HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Abdul Sattar Ghauri

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

حضرت موسیٰ علیہ السلام ’کی مانند ایک نبی ﷺ‘ (حصہ اول)

باب دُوُم

بائبل کے ’عہد نامۂ قدیم‘ کی کتاب’ استثنا‘ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ’ میں ان کے لیے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی بر پا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا ، اور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا وہی وہ ان سے کہے گا‘۔ جس عبارت سے یہ الفاظ نقل کیے گئے ہیں، وہ درج ذیل ہے:

خداوند تیرا خداتیرے لیے تیرے ہی درمیان سے یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا۔ تم اُس کی سُننا۔ یہ تیری اُس درخواست کے مطابق ہو گا جو تُو نے خداوند اپنے خدا سے مجمع کے دن حورب میں کی تھی کہ مجھ کو نہ تو خداوند اپنے خدا کی آواز پھر سُننی پڑے اور نہ ایسی بڑی آگ ہی کا نظارہ ہو،تاکہ میں مر نہ جاؤں۔ اور خداوند نے مجھ سے کہا کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں سو ٹھیک کہتے ہیں۔ میں اُن کے لیے اُن ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اُس کے منہ میں ڈالوں گااور جو کچھ میں اُسے حکم دوں گا وہی وہ اُن سے کہے گا۔ اور جو کوئی میری اُن باتوں کو، جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گانہ سُنے گا تو میں ان کا حساب۱؂ اس سے لوں گا۔لیکن جونبی گستاخ بن کر کوئی ایسی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا میں نے اس کو حکم نہیں دیا، یا اور معبودوں کے نام سے کچھ کہے، تو وہ نبی قتل کیا جا ئے۔ اور اگر تو اپنے دل میں کہے کہ جو بات خداوند نے نہیں کہی ہے اسے ہم کیونکر پہچانیں؟ تو پہچان یہ ہے کہ جب وہ نبی خداوند کے نام سے کچھ کہے اور اس کے کہے کے مطابق کچھ واقع یا پورا نہ ہو تو وہ بات خداوند کی کہی ہوئی نہیں بلکہ اس نبی نے وہ بات خود گستاخ بن کر کہی ہے۔ تُو اس سے خوف نہ کرنا۔ ۲؂

’کنگ جیمز ورشن‘(KJV) میں، جسے مستند ترجمہ (AV) بھی کہا جاتاہے، اس کا انگریزی ترجمہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے:

The Lord thy God will raise up unto thee a \'Prophet from the midst of thee, of thy brethren, like unto me; unto him ye shall hearken; according to all that thou desiredst of the Lord thy God in Horeb in the day of the assembly, saying, Let me not hear again the voice of the Lord my God, neither let me see this great fire any more, that I die not. And the Lord said unto me, They have well spoken that which they have spoken. I will raise them up a Prophet from among their brethren, like unto thee, and will put my words in his mouth; and he shall speak unto them all that I shall command him. And it shall come to pass, that whosoever will not hearken unto my words which he shall speak in my name, I will require it of him. But the prophet, which shall presume to speak a word in my name, which I have not commanded him to speak, or that shall speak in the name of other gods, even that prophet shall die. And if thou say in thine heart, How shall we know the word which the Lord hath not spoken? When a prophet speaketh in the name of the Lord, if the thing follow not, nor come to pass, that is the thing which the Lord hath not spoken, but the prophet hath spoken it presumptuously: thou shalt not be afraid of him. ۳؂

آئندہ سطور میں اس پیشین گوئی کے اَہم نِکات کی ایک ایک کرکے وضاحت کی جائے گی۔

 

۱۔ تیرے ہی درمیان سے۴؂ 'From the midst of Thee'

’تیرے ہی درمیان سے‘(بشرطیکہ یہ ’تیرے ہی درمیان سے ‘ کی ترکیب واقعی اور اصلی ترکیب ہو اور بائبل کے کسی بعد کے مُدوِّن کی طرف سے الحاق کردہ نہ ہو، حالانکہ لگتا یہی ہے کہ عبارت کا یہ ٹکڑا الحاقی ہے) کے الفاظ کے موجودہ سیاق و سباق میں صریحاً یہ معنی ہیں کہ موعود نبی تمھارے اصل اور مشترکہ بزرگ ابراہیم ؑ کی نسل سے ہو گا۔ تاہم یہ بات قابل ملا حظہ ہے کہ یہ پیشین گوئی بائبل کے ’عہد نامۂ قدیم و جدید‘ میں بعض دیگر مقامات پر بھی نقل کی گئی ہے۵؂ ۔ لیکن یہ ترکیب وہاں موجود نہیں۔ اس سے اس ترکیب کی اصلیت مشکوک ہو جاتی ہے۔ بائبل کے بعض تراجم میں اِسے ’کسی جگہ‘ کے مفہوم میں لیا گیاہے۔ ایک یہودی تفسیر میں وضاحت کی گئی ہے:

