پیشین گوئی کے بالکل درست اطلاق کے تعین کے لیے ’ایک نبی‘ ایک اور اہم نکتہ ہے، جس کا پوری توجہ سے تجزیہ ضروری ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ یہ نہیں فرما رہے کہ اللہ تعالیٰ’انبیا‘ مبعوث فرمائے گا، بلکہ وہ لفظ ’ایک نبی‘ فرما رہے ہیں، یعنی آئندہ آنے والا شخص حضرت موسیٰ ؑ کے بعد آنے والا ’ایک اور صرف ایک نبی‘ ہو گا۔اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ سلسلۂ اسرائیل (یہود) میں حضرت موسیٰ ؑ کے بعد متعدد انبیا آ چکے ہیں۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ موعود نبی صرف ’ایک نبی‘ ہونا چاہیے، جو صرف ایک اور یکتا ہو۔ جس کے متعلق یہ بھی ضروری ہے کہ وہ’ اُن کے بھائیوں میں سے‘ ہو اور یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ’موسیٰ ؑ کی مانند‘ ہو۔ اب یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہود کے بھائیوں میں سے ’ایک اورصرف ایک‘ کی شرط صرف محمد رسول اللہﷺ کی ذاتِ مبارکہ ہی پر پوری اترتی ہے،جو بنی اسرائیل کے بھائیوں یعنی بنی اسمٰعیل ؑ میں سے ہیں۔ جہاں تک اسرائیلی انبیا کا تعلق ہے، اُن میں سے کسی ایک کے بارے میں’ایک ہونے‘ اور ’صرف ایک ہی ہونے‘ کے وصف کا دعویٰ کسی طرح بھی نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اولادِ اسحٰقؑ و یعقوبؑ (اسرائیل) میں سے درجنوں انبیاؑ مبعوث ہو چکے ہیں۔ ’ایک نبی‘ ہونے کا تقاضا ہے کہ وہ موسیٰ ؑ کے بعد آنے والے دوسرے تمام انبیاؑ سے ممتاز ہو۔ جو سب کے سب حضرت ابراہیم ؑ کی نسل کی اس شاخ سے تعلق رکھتے ہیں ،جو اسرائیل یعنی یعقوب ؑ بن اسحاق ؑ سے منسوب ہے۔ یہ تو صرف محمد رسول اللہﷺ ہی ہیں جو نسلِ ابراہیم ؑ سے بھی تعلق رکھتے ہیں، آئے بھی حضرت موسیٰ ؑ کے بعد ہیں،مبعوث بھی بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے ہوئے ہیں اور جو پوری نسلِ اسمٰعیل ؑ میں صرف ’ایک نبی‘ ہونے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ موعود نبی میں کوئی ایسا بے مثال اور خصوصی انبیائی وصف حضرت موسیٰ ؑ کے ساتھ مشترک ہو گا، جس کا مستقبل میں آنے والا کوئی اور نبی دعویٰ نہ کر سکے۔حضرت موسیٰ ؑ کی ایک ایسی نمایاں اور یکتا و بے مثال خصوصیت ہے، جس کی اپنے اندر موجودگی کا حضرت موسیٰ ؑ کے بعد آنے والا اولادِ اسرائیل کا کوئی دوسرا نبی دعویٰ نہیں کر سکتا اور جس میں حضرت موسیٰ ؑ کے بعد آنے والا کوئی اسرائیلی نبی’اُن کی مانند‘ نہیں ہو سکتا۔ وہ وصف کیا ہے؟ حضرت موسیٰ ؑ ہی تھے، جو لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ کا قانون لے کر آئے تھے۔ان کے بعد محمد رسول اللہ ﷺ کے علاوہ پوری انسانی تاریخ میں اولادِ ابراہیم ؑ میں سے کوئی ایسانبی مبعوث نہیں ہوا، جو یہ دعویٰ کر سکے کہ وہ لوگوں کے لیے اصلی اور مکمل خدائی شریعت۴۳ لے کر آیا ہے جو اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی ہو۔ نہ تو کبھی کسی نے اس کا دعویٰ ہی کیا اور نہ یہ بات کسی پر صادق آتی ہے۔ تاریخ میں ایسے کسی مدعی یا اُمیدوار کا وجود ہی نہیں جو اسرائیلیوں کے بھائیوں میں سے حضرت موسیٰ ؑ کی مانند ایک آتشیں شریعت کے ساتھ مبعوث ہونے کا دعویدار ہو اور جسے بنی اسمٰعیل ؑ ،جو بنی اسرائیل کے حقیقی طور پر بھائی ہیں،میں سے اس واحد ویکتا نبی کے حریف کے طور پر پیش کیا جا سکے۔غیر جانب دار اور غیرمتعصب عالم اس کی تردید نہیں کر سکتا۔ اس مضمون کی توضیح کے لیے ذیل میں ایک اقتباس درج ہے:
