالکل ناطق اور فیصلہ کُن حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لیے انھیں ابہامات اور تحریفات کا خوب تختۂ مشق بنایا گیا ہے۔ اسی مضمون میں آگے اس کی کچھ مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ ’دس ہزار‘ کا عدد بائبل میں دو طرح سے آیا ہے: ایک تو ’دسxہزار‘ کے مرکب کے طور پر، اوردوسرے’دس ہزار‘ بطور گنتی کی ایک مستقل اکائی کے طور پر۔ پہلے مفہوم کے لحاظ سے عبرانی (عہدنامۂ قدیم) میں اس کے لیے ’عشرxالاف‘کے دو الگ الگ الفاظ آئے ہیں اور یونانی (عہدنامۂ جدید) میں ’ڈیکاxخِلِیاد‘ کے۔ اس پہلی شکل میں یہ بائبل میں متعدد مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ دوسری صورت میں (بطور واحد اکائی) عبرانی (عہد نامۂ قدیم) میں اس کے لیے ’ربوبہ‘ ۳۲ کا لفظ ’دس ہزار‘ کے لیے ایک مستقل اکائی کے طور پر آیا ہے اور یونانی (عہدنامۂ جدید) میں بھی ’دس ہزار‘ کے لیے ’مُریاس ‘ یا ’مِریاڈ‘(Myriad) کا لفظ ایک مستقل اکائی کے طور پر آیا ہے۔ اس صورت میں یہ پوری بائبل میں کل بائیس مرتبہ (عبرانی زبان کے ’عہد نامۂ قدیم‘ میں سترہ مرتبہ اور یونانی زبان کے ’عہدنامۂ جدید‘ میں پانچ مرتبہ) آیا ہے۔ ’عہدنامۂ جدید‘ کے پانچ مواقع میں سے چار میں یہ عام انسانوں یا سِکّوں وغیرہ کی گنتی کے لیے استعمال ہوا ہے اور ایک مرتبہ ’یہوداہ کے عام خط‘ (آیت۱۴) میں حضرت حنوک کی پیشین گوئی کے طور پر :
And Enoch also, the seventh from Adam, prophesied of these, saying, Behold, the Lord Cometh with ten thousands of his saints, to execute judgement upon all (...).۳۳
ان کے بارے میں حنوک نے بھی’جو آدم سے ساتویں پشت میں تھا‘ یہ پیشین گوئی کی تھی کہ دیکھو، خداوند اپنے لاکھوں مقدسوں کے ساتھ آیا۔۳۴
اور اس جگہ یہ اس زیر بحث پیشین گوئی ہی کا ایک الگ بیان ہے۔ جہاں تک ’عہدنامۂ قدیم‘ کے سترہ مقامات کا تعلق ہے تو وہاں پندرہ مقامات پر تو یہ عام گنتی کے لیے استعمال ہوا ہے اور دو مرتبہ محمد رسول اللہ ﷺ کی فتح مکہ کی اسی پیشین گوئی کے بیان میں مذکور ہے:ایک تو یہی’استثنا‘۳۳:۲ میں اور دوسری مرتبہ ’غزل الغزلات‘ ۵:۱۰ میں۔یہودی اور مسیحی علما اور مفسرین نے ان تینوں مقامات پر تحریفات، تاویلات اور ابہامات کی خوب آری چلائی ہے، مگر تحقیق و تلاش کے نتیجے میں حقیقتِ حال بے نقاب ہو ہی جاتی ہے (اس موضوع کی تفصیلی تحقیق ان شاء اللہ الگ سے پیش کی جائے گی، بیدہ التوفیق)۔
اس جملے میں لفظ’آیا‘بھی انتہائی اہم ہے۔ یہ لفظ حضرت موسیٰ ؑ کے لیے بھی آیا ہے: ’سینا سے آیا‘۔ وہاں اس کے لیے اصل عبرانی لفظ ہے: ’ب + و + ا = بوا‘۔ ’سٹرونگ کے عبرانی لغت‘ کے اندراج ۹۳۵صفحہ۱۹ کے تحت اس کے معنی ہیں:
to go or come (in a variety of applications); abide.