from the midst of thee. This implies that the endowment of prophecy can only be exercised in the holy land (N).۶؂
’تیرے درمیان سے‘ :اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ پیشین گوئی کی تفویض صرف ارضِ مقدس ہی میں عمل میں لائی جا سکتی ہے۔

بائبل کے کچھ تراجم میں سے عبارت کی آیت 5 1سے یہ ترکیب حذف کر دی گئی ہے۔ ’دی نیو اوکسفرڈ اینوٹیٹڈ بائبل‘ نے نہ صرف یہ کہ یہ ترکیب حذف کر دی ہے، بلکہ لفظ ’بھائیوں‘ کو بھی ’لوگوں‘ میں تبدیل کردیا ہے اور اس کا مندرجہ ذیل ترجمہ کیا ہے:

(...) will raise up for you a prophet like me from among your own people; you shall heed such a prophet.۷؂ ؂
تمھارے لیے تمھارے اپنے لوگوں میں سے میری مانند ایک نبی مبعوث فرمائے گا۔ تم ایسے نبی کی بات توجہ سے سننا ۔

NIVنے آیت 15 سے یہ ترکیب حذف کرکے مندرجہ ذیل ترجمہ کیا ہے۔

(...) will raise up for you a prophet like me from among your own brothers. You must listen to him.۸؂ ؂
تمھارے لیے تمھارے اپنے بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا۔تمھیں اس کی بات ضرور سننا ہو گی۔

’گڈ نیوز بائبل‘ (GNB)اور’ٹوڈیز انگلش ورشن‘( TEV) دونوں نے یہ ترکیب حذف کر دی ہے، اور لفظ ’بھائیوں‘ کو بدل کر ’لوگوں‘ بنا دیا ہے:

(...), he will send you a prophet like me from among your own people, and you are to obey him.۹؂ ؂
وہ تمھارے پاس تمھارے اپنے لوگوں میں سے میری مانند ایک نبی بھیجے گا اورتمھیں اس کی اطاعت کرنا ہوگی۔

’دی نیو جیروسیلم بائبل‘(NJB)نے اس کاحسبِ ذیل ترجمہ کیا ہے:

Yahweh your God will raise up a prophet like me; you will listen to him.۱۰؂ ؂
تمھارا خداوند یہوہ میری مانند ایک نبی مبعوث کرے گا، تم اس کی بات سنو گے ۔

اس طرح یہ بات ملاحظہ کی جا سکتی ہے کہ اس ترجمے میں بھی نہ صرف زیرِ مطالعہ ترکیب حذف کردی گئی ہے، بلکہ’ تیرے بھائیوں میں سے ‘ والی ترکیب بھی ختم کردی گئی ہے ۔ لیکن ’ان کے اپنے بھائیوں میں سے ‘ والی ترکیب، آیت 18 میں برقرار رکھی گئی ہے۔

’دی ریوائزڈ برکلے ورشن‘(RBV) نے بھی آیت 15 کے اپنے ترجمے میں سے ’ تیرے درمیان سے ‘ کی ترکیب حذف کردی ہے ۔ اس میں درج ہے :

He will raise up for you a prophet like me, one of your own brothers, and you shall listen to him.۱۱؂ ؂
وہ تمھارے لیے میرے مانند ایک نبی مبعوث کرے گا ، جو تمھارے اپنے بھائیوں میں سے ہو گا۔ اور تم اس کی بات سنو گے۔

دیگر متعدد تراجم کا بھی یہی معاملہ ہے ( مثلاً ’کنٹیمپریری انگلش ورشن‘[CEV]، ۱۹۹۵ ، صفحہ ۲۱۹؛ ’دی ریڈرز ڈائجسٹ بائبل‘، ۱۹۸۳، صفحہ ۹۷؛ ’دی نیو امیریکن ورشن‘[NAV]، صفحہ ۱۷۶ وغیرہ)۔ یہ امر ثابت کرنے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ بائبل کے متعدد علما خود بھی اپنی تالیفات میں اس ترکیب کو عبارت کے اصل حصے کے طور پر برقرار رکھنے کے حامی نظر نہیں آتے ۔ اُن کا بھی یہی خیال ہے کہ یہ ترکیب کتا ب کے مُدوِّن کی طرف سے بعد میں کیا گیا اضافہ ہے۔