The Scriptural record of Moses [pbAh] is clear and precise, and he is the dominant character of the books from Exodus to Deuteronomy. (133). He (133) received the education and upbringing of an Egyptian prince. He (133) received from God the Decalogue or Ten Commandments. (133), and that he certainly performed a work which still affects the life and thought of the world. He stands right at the beginning of monotheism۔ (133), but he is the one who persuaded the Hebrews that there is but one God, and so made it possible for them to produce, and then to reject the Son of God. He is one of the shapers of world thought; he is a religious pioneer. (133). His leadership, and the conquest, are historic. It is worth noting that when the prophets railed against the twists and turns that religion had taken, their accusation was that the nation had fallen away from something old, simple and pure۔namely, the faith that had been taught them by Moses [pbAh]. As a statesman and Lawgiver Moses [pbAh] is the creator of the Jewish people. He found a loose conglomeration of Semitic people, none of whom had ever been anything but a slave, and whose ideas of religion were a complete confusion. He held them out and he hammered them into a nation, with a law and a national pride, and a compelling sense of being chosen by a particular God who was supreme. The only man of history who can be compared even remotely to him is Mahomet [stress added]. The Scripture account tends to elaborate for the sake of impression, but behind all the elaborations stands a man of tremendous worth and achievement, whose mark upon the life of the world is as important as it is incalculable.۴۴
تورات میں حضرت موسیٰ ؑ کا ریکارڈ واضح اور جامع ہے۔ کتابِ خروج سے کتابِ استثنا تک ان کا کردار اور ان کی شخصیت مرکزی اہمیت رکھتی ہے (...)۔ ان کی (...) تعلیم و تربیت ایک مصری شہزادے کے طور پر ہوئی۔ ان پر (...) اللہ تعالیٰ کی طرف سے احکامِ عشرہ یعنی دس احکام نازل فرمائے گئے،(...) اور یہ کہ انھوں نے یقیناًایک ایسا کارنامہ سرانجام دیا جو آج تک دُنیا کے افکار وحیات کو متاثر کر رہا ہے۔ وہ عقیدۂ توحید کے بالکل ابتدائی مقام پر فائز ہیں۔(...)،لیکن یہ حضرت موسیٰ ؑ ہی ہیں جنھوں نے اسرائیلیوں(عبرانیوں)کو اس بات پر قائل کیا کہ خدا صرف ایک ہے۔ اسی وجہ سے ان (اسرائیلیوں) کے لیے ممکن ہوا کہ وہ پہلے تو ابن اللہ کے تصور کو جنم دیں اور پھر جب وہ آئے تو اسے رد بھی کر دیں۔ وہ عالمی فکر کو تشکیل دینے والوں میں سے ایک ہیں؛ ایک مذہبی نقیب ہیں۔ (...)۔ ان کی قیادت اور فتح تاریخی ہیں۔ یہ بات انتہائی قابلِ غور ہے کہ جب بھی انبیا نے دین میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اور بدعات کے خلاف ملامتی لہجہ اختیار کیا تو انھوں نے الزام یہ لگایا کہ قوم ایک قدیم، سادہ اور خالص شے یعنی اس دین سے جس کی حضرت موسیٰ ؑ نے تعلیم دی تھی، دور جا پڑی ہے۔ ایک سیاست دان اور شارع کی حیثیت سے حضرت موسیٰ ؑ یہودی قوم کے بانی ہیں ۔آپ ؑ کو سامی النسل لوگوں کی ایک ڈھیلی ڈھالی مخلوط سی ایک بھیڑملی تھی، جس کا کوئی فرد بھی ایک غلام کے علاوہ اور کوئی حیثیت نہ رکھتا تھا اور جس کے مذہبی نظریات ابہام اور منتشر خیالی کی ایک مکمل تصویر تھے۔اس نے لوگوں کی اس غیر منضبط بھیڑ کو ان تمام چیزوں سے نجات دلائی اور اسے ایک با ضابطہ قوم کی شکل میں ڈھال دیا۔ اس قوم کے پاس اب ایک قانون تھا۔ ایک قومی سرماےۂ افتخار تھا اور ایک خاص بلند و برتر خداوند کے منتخب ہونے کا ایک قوی احساس تھا۔ صرف محمد[ رسول اللہ ﷺ] ہی تاریخِ انسانی کے وہ واحد فرد ہیں جن کا ان [حضرت موسیٰ ؑ ]کے ساتھ کوئی دُورپار کا بھی موازنہ کیا جا سکے۔۴۵ بیان میں تاثیر پیدا کرنے کی غرض سے تورات کا رجحان یہ ہے کہ واقعے کو تفصیل سے بیان کیا جائے۔اس تمام تر تفصیل کے تناظر میں ایک ایسا شخص فرو کش نظر آتا ہے جس کی قابلیت اور کامرانیاں عظیم ہیں اور جس کی حیاتِ عالم پر چھاپ اتنی ہی اہم ہے جتنی کہ بے حدو حساب ہے۔