لیکن یہاں اس کے لیے اصل عبرانی لفظ ’ا + ت + ہ = اتی ٰ یا اتا ہ‘ ہے۔ ’سٹرونگ کے بائبل کے عبرانی الفاظ کے لغت‘ کے اندراج ۸۵۷ صفٖحہ۱۸ کے مطابق اس کے معنی ہیں:
Arrive; come (upon); bring
’اوکسفرڈ انگلش ڈکشنری و تھیسارس‘ کے مطابق come uponکے معنی ہیں’ اچانک حملہ آور ہونا‘ اس طرح یہاں لفظ ’آیا‘ کے معنی ہوئے ’چڑھا لانا، اچانک بے خبری میں حملہ آور ہونا‘ اور یہ مسلمانوں کی محمد رسول اللہﷺ کے تحت فتح مکہ کے موقع پر آمد کی ہو بہو عکاسی ہے۔ ’قدسیوں‘ کا لفظ بھی رمضان کی وجہ سے صحابہؓ کے روزے کی حالت میں ہونے کی عکاسی ہے۔ اس طرح یہ آیت فتح مکہ پر مکمل طور پر منطبق ہے۔
’ اس کے داہنے ہاتھ ایک آتشیں شریعت ان کے لیے تھی‘ سے ظاہرہوتاہے کہ ’فاران سے دس ہزار قدسیوں کے ساتھ‘ جلوہ گر ہونے والا یہ نبی صاحبِ شریعت بھی ہوگا۔حضرت موسیٰ ؑ کے بعد کوئی اسرائیلی نبی صاحبِ شریعت نہیں ہوا، تورات کے بعد کے دوسرے صحیفے،جن میں زبور اورا ناجیل بھی شامل ہیں، زیادہ تر امثال وحِکم اور مواعظ و مناجات ہی پر مشتمل ہیں۔ حضرت موسیٰ ؑ کے بعد محمد رسول اللہ ﷺ ہی صاحبِ شریعت نبی ہیں اور شریعتِ محمدی ہی پر ’آتشیں شریعت‘ کا اطلاق ہوسکتا ہے کہ یہ ایک واضح، روشن او رمحکم شریعت ہے۔۳۵
پیشین گوئی کاآخری حصہ ہے: ’ ہاں وہ اس قوم سے بڑی محبت رکھتا ہے، اس کے سارے مقدس تیرے ہاتھ میں ہیں اور وہ تیرے قدموں کے نزدیک بیٹھے ہیں اور تیری باتوں کو مانیں گے‘۔
قرآنِ کریم میں محمد رسول اللہ ﷺ کے متعلق ارشاد ربانی ہے:
لَقَدْ جَاء کُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْْکُم بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤُوفٌ رَّحِیْمٌ o۳۶
تمھارے پاس تم ہی لوگوں میں سے ایک رسول آگیا ہے۔ جو بات تمھیں نقصان اور رنج میں مبتلا کرے وہ اس پر بڑی شاق ہے ۔تمھاری ہدایت و فلاح کا وہ حریص ہے، ایمان لانے والوں کے لیے وہ شفیق او ررحیم ہے۔
اور صرف اہل ایمان ہی پررحیم و شفیق ہونے پرموقوف نہیں، محمد رسول اللہﷺ تو ’وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین‘ (ہم نے تجھے سب جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے) کے بھی مصداق ہیں۔ محمد رسول اللہ ﷺکی سیرت وکردار پر یہ پیشین گوئی پوری طرح صادق آتی ہے کہ ’ہاں وہ اس قوم سے بڑی محبت رکھتا ہے‘۔
اس کے بعد محمد رسول اللہﷺ کے مقدس ساتھیوں کے جواوصاف بیان ہوئے ہیں وہ اس پیشین گوئی کو اور زیادہ واضح طورپر محمد رسول اللہ ﷺ سے متعلق کردیتے ہیں، اور کسی نبی کو ایسے پاکباز فرماں بردار اور وفاشعار ساتھی میسر نہیں ہوئے ہیں جنھوں نے اپنا سب کچھ حتیٰ کہ اپنی جان و مال بھی اللہ اور اُس کے رسول کی نذر کردیے ہوں، اور جو دن رات بارگاہِ خداوندی میں سجدہ ریز رہتے ہوں (اوروہ تیرے قدموں کے نزدیک بیٹھے ہیں) اور جو اللہ اوراس کے رسول کے ہر حکم پر سرِتسلیم خم کرنے کے لیے تیار رہتے ہوں (اور تیری باتوں کو مانیں گے )۔جیسا کہ قرآنِ کریم میں اِرشاد ہے:
(...) وَالَّذِیْنَ مَعَہُ أَشِدَّاء عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاء بَیْْنَہُمْ تَرَاہُمْ رُکَّعاً سُجَّداً یَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّنَ اللَّہِ وَرِضْوَاناً سِیْمَاہُمْ فِیْ وُجُوہِہِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِکَ مَثَلُہُمْ فِیْ التَّوْرَاۃِ۔۳۷
(...) اور جو لوگ اس [محمد رسول اللہ ﷺ]کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے حق میں سخت ہیں اور آپس میں رحم دل۔تو ان کو دیکھتا ہے کہ (اللہ کے آگے) جھکے ہوئے سر بسجود ہیں اور اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی طلب کر رہے ہیں۔ (کثرتِ)سجود کے اثر سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں۔ ان کے یہ اوصاف تورات میں بھی(مرقوم)ہیں۔