یہاں یہ امر بھی پیشِ نظر رہے کہ عبرانی بائبل میں یہ ترکیب اب بھی موجود ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اِسے بلا سوچے سمجھے یکسر مسترد بھی نہیں کر دیناچاہیے ۔ اِس لیے اصل صورت حال کاکھوج لگانے کے لیے معروضی لغوی تحقیق ضروری ہے۔

یہاں ’درمیان سے ‘ (Midst)کے جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں، اس کے لیے عبرانی میں ’قریب‘ کالفظ آیا ہے۔ اس فصل کے آغاز میں وضاحت کی جا چکی ہے کہ ’سٹرونگ کی ڈکشنری‘ کے مطابق اس کے معنی ہیں ’قریب ‘ ۔’ عبرا نی و آرامی لغت‘(Lexicon) میں اس کی وضاحت مندرجہ ذیل الفاظ میں کی گئی ہے:

(...); the basic meaning of the Semitic root is to be near, approach; to bring near. (133.). (Jean-H. Dictionnaire 265; Hoftijzer-Jongeling Dic. 1031, qrb IX: a relative rather than a cousin); (133); in Babylonian it also means a relative.۱۲؂ ؂
سامی، مادے کے بنیادی معنی ہیں ’قریب ہونا یا پہنچنا، قریب لانا‘ (...)، ’کزن ‘کے بجائے ایک رشتے دار؛(...)،بابلی زبان میں بھی اس کے معنی ہیں ’ایک رشتہ دار ‘۔

اس طرح یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ 'Midst' اصل عبرانی لفظ کا موزوں ترجمہ نہیں ہے، بلکہ اس کا موزوں ترجمہ ہونا چاہیے ’ رشتہ داروں میں سے۔ظاہر ہے کہ یہ بنی اسماعیل ؑ کے عربوں کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔

مندرجہ بالا تمام گفتگو سے اس بات کا غالب امکان نظر آتا ہے کہ ’تیرے ہی درمیان سے ‘ کی ترکیب کسی شخص کی طرف سے بعد میں کیا گیا اضافہ ہے اور عبارت کا اصلی حصہ نہیں ہے۔ تاہم اگر یہ فرض کر بھی لیا جائے کہ یہ بائبل کا اصل جملہ ہے تو اس کا یہ مطلب بنتا ہے کہ یہ نبی تمھارے لیے اجنبی نہیں ہو گا بلکہ وہ تمھارے اپنے جد امجد حضرت ابراہیم ؑ کی نسل سے تمھارا اپنا رشتہ دار ہوگا۔

 

۲۔ تیرے ہی بھائیوں میں سے

اس سلسلے میں بعض مسیحی علما یہ کہتے ہیں کہ ’بھائیوں‘ سے مراد صرف بنی اسرائیل کے لوگ ہیں اور غیر قبائل کے لوگ اس سے خارج ہیں۔ بظاہر یہ ایک مضبوط دلیل معلوم ہوتی ہے لیکن جب بائبل کا اور اس کے لغات کا تحقیقی مطالعہ کیا جائے تو اُن کی اس دلیل کی کمزوری واضح ہو جاتی ہے۔ اس لیے عبرانی لغات اور بائبل کی عبارات کے تحقیقی و تقابلی مطالعے کی ضرورت ہے۔

’ تیرے ہی بھائیوں‘ کی ترکیب کے معنی کے تعین کے سلسلے میں ایک مثال تو کتابِ استثنا کے اسی اَٹھارھویں باب کے آغاز ہی میں موجود ہے۔ چنانچہ دوسری آیت کے الفاظ ہیں:

Therefore shall they [i.e. 'The priests, the Levites'], have no inheritance among their brethren; the Lord is their inheritance.۱۳ ؂
اس لیے اُن کے بھائیوں[یعنی حضرت یعقوبؑ کے بیٹے لاوی کو چھوڑ کر اُن کے باقی بیٹوں کی اولادوں ] کے ساتھ اُن کو[ یعنی ’بنی لاوی کے کاہنوں کو‘ ، جیسا کہ اس باب کی پہلی آیت ہی میں درج ہے] میراث نہ ملے۔ خداوند اُن کی میراث ہے۔۱۴؂ ؂