حضرت عیسیٰ ؑ اپنی پیدایش سے لے کر اپنی موت تک اکثر نمایاں پہلوؤں کے لحاظ سے حضرت موسیٰ ؑ کی مانند ہونے کے بجائے حضرت موسیٰ ؑ سے مختلف ہیں۔ اس کے برعکس محمد رسول اللہ ﷺ اکثروبیشتر نمایاں پہلوؤں سے حضرت موسیٰ ؑ کی مانند ہیں۔ کچھ اوصاف تو ایسے ہیں جو اکثر انبیا بشمول حضرت موسیٰ ؑ اور محمد رسول اللہ ﷺمیں مشترکہ طور پر موجود ہیں،لیکن حضرت عیسیٰ ؑ اس سلسلے میں استثنائی حیثیت رکھتے ہیں۔ پہلی نمایاں بات یہ ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ ، محمد رسول اللہ ﷺ اورقریباً تمام دوسرے انبیا عام انسانوں کی طرح فطری طریقے سے ماں اور باپ کے توسط سے پیدا ہوئے جبکہ حضرت عیسیٰ ؑ عام معمول کے خلاف بِن باپ کے ایک کنواری ماں یعنی حضرت مریم کے بطن سے پیدا ہوئے۔ دوسری نمایاں بات یہ ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ ، محمد رسول اللہ ﷺ اوردوسرے قریباً تمام نبی عام انسانوں کی طرح فوت ہوئے، جبکہ حضرت عیسیٰ ؑ کی وفات خود مسیحیوں کے نزدیک کچھ مختلف نوعیت کی تھی۔ تیسری نمایاں بات یہ ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کو نبوت کوہِ سینائی پر عطا ہوئی تھی اور حضرت محمد رسول اللہﷺ کو کوہِ حرا (جسے آج کل جبلِ نور کہا جاتا ہے) کی ایک غار میں نبوت کے لیے مبعوث فرمایا گیا۔ دونوں کو شہری زندگی سے باہر کسی پہاڑ پر نبوت سے سرفراز فرمایا گیا۔ حضرت عیسیٰ ؑ کا معاملہ جو کچھ بھی ہو اس سے مختلف ہے۔
دوسری طرف نبوت کا ایک نمایاں پہلو ایسا ہے جو حضرت موسیٰ ؑ اور محمد رسول اللہ ﷺکے ساتھ مخصوص ہے اور جس میں نسلِ ابراہیم ؑ کا کوئی اور نبی بشمول حضرت عیسیٰ ؑ ان دونوں کا شریک نہیں، اور وہ خصوصیت یہ ہے کہ’شریعت‘ صرف حضرت موسیٰ ؑ اور محمد رسول اللہﷺ کو عطا فرمائی گئی۔
معاملے کی جتنی بھی چھان بین کی جائے یہ بات اُجاگر ہوتی جائے گی کہ’ حضرت موسیٰ ؑ کی مانند‘ ہونے کی خصوصیت صرف اور صرف محمد رسول اللہ ﷺہی میں پائی جاتی ہے، جبکہ حضرت عیسیٰ ؑ پر اس کا اطلاق کسی طرح ممکن نہیں۔ اس سلسلے میں کئی اور پہلوؤں سے بھی بات ہو سکتی ہے، لیکن موجودہ تحریر کی مختصر اور محدود نوعیت کے پیشِ نظر ان سے تعرض نہیں کیا جا رہا۔
یہاں ایک اور نکتے پر بھی مختصر گفتگو ضروری ہے ۔ بعض یہود کا دعویٰ ہے کہ اس پیشین گوئی کا اطلاق حضرت یوشعؑ ۴۶ بن نون پر ہوتا ہے اور یہ ان کی ذات میں پوری ہوئی ہے، لیکن پیشین گوئی کے الفاظ اور اس کا سیاق و سباق اس کی تائید نہیں کرتے۔ حضرت یوشعؑ ، حضرت موسیٰ ؑ کے ہم عصراور آپ ؑ سے چھوٹے تھے۔ حضرت موسیٰ ؑ نے انھیں اللہ تعالیٰ کے حکم سے بذاتِ خود اپنا جانشین نامزد کیا تھا۔ وہ بذاتِ خود ایک مستقل بالذات نبی نہ تھے، بلکہ حضرت موسیٰ ؑ کے شاگرد ، خادمِ خاص اور جانشین تھے۔ ان پر کوئی شریعت نازل نہیں کی گئی تھی۔ اس طرح وہ کسی بھی لحاظ سے’مثیلِ موسیٰ ؑ ‘ نہ تھے۔ پیشین گوئی کے الفاظ ’خدا وند تیرا خدا، تیرے لیے، تیرے ہی درمیان سے یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا‘ واضح طور پر اس بات کی دلالت کر رہے ہیں کہ ان کا تعلق کسی مستقبل کے واقعے سے ہے، جبکہ جس وقت یہ پیشین گوئی کی گئی تھی اس وقت حضرت یوشعؑ عملاً وہاں موجود تھے۔ ملاکی(Malachi) کی کتاب بائبل کے ’عہد نامۂ قدیم‘ کے ’انبیاے صغیرہ‘ کے سلسلے کی آخری کتاب ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی یہ پیشین گوئی مندرجہ ذیل الفاظ میں درج ہے (جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’عہد کا نبی‘ ان کے عہد تک ابھی آنا باقی تھا۔ اس طرح حضرت یوشعؑ وہ ’ایک نبی‘ نہیں ہو سکتے تھے):
دیکھو میں اپنے رسول کو بھیجوں گا اور وہ میرے آگے راہ درست کرے گا۔ اور خداوند جس کے تم طالب ہو، ناگہاں اپنی ہیکل۴۷ میںآموجود۴۸ ہو گا۔ہاں عہد کا رسول، جس کے تم آرزومند ہو، آئے گا۔رب الافواج فرماتا ہے۔۴۹