اِس کے برعکس حضرت موسیٰ ؑ کی قوم کا حال یہ تھاکہ وہ ہر حکم کو ٹالنے اور اس کی تعمیل سے بچنے کے لیے طرح طرح کے حیلے بہانے بناتی تھی۔ بلکہ یہود تو جہاد کے حکم پر یہاں تک کہہ دینے سے بھی باز نہ رہے کہ اذھب انت وربک فقاتلا انا ھھنا قاعدون۳۸ ([اے موسیٰ] تو اور تیرا رب دونوں جاؤ اور لڑو، ہم تو یہیں بیٹھے ہیں)۔جہاں تک حضرت عیسیٰ ؑ کے حواریوں کا تعلق ہے تو انھوں نے تومصیبت کے وقت آپؑ کو پہچاننے اور واقف بننے سے بھی انکار کردیا تھا۔
اس طرح اس پیشین گوئی کا ایک ایک لفظ اپنی ترجمہ در ترجمہ اور تحریف شدہ حالت میں بھی محمد رسول اللہ ﷺ کی صداقت کی اتنی واضح شہادت دے رہا ہے کہ کوئی صاحبِ انصاف اس کا انکار نہیں کرسکتا، او رخود عیسائی علما کے پاس بھی کتابِ ’استثنا‘ کی مندرجہ بالا آیات کی موجودگی میں محمد رسول اللہ ﷺ کے انکار کے لیے کوئی دلیل باقی نہیں رہتی۔ اس لیے انھوں نے اس سے پیچھا چھڑانے کے لیے ان آیات میں پے درپے تحریف و ترمیم کی ہے۔مقالے کی ابتدا میں بائبل کی اس پیشین گوئی کا عربی اور فارسی کے علاوہ ایک اردو اور ایک انگریزی ترجمہ دیاگیا تھا۔ ناظرین ان کا موازنہ کریں تو اس میں بھی وہ Tenses، ضمائر اور کچھ دوسری باتوں میں کچھ نہ کچھ اختلاف محسوس کرسکیں گے۔ اُردوبائبل کے موجودہ ایڈیشن میں ان آیات کا مندرجہ ذیل ترجمہ کیا گیا ہے:
اور مردِ خدا موسیٰ نے جو دعائے خیر دے کر اپنی وفات سے پہلے بنی اسرائیل کو برکت دی وہ یہ ہے ۔ اور اس نے کہا: خدا وند سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر آشکار ہوا۔ وہ کوہِ فاران سے جلوہ گر ہوا اور ’لاکھوں‘ قدسیوں میں سے آیا۔ اس کے داہنے ہاتھ پر ان کے لیے آتشیں شریعت تھی۔ وہ بے شک قوموں سے محبت رکھتا ہے۔ اس کے سب مقدس لوگ تیرے ہاتھ میں ہیں اور وہ تیرے قدموں میں بیٹھے ہیں۔ ایک ایک تیری باتوں سے مستفیض ہوگا۔۳۹
’دس ہزار قدسیوں کے ساتھ کوہِ فاران پر طلوع ہونے‘ کی پیشین گوئی چونکہ محمدرسول اللہﷺ کے فتح مکہ پر حرف بہ حرف پوری اُترتی ہے اور کسی دوسرے نبی پراس کا ذرہ برابر بھی اِطلاق نہیں ہوتا، اس لیے یہاں ’دس ہزار ‘ کو ’لاکھوں‘ میں بدل دیاگیا، اور’کے ساتھ آیا‘ کو ’میں سے آیا‘ میں۔ ’ہاں وہ اس قوم سے بڑی محبت رکھتا ہے‘، سے چونکہ ’ وبا لمومنین رؤف رحیم‘ کی حقیقت درست ثابت ہوتی تھی اس لیے اسے بھی ’ وہ بے شک قوموں سے محبت رکھتا ہے‘ میں بدل دیا گیا۔ حالانکہ یہ ترجمہ بھی ’رحمۃ للعلمین‘کی حقیقت کا غماز بن گیاہے ۔ اس تحریف سے بھی تسلی نہ ہوئی تو ایک گروہ (رومن کیتھولک) نے ان آیا ت کا ترجمہ اس طرح کردیا:
موسیٰ کی برکت: یہ وہ برکت ہے جس سے مردِ خدا موسیٰ نے اپنی وفات سے پیشتر بنی اسرائیل کو دعادی۔ اس نے کہا: خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے اپنی قوم پر طلوع ہوا۔ وہ کوہِ فاران سے جلوہ گر ہوا۔ او رمریبہ قادیش میں آیا، اس کے داہنے ہاتھ سے شعلہ زن آتش پھوٹ نکلی۔ اس کے قہر نے اقوام کو تباہ کردیا۔ اس کے تمام مقدسین تیرے ہاتھ میں تھے اور وہ تیرے قدموں میں بیٹھے ہیں۔ انھوں نے اس کی باتوں سے روشنی پائی ۔ ۴۰
ایک ترجمے میں تو’دس ہزار قدسیوں کے ساتھ آیا‘کے محمد رسول اللہﷺ پر اطلاق سے بچنے کے لیے اسے’لاکھوں قدسیوں میں سے آیا‘ میں بدل دیا گیا۔ لیکن جب دیکھا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے آخری حج کے موقعے پر سوایا ڈیڑھ لاکھ مسلمان مکے میں آپؐ کے ساتھ تھے اور جن مسلمانوں’میں سے‘ یہ لوگ حج کرنے آئے تھے، اُن کی تعداد اُس وقت تک بہرحال لاکھوں تک پہنچ چکی تھی، توذہین مسیحی علما نے اسے مزید تحریف کا تختۂ مشق بنایا۔ ترجمہ اب ’دس ہزار قدسیوں کے ساتھ آیا‘ سے بدل کر نظرثانی شدہ اردو پروٹسٹنٹ ترجمے ’کتابِ مقدس‘ میں ’دس ہزار‘ سے ’لاکھوں‘ تک پہنچ گیا اور پھر بھی تسلی نہ ہوئی تو فارسی ترجمے میں اسے ’کرورہا‘ بنا دیا گیا اور کیتھولک اردو ترجمے ’کلامِ مقدس‘ میں ’مریبہ قادیش میںآیا‘ بن گیا۔ کمال چابک دستی اور ہوشیاری سے ترجمے میں سے مفہوم یوں غائب کیا ہے کہ لاکھ سرپٹختے رہیے، آپ جملے کا کوئی واضح اور متعین مطلب نہیں نکال سکیں گے۔عربی میں اسے ’ربوات‘ بنا دیا گیا، جس کا مطلب ہے’دسیوں ہزار‘۔ آگے ’ اس کے داہنے ہاتھ میں ایک آتشیں شریعت ان کے لیے تھی‘ بھی چونکہ بالبداہت محمد رسول اللہﷺ پر صادق آتاہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کے بعدبنی اسرائیل کا کوئی نبی بھی صاحبِ شریعت نہیں تھا، اس لیے بڑی صفائی کے ساتھ ’شریعت‘ بھی یہاں سے اڑا دی اور ترجمہ یوں بنادیا’ اس کے داہنے ہاتھ سے شعلہ زن آتش پھوٹ نکلی‘۔ پرانے ترجمے ’ہاں وہ اس قوم سے بڑی محبت رکھتا ہے‘ اور ۱۹۴۳ء کے ایڈیشن والے ترجمے ’وہ بے شک قوموں سے محبت رکھتا ہے‘ کو ایک طرف رکھیے اور آیت کے اِسی ٹکڑے کا ۱۹۵۸ء والے رومن کیتھولک ایڈیشن کا ترجمہ’ اس کے قہر نے اقوام کو تباہ کردیا‘ دوسری طرف رکھیے اور پھر سر دُھنیے کہ رؤ ف و رحیم اور رحمت للعلمین کے خصائلِ محمدی پر آیت کے اس حصے کو منطبق دیکھ کر کس ڈھٹائی سے ترجمہ بالکل الٹ دیاگیااور’ محبت‘ کو ’قہر‘ میں تبدیل کردیاگیا، اور اس بات کا بھی خیال نہ کیاگیاکہ اس طرح خود حضرت موسیٰ ؑ پر حرف آتا ہے کہ وہ کیسی عجیب برکت دے رہے ہیں، جو کسی قہر وغضب سے بپھرے ہوئے شخص کے ہاتھوں قوموں کی تباہی و بربادی کا سامان ہے۔ بھلا یہ بھی کوئی برکت ہے اوراللہ کے مقدس نبی ایسی دُعائیں بھی کیاکرتے ہیں۔ آخر میں ۱۶۱۱ء کے معیاری انگریزی ترجمے کا ایک تازہ ’نظرثانی شدہ ایڈیشن‘ ملاحظہ فرمائیے کہ وہاں یہ آیات کیا روپ دھارتی ہیں:
This is the blessing with which Moses the man of God blessed the children of Israil before his death. He said, \'The Lord came from Sinai, and dawned from Seir upon us; he shone forth from Mount Paran, he came from the ten thousands of holy ones with flaming fire at his right hand. Yea, he loved his people; all those consecrated to him were in his hand: so they followed in thy steps, receiving direction from thee\'. ۴۱
اس ترجمے کے مترجمین کچھ محتاط اور دُور اَندیش معلوم ہوتے ہیں، تاہم ’ دس ہزار قدسیوں کے ساتھ ‘ والا ترجمہ یہ بھی گوارانہ کرسکے، اور ’د س ہزار‘ کا ’دسیوں ہزار‘ اور ’ساتھ ‘ (with)ہٹاکر محمد رسول اللہﷺ پر اس کے اطلاق سے بچنے کی کوشش کی ہے۔ اسی طرح محمد رسول اللہ ﷺ کا صاحبِ شریعت ہونا بھی چونکہ اس بشارت کے عین مطابق پڑتاہے اور پرانے ترجمے کی رُو سے محمد رسول اللہ ﷺ کو مانے بغیر چارۂ کار ممکن نہیں، اس لیے ’آتشیں شریعت‘ کا ترجمہ بھی غتر بود کردیاگیاہے۔ اور پرانے ایڈیشن کے ترجمے\'from his right hand went a fiery law for them' میں تحریف و ترمیم کرکے اور محمد رسول اللہﷺ پر ایمان سے دامن بچانے اور معترضین کے لاجواب کردینے والے اعتراضات سے پہلو تہی کی خاطر’ شریعت‘ کا چکر ہی اڑادیا اور وہاں اب یہ لکھ دیا: 'with flaming fire at his right hand.\'۔اب اگر ان کے ذہن میں یہ بات آجائے کہ فتح مکہ کے موقعہ پر جب آپؐ ’دس ہزار قدسیوں‘ کے ساتھ کوہِ فاران پر جلوہ گر ہوئے اور آپؐ نے اپنے ساتھیوں کو اپنے اپنے خیموں کے پاس آگ روشن کرنے کے لیے کہا تھا، جس کے نتیجے میں اس وقت آپؐ کے داہنے ہاتھ لشکر اسلام کے الاؤ روشن ہوگئے تھے، تو آپ دیکھیں گے کہ یہاں بھی ’مریبہ قادیش‘ جیسا کوئی لفظ لاکر معاملہ گول کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ مُحوّلہ بالا آیات کو بار بار کیوں ترمیم و تحریف کا تختۂ مشق بنایاگیا۔ صاف ظاہرہے کہ ان آیات میں ایک خاص مقصد کے تحت اورایک خاص نہج پر تحریف کی گئی ہے، اگر عیسائی علما ان آیات کے بعثتِ محمدیؐ پر منطبق ہونے سے خوف زدہ نہ ہوتے تو انھیں اس تحریف و ترمیم کی آخر کیا ضرورت تھی۔ یہ تحریف و تبدیلی دراصل ان کے دل کے چور کی ناقابلِ تردید شہادت ہے۔