یہاں لفظ ’بھائیوں‘ کاصریح مطلب ہے ’ ان کے جدِّ اعلیٰ حضرت یعقوب ؑ کی نسل سے دوسرے قبیلے، نہ کہ ان کے اپنے قبیلے سے تعلق رکھنے والے ان کے بھائی بند یعنی بنی لاوی ، کیونکہ ان کے لیے کسی بھی میراث کی ممانعت کر دی گئی ہے‘۔

چونکہ یہاں خطاب بنی لاوی سے ہے اس لیے اُن کے ’بھائیوں‘ سے مراد اُن کے اپنے قبیلے (بنی لاوی) کے افراد نہیں ہو سکتے، بلکہ نسلِ یعقوب ؑ کے (بنی لاوی کے علاوہ) دوسرے قبائل کے بھائی بند (کزنز) ہی مراد ہو سکتے ہیں۔ بائبل میں اس مضمون کی بعض دوسری مثالیں بھی موجود ہیں، مثلاً:

But the children of Benjamin would not hearken to the voice of their brethren, the children of Israel. ۱۵؂
لیکن بنی بن یمین نے اپنے بھائیوں بنی اسرائیل کاکہا نہ مانا ]یہاں بنی بن یمین کو اپنے کزنز یعنی بنی اسرائیل کے ’بھائیوں‘ کا نام دیا گیا ہے جو کہ دراصل اسرائیل کے بن یمین کے علاوہ دوسرے بیٹوں کی اولاد ہیں۔ اور اسرائیل کے یہ دوسرے بیٹے اپنے جد امجد بن یمین کے بھائی تھے[۱۶؂ ؂

بائبل کی کتاب گنتی میں بیان ہوا ہے:

They [the Levites] may minister with their brethren [the descendants of the brothers of Levi from his father Israel (Jacob pbAh)] in the tabernacle of meeting, to attend to needs, but they themselves shall do no work.۱۷ ؂
بلکہ[بنی لاوی] خیمۂ اجتماع میں اپنے بھائیوں]یہاں بھائیوں سے مراد بنی لاوی کو چھوڑ کر اسرائیل یعنی یعقوب ؑ کے دوسرے بیٹوں کی اولاد ہے[ کے ساتھ نگہبانی کے کام میں مشغول ہوں اور کوئی خدمت نہ کریں۔۱۸؂

بائبل کی کتاب ۱۔سلاطین میں درج ہے:

Ye [Rehoboam son of Solomon (pbAh) and the tribe of Judah and Benjamin] shall not go up, nor fight against your brethren the children of Israel.۱۹؂
تم ]رحبعام بن سلیمان ؑ اور بن یمین اور یہوداہ کے قبائل[ چڑھائی نہ کرو، اور نہ اپنے بھائیوں بنی اسرائیل سے لڑو[صاف طاہر ہے کہ یہاں لفظ ’بھائیوں‘ سے بِن یمین اور یہوداہ کے قبائل کو چھوڑ کربنی اسرائیل کے دوسرے قبائل مراد ہیں، جو اُن کے کزن بنتے ہیں۔ اِس طرح یہاں ’بھائیوں‘ سے اُن کے اپنے قبیلے کے لوگ مراد نہیں بلکہ اُن کے کزن قبیلے کے لوگ مراد ہیں]۔۲۰؂

تاہم یہ بات ذہن نشین رہے کہ لفظ ’بھائیوں‘ ایک عمومی اصطلاح ہے اور اس کا اطلاق حقیقی بھائیوں ، حقیقی یاچچازاد، ماموں زاد، پھوپھی زاد، خالہ زاد بھائیوں، دور کے کزنوں یا کسی ایرے غیرے پر بھی ہو سکتا ہے۔ یہ اصل عبرانی لفظ ’اخ‘ کی ایک شکل ہے۔ ’سٹرونگ کی ڈکشنری‘ میں درج ہے:

A brother (used in the widest sense of literal relationship and metaphorical affinity or resemblance):- another, brother (-ly), kindred, like, other.۲۱؂
ایک بھائی (حقیقی رشتہ داری اور مجازی تعلق یا مشابہت کے وسیع ترین مفہوم میں مستعمل ہے)، کوئی دوسرا، بھائی بند، رشتہ دار، مانند ، غیر (دوسرا) ۔