جہاں تک ملاکی (Malachi)کی کتاب کی تاریخِ تدوین کا تعلق ہے، میکنزی لکھتا ہے:
The book is dated by the critics after the rebuilding of the t emple in 516 BC, during the Persian period and before the reforms of Nehemiah and Ezra. i.e. berfore 432 BC.۵۰
نقادوں نے اس کتاب کی تدوین کی تاریخ ہیکل کی۵۱۶ قبل مسیح میں تعمیرثانی کے بعد فارسیوں کے عہد کے دوران میں اور نحیمیاہ اور عذراکی اصلاحات سے پہلے، یعنی۴۳۲ ق م سے پہلے، بتائی ہے۔
اس کتاب(ملاکی) میں ’عہد کے رسول‘ کے متعلق پیشین گوئی کے اندراج سے ظاہر ہوتا ہے کہ ۴۳۲ ق م تک بھی اسرائیلی اس نبی کا انتظار کر رہے تھے اور اس کا آنا ابھی باقی تھا۔ مزید برآں بائبل کی ’کتاب استثنا‘ کے اختتامیہ میں درج ہے:
اور اس وقت سے اب تک اسرائیل میں کوئی نبی’ موسیٰ ؑ کی مانند‘ جس سے خداوند نے رُوبرو باتیں کیں، نہیں اُٹھا۔ ۵۱
غالب امکان یہ ہے کہ یہ اختتامیہ حضرت عزیر ؑ نے حضرت موسیٰ ؑ سے آٹھ ، نو سو سال بعد لکھا ہو گا۔ اس طرح یہ پیشین گوئی حضرت موسیٰ ؑ کے آٹھ، نو سو سال بعد تک پوری نہ ہوئی تھی۔ کسی شخص نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیاکہ وہ ’عہد کا رسول‘ ہے اور نہ حضرت موسیٰ ؑ کے بعد کوئی شخص اس کی شرائط پر پورا اُترا۔ بائبل کا قریباً ہر عالم سمجھتا ہے کہ یہ پیشین گوئی تو حضرت عیسیٰ ؑ کے عہد کے بعد بھی پوری ہوئے بغیر ہی رہی۔ ’بائبل نالج کمنٹری‘ میں لکھا ہے:
During the first century A.D. The official leaders of Judaism were still looking for the fulfillment of Moses\' [pbAh] prediction (cf. John 1:21) ۵۲
پہلی صدی عیسوی کے دوران میں،یہودیت کے سرکاری زعما ابھی تک حضرت موسیٰ ؑ کی پیشین گوئی کی تکمیل کے منتظر تھے (انجیل یوحنا ۱: ۲۱)۔
اس بات کی تصدیق ، کہ یہ پیشین گوئی حضرت عیسیٰ ؑ کے دور تک میں بھی پوری نہ ہوئی تھی اور یہودی ابھی تک اس پیغمبر کی آمد کے منتظر تھے، ’یوحنا‘ کی ’انجیل‘ کی مندرجہ ذیل عبارت سے ہوتی ہے:
اور یوحنا کی گواہی یہ ہے کہ جب یہودیوں نے یوروشلم سے کاہن اور لاوی یہ پوچھنے کو اس کے پاس بھیجے کہ تو کون ہے؟۔ تو اس نے اقرار کیا اور انکار نہ کیا بلکہ اقرار کیا(....)کہ اگر تو نہ مسیح ہے نہ ایلیاہ نہ وہ نبی تو پھر بپتسمہ کیوں دیتا ہے؟ ۵۳
اوپر کے مندرجات سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ’موسیٰ ؑ کی مانند رسول‘ حضرت عیسیٰ ؑ کے دَور تک مبعوث نہ ہوئے تھے۔
اب مسیحی علما کا صرف یہ دعویٰ توضیح طلب رہ گیا کہ یہ پیشین گوئی حضرت یسوع مسیح ؑ کی ذات میں پوری ہو گئی تھی۔ عہد نامۂ جدید کی محفوظ طریقے سے جمع و تدوین اور منتقلی کے سوال کو نظر انداز کر بھی دیا جائے تو بھی یہ ایک حقیقت ہے کہ پورے ’عہد نامۂ جدید‘ میں حضرت مسیح ؑ نے نہ تو کہیں ’حضرت موسیٰ ؑ کی مانند ایک موعود نبی‘ ہونے کا دعویٰ ہی کیا ہے اور نہ اپنے آپ کو اس حیثیت سے پیش ہی کیا ہے: جیسا کہ بپتسمہ دینے والے یوحنا( حضرت یحیےٰ ؑ ) اوریہودی نمائندگان کے درمیان ہونے والے مندرجہ بالا مکالمے سے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہودی اس وقت تین اشخاص کے منتظر تھے:
(۱) ایلیاہ (۲) مسیح (۳) ’وہ نبی‘
ایلیاہ تو خود بپتسمہ دینے والے یوحنا ہی تھے، جیسا کہ حضرت عیسیٰ ؑ نے واضح کر دیا۔ مسیح ؑ تمام عیسائیوں کے مطابق خود حضرت عیسیٰ ؑ ہی تھے۔ اب صرف تیسری شخصیت باقی رہ جاتی ہے ، یعنی ’وہ حضرت موسیٰ ؑ کی مانند والا عہد کا رسول‘ ۔ فطری طور پر حضرت عیسیٰ ؑ یہ تیسری شخصیت ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتے تھے، کیونکہ وہ تو پہلے ہی دوسری شخصیت یعنی مسیح ؑ ہونے کی حیثیت اختیار کر چکے تھے۔ یہود جن تین شخصیتوں کا انتظار کر رہے تھے وہ تین الگ الگ شخصیات تھیں ، جن میں سے دو کاتعین پہلے ہی بپتسمہ دینے والے یوحنا(حضرت یحیےٰ ؑ )اور حضرت عیسیٰ ؑ کی شخصیات میں ہو چکا تھا۔ اب صریحاً صرف تیسری شخصیت کے تعین کا معاملہ باقی رہ جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ حضرت عیسیٰ ؑ نے اپنی ذات میں مسیح اور ’وہ نبی‘ دونوں کی اجتماعی حیثیت اختیار کر لی ہے، تو اسے اپنے دعوے کی تائید میں حضرت عیسیٰ ؑ کا کوئی دو ٹوک اور غیر مبہم اعلان پیش کرنا چاہیے، جو رُوئے زمین کا کوئی بھی شخص کبھی پیش نہیں کر سکتا۔بلکہ اس کے برعکس حضرت عیسیٰ ؑ نے تو اس وقت بھی ’حضرت موسیٰ ؑ کی مانند وہ موعود و منتظر نبی‘ہونے کا اعلان نہ کیا جب انھیں اپنی پوزیشن واضح کرنے کو کہا گیا۔ بائبل کا بیان ہے:
اور یوحنا نے قید خانے میں مسیح کے کاموں کا حال سن کر اپنے شاگردوں کی معرفت اس سے پچھوا بھیجا۔ کہ آنے والا تو ہی ہے یا ہم دوسرے کی راہ دیکھیں؟ ۔ یسوع نے جواب میں ان سے کہا کہ جو کچھ تم سنتے اور دیکھتے ہو جا کر یوحنا سے بیان کر دو۔ کہ اندھے دیکھتے اور لنگڑے چلتے پھرتے ہیں۔ کوڑھی پاک صاف کیے جاتے ہیں اور بہرے سنتے ہیں اور مردے زندہ کیے جاتے ہیں اور غریبوں کو خوش خبری سنائی جاتی ہے۔ اور مبارک وہ ہے جو میرے سبب سے ٹھوکر نہ کھائے۔ ۵۴
یہ بات بالکل واضح تو نہیں کہ بپتسمہ دینے والے یوحنا (حضرت یحیےٰ ؑ ) کی اس سوال سے کہ ’کیا تو وہ ہے جس نے آنا ہے یا ہم کسی اور دوسرے کا انتظار کریں؟‘ کیا مراد ہے۔’ وہ جسے آنا ہے‘ سے دونوں مراد ہو سکتے ہیں: (۱) مسیح ؑ یا (۲) موسیٰ ؑ کی مانندایک نبی، کیونکہ دونوں کا انتظار کیا جا رہا تھا۔ یہ بات واضح نہیں کہ حضرت یحیےٰ ؑ کا اشارہ کس کی طرف تھا۔ حضرت عیسیٰ ؑ کو اس مبہم سوال کا جواب غیر مبہم انداز میں دینا چاہیے تھا اور اپنی پوزیشن حتمی طور پر واضح کر دینی چاہیے تھی۔ اس کے بجائے روایت یہ ہے کہ انھوں نے ایک عجیب اور غیر واضح اسلوب اختیار کیا۔ وہ ایک ذو معنیین جواب دیتے ہیں۔اس سے پہلے انھوں نے کہیں بھی اس بات کا دعویٰ نہیں کیا تھا کہ وہ ’حضرت موسیٰ ؑ کی مانند وہ نبی‘ ہیں۔ البتہ مسیح کے نام سے انھیں ان کے تمام پیروکار اور شاگرد پکارتے تھے، جیسا کہ ’عہد نامۂ جدید‘ میں متعدد مرتبہ مذکور ہے۔ انھیں کھول کر یہ بات کہنی چاہیے تھی کہ :
نہ تو میں نے کبھی ’حضرت موسیٰ ؑ کی مانندوہ نبی ‘ ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور نہ یہ بات ہے کہ جو کام میں کررہا ہوں وہ موسیٰ ؑ کی مانند ہیں۔ پھر تم مجھے ’حضرت موسیٰ ؑ کی مانند وہ نبی‘ کیسے قرار دے سکتے ہو؟ جہاں تک میرے ’مسیح‘ ہونے کا تعلق ہے، تو یہ بات ہر کوئی جانتا ہے اور میرے کام بھی میری اس حیثیت کی تصدیق و تائید کرتے ہیں۔
’کتابِ اعمال‘ میں ایک اور واضح اور دو ٹوک عبارت بھی ہے، جس میں پطرس وضاحت کرتا ہے کہ عیسیٰ ؑ ، موسیٰ ؑ کی مانند’ وہ نبی‘ نہیں ہیں ۔ انھیں تو ہنوز آنا ہے ۔ پطرس کہتا ہے:
پس توبہ کرو اور رجوع لاؤ تاکہ تمھارے گناہ مٹا دیے جائیں اور اس طرح خداوند کے حضور سے تازگی کے دن آئیں۔ اور وہ اس مسیح کو جو تمھارے واسطے مقرر ہوا ہے یعنی یسوع کو بھیجے۔ ضرور ہے کہ وہ آسمان میں اس وقت تک رہے جب تک کہ وہ سب چیزیں بحال نہ کی جائیں جن کا ذکر خدا نے اپنے پاک نبیوں کی زبانی کیا ہے جو دنیا کے شروع سے ہوتے آئے ہیں۔ چنانچہ موسیٰ نے کہا کہ خداوند خدا تمھارے بھائیوں میں سے مجھ سا ایک نبی پیدا کرے گا۔ جو کچھ وہ تم سے کہے اس کی سننا۔ اور یوں ہو گا کہ جو شخص اس نبی کی نہ سنے گا وہ امت میں سے نیست و نابود کر دیا جائے گا۔ بلکہ سموئیل سے لے کر پچھلوں تک جتنے نبیوں نے کلام کیا اُن سب نے ان دنوں کی خبر دی ہے۔ ۵۵
اس عبارت کے اَہم نِکات مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کیے جا سکتے ہیں:
۱۔ پطرس لوگوں کو نصیحت کرتا ہے کہ’ انھیں توبہ کرنی چاہیے اور خداوند تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا چاہیے تاکہ ان کے گناہ دھو دیے جائیں اور تاکہ خداوند تعالیٰ ان کو اپنے حضور سے سہولت و تازگی کے دن عطا فرمائے‘۔