عین ممکن ہے کہ کوئی صاحب اس تدریجی تحریفی عمل کو اختلافِ تراجم کانام دے کر اس کی مدافعت کی کوشش کریں ۔ ’کتابِ مقدس‘ کی استنادی حیثیت اور اس میں ترمیم و تحریف ایک مستقل موضوع ہے۔ اِس کی تفصیل ہماری کتاب’The only Son Offered for Sacrifice: Isaac or Ishmaeal?‘ کے ستر صفحات پر مشتمل ضمیمہ دُوُم ’بائبل کا متن اور اِس میں تحریف و تخریب کی بعض صورتیں‘میں دیکھی جا سکتی ہے۔ توفیقِ الٰہی شاملِ حال ہوئی تو شاید اس پر ایک مستقل کتاب میں گفتگو کی جائے۔ یہاں اس سلسلے میں نہایت اِختصار سے چند معروضات پیش کی جاتی ہیں:
پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر کسی زبان کی ایک خاص عبارت کا ترجمہ مقصود ہو اور وہ عبارت اپنی اصلی اور غیرمُبَدَّل حالت میں سامنے موجود ہو اور اس عبارت کی زبان کے لغت و قواعد دستیاب ہوں، تو یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ اس کے ایک ٹکڑے کا ترجمہ ایک جگہ ’دس ہزار‘ ہو، دوسری جگہ’لاکھوں ‘ ہو ، تیسری جگہ ’ دسیوں ہزار‘ ہو اور چوتھی جگہ ’مریبہ قادیش‘ بن جائے۔ فارسی ترجمے میں ’کرورہا‘۴۲ یعنی کروڑوں ہو، او رعربی ترجمے میں ’رِبو ات القدس‘بن جائے،۴۳ یا ایک فقرے کا ترجمہ ایک صاحب ’ہاں وہ اس قوم سے بڑی محبت رکھتا ہے ‘ قرار دیں اور دوسرے صاحب نے اس کا ترجمہ ’اس کے قہر نے اقوام کو تباہ کردیا‘ جیسی بالکل ہی مختلف عبارت سے کردیا ہو؛ یا پھر اس کے ایک فقرے کا ترجمہ ایک مترجم ’ اور اس کے داہنے ہاتھ ایک آتشیں شریعت اُن کے لیے تھی‘ قرار دیں اور دوسرے مترجم قانون و شریعت کے اِنطبا ق سے پیچھا چھڑانے کے لیے اس کا حلیہ بگاڑ کر ’ اس کے داہنے ہاتھ سے شعلہ زن آتش پھوٹ نکلی‘ کے الفاظ اس فقرے کے ترجمے کے طور پر پیش کریں۔ آخر اختلافِ تراجم کی کوئی حد ہوتی ہے۔ اگر کلا م الٰہی کے ساتھ یہ تمسخر و استہزا اور ایسی مشقِ ستم اختلافِ تراجم کے ذیل میں آتی ہے توتحریف کے الفاظ لغت سے نکالنے پڑیں گے۔
آخر میں اَ ہَم نِکات الگ الگ بیان کر کے پورے مضمون کا مختصر اِعادہ پیش کیا جاتا ہے:
۱۔ محمد رسول اللہﷺ کو قرآن مجید میں انبیا اور اِن کی تعلیمات کا مُصدِّق کہا گیا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ آپؐ نے اِن کی تصدیق فرمائی ہے اور چونکہ اِن کے ذریعے سے آنحضرتﷺ کی آمد کی اطلاع دی گئی ہے، اِس لیے آپؐ کی آمد سے اِن کی یہ پیشین گوئیاں سچی ثابت ہوئیں۔ چنانچہ اِس لحاظ سے بھی آپ ؐ اِن انبیا اور اِن کی کتابوں کے مُصدِّق قرار پاتے ہیں۔
۲۔ بائبل میں مختلف انبیا کے ذریعے سے لوگوں تک تعلیماتِ الٰہی منتقل کی گئی ہیں۔ لیکن فنِ تحریر اور سامانِ تحریر کی عدم دستیابی کی وجہ سے وہ اپنی اصلی حالت میں برقرار نہ رہ سکیں اور اِن میں تحریف و ترمیم کی جاتی رہی۔ تاہم کلامِ الٰہی کی خدمت و حفاظت کے سلسلے میں ان کے بعض متقی رِبیوں نے جس احتیاط و اعتنا سے کام لیا، اس کی وجہ سے کلامِ الٰہی کے الفاظ کی ایک بڑی مقدار اب بھی اِس میں موجود ہے۔
۳۔ بائبل میں مستقبل میں پیش آنے والے بعض واقعات اور بعض انبیا کی آمد کی پیشین گوئیاں بھی درج ہیں۔ اگر یہ واقعات فی الحقیقت عمل میں آتے ہیں اور بیان کردہ انبیا تشریف لائے ہیں، تو یہ بائبل اور اِس کی اِن پیشین گوئیوں کے سچ ہونے کی دلیل ہے۔