بائبل نے بھی یہ لفظ اسی مفہوم میں استعمال کیا ہے۔ اسرائیلیوں کودی جانے والی لمبی چوڑی ہدایات کے سیاق وسباق میں اللہ تعالیٰ ادومیوں کے بارے میں،جو یعقوب ؑ کے بڑے بھائی عیسو کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں، حکم دیتا ہے :

Thou shalt not abhor an edomite; for he is thy brother;۲۲ ؂
تو کسی ادومی سے نفرت نہ رکھنا کیونکہ وہ تیرا بھائی ہے [ظاہر ہے ’ادومی‘ بنی اسرائیل سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ وہ تو اسرائیل (حضرت یعقوب ؑ )کے بڑے بھائی عیسو کی اولاد ہیں۔ اِس کے باوجود یہاں اُنھیں بنی اسرائیل کا ’بھائی‘ کہا گیا ہے۔ اِس طرح یہاں بھی ’بھائی‘ سے مراد کزن قبیلے کے لوگ ہیں نہ کہ اپنے قبیلے کے لوگ ]۔۲۳؂

بائبل میں لفظ ’ بھائیوں‘ خاص بنی اسماعیل ؑ کے لیے بھی آیا ہے ۔ اس طرح ان کے لیے بنی اسرائیل کے ’بھائیوں‘ کا لقب استعمال ہوا ہے۔ہمارے موضوع سے متعلق اس سے بہتر اور کیا مثال ہو سکتی ہے۔ بائبل کی کتاب پیدایش میں یہ بات ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:

And the angel of the Lord said unto her [Hagar], I will multiply thy seed exceedingly, that it shall not be numbered for multitude. And the angel of the Lord said unto her, Behold, thou art with child, and shalt bear a son, and shalt call his name Ishmael; because the Lord hath heard thy affliction. And he will be a wild man; his hand will be against every man, and every man\'s hand against him; and he shall dwell in the presence of all his brethren [stress added]. ۲۴؂
اور خداوند کے فرشتے نے اس[ہاجرہ] سے کہا کہ میں تیری اولاد کو بہت بڑھاؤں گا، یہاں تک کہ کثرت کے سبب سے اس کا شمار نہ ہو سکے گا۔ اور خداوند کے فرشتے نے اس سے کہا کہ تو حاملہ ہے اور تیرے بیٹا ہو گا۔ اس کا نام اسماعیل[ ؑ ] رکھنا، اس لیے کہ خداوند نے تیرا دکھ سن لیا۔ وہ گورخر کی طرح آزاد مرد ہوگا۔ اس کاہاتھ سب کے خلاف اور سب کے ہاتھ اس کے خلاف ہوں گے اور وہ اپنے سب بھائیوں ۲۵؂ کے سامنے ۲۶؂ بسا رہے گا۔ ۲۷؂

لفظ ’بھائیوں‘ بائبل میں ایک مرتبہ اور بھی اسی مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ سیاق و سباق کی رو سے یہاں بھی صرف حضرت ابراہیم ؑ کے سارہ اور قطورا سے پیدا ہونے والے بیٹے ہی مراد لیے جا سکتے ہیں،جوحضرت اسماعیل ؑ کے سوتیلے بھائی تھے۔ دیکھیے مندرجہ ذیل عبارت میںیہی بات کہی گئی ہے:

یہ اسماعیل[ ؑ ]کے بیٹے ہیں اور ان ہی کے ناموں سے ان کی بستیاں اورچھاؤنیاں نامزد ہوئیں اور یہی بارہ اپنے اپنے قبیلے کے سردار ہوئے۔ اور اسماعیل[ ؑ ]کی کل عمر ۱۳۷ برس کی ہوئی۔ تب اس نے دم چھوڑ دیا اور وفات پائی اور اپنے لوگوں میں جا ملا اور اس کی اولاد حویلہ سے شور تک جو مصر کے سامنے اس راستے پر ہے جس سے اسور کو جاتے ہیں آباد تھی۔ یہ لوگ اپنے سب بھائیوں کے سامنے بسے ہوئے تھے۔ ۲۸؂ ؂