۲۔ ’سہولت و تازگی کے دن‘ سے پطرس کی مراد ہے’ جب خداوند تعالیٰ وہ مسیح بھیجے گا جو پہلے سے مقرر ہے‘ یعنی حضرت عیسیٰ ؑ ۔ ۵۶
۳۔ جب تک وہ سب چیزیں بحال نہ ہو جائیں جن کا ذکر خدا نے اپنے پاک نبیوں کی زبانی کیا ہے، اس وقت تک مسیح کا آسمان میں رہنا ضروری ہے۔
۴۔ ’سب چیزوں کی بحالی‘ کامثال کے طور پر ایک مظہر یہ ہے کہ ’خدا وند خدا تمھارے بھائیوں میں سے تمھارے لیے مجھ سا [حضرت موسیٰ ؑ کی مانند]ایک نبی پیدا کرے گا‘۔
۵۔ لوگوں کو وہ سب کچھ سننا چاہیے جووہ نبی اُن سے کہے، کیونکہ ’جو شخص اس نبی کی نہ سنے گا وہ لوگوں میں سے نیست و نابود کر دیا جائے گا‘(بالکل اسی طرح جیسے ان لوگوں کو، جنھوں نے محمد رسول اللہﷺ کی دعوت قبول نہ کی تھی، نیست و نابود کر دینے کا قرآن کریم کی سُورۂ توبہ میں حکم دیا گیا تھا)۔
۶۔ حقیقت یہ ہے کہ سموئیل سے لے کر پچھلوں تک جتنے نبیوں نے کلام کیا انھوں نے ’حضرت موسیٰ ؑ کی مانند ایک نبی‘ کے آنے کی پیشین گوئی کی۔
صورت حال جو کچھ بھی ہو، حضرت عیسیٰ ؑ نے کبھی ’حضرت موسیٰ ؑ کی مانند وہ نبی‘ ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرت مسیح ؑ کے حینِ حیات اُس ’عہد کے رسول‘ کی آمد ہنوز باقی تھی۔ یہ صرف محمد رسول اللہ ﷺ ہی ہیں جو ’حضرت موسیٰ ؑ کی مانند اُس نبی‘ کی تمام شرائط پر پورا اُترتے ہیں۔ یہ آپ ؐ ہی ہیں جو اسرائیل کے بھائیوں میں سے مبعوث ہونے والے ’واحد نبی‘ ہیں اور جو حضرت عیسیٰ ؑ کے بعد مبعوث ہوئے ہیں اور جنھیں خداوند تعالیٰ نے خود بھی ’موسیٰ ؑ کی مانند‘ قرار دیا ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَیْْکُمْ رَسُولاً شَاہِداً عَلَیْْکُمْ کَمَا أَرْسَلْنَا إِلَی فِرْعَوْنَ رَسُولاo فَعَصَی فِرْعَوْنُ الرَّسُولَ فَأَخَذْنَاہُ أَخْذاً وَبِیْلاًo فَکَیْْفَ تَتَّقُونَ إِن کَفَرْتُمْ یَوْماً یَجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِیْباًًo السَّمَاء مُنفَطِرٌ بِہِ کَانَ وَعْدُہُ مَفْعُولاًًo إِنَّ ہَذِہِ تَذْکِرَۃٌ فَمَن شَاء اتَّخَذَ إِلَی رَبِّہِ سَبِیْلاًً o۵۷
ہم نے تم لوگوں کے پاس اُسی طرح ایک رسول تم پر گواہ بنا کر بھیجا ہے جس طرح ہم نے فرعون کی طرف ایک رسول بھیجا تھا۔ فرعون نے اُس رسول کی بات نہ مانی تو ہم نے اُس کو بڑی سختی کے ساتھ پکڑ لیا۔ اگر تم (بھی) ماننے سے انکار کرو گے تو اُس دن کیسے بچو گے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گااور جس (دن) کی سختی سے آسمان پھٹا جا رہا ہو گا؟اللہ کا وعدہ تو پورا ہو کر ہی رہنا ہے۔ یہ ایک نصیحت ہے ، اب جس کاجی چاہے اپنے رب کی طرف جانے کا راستہ اختیار کر لے۔
مندرجہ بالا گفتگو سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ ’موسیٰ ؑ کی مانند ایک نبی‘ بپتسمہ دینے والے یوحنا کے زمانے تک مبعوث نہیں ہوا تھا۔ یہودی علما اس کا انتظار کر رہے تھے۔ ان کا بپتسمہ دینے والے یوحنا(حضرت یحیےٰ ؑ ) سے یہ استفسار کہ کیا وہی ’وہ نبی‘ ہے، اُن کے اس انتظار کا ثبوت ہے۔ بپتسمہ دینے والے یوحنا نے صاف طور پر واضح کر دیا تھا کہ وہ ’وہ نبی‘نہیں ہے۔حضرت عیسیٰ ؑ ’کرائسٹ‘ یعنی ’مسیح‘ تھے اور اُنھوں نے اس بات کا کبھی کوئی دعویٰ یا اعلان نہیں کیاتھاکہ وہ ’حضرت موسیٰ ؑ کی مانند وہ نبی‘ تھے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ دنیائے یہود و نصاریٰ میں آج تک ’حضرت موسیٰ ؑ کی مانند وہ نبی‘ برپا نہیں ہوا۔ ضروری تھا کہ ’حضرت موسیٰ ؑ کی مانند وہ نبی‘ حضرت عیسیٰ ؑ کے بعد کسی معقول مدت میں مبعوث ہو گیا ہوتا۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ:
۱۔ محمد رسول اللہ ﷺ کے علاوہ آج تک کسی شخص نے ’حضرت موسیٰ ؑ کی مانند وہ نبی‘ ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔
۲۔ محمد رسول اللہ ﷺ کے علاوہ کوئی شخص ’حضرت موسیٰ ؑ کی مانند وہ نبی‘ ہونے کی لازمی خصوصیات و شرائط پر پورا نہیں اترتا۔
۳۔ محمد رسول اللہﷺ ’اس نبی‘ کے طور پر مبعوث ہو چکے ہیں اور انھوں نے عملاً بھی ’حضرت موسیٰ ؑ کی مانند ایک نبی‘ ہونے کا دعویٰ کیا ہے، جیسا کہ اُوپر واضح کیا جا چکا ہے۔
۴۔ محمد رسول اللہﷺ ’حضرت موسیٰ ؑ کی مانند وہ نبی‘ ہونے کی تمام ضروری شرائط اور خصوصیات پر پورے اُترتے ہیں۔
اگر محمد رسول اللہ ﷺ کا دعویٰ تسلیم نہ کیا جائے تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ بائبل کا یہ بیان سچا نہیں ہے(کیونکہ اگر حضرت موسیٰ ؑ کی یہ پیشین گوئی تین ہزارسال سے بھی زیادہ عرصہ میں پوری نہ ہو سکی تو آخر کب پوری ہوپائے گی) ۔ اب یہ قاری کا کام ہے کہ وہ احتیاط اور انصاف سے فیصلہ کرے، کیونکہ خداوند تعالیٰ نے اس بارے میں اس پیشین گوئی کے فوراً بعد مندرجہ ذیل الفاظ میں تنبیہ فرما دی ہے:
اور جو کوئی میری ان باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے گا تو میں ان کا حساب اس سے لوں گا۔
حاسبوا، قبل ان تحاسبوا (حساب لیے جانے سے پہلے خود ہی اپنا محاسبہ کر لو)۔
_______
۴۳ ۔ ’کتابِ مقدس‘، استثنا ۳۳: ۲ میں درج ہے:
خدا وند سینا میں آیا اور شعیر سے ان پر آشکار ہوا۔ وہ کوہِ فاران سے جلوہ گر ہوا اور لاکھوں قدسیوں میں سے آیا [اس مقام پر تقسیم ہند سے کافی پہلے کے نسخوں میں دس ہزار کا لفظ لکھا ہے جوKJVکا صحیح ترجمہ ہے۔ لیکن بعد میں یہ دیکھ کر کہ اس کا اطلاق تو محمد رسول اللہ ﷺپر ہوتا ہے، کسی جواز کے بغیر اسے ’لاکھوں قدسیوں‘ میں بدل دیا گیا]۔ اس کے دہنے ہاتھ پر اُن کے لیے آتشی شریعت تھی۔
یہ پیشین گوئی حضرت موسیٰ ؑ نے اپنی وفات سے بالکل پہلے بیان فرمائی تھی۔ آیت کے پہلے حصے’خداواند سینا سے آیا‘ کا تعلق کوہِ سینا پرحضرت موسیٰ ؑ کو تبلیغ و دعوت کا فریضہ تفویض کرنے سے ہے۔ دوسرے حصے’اور شعیر سے ان پر آشکار ہوا‘ کا تعلق حضرت عیسیٰ ؑ کو شعیر کے خطے میں دعوت و تبلیغ کا فریضہ سونپنے سے ہے۔ تیسرے حصے’و ہ کوہِ فاران سے جلوہ گر ہوا‘ کا تعلق کوہِ فاران پرمحمد رسول اللہ ﷺکو فریضۂ نبوت تفویض کیے جانے سے ہے(’اے سائیکلوپیڈک بائبل کنکارڈینس‘، اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس NY، صفحہ ۲۱۷ پر ’فاران‘ کے معنی ’Cavernous‘یعنی ’بڑی بڑی غاروں والا علاقہ‘درج ہیں۔ مکہ فی الواقع اسی طرح کا خطہ ہے۔ واضح رہے کہ’فاران‘ اس پہاڑوں اور غاروں والے خطے کا نام ہے جہاں حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے اکلوتے اور پہلونٹے بیٹے اسمٰعیل ؑ کو آباد کیاتھا، کیونکہ خداوند تعالیٰ نے انھیں اس کا حکم دیا تھا (’کتابِ مقدس‘، پیدایش، ۲۱:۲۱)۔آیت کے چوتھے حصے ’وہ دس ہزار قدسیوں کے ساتھ آیا‘ کا تعلق محمد رسول اللہ ﷺکے دس ہزار قدسی صحابہؓ کے ساتھ مکے کی فتح سے ہے۔ یہ انسانی تاریخ کا ایک نادر اوربے مثال واقعہ ہے، جس میں ٹھیک دس ہزار صحابہ کرامؓ نے حصہ لیا۔ یہاں لفظ’آیا‘ کے لیے اصل عبرانی بائبل میں’اتٰی‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے، جس کے معنی ’سٹرونگ کے لغت‘ میں ’To come upon‘درج ہیں۔ ’دی اوکسفرڈ ڈکشنری اینڈ تھیسارس‘، ۱۹۹۷ء، صفحہ ۲۸۱ پر اس محاورے کے معنی ہیں: ’To attack by surprise‘۔ رسول اللہ ﷺ بعینہٖ اسی طرح مکے تشریف لائے تھے تاکہ اہلِ مکہ مسلمانوں کی طاقت دیکھ کر ہتھیارنہ اُٹھائیں اور مکہ کا شہرِ حرام بغیر کسی خونریزی کے فتح ہو جائے۔آیت کے پانچویں حصے ’اس کے داہنے ہاتھ پر ان کے لیے آتشی شریعت تھی‘، کا تعلق محمد رسول اللہ ﷺ پر نزولِ قرآن سے ہے۔ جو قانونِ خداوندی کا آخری اور مکمل ضابطہ ہے۔
44. Rvd. James L. Dow, Collins Gem Dic. of the Bible, Gen. Ed. J. B. Foreman (London: Collins, 1974), s.v. 'Moses', p. 401-403.