۴۔ من جملہ اِن پیشین گوئیوں کے بائبل کی کتاب استثنا کے باب ۳۳ کے آغاز کی چند آیات بھی ہیں، جن میں حضرت موسیٰ ؑ ، حضرت عیسیٰ ؑ اور محمد رسول اللہ ﷺ کی ترتیب وارآمد کی خبر دی گئی۔
۵۔ اِن آیات کے ترجمے میں اہلِ کتاب نے حسبِ عادت کتر بیونت اور تحریف و ترمیم کا عمل بھی سرانجام دیا ہے۔
۶۔ پہلی تمہیدی آیت کے بعد دوسری آیت میں پہلے حضرت موسیٰ ؑ کو ’سینائی‘ پر شریعت دیے جانے کا ذکر ہے۔
۷۔ دوسری آیت کے دوسرے جملے میں حضرت عیسیٰ ؑ کو ’شعیر‘کے مقام پر نبوت عطا کیے جانے کا ذکر ہے۔
۸۔ اِسی دوسری آیت کے تیسرے جملے میں محمد رسول اللہﷺ کو ’فاران‘ پر شریعت دیے جانے کا ذکر ہے۔
۹۔ بائبل کے مطابق ’فاران‘ وہی جگہ ہے جہاں حضرت ابراہیم ؑ اپنے کم سن بیٹے حضرت اسماعیل ؑ اور اپنی زوجہ حضرت ہاجرہ کو چھوڑ کر گئے تھے۔ مکے میں اِس کی تمام نشانیاں بطور زمینی حقائق کے ٹھوس اور عملی حالت میں موجود ہیں۔
۱۰۔ پیشین گوئی میں ’دس ہزار قدسیوں کے ساتھ آیا‘ صریح طور پر اور بغیرکسی شک و شبہ کے فتح مکہ کا ذکر ہے۔
۱۱۔ ’اُس کے داہنے ہاتھ اُن کے لیے ایک آتشیں شریعت تھی‘ میں محمد رسول اللہﷺ کو شریعت دیے جانے کا ذکر ہے۔ کیتھولک ’کلامِ مقدس‘ نے کتابِ استثنا کو نام ہی ’تثنےۂ شرع‘ کا دیا ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پوری کتابِ ’استثنا‘ کا مرکزی مضمون ہی ’دوسری شریعت‘ ہے۔اس کتاب کا انگریزی نام ’Deuteronomy‘ بھی اسی بات کی دلالت کرتا ہے۔
۱۲۔ پیشین گوئی کے آخر میں محمد رسول اللہﷺ کے صحابہؓ کا ذکر ہے، جو اُن کی منہ بولتی تصویر ہے۔ قرآنِ کریم میں بھی اِن کے یہی اوصاف بیان ہوئے ہیں، جیسا کہ اِرشاد ہے:
وَالَّذِیْنَ مَعَہُ أَشِدَّاء عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاء بَیْْنَہُمْ تَرَاہُمْ رُکَّعاً سُجَّداً یَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّنَ اللَّہِ وَرِضْوَاناً سِیْمَاہُمْ فِیْ وُجُوہِہِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِکَ مَثَلُہُمْ فِیْ التَّوْرَاۃِ (القرآن، الفتح ۴۸: ۲۹)۔
اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے حق میں سخت ہیں اور آپس میں رحم دل، (اے دیکھنے والے) تو ان کو دیکھتا ہے کہ (اللہ کے آگے)جھکے ہوئے سر بسجود ہیں اور اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی طلب کر رہے ہیں۔ (کثرت)سجود کے اثر سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں۔ ان کے یہی اوصاف تورات میں (مرقوم)ہیں۔
اِن نِکات کی روشنی میں ثابت ہو جاتا ہے کہ مندرجہ بالا مضمون میں محمد رسول اللہﷺ کے ’فاران ہی کے پہاڑ سے جلوہ گر ہونے ‘ والی حضرت موسیٰ ؑ کے ذریعے سامنے آنے والی پیشین گوئی حرف بہ حرف سچی ثابت ہوتی ہے۔
_______
۳۲۔ ’سٹرونگ کے بائبل کے عبرانی الفاظ کے لغت‘ میں اندراج ۷۲۳۳،صفحہ۱۰۶ کے مطابق اس کے یہ معنی بیان ہوئے ہیں:
from 7231; abundance (in number), ie (spec) a myriad (whether definite or indefinite); ten thousand.
33. Jode: 14 KJV.
۳۴۔ ’کتابِ مقدس‘، یہوداہ کا عام خط:۱۴۔ یہاں بھی بائبل کے اُردو مترجمین کی ’دیانتداری‘ ملاحظہ فرمائیے کہ 'ten thousands' کا اُردو ترجمہ ’لاکھوں‘ کر دیا ہے۔ ذیل میں'The Apocrypha and Pseudepigrapha of the OT., ed. R. H. Charles (Oxf. at the Clarenden Press, 1979)'. کی 'Book of Enoch' ۱:۹ صفحہ ۱۸۹ سے ’کتابِ حنوک ‘ کی اصل عبارت درج کی جاتی ہے:
And behold! He cometh with ten thousands of \'His\' holy ones to excute judgement upon all, and to destroy all the ungodly: And to convict all flesh of all the works 'of their ungodliness\' which they have ungodly committed, 'And of all the hard things which\' ungodly sinners 'have spoken' against Him.