اس عبارت میں بھی ’اپنے سب بھائیوں کے سامنے‘ سے مراد ہے : ’اپنے باپ ابراہیم ؑ کے اُن کی بیوی سارہ سے پیدا ہونے والے اسحاق ؑ اور قطورہ سے پیدا ہونے والے بیٹوں: زمران، ےُقسان، مِدان، مدیان، اسباق اور سُوخ (پیدایش۲۵:۲)کی بستیوں کے جنوب مشرق میں‘۔ امرواقعہ بھی یہی ہے کہ بنو اسماعیل ؑ اُن کے جنوب مشرق ہی میں آباد تھے۔ اس سے صاف ظاہر ہوا کہ بنو اسماعیل ؑ کے ’بھائیوں‘ سے مراد اِن کے اپنے قبیلے کے لوگ نہیں، بلکہ حضرت ابراہیم ؑ کی نسل سے اِن کے سوتیلے بھائیوں کی اولاد مراد ہے۔ اسی طرح اِس پیشین گوئی میں ’تیرے ہی بھائیوں سے‘ مراد بھی اسرائیلیوں کے جدِّ امجد حضرت اسحاق ؑ کے سوتیلے بھائی حضرت اسماعیل ؑ کی نسل ہی مراد ہے۔

مندرجہ بالا معروضات کی روشنی میں واضح طور پر یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ ’ تیرے ہی بھائیوں میں سے ‘ کی ترکیب اولادِ اسماعیلؑ ہی سے متعلق ہے۔ کتاب ’استثنا‘ کے اسی باب ۱۸ کی آیت ۲ میں یہ جو درج ہے کہ ’اس لیے ان ]بنی لاوی[کے بھائیوں کے ساتھ ان کو میراث نہ ملے‘ تو اس میں لفظ ’بھائیوں‘ سے مراد بنی لاوی کو چھوڑ کر باقی یہودی قبائل ہی ہو سکتے ہیں، اور یہاں بنی لاوی بالکل واضح طور پراس لفظ ’بھائیوں‘ میں شامل نہیں ہیں۔اسی طرح مندرجہ بالا زیر بحث عبارت سے بنی اسرائیل خارج قرار پاتے ہیں۔ پس ’تیرے ہی بھائیوں میں سے ‘ کی ترکیب سے صرف ’ اولادِ اسماعیلؑ میں سے‘ ہی کوئی مراد ہو سکتا ہے، اور اس کے نتیجے کے طور پر لفظ ’ ایک نبی ‘ کا تعلق صرف اولادِ اسماعیلؑ ہی کے نبی سے ہو سکتا ہے۔ جو حضرت محمدﷺکے علاوہ کوئی اور نہیں ہے۔

یہاں ایک دلچسپ نکتہ بھی قابل ملا حظہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بائبل میں تبدیلیوں، حذف واضافہ اور الحاقات کا عمل بڑی آزادی سے کیا جاتا رہاہے۔ بائبل کاکوئی معقول عالم اس حقیقت سے انکار نہیں کرتا۔ یہاں ایک مثال دی جا رہی ہے، جس سے ثابت ہو تا ہے کہ یہ حرکت نہ صرف ماضی میں کی جاتی رہی ہے، بلکہ آج بھی پوری دیدہ دلیری سے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے جاری ہے ۔ ’ دی لِونگ بائبل‘ (The Living Bible)،بائبل کا ایک نسبتاً جدید ترجمہ ہے۔ یہ ’ جملہ حقوق محفوظ‘ کے ساتھ ۱۹۷۱ء میں Illinoisسے شائع ہواہے۔ یہ ۱۹۷۲ء میں \'The Way\'کے نام سے شائع ہوا تھا۔ بعد ازاں اس کی سولھویں طباعت مارچ ۱۹۷۶ میں شائع ہوئی، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس کے سینتیس لاکھ ساٹھ ہزار نسخے چھپ چکے ہیں۔ موجودہ مضمون کے مصنف کے پاس اس کی سولھویں طباعت کا ایک نسخہ ہے ۔ اس میں آیت ۱۵ کا ترجمہ یوں بیان کیا گیا ہے:

Instead he will raise up for you a Prophet like me , An Israeli (stress added), a man to whom you must listen and whom you must obey. ۲۹؂
اس کے بجائے وہ تمھارے لیے میری مانند ایک نبی مبعوث فرمائے گا، جو ایک اسرائیلی ہو گا، وہ ایسا شخص ہو گا جس کی بات تمھیں ضرور سننا ہو گی اور جس کی اطاعت تمھیں ضرور کرنا ہو گی۔