۴۵ ۔یہاں پر یہ امر ذہن نشین رہے کہ لغت نویس نے اپنا معروضی تبصرہ درج کیا ہے۔ یہ بات بآسانی سمجھی جا سکتی ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کے جمیع اوصاف کا پوری انسانی تاریخ میں محمد رسول اللہ ﷺکے علاوہ اور کسی شخصیت کے ساتھ موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا حضرت عیسیٰ ؑ پر تو کسی طرح بھی اطلاق ممکن نہیں، لیکن پھر بھی بہت سے مسیحی علما پوری کاوش سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
۴۶ ۔میکنزی کی لغت بائبل میں حضرت یوشع ؑ کے متعلق وضاحت کی گئی ہے۔
Lieutenant and successor of Moses and hero of the book of Joshua. (133); he appears as military leader and as an attendant of Moses who guarded the tabernacle. He was one of the men sent to scout Canaan before the entrance of the Israelites and with Caleb resisted the timidity of the other scouts. (...) Joshua was solemnly commissioned to succeed Moses.
حضرت موسیٰ ؑ کے مقرر کردہ سالار اور جانشین اور بائبل کی کتاب ’یوشعؑ ‘ کے ہیرو۔(...)؛ وہ حضرت موسیٰ ؑ کے خادمِ خاص اور سپہ سالار کی حیثیت سے نمایاں ہیں اور خیمۂ عبادت کے بھی سربراہ تھے۔ وہ اُن آدمیوں میں سے ایک تھے جنھیں اسرائیلیوں کے کنعان میں داخلے سے قبل جاسوسی کے لیے بھیجا گیا تھا اور جنھوں نے کالب کے ساتھ ہم زبان ہو کر دوسرے جاسوسوں کی بزدلی کی مخالفت کی۔(...)۔ یوشعؑ کو باقاعدہ طور پر حضرت موسیٰ ؑ کی جانشینی کے لیے مقرر کیا گیا۔
۴۷ ۔محمد رسول اللہﷺکی ذات میں یہ پیشین گوئی کتنی واضح اور غیر مبہم طور پر پوری اتری۔ وہ فتح مکہ کے موقع پر رازدارانہ طریق سے شہر مکہ میں اپنے ہیکل یعنی کعبہ پر آئے، تاکہ یہ شہرکسی جنگ و جدل اور خونریزی کے بغیر فتح ہو۔ اہل مکہ کو محمد رسول اللہﷺکے دس ہزار پاکبازوں کے سربراہ کی حیثیت سے مکہ پہنچنے کا علم صرف اس وقت ہوا جب آپؐ شہر کے دروازوں پر اچانک نمودار ہوئے اور اس طرح مکہ شہر بغیر کسی خونریزی کے فتح ہوا۔ یہ ہو بہو وہی بات ہے جس کے متعلق حضرت ملاکی نے فرمایا تھا:’وہ اچانک اپنے ہیکل میں آئے گا‘۔
۴۸ ۔اس’آموجود ہوگا‘ (Shall suddenly come) کے لیے جو عبرانی لفظ استعمال ہوا ہے، اس کا تلفظ ہے ’بوّ ‘ (bow)۔ ’سٹرونگ کی عبرانی بائبل ڈکشنری‘کے اندراج ۹۳۵، صفحہ۱۹ پراس کے معنی ہیں:
To go or come (in a wide variety of applications): abide, befall, besiege, go (down, in, to war), [in-] vade, load.
جانا یا آنا(اطلاقات کے ایک وسیع تنوع کے مفہوم ہیں) ثابت قدمی سے کھڑے رہنا، کوئی ناخوش گوارواقعہ آن پڑنا، محاصرہ کرنا،(جنگ کے لیے) جانا، حملہ کرنا، لادنا۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’عہد کا رسول‘ (یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ نے اپنے حق میں کبھی ’عہد کا رسول‘ ہونے کا دعویٰ نہیں کیا) اچانک جنگ کو آئے گا، اپنے ہیکل کا محاصرہ کرے گا اوراس پر حملہ آور ہو گا:
Shall suddenly go down to war, besiege, and invade his temple.
یہ بات محمد رسول اللہﷺ کی فتح مکہ کے بارے میں بالکل درست ہے اور واقعے کی ہو بہو عکاسی کرتی ہے۔ کوئی اور پیغمبر کبھی اس طرح اچانک فاتحانہ شان کے ساتھ اپنے ہیکل میں نہیں آیا، جس طرح کہ محمد رسول اللہﷺ آئے۔
۴۹ ۔ ’کتابِ مقدس‘، ملاکی، ۳: ۱۔
50. J. L. MeKenzie Dic. of the Bible. 537.
۵۱ ۔ ’کتابِ مقدس‘، استثنا ، ۳۴: ۱۰۔
52. The Bible Knowledge Commentary, ed. John F. Walvoord, & R. B. Zuck (Illinois: SP Publ, Inc., Weaton, 3rd Edn., 1986), p. 297.
۵۳ ۔ ’کتابِ مقدس‘، انجیل یوحنا، ۱: ۱۹ تا ۲۵۔
۵۴ ۔ ’کتابِ مقدس‘، متی کی انجیل ،۱۱: ۲ تا ۶۔
۵۵ ۔ ’ کتابِ مقدس‘، اعمال، ۳: ۱۹ تا ۲۴۔
۵۶ ۔ظاہرہے کہ یہاں حضرت مسیح ؑ کی آمدِ ثانی ہی مراد ہو سکتی ہے، کیونکہ ان کی پہلی آمد تو اس وقت تک ہو کر ختم بھی ہو چکی تھی۔
۵۷ ۔ قرآن کریم، المزمل ۷۳: ۱۵تا۱۹۔
____________