یہاں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ بائبل کا’کنگ جیمز ورشن‘ یا مستند ترجمہ (Authorised Version) کسی ایک شخص کی محنت کا نتیجہ نہیں، بلکہ اس کی تیاری کے عمل میں چالیس سے زیادہ علما شامل تھے۔ پھر یہ بھی ہے کہ اس کے الگ الگ اجزا کا ترجمہ الگ الگ علما نے کیا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ پہلے سب مل کر ایک آیت یاکتاب کا ترجمہ کریں پھر اگلی آیت کا۔ وعلی ہذالقیاس سب نے مل کر پوری کتاب کا ترجمہ کیا ہو اور ہر آیت کے ترجمے میں ٹیم کے تمام علما شامل ہوں۔ گڈیز میک گریگر (Geddes MacGregor) ’دی بائبل ان دی میکنگ‘ (لندن: جان مرے، ۱۹۶۱ء) میں صفحہ ۱۱۷ پر لکھتا ہے:
ان سینتالیس مترجموں کوچھ گروپوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ دو گروپ اوکسفرڈ میں میٹنگ کرتے تھے، دو کیمبرج میں اور دو ویسٹ منسٹر میں۔ ہر گروہ کو ترجمے کے کام کا ایک حصہ تفویض کیا گیا تھا۔
اس لیے ’دس ہزار‘ (ربوبہ یا مریاڈ) کا ترجمہ کسی نے ten thousandکر دیا اور کسی نے ten thousands۔ مراد دونوں تراجم میں ’دس ہزار‘ کا عدد تھانہ کہ دسیوں ہزار(tens of thousands)۔ اس دَور کی (آج سے چار سو سال پہلے کی) انگریزی میں دس ہزار کے لیے ’ten thousand‘ بھی استعمال ہوتا تھا اور ’ten thousands‘بھی۔ البتہ اگر ’دسیوں ہزار‘ کہنا مراد ہوتا تو اس کے لیے \'many ten thousands\' یا \'tens of thousands\' لکھا جاتا۔ یہاں ’لاکھوں‘لکھنا کسی طرح درست نہیں۔
۳۵۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو بنی اسرائیل کے لیے جو احکام و قوانین (شریعت) تورات کی شکل میں عنایت فرمائے تھے، بعد کے اسرائیلی انبیا اسی کے تابع اوراسی شریعت کے مجدد تھے۔ ان میں سے کسی نے بھی نہ کوئی مستقل شریعت عطافرمائی اورنہ اپنے صاحبِ شریعت ہونے کا کہیں دعویٰ کیا، بلکہ اس کے برعکس شریعتِ موسوی پر خود بھی عمل کیا اور اسی کے اِتِّباع کی اپنے متبعین کو بھی ہدایت کی۔ یہاں کوئی صاحب حضرت داو‘د ؑ اور حضرت مسیح ؑ کے صاحبِ کتاب ہونے سے غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوں۔ دونوں کتابیں شریعت کی کتابیں نہیں۔ امام راغب اصفہانی نے ’زبور‘ کے معنی بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: ’ہر وہ کتاب جو جلی اور گاڑھے خط میں لکھی ہوئی ہو ‘ (’المفردات‘ ترجمہ محمد عبدہ‘، لاہور: اہل حدیث اکادمی، کشمیری بازار،۱۹۷۱ء، صفحہ۴۳۰، زیر لفظ زبور زبر)۔ ’دی جیوئش انسائیکلو پیڈیا‘ (۱۰:۲۴۱)میں اس کی جو وضاحت کی گئی ہے اُس کا مفہوم درج ذیل ہے:
عبرانی میں اس کتاب کا عنوان ہے ’تِحِلِّیم‘، جس کا واحد ’تِحِلَّہ‘(Tehillah) ہے۔ اس کے معنی ہیں ’حمدیہ گیت‘ (song of praise)۔ اس کا انگریزی نام’Psalms‘ ایک یونانی لفظ سے ماخوذ ہے، جس کے ابتدائی معنی ہیں ’تار والے آلاتِ موسیقی بجانا‘ اور اس کے دوسرے معنی ہیں ’ان آلات کی دُھنوں کے ساتھ گایا ہوا گیت‘۔
