HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Abdul Sattar Ghauri

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

فاران سے ظہورِ قدسی (حصہ اول)

باب سِوُم

قرآن کریم میں محمد رسول اللہ ﷺ کے لیے آسمانی کتابوں اور نبیوں کے مُصَدِّق یعنی ’تصدیق کرنے والے‘ کا لفظ بکثرت استعمال ہوا ہے۔ اس کا ایک عام سا مفہوم تو یہ ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ پہلی کتابوں اور رسولوں کو سچ مانتے اور سچا بتاتے ہیں۔ لیکن اس کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ محمد رسول اللہﷺ کی آمد سے پہلی کتابوں کی وہ پیشین گوئیاں سچ ثابت ہوئیں،جو آپؐ کی آمد کے متعلق ان میں درج ہیں۔ اس مضمون میں ہم ’بائبل‘کی ایسی پیشین گوئیوں میں سے ایک پر گفتگو کریں گے، جن کا اطلاق آنحضرتﷺ کے علاوہ اور کسی ذات پر ممکن نہیں۔

یہ امر کسی دلیل کا محتاج نہیں کہ بائبل کے الفاظ وعبارات اس طرح غیر مُبَدَّل او رمُستَنَد حیثیت کی حامل نہیں ، جس طرح قرآن کریم ۔ بائبل کے داخلی تضادات و شواہد بھی اس کے غماز ہیں اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والے اِس کے ایڈیشنوں اور تراجم کے اختلافات بھی اس میں تحریف و تبدیلی کا منہ بولتا ثبوت ہیں، جس کی چند جھلکیاں آپ آئندہ سطور میں بھی ملاحظہ فرمائیں گے۔لیکن یہ بھی درست ہے کہ اپنی اس مُحَرَّف حالت میں بھی کلامِ الٰہی کے خاصے اَجزا اس میں اب تک موجود ہیں۔

’کتابِ مقدس ‘ میں محمد رسول اللہﷺ کی آمد کے متعلق جو پیشین گوئیاں پائی جاتی ہیں، انھیں مانتے ہوئے اہلِ کتاب اگر محمد رسول اللہﷺ پر ایمان لے آئیں تو اس طر ح وہ خوداپنے انبیاے کرامؑ اور ان پر نازل شدہ کتابوں کی تصدیق کریں گے۔ بصورت دیگر یا تو ’بائبل‘ کی یہ خبریں غلط ثابت ہوتی ہیں یاپھراہلِ کتاب بھائیوں کا کفر و انکار ثابت ہوتاہے۔ سچے اور جھوٹے نبی کی پہچان کا معیار’ کتابِ مقدس‘ نے یہ بیان کیاہے:

اگر تو اپنے دل میں کہے کہ جو بات خداوند نے نہیں کہی ہے اسے ہم کیونکر پہچانیں؟ تو پہچان یہ ہے کہ جب وہ نبی خداوندکریم کے نام سے کچھ کہے اور اس کے کہنے کے مطابق کچھ واقع یا پورا نہ ہو تو وہ بات خداوند کی کہی ہوئی نہیں بلکہ اس نبی نے وہ بات خود گستاخ بن کر کہی ہے۔۱؂

ان آیات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ’بائبل‘ کی محمدرسول اللہ ﷺ کے لیے بشارتوں کا مطالعہ کیجیے اور پھر غور فرمائیے کہ کیا محمد رسول اللہﷺ کے علاوہ ان کا کوئی مِصداق ممکن ہے۔ پھر بھی کوئی شخص اگر حقیقت سے گریز کی راہ اختیار کرتا ہے توصرف یہی نہیں کہ وہ محمد رسول اللہ ﷺ کا انکار کررہاہے بلکہ خود اپنے نبیوں کی بھی تکذیب کا مرتکب ہورہاہے۔ اب ہم سب سے پہلے پروٹسٹنٹ اُردو بائبل کے ’عہد نامۂ قدیم‘ کی کتابِ اِستثنا سے ایک بشارت نقل کرتے ہیں:

اور یہ وہ برکت ہے جو موسیؑ ٰ مردِ خدا نے اپنے مرنے سے آگے بنی اسرائیل کو بخشی۔ اور اُس نے کہا کہ خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر طلوع ہوا۔ فاران ہی کے پہاڑسے وہ جلوہ گر ہوا۔ د س ہزار قدسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے داہنے ہاتھ ایک آتشی شریعت اُن کے لیے تھی۔ ہاں وہ اس قوم سے بڑی محبت رکھتا ہے۔ اس کے سارے مقدس تیرے ہاتھ میں ہیں اور وہ تیرے قدموں کے نزدیک بیٹھے ہیں اور تیری باتوں کو مانیں گے۔۲؂

عربی بائبل میں یہ عبارت ان الفاظ میں درج کی گئی ہے:

’وھذہ ہی البرکۃ التی بارک بہا موسی رجل اللّٰہ بنی اسرائیلَ قبل موتہِ۔ فقال جاء الرب من سیناء واشرق لھم من سعیر وتلأ لأمن جبل فاران واتی من رِبواتِ القدس وعن یمینہ نارُ شریعۃٍ لھم۔ فاحب الشَّعْبَ۔ جمیع قِدِّیسِہ فی یدک وھم جالسون عند قدمِک یتقبلون من اقوالک۔۳؂

فارسی میں اِن آیات کامندرجہ ذیل ترجمہ کیا گیا ہے:

واین است برکتی کہ موسی مردِ خدا قبل از وفاتش ببنی اسرائیل برکت داد، گفت ےَہُوَہ از سینا آمد، واز سعیر برایشان طلوع نمود، واز جبلِ فاران درخشاں گردید، وباکرورھای مقدسین آمد ، واز دستِ راست او برای ایشان شریعتِ آتشیں پدید آمد۔بدرستیکہ قوم خودرا دوست میدارد وجمیع مقدسانش دردستِ تُو ھستند، ونزد پایہای تُو نشستہ، ھر یکی از کلامِ تُو بہرہ مند میشوند۔۴؂

اب یہی آیات ۱۶۱۱ء والے مُستَنَد انگریزی ترجمے یعنی ’کنگ جیمز ورشن‘( KJV) سے بھی نقل کی جاتی ہیں:

1. And this is the blessing, wherewith Moses the man of God blessed the children of Israel before his death.
2. And he said, the Lord came from Sinai, and rose up from Seir unto them, he shined forth from Mount Paran and he came with ten thousands of saints: from his right hand went a fiery law for them.
3. Yea, he loved the people, all his saints are in thy hand: and they sat down at thy feet, every one shall receive of thy words.۵؂

اس بشارت کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ حضرت موسیٰ ؑ کی آخری دعا اور وصیت کی حیثیت رکھتی ہے۔ پھر یہ اتنی صراحت اور وضاحت کے ساتھ اور غیر مبہم طور پر محمد رسول اللہ ﷺ پر صادق آتی ہے کہ مسیحی علما بھی اس سے پریشان رہتے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ اس کے بارے میں وہ اپنا موقف تبدیل کرتے رہتے ہیں، بلکہ محمد رسول اللہﷺ کی بشارت سے پیچھا چھڑانے کے لیے ان آیات کے ترجمے میں بھی مسلسل ترمیم و تحریف کرتے رہے ہیں۔ اِس کی چند مثالیں اِسی مضمون میں آگے ’دس ہزار‘، ’آتشیں شریعت‘ اور’اپنے لوگوں سے محبت‘ پر گفتگو کے سلسلے میں دیکھی جا سکتی ہیں، لیکن یہ اِتنا وسیع موضوع ہے کہ موجودہ مضمون میں اِس کا اِحاطہ ممکن نہیں۔ ہماری کتاب ’The Only Son Offered for Sacrifice: Isaac or Ishmael‘کے ضمیمہ دُوُم میں’بائبل کے متن میں تحریف ‘کے موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ اِس پر ایک مستقل کتاب مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ فی الحال اِس سے قطعِ نظر کرتے ہوئے اِس کے چند پہلو پیش خدمت ہیں:

اس سلسلے میں پہلی قابل غور بات یہ ہے کہ’ اور یہ وہ برکت ہے جو موسیٰ مرد خدا نے اپنے مرنے سے آگے بنی اسرائیل کو بخشی ۔ اور اس نے کہا کہ‘ کے الفاظ’ کتابِ مقدس‘ کے اس حصے کے مؤلف کے الفاظ ہیں، خدا وندتعالیٰ یا حضرت موسیٰ ؑ کے الفاظ نہ ہیں اور نہ ہو سکتے ہیں۔ نیز یہ کہ مؤلف کے نزدیک اگلے الفاظ حضرت موسیٰ ؑ نے اپنے مرنے سے قبل دعا وبرکت کے انداز میں ایک پیشین گوئی کے طور پر ادا کیے ہیں۔

دوسری بات یہ کہ ’خداوند سینا سے آیا‘ کا اشارہ بالکل صاف طور پر حضر ت موسیٰ ؑ کی طرف ہے ، کیونکہ قریباً ہرپڑھالکھا آدمی جانتا ہے کہ حضر ت موسیٰ ؑ کو نبوت ،طورِ سینا ہی پر عنایت ہوئی تھی،جیسا کہ مندرجہ ذیل اقتباسات سے واضح ہوتا ہے۔ ولیم سمتھ ’سینائی ‘کے تحت لکھتا ہے:

2. The mountain from which law was given. ۶؂
وہ پہاڑ جہاں سے قانون دیا گیا تھا۔

جے ایل میکنزی ’سینائی‘ پر اپنے مقالے میں لکھتا ہے:

(...), The name given to a mountain and a desert, in the present Pentateuch the scene of the theophany to Israel, revelation of Moses, and the giving of the covenant. ۷؂
ایک پہاڑ اور ایک صحرا کو دیا جانے والا نام، موجودہ اسفارِ خمسہ (تورات) میں اسرائیل کو تجلّئ الٰہی کا، موسیؑ ٰ کی وحی[کے آغاز] کا ،اور میثاق عطا کیے جانے کا مقام و منظر ۔

جے ایچ سی ہرٹز لکھتا ہے:

Sinai was the starting-point in the manifestation of Divine glory of Israel. ۸؂
سینائی اسرائیل کے لیے خداوند تعالیٰ کی عظمت و شان کے اِظہارکا نقطۂ آغاز تھا۔

ڈاکٹر اے کوہن وضاحت کرتاہے:

At Sinai God first reveald Himself to Israel and communicated His Law to Moses on the mount. ۹؂
سینائی میں خداوند تعالیٰ نے پہلی مرتبہ اسرائیل پر اپنا آپ ظاہر کیا اور موسیؑ ٰ کو اس پہاڑ پر اپنا قانون منتقل کیا۔

’انسائیکلو پیڈیا ببلیکا‘میں بیان کیا گیا ہے:

Sinai was the usual name of the mountain where (...), Moses received the divine commands. Sinai is, therefore, the mountain of the giving of the Law.۱۰؂
سینائی اس پہاڑ کا عمومی نام تھا جہاں موسیؑ ٰ نے خدائی اِحکام وصول کیے۔ اس لیے سینائی وہ پہاڑ ہے جہاں قانون [تورات، حضرت موسیٰ ؑ کو] دیا گیا۔

’دی جیوئش انسائیکلو پیڈیا‘میں وضاحت کی گئی ہے:

Mountain situated in the desert of Sinai, famous for its connection with the promulgation of the Law by God through Moses (Ex. 19:1-20:18).۱۱؂
صحراے سینائی میں واقع پہاڑ جو خداوند تعالیٰ کی طرف سے موسیؑ ٰ کے ذریعے سے قانون کا اعلان کیے جانے کے سلسلے میں مشہور ہے(خروج:۱۹:۱تا۲۰:۱۸)۔

’سیونتھ ڈے ایڈوینٹسٹ بائبل ڈکشنری‘میں واضح کیا گیا ہے:

1. Sinai (...). The mountain from which God spoke the Decalogue: also called Horeb. ۱۲؂
سینائی (...)۔ وہ پہاڑ جہاں سے خداوند تعالیٰ نے اِحکامِ عشرہ بیان کیے ، اِسے حورب بھی کہا جاتا ہے۔

’ہارپرز بائبل ڈکشنری‘ میں ’سینائی ‘کے عنوان کے تحت وضاحت کی گئی ہے:

It was also in the wilderness of Mountain Sinai that Moses encountered the burning bush (Ex. 3:1-2; Act 7:30, 38).
3. Mount Sinai, the mountain on which the law was delivered to Moses (Ex. 31:18; 34; 29, 32; Lev 26:46; 27:34; Neh 9:13). (...) and its sacred character was magnified when Sinai became the Locus [place, locality] of divine revelation. ۱۳؂
یہ [واقعہ]بھی کوہِ سینائی کے بیابان میں ہوا تھا کہ موسیؑ ٰ کا جلتی ہوئی جھاڑی سے سامنا ہوا(خروج۳: ۱ تا ۲؛ اعمال ۷: ۳۰، ۳۸)۔
۳۔ کوہِ سینائی : وہ پہاڑ جس پرموسیؑ ٰ کو شریعت عطا کی گئی تھی (خروج۳۱: ۱۸؛ ۳۴: ۲۹، ۳۲؛ احبار۲۶: ۴۶؛ ۲۷: ۳۴؛ نحمیاہ۹: ۱۳)۔ (...) اور اِس کی مقدس حیثیت اُس وقت بہت زیادہ بڑھ گئی جب سینائی خداوندی اِلہام کا محل نزول بن گیا۔

’نیو بائبل دکشنری‘ میں ’سینائی‘ کے متعلق بیان کیا گیا ہے:

Mount Sinai is also called Horeb in the OT. (...). The Lord revealed himself to Moses on this mountain and gave the ten Commandments and other laws. ۱۴؂
کوہِ سینائی کو عہد نامۂ قدیم میں حورب بھی کہا گیاہے۔ ( ...)۔ خداوند تعالیٰ نے اِس پہاڑ پرموسیؑ ٰپراپنا آپ ظاہر کیا اور احکامِ عشرہ اوردوسرے قوانین عطا فرمائے۔

اِس طرح وافر شہادتوں سے یہ بات بغیر کسی شک و شبہ کے ثابت ہو گئی کہ ’سینائی‘ وہ پہاڑ ہے جہاں حضرت موسیٰ ؑ پر اللہ تعالیٰ کی تجلی ہوئی اور وہیں آپؑ کو اِحکامِ عشرہ (دس اِحکام) اور شریعت کے دیگر قوانین عطا کیے گئے۔ چنانچہ ’خداوند سینا سے آیا‘ کا صریح طور پر یہی مفہوم ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کوہِ سینا پر حضرت موسیٰ ؑ کو نبوت سے سرفراز فرمایا اور اِس جملے میں حضرت موسیٰ ؑ کے کوہِ سینا پر نبوت دیے جانے کا ذکر ہے۔

تیسری بات یہ ہے کہ ’اور شعیرسے ان پر طلوع ہوا‘ میں تین الفاظ تشریح طلب ہیں:’شعیر‘ ،’اُن پر‘ اور ’طلوع ہوا‘۔بائبل میں ’شعیر‘ دو مختلف مقامات کے لیے استعمال ہوا ہے۔

’سیونتھ ڈے ایڈوینٹسٹ بائبل ڈکشنری‘ میں اس کے دوسرے محل وقوع کے متعلق تحریر ہے:

A mountain ridge on the northern border of Judah. ۱۵؂
یہودیہ کی شمالی سرحد پر پہاڑی چٹان کا ایک لمبا، کم چوڑا، بالائی کنارہ۔

یہاں ابتدا ہی میں چند باتیں ذہن نشین کر لی جائیں:

۱۔ یہود کی تاریخ کا صد سالہ سنہری دور گیارھویں صدی قبل مسیح کے رُبع اول سے دسویں صدی ق م کے رُبع اول(قریباً ۱۰۲۵ ق م تا۹۲۵ ق م)پر پھیلا ہوا تھا۔ اِسے سلطنتِ متحدہ (United Kingdom) کہا جاتا ہے۔ یہ ساؤل (طالوت)، حضرت داو‘د ؑ اور حضرت سلیمان ؑ کا دورِحکمرانی تھا۔

۲۔ حضرت سلیمان ؑ کے جانشین اِسے متحد نہ رکھ سکے اور اِن کے فوری بعد یہ دو حصوں میں بٹ گئی:شمالی حصہ اسرائیل کہلاتا تھا اور جنوبی حصہ یہودیہ۔ یروشلم یہودیہ کا دارلحکومت تھا۔

۳۔ یروشلم یہودیہ کے وسط میں واقع نہیں تھا بلکہ یہودیہ کی شمالی اور اسرائیل کی جنوبی سرحد کے سنگم پر واقع تھا۔ اِس طرح یہ ایک سرحدی شہر تھا اور اسرائیل کی شمالی سلطنت کی سرحد سے بالکل قریب بلکہ ملحق تھا، دُور ہرگز نہ تھا۔ کسی بائبل اٹلس میں یونائیٹڈ کنگڈم اور ڈیوائیڈڈ کنگڈم کا نقشہ دیکھ لیجیے: بات واضح ہو جائے گی۔

۴۔ بائبل کے علما کا خیال ہے کہ ’شعیر‘ یہودیہ کی سرحدی چٹانوں ہی پر یروشلم سے چند میل مغرب میں واقع تھا۔ اِس طرح وہ اِسے یروشلم کا ایک مضافاتی علاقہ سمجھتے ہیں۔

۵۔ حقیقت یہ ہے کہ ’شعیر‘ کوئی متعین اور منفرد شہر نہیں، بلکہ یروشلم کے مضافاتی اور قُرب و جوار کے علاقے کا ایک مجموعی نام ہے، بلکہ یروشلم بھی ’شعیر‘ کی پہاڑی سطح مرتفع ہی کا حصہ ہے۔

۶۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ’اور شعیر سے اُن پر طلوع ہوا ‘ کا تعلق حضرت عیسیٰ ؑ کی بعثت اور دعوتِ تبلیغ ہی سے ہے۔

ولیم سمتھ نے اپنی ’بائبل کی لغت‘ میں اِس کے پہلے محل و قوع پر ایک مختصر مگر واضح شذرہ قلمبند کیا ہے:

It is the original name of the mountain range extending along the east side of the valley of Arabah, from the Dead Sea to the Elanitic Gulf. The Horites [Hurrians] appear to have been the chief of the aboriginal inhabitants, Gen. 36:20; but it was ever afterward the possession of the Edomites, The descendants of Esau. The Mount Seir of the Bible extended much farther south than the modern province, as is shown by the words of Deut. 2:1-8. It had the Arabah on the west, vs.1 & 8: it extended as far south as the head of the Gulf of Akabah, ver. 8; its eastern border ran along the base of the mountain range where the plateau of Arabia begins. Its northern border is not so accurately determined. ۱۶؂
یہ وادئ عربہ کی مشرقی سمت کے ساتھ ساتھ بحیرۂ مردار سے خلیج عقبہ تک پھیلے ہوئے پہاڑی سلسلے کا ابتدائی نام ہے۔ لگتا یہ ہے کہ اِس کے اِبتدائی اور اصلی باشندے حوری (Horites) تھے، کتاب پیدایش۳۶:۲۰؛ لیکن اِس کے بعد یہ ہمیشہ عیسو کی نسل کے ادومیوں ہی کے قبضے میں رہا۔ بائبل کا’کوہِ شعیر‘ جدید صوبے کے جنوب میں بہت دُور تک پھیلا ہوا تھا،جیسا کہ استثنا ۲:۱تا ۸ کے الفاظ سے ظاہر ہے۔ عربہ اس کے مغرب میں واقع تھا۔ آیات ۱،۸؛ جنوب میں یہ خلیج عقبہ کے اُوپر والے سرے تک پھیلا ہوا تھا، آیت ۸؛ اِس کی مشرقی سرحد اِس پہاڑی سلسلے کے ساتھ ساتھ چلتی ہے جہاں سطح مرتفع عرب شروع ہو تی ہے۔ اِ س کی شمالی سرحد اِتنی درست طور پر متعین نہیں ہے۔

جہاں تک مذکورہ بالا ادومیہ اور بحیرۂ مردار والے’ شعیر‘ کا معاملہ ہے اِس کا قانون (شریعت) عطا کیے جانے سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا۔ اِس طرح ہمارے موجودہ سیاق و سباق پر اِس کا اِطلاق خارج اَز بحث ہے۔ جہاں تک دوسرے ’شعیر‘ کا تعلق ہے ، تو یہ یروشلم سے بالکل ملحق صرف چند میل کے فاصلے پر پہاڑی سطح مرتفع کا ایک سلسلہ ہے، جس کے متعلق ولیم سمتھ لکھتا ہے:

2. Mount Seir, an entirely different place from the foregoing; one of the landmarks on the north boundry of the territory of Judah. ۱۷؂
۲۔ ’کوہِ شعیر‘: اول الذکر سے ایک بالکل مختلف مقام؛ یہودیہ کے علاقے کی شمالی سرحد کا ایک رہنما نشان۔

’دی انٹرپریٹرز ڈکشنری آف دی بائبل‘ میں لکھا ہے:

A mountain forming part of Judah\'s N. border (Josh 15:10); usually identified with Saris near Kesla (Chesalon), ca. nine miles W. of Jerusalam. ۱۸؂
ایک پہاڑ جو جزوی طور پر یہودیہ کی شمالی سرحد بناتا ہے (یشوع ۱۵:۱۰)۔ بالعموم اِسے ’ساریس ‘کے طور پر پہچانا جاتا ہے جو ’کسلہ‘ کے قریب، یروشلم کے قریباً ۹ میل مغرب میں، [واقع] ہے۔

یہ بات ایک معروف حقیقت ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی تبلیغی سرگرمیوں کا مرکز یروشلم اور اُس کے گردو نواح کا علاقہ تھا۔ مندرجہ بالا سطور میں اِس امر کی کافی شہادت پیش کی گئی ہے کہ’شعیر‘ یروشلم کے قُرب و جوار کا علاقہ تھا۔ بائبل سے متعلقہ لٹریچر میں اِس بات کے وافر شواہد دستیاب ہیں، لیکن موجودہ مضمون کی ضخامت میں اِس کی گنجایش نہیں۔ کسی اور مقام پر اِن شاء اللہ اِس پر سیرحاصل بحث کی جائے گی۔ تاہم موجودہ گفتگو یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ ’اور شعیر سے اُن پر طلوع ہوا‘ میں حضرت عیسیٰ ؑ کے اِس خطے میں مبعوث ہونے کا اعلان کیا گیا ہے۔

عبارت کے اِس ٹکڑے کا دوسرا اہم لفظ ’طلوع ہوا‘ ہے۔اِس کے لیے KJVمیں ’rose up‘کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ عبرانی میں یہاں ’زارخ‘(zarach) کا لفظ آیا ہے۔

’سٹرونگ کے لغت‘ کے مطابق اِس کے معنی ہیں:

to irradiate (or shoot forth beams), i.e. to rise (as the sun); spec. to appear. ۱۹؂
روشنی پھیلانا یا شعاعیں پھینکنا، یعنی (سورج کی طرح) اُبھرنا، خصوصاً نمودار ہونا۔

سینائی میں حضرت موسیٰ ؑ پرخداوند تعالیٰ کی تجلی کے لیے ’آیا‘ کا لفظ استعمال ہوا تھا۔ اس سے قانون کا ’ابتدائی تعارف‘ مراد ہے۔یہاں حضرت عیسیٰ ؑ کے لیے’ روشنی پھیلانا، شعاعیں پھینکنا یا چمکنا‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اس سے مراد ہے قانون کی کیفیت بہتر کر کے اس میں حقیقی روح اُجاگر کرنا اور اِسے پھیلانا۔ حضرت عیسیٰ ؑ نہ توشریعت کو منسوخ کرنے آئے تھے نہ کوئی نئی شریعت لانے کے لیے ۔ وہ تو اس کی مقصدیت اور اس کی روح کو کمال تک پہنچانے کے لیے آئے تھے، جیسا کہ آپؑ نے خود فرمایا:

اِس طرح تمھاری روشنی آدمیوں کے سامنے چمکے تاکہ وہ تمھارے نیک کاموں کو دیکھ کر تمھارے باپ کی جو آسمان پر ہے تمجید کریں۔ یہ نہ سمجھو کہ میں تورات یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں۔۲۰؂

اِس جملے کا تیسرا اہم لفظ ’اُن پر‘ ہے جس سے مراد ہے کہ آپؑ بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔جیسا کہ بائبل کی کتاب ’انجیل متی‘ میں درج ہے:

ان بارہ [حواریوں] کو یسوعؑ نے بھیجا اور اِن کو حکم دے کر کہا۔ غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا بلکہ اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جانا۔ اور چلتے چلتے یہ منادی کرنا کہ آسمان کی بادشاہی [عہد رسالت محمدیﷺ]نزدیک آگئی ہے۔ ۲۱؂

’کتابِ مقدس‘، انجیل متیہیمیں درج ہے:

اِس نے جواب میں کہا کہ میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا۔ ۲۲؂

بائبل کے بعض مفسرین کا دعویٰ ہے کہ یہ جملہ بھی اسی طرح حضرت موسیٰ ؑ کی نبوت کی سرگرمیوں کی طرف اشارہ کرتا ہے جس طرح پچھلا سینائی والا جملہ۔ لیکن یہ ایک بالکل بے بنیاد دعویٰ ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ دونوں ’شعیروں‘ میں سے کسی بھی ’شعیر‘ پر کبھی نہیں گئے۔ جہاں تک پہلے (ادوم والے) ’شعیر‘ کا تعلق ہے وہ اس کے پاس سے تو ضرور گزرے تھے، لیکن نہ تو اس میں داخل ہو سکے اور نہ اِسے اپنے نورِ نبوت سے فیض یاب فرما سکے۔جیسا کہ بائبل میں درج ہے:

اور [حضرت]موسیٰ[ ؑ ] نے قادس سے ادوم کے بادشاہ کے پاس ایلچی روانہ کیے اور کہلا بھیجا کہ تیرا بھائی اسرائیل یہ عرض کرتا ہے کہ تو ہماری سب مصیبتوں سے جو ہم پر آئیں واقف ہے۔(...)، اور اب ہم قادس شہر میں ہیں جو تیری سرحد کے آخر میں واقع ہے۔ سو ہم کو اپنے ملک سے ہو کر جانے کی اجازت دے۔ ہم کھیتوں اور تاکستانوں میں سے ہو کر نہیں گزریں گے اور نہ کنوؤں کا پانی پِییں گے ۔ہم شاہراہ پر چل کر جائیں گے اور دہنے یا بائیں ہاتھ نہیں مڑیں گے جب تک تیری سرحد سے باہر نہ نکل جائیں ، پر شاہ ادوم نے کہلا بھیجا کہ تو میرے ملک سے ہو کر جانے نہیں پائے گاورنہ میں تلوار لے کر تیرا مقابلہ کروں گا۔ بنی اسرائیل نے اُسے پھر کہلا بھیجا کہ ہم سڑک ہی سڑک جائیں گے اور اگر ہم یا ہمارے چوپائے تیرا پانی بھی پِییں تو اُس کا دام دیں گے۔ ہم کو اور کچھ نہیں چاہیے سوا اِس کے کہ ہم کوپاؤں پاؤں چل کر نکل جانے دے۔ پر اُس نے کہا تُو ہرگز نکلنے نہیں پائے گااور ادوم اُس کے مقابلے کے لیے بہت سے آدمی اور ہتھیار لے کرنکل آیا۔ یوں ادوم نے اسرائیل کو اپنی حدود سے گزرنے کا راستہ دینے سے انکار کیا اس لیے اسرائیل اس کی طرف سے مڑگیا۔۲۳؂

جہاں تک دوسرے ’شعیر‘ کا تعلق ہے، تو یہ جگہ حضرت موسیٰ ؑ کو ان کی زندگی کے آخری ایام میں خداوند کی طرف سے مو آب کے نزدیک کوہِ نبُو (Nebu)سے دکھائی تو ضرور گئی تھی، لیکن انھیں یہ بھی بتا دیا گیا تھا کہ وہ اِس میں داخل نہ ہو سکیں گے:

اور موسیٰ موآب کے میدانوں سے کوہِ نبُو کے اُوپر پِسگہ کی چوٹی پر جو یریحو کے مقابل ہے چڑھ گیا اور خدا وند نے جِلعاد کا سارا ملک دان تک اور نفتالی کا سارا ملک۔ (...) اِس کو دِکھایا۔ اور خداوند نے اُس سے کہایہی وہ ملک ہے جس کی بابت میں نے ابرہام اور اِضحاق اور یعقوب سے قسم کھا کر کہا تھا کہ اِسے میں تمھاری نسل کو دُوں گا۔ سو میں نے ایسا کیا کہ تو اِسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لے پرتُو اُس پار وہاں جانے نہ پائے گا۔ پس خدا وند کے بندہ موسیٰ نے خداوند کے کہے کے موافق وہیں موآب کے ملک میں وفات پائی۔ اور اُس نے اُسے موآب کی ایک وادی میں بیت فغور کے مقابل دفن کیا۔ پر آج تک کسی آدمی کو اُس کی قبر معلوم نہیں۔۲۴؂

اِ س طرح یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کسی بھی ’شعیر‘ کا حضرت موسیٰ ؑ کی نبوت سے کوئی تعلق نہ تھا، بلکہ ان میں سے یروشلم کے ساتھ والا’ شعیر‘ حضرت عیسیٰ ؑ کی تبلیغِ نبوت کا مرکز و محور تھا۔ چنانچہ آیت زیر بحث کا مطلب یہ ہواکہ شریعت عطا فرمانے کاپہلا مرحلہ ’سینائی‘ میں حضرت موسیٰ ؑ کو نبوت تفویض کیے جانے کے ذریعے انجام پایا اور بنی اسرائیل کے لیے اِس شریعت کی روح کی تکمیل کرنے کا دوسرا مرحلہ حضرت عیسیٰ ؑ کو’شعیر‘ کے مقام پر نبوت سے سرفراز فرما کر طے کیا جانا تھا۔ لیکن کیونکہ بنی اسرائیل اس سے مسلسل رُوگردانی اور بے اعتنائی اختیار کریں گے اِس لیے ایک عالم گیر اور ابدی شریعت ’کوہِ فاران‘ پر جلوہ گر فرما دی جائے گی۔