بعض کے نزدیک اس کا نام ’زبور‘ رکھا ہی اس لیے گیا ہے کہ یہ احکامِ شرعیہ کی تفصیل کے بجائے دین کے نبیادی عقائد اور ادعیہ و مناجات کا مجموعہ ہے۔باقی رہا انجیل کا معاملہ ، تو جن لوگوں نے انجیل کا مطالعہ فرمایا ہے وہ جانتے ہیں کہ انجیل احکامِ شریعت کی کتاب نہیں، بلکہ محض وعظ و نصیحت اور اصلاحِ نفس کی تلقین کا مجموعہ ہے۔ اس میں جہاں کہیں احکامِ شرعیہ بیان ہوئے بھی ہیں وہ شریعتِ موسوی کے احکام ہیں اورحضرت مسیح ؑ نے ان کے ظاہر کے بجائے ان کی روح کو بطور آئیڈیل واعظانہ انداز میں بیان فرمایا ہے۔ ایک زانیہ کا مسئلہ آپؑ کو آزمایش میں ڈالنے کے لیے جب آپؑ کے سامنے فیصلے کے لیے پیش کیا گیا تو آپؑ نے اسے شریعتِ موسوی کے مطابق سنگسار کیے جانے کا فیصلہ دیا (انجیلِ یوحنا۸:۷)۔ انجیلِ یوحنا ۱:۱۷ میں ہے : ’شریعت تو موسیؑ ٰ کی معرفت دی گئی مگر فضل اور سچائی یسوع مسیحؑ کی معرفت پہنچی‘ یعنی خو دانجیل کے مطابق حضرت عیسیٰ ؑ صاحبِ شریعت نبی نہ تھے۔ انجیلِ یوحنا ۱۷: ۱۹ میں ہے: ’کیا موسیٰ ؑ نے تمھیں شریعت نہیں دی؟‘ پیروئ شریعتِ موسوی کی تلقین کی چند اور مثالیں بطور مشتے نمونہ ملاحظہ فرمالیجیے:
(۱) ’اور جو نذر موسیٰ [ ؑ ]نے مقر رکی ہے اسے گزران ‘(متی ۸: ۴)۔
(۲) ’ان چیزوں کو جو موسیٰ [ ؑ ]نے مقرر کیں نذر گزران‘(مرقس ۱: ۴۴ )۔
(۳) ’فقیہ اور فریسی موسیٰ[ ؑ ]کی گدی پر بیٹھے ہیں پس جو کچھ وہ تمھیں بتائیں وہ سب کرو اور مانو: لیکن ان کے کام نہ کرو کیونکہ وہ کہتے ہیں اور کرتے نہیں‘(متی ۲۳: ۳ )۔
حضرت مسیح ؑ نے واشگاف الفاظ میں اعلان فرمایا: ’ یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں ۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ پوراکرنے آیاہوں۔(...)، جو ان پر عمل کرے گا اور ان کی تعلیم دے گا وہ آسمان کی بادشاہی میں بڑ اکہلائے گا‘ (انجیل متی ۵: ۱۷ تا ۱۹)۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ مسیحیوں کے نزدیک آپؑ شریعت دینے نہیں بلکہ معاذاللہ اس کی لعنت سے چھڑانے کے لیے آئے تھے: ’مسیح جو ہمارے لیے لعنتی بنا، اس نے ہمیں مول لے کر شریعت کی لعنت سے چھڑایا، کیونکہ لکھا ہے کہ جو لکڑی پر لٹکایا گیا وہ لعنتی ہے‘ (گلیتیون ۳: ۱۳)۔
۳۶۔ القرآن، سورۃ توبہ۹: ۱۲۸۔
۳۷۔ القرآن، الفتح ۴۸: ۲۹۔
۳۸۔ القرآن، المائدہ ۵: ۲۴۔
۳۹۔ ’کتابِ مقدس‘،استثنا، ۳۳ :۱ تا ۳، ۱۹۴۳ء۔
۴۰۔ ’کلامِ مقدس‘،تثنیۂ شرع، ۳۳ : ۱ تا۳ ، سوسائٹی آف سینٹ پال، روما، ۱۹۵۸ء۔
41. Deu. 33:1-3 The Bible, Revised Standard Version (RSV).
۴۲۔’کرور‘کے معنی حسنعمید نے ’پانصد ہزار‘ لکھے ہیں، جس کا مطلب بنتا ہے : ’پانچ لاکھ (حسن عمید، ’فرہنگِ عمید‘[انتشاراتِ جاویدان علمی، ۱۳۴۴ خورشیدی] )۔ڈاکٹر سٹائن گاس نے اس کے معنی ’A crore (in Persian= 500,000)‘لکھے ہیں۔
(F. Steingass, Ph.D., A Comprehensive Persian-Eng. Dic. [London: Kegan Paul, Trench, Trubner & Co. Ltd, Broadway House, Carter Lane, E.C, 1947]), 1025.
۴۳۔ایک فاضل بزرگ نے باچی زادہ کے حوالے سے ’رِبو ات‘ کے معنی ’ٹیلے‘بیان کیے ہیں۔ ’رَبوہ‘ کا لفظ قرآن کریم میں بھی آیا ہے، اور وہاں اُس کے یہی معنی مراد ہیں، کیونکہ عربی میں اِس کے معروف و متداول معنی یہی ہیں، لیکن وہاں یہ ’ر‘ پرزبر کے ساتھ آیا ہے۔ عربی بائبل میں یہ لفظ ’ر‘ پر زبر کے بجائے اس کے نیچے زیر کے ساتھ آیا ہے، جس کے معنی عبرانی کی طرح عربی میں بھی ’دس ہزار‘ہیں۔عربی لغت ’لاروش‘ میں بھی یہی معنی درج ہیں۔ مشہور عربی لغت ’المنجد‘مطبوعہ دار المشرق، بیروت،۱۹۹۷ء کے صفحہ ۲۴۷ پر بھی یہی معنی درج ہیں۔’اے ڈکشنری آف ماڈرن رِٹن عریبک‘میں لکھا ہے:
Ribwa pl. -at: ten thousands, myriad. (Hans Wehr, A Dic. of Modern Written Arabic, ed. J. Milton Cowan [NY: Spoken Language Services, Inc. 1976] sv. \'Ribwa\' p. 324.
____________