چوتھی بات یہ کہ ’فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا‘ میں جس شخصیت کی طرف اشارہ کیاگیا ہے وہ حضرت موسیٰ ؑ یا عیسیٰ ؑ تو بہرحال نہیں ہیں، کیونکہ ان دونوں کی طرف اوپر کی عبارت میں واضح اشارات کے فوراً بعد اس تکرار کی کوئی ضرور ت نہ تھی۔ علاوہ ازیں عملی اعتبار سے بھی ان دونوں میں سے کوئی بھی بزرگ ’فاران کے پہاڑسے جلوہ گر‘ نہیں ہوا۔ اور آگے اس کے اور اس کے ساتھیوں کے جو اوصاف بیان کیے گئے ہیں وہ بھی حضرت موسیٰ ؑ یا حضر ت عیسیٰ ؑ اور ان کے ساتھیوں پر کسی طرح صادق نہیں آتے۔

پانچویں بات یہ ہے کہ بشارت کی ترتیب کے اعتبار سے پہلے نمبر پر’ سینا ئی‘ سے آنے والے (حضرت موسیٰ ؑ ) کا ذکر ہے، دوسرے نمبر پر’ شعیر ‘سے طلو ع ہونے والے (حضرت عیسیٰ ؑ ) کا ذکر ہے اور تیسرے نمبر پر ’فاران‘ کے پہاڑ سے جلوہ گر ہونے والے کا ۔ جب واقعہ یہ ہے کہ پہلے دو نبی حضرت موسیٰ ؑ کی پیشین گوئی کی ترتیب کے عین مطابق آئے ہیں، تو پھر تیسرے نبی کا زمانہ فطری طورپر ان کے بعد ہی کا ہوناچاہیے۔

چھٹی بات یہ ہے کہ’ کوہِ فاران‘ کا محل و قوع معلوم کرنے کے لیے بھی ’کتابِ مقدس‘ کی طرف رجوع کرناچاہیے۔ چنانچہ کتابِ پیدایش میں ہے:

(۱۴) تب ابراہم نے صبح سویرے اُٹھ کر روٹی اور پانی کی ایک مشک لی اور اِسے ہاجرہ کو دیا بلکہ اِس کے کندھے پر دھر دیا اور لڑکے کو بھی اُس کے حوالے کر کے اُسے رخصت کر دیا۔ سو وہ چلی گئی اور بیرسبع کے بیابان میں آوارہ پھرنے لگی اور جب مشک کا پانی ختم ہو گیا تو اُس نے لڑکے کو ایک جھاڑی کے نیچے ڈال دیا۔ اور آپ اُس کے مقابل ایک تیر کے ٹپے پر دور جا بیٹھی اور کہنے لگی کہ میں اِس لڑکے کا مرنا تو نہ دیکھوں۔ سو وہ اُس کے مقابل بیٹھ گئی اور چِلّا چِلّا کر رونے لگی۔ ۲۵؂
(۱۷)تب خدا نے اس لڑکے کی آواز سنی اور خدا کے فرشتے نے آسمان سے ہاجرہ کو پکارا اور اس سے کہا کہ اے ہاجرہ! تجھ کو کیاہوا، مت ڈر کہ اس لڑکے کی آواز جہاں وہ پڑا ہے خدا نے سنی۔ (۱۸) اٹھ اور لڑکے کو اٹھا۔ اور اسے اپنے ہاتھ سے سنبھال کہ میں اس کو ایک بڑی قوم بناؤں گا۔(...)۔(۲۰) اور خدا اس لڑکے کے ساتھ تھا اور وہ بڑھا۔ اور بیابان میں رہا کیا اور تِیراَ نداز ہوگیا۔(۲۱) اور فاران کے بیاباں میں رہا۔۲۶؂

ذیل میں’فاران‘ کے سلسلے میں کچھ مزید مختصر شذرات سلسلہ وار درج کیے جاتے ہیں:

۱۔ ’تب ابرہام نے (...) اسے رخصت کر دیا، سو وہ چلی گئی اور بیر سبع کے بیابان میں آوارہ پھرنے لگی‘ میں’بیر سبع کے بیابان‘ کے الفاظ کا مصداق تلاش اور متعین کرنا نہایت ضروری ہے۔ ’بیرسبع‘ کے عبرانی اور عربی دونوں زبانوں میں یکساں معنی ہیں، یعنی ’سات کا کنواں‘۔ اس میں ہاجرہ کے اُن سات چکروں کی طرف اشارہ ہے جو انھوں نے صفا اور مروہ کے درمیان خوراک اور پانی کی تلاش میں لگائے تھے اور جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ایک غیر معمولی طریقے سے ’زمزم کا کنواں‘ ظاہر فرمایا تھا۔ اس کی یاد تازہ رکھنے کے لیے اہل اسلام، اوران سے پہلے اہل عرب، صفا و مروہ کے درمیان سعی کے سلسلے میں ہمیشہ سات چکر لگاتے آئے ہیں۔ بائبل میں اس کے لیے ’بیرسبع‘ کا لفظ آیا ہے اور اسلامی روایت میں اسے ’زمزم‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس موضوع پر ہم نے اپنی کتاب (The Only Son Offered for Sacrifice: Isaac or Ishmael ) کے ضمیمہ اول میں تفصیل سے گفتگو کی ہے۔
جملۂ معترضہ کے طور پر یہاں ایک بات ذہن نشین کرانا ضروری ہے۔ اس عبارت کا بغور تنقیدی مطالعہ کیا جائے تو صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ یہ واقعے کا مکمل ، مربوط اور منطقی بیان نہیں ہے۔ اس کے برعکس اسلامی روایت میں اس کے متعلق بخاری کی ایک تشفی بخش، جامع اور مربوط تفصیل موجود ہے۔ پھر اس میں حضرت ابراہیم ؑ کو جس طرح ایک بے رحم باپ اور خاوند کے روپ میں پیش کیا گیا ہے، اسے کیسے درست تسلیم کیا جا سکتا ہے۔
۲۔ ’اور آپ اس کے مقابل ایک تیر کے ٹپے۲۷؂ پر دُورجا بیٹھی‘ میں صفا اور مروہ کے درمیان والے ’مسعیٰ‘ کی کتنی درست عکاسی کی گئی ہے۔ جن لوگوں کو حج یا عمرہ پر جانے کا موقع ملا ہو وہ اس بات کی تصدیق کریں گے کہ یہ فاصلہ بعینہٖ اتنا ہے۔
۳۔ ’اور بیابان میں رہا کیا‘ بھی اس دَور کے مکے کی ہوبہو عکاسی ہے جس کے لیے قرآنِ کریم میں ’وادی غیرذی زرع‘ کے الفاظ آئے ہیں۔
۴۔ ’اور فاران کے بیابان میں رہا‘ کے الفاظ تو متعلقہ مقام کے نام کی صاف نشاندہی کر دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں چند نِکات پیش خدمت ہیں:
(الف) حضرت اسماعیل ؑ اور حضرت ہاجرہ کا فاران اور مکے سے اتنا مضبوط اورغیر منقطع تعلق ہے کہ اس کے لیے بظاہر کسی دلیل کی ضرورت نہیں، لیکن علماے بائبل نے اسے اتنا مبہم بنانے کی کوشش کی ہے کہ اِس سادہ سی حقیقت پر گفتگو کرنا ضروری ہو گیا ہے۔
(ب) اگر حضرت ابراہیم ؑ نے حضرت اسماعیل ؑ اور حضرت ہاجرہ کو کسی صحراے سینائی میں واقع فاران میں جا بسایا ہوتا تو وہاں بنو اسماعیل ؑ کی آبادیاں ہونا چاہیے تھیں۔ اللہ تعالیٰ کا حضرت ابراہیم ؑ سے وعدہ تھا کہ میں اسماعیل ؑ کو بڑی قوم بناؤں گا (پیدایش۱۷:۲۰)۔ اب سینائی میں تو اس بڑی قوم کا کوئی نام و نشان نہیں ملتا۔ دوسری طرف مکہ اور اس کے اردگرد ، دُور و نزدیک لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں آلِ اسماعیل ؑ آباد ہے۔ یہ ایک ایسی زمینی حقیقت ہے کہ اس کا انکار ممکن نہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ’ فاران‘ سے مراد’مکہ‘ ہی کی سرزمین ہے۔
(ج) حضرت اسماعیل ؑ اور حضرت ہاجرہ مکے ہی میں فوت ہوئے تھے اور کعبے کے اس حصے میں جسے ’حطیم‘ کہتے ہیں ، انھیں دفن کیا گیا تھا۔ یہ ایک ایسی ناقابلِ تردید مُسلَّمہ حقیقت ہے کہ اس موضوع سے متعلقہ ہر کتاب اور انسائیکلو پیڈیاز نے اسے تسلیم کیا ہے۔ اس کے برعکس دنیا کے کسی کونے یا کسی نام نہاد ’فاران‘ میں ان کا مدفن تلاش کرنا ایک سعی لاحاصل ہے۔
(د) بائبل ہی کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے اکلوتے فرزند کی قربانی ’مروَہ‘ کے ملک (جس سے مراد ہے ’مروَہ‘ کی پہاڑی کے اردگردوالی سرزمین) میں پیش فرمائی تھی (تُو اپنے بیٹے اضحاق کو جو تیرا اکلوتا۲۸؂ ہے اور جسے تو پیار کرتا ہے،ساتھ لے کر موریا۲۹؂ کے ملک میں جا اور وہاں اسے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ پر جو میں تجھے بتاؤں گا سوختنی قربانی کے طور پر چڑھا)۔۳۰؂ یہ مروَہ بھی مکے میں حرم شریف سے متصل ہی واقع ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے اکلوتے بیٹے اور اس کی ماں ہاجرہ کو مکے ہی میں آباد کیا تھا کسی اورجگہ نہیں۔
(ہ) خانہ کعبہ میں اس مینڈھے کے سینگ جسے حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے اکلوتے فرزند کے بدلے میں ذبح کیا تھا، حجاج بن یوسف کے مکے پر سنگ باری کے وقت تک محفوظ تھے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ’فاران‘ یہیں واقع تھا، جہاں حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے اکلوتے فرزند اور اُس کی والدہ ہاجرہ کو آباد کیا تھااور اپنے اکلوتے بیٹے اسماعیل ؑ کو قربانی کے لیے پیش کیا تھا۔
(و) اہل عرب میں ہزاروں سال سے یہ روایت چلی آرہی تھی کہ خانہ کعبہ یا بیت اللہ شریف حضرت ابراہیم ؑ نے حضرت اسماعیل ؑ کی مدد سے تعمیر کیا تھا۔ حج کا فریضہ ایام جاہلیت ہی سے غیر منقطع طور پر جاری تھا، اور اس پر مکے میں حضرت اسماعیل ؑ اور حضرت ہاجرہ کے قیام اور حضرت ابراہیم ؑ کی موقع بہ موقع آمد کے متعدد شواہد موجود تھے۔ حج کے مناسک میں حضرت ابراہیم ؑ ، حضرت اسماعیل ؑ اور حضرت ہاجرہ کی یاد تازہ کرنے والے متعدد امور شامل ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جس ’فاران‘ کے بیابان میں حضرت ابراہیم ؑ اپنے اکلوتے بیٹے کو چھوڑ کر گئے تھے، وہ مکے ہی سے متعلق تھا۔
(ز) مکے سے متعلقہ ’فاران‘ کے علاوہ دنیا کے تختے پر کوئی ایسا ’فاران‘ موجود نہیں جو اِن روایات اور تاریخی و زمینی حقایق کی رُو سے حضرت اسماعیل ؑ اور حضرت ہاجرہ سے متعلق قرار دیا جا سکے۔

ان تمام باتوں سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ سرزمین مکہ ہی ’فاران‘ ہے اور زیر تحقیق پیشین گوئی میں یہاں سے جلوہ گر ہونے والی ہستی محمد رسول اللہ ﷺ ہی کی ذاتِ بابرکات ہے۔

اس طرح بائبل کے مطابق’فاران‘ کا محلِ وقوع خود بائبل کی زبان میں’ وہ بیابان ‘اور قرآن کے الفاظ میں وہ ’وادی غیر ذی زرع‘ ہے جہاں حضرت اسماعیل ؑ اور حضرت ہاجرہ آکر قیام پذیر ہوئے تھے۔ اور یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ وہ جگہ حجاز کی سرزمین میں مکے کاشہرہے۔

یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ’ فاران‘ کے لغوی معنی ہیں ’غاروں والی(Cavernous) سرزمین ‘۔۳۱؂ مکے میں متعدد غاریں موجود تھیں، مثلاً غارِ حرا، غارِ ثور وغیرہ، اور یہ علاقہ ویران و بیابان بھی تھا، جس کی قرآن کے الفاظ ’وادئ غیرذی زرع‘ میں عکاسی کی گئی ہے۔ مُحَوَّلہ بالاآیت میں بھی اس کے لیے ’بیابان‘ کا لفظ استعمال ہواہے ۔ اس طرح دُعائے موسوی کی اس بشارت کا اطلاق حضرت مسیح ؑ کی ذات پرہرگز ممکن نہیں، کیونکہ وہ کسی صحرا یا بیابان میں نہیں، بلکہ فلسطین کے سر سبزو شاداب علاقے میں رونق افروز ہوئے تھے۔

_______


۱۔’کتابِ مقدس‘،استثنا ۱۸ :۲۰تا۲۲ (لاہور:برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی ،انارکلی ،۱۹۴۳ء)۔

۲۔’کتابِ مقدس‘،استثنا ۳۳: ۱تا۲ ( لاہور:برٹش ایند فارن بائبل سوسائٹی، پنجاب ایگزلری، سن طباعت ندارد)، صفحہ۲۲۰۔

۳۔’الکتاب المقدس ‘،دارالکتاب المقدس فی العالم العربی، صفحہ۳۳۴۔

۴۔’کتابِ مقدس‘، ’دی ہولی بائبل اِن پرشین‘ ، ۱۹۸۲ ء،صفحہ۳۲۹۔

5. Deuteronomy, 33:1-3, KJV.

6. William Smith, A Dic. of Bible, Revised (Michigan: Regency Reference Lib., Zondervan Publishing House, Grand Rapids, 1948), s. v. \'Sinai\', p. 634.

7. J. L. McKenzie, Dic. of the Bible (London: Geoffrey Chapman, 1984), \'Sinai\', p. 821.

8. The Pentateuch and Haftorah, ed., J. H. Hertz (London: Soncino Press, 1979), 909.

9. Dr. A. Cohen, The Soncino Chumash (Hindhead, Surrey: the Soncino Press, 1947), 1176.

10. Enc. Biblica, ed. T. K. Cheyne (London: Watts and Co., 1902), s. v. \'Sinai\', 4:4629.

11. The Jewish Enc., 11:381-82.

12. Siegfried H. Horn, 7th Day Adventist Bible Dic., ed. Don F. Neufeld (Washington DC.: Review and Herald Pblg. Association, 1979), s. v. \'Sinai\', p. 1043.

13. The Harper\'s B. D., ed. Paul J. Achtemeier (Bangalore: TPI, 1994), sv. \'Sinai\', 957.

14. New Bible Dic., Second Edn., ed. J. D. Douglas, et. al. (Leicester, UK: Inter-Varsity Press; Illinois, USA: Tyndale House Publishers, Inc., Wheaton, 1977), sv. \'Sinai\', 1120.

15. 7th Day Adventist Bible Dic., s. v. \'Seir\', p. 1001.

16. W. Smith, A Dic. of Bible, Revised, s. v. \'Seir\', p. 602.

17. W. Smith, A Dic. of Bible, Revised, s. v. \'Seir\', p. 602.

18. The Interpreter\'s Dic. of the Bible, ed. George Aurthur Buttrick, et. al. (NY: Abingdon Press, Nashville, 1962), sv. \'Seir\', 4:262

19. Strong\'s Dic. of the Heb. Words of the Bible, entry 2224.

۲۰۔ ’کتابِ مقدس‘، انجیل متی۵: ۱۶تا۱۷۔

۲۱۔ ’کتابِ مقدس‘، انجیل متی۱۵: ۲۴۔

۲۲۔ ’کتابِ مقدس‘، انجیل متی۱۰: ۵ تا ۶۔

۲۳۔ ’کتابِ مقدس‘، گنتی۲۰: ۱۴، ۱۶ تا ۲۱۔

۲۴۔ ’کتابِ مقدس‘، استثنا ۳۴: ۱ ، ۴ تا ۶۔

۲۵۔ ’کتابِ مقدس ،ریوائزڈ ورشن‘(لاہور: پاکستان بائبل سوسائٹی،۲۰۰۲ء)، پیدائش ۲۱: ۱۴ تا ۱۶۔

۲۶۔ ’کتابِ مقدس‘(لاہور: برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی ،انارکلی، ۱۹۴۳ء)، پیدایش ۲۱ : ۷ ا تا ۲۱۔

۲۷۔ کنگ جیمز ورشن نے ’ٹپے‘ کے لیے Bowshotکا لفظ استعمال کیا ہے۔بابائے اردو نے ’دی سٹینڈرڈ انگلش اردو ڈکشنری‘(کراچی: انجمن ترقئ اردو پاکستان:۱۹۸۵ء)، صفحہ ۱۱۶پر Bowshotکے معنی ’تیر کی زد کا فاصلہ‘ لکھے ہیں۔

۲۸۔ حضرت اسماعیل ؑ ، حضرت ابراہیم ؑ کے بڑے بیٹے تھے اور حضرت اسحاق ؑ اُس وقت پیدا ہوئے جب یہ چودہ سال کے ہو گئے تھے اس طرح حضرت اسماعیل ؑ چودہ سال تک ’اکلوتے فرزند‘ رہے، جبکہ حضرت اسحاق ؑ اپنی زندگی میں کسی وقت بھی ’اکلوتے فرزند‘ نہ رہے تھے۔تفصیل کے لیے دیکھیے ہماری کتاب ’The Only Son Offered for Sacrifice: Isaac or Ishmael‘ ۔

۲۹۔ اس موضوع پر ہماری کتاب ’The Only Son Offered for Sacrifice: Isaac or Ishmael‘ میں ’موریاہ ‘پر تفصیلی بحث کی گئی ہے، جسے وہاں دیکھا جا سکتا ہے۔

۳۰۔ ’کتابِ مقدس‘، پیدایش۲۲: ۲ ۔

۳۱۔ ملاحظہ کیجیے ’اے سائیکلو پیڈک بائبل کنکورڈنس‘(نیویارک:اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس)،صفحہ ۲۱۷۔

_____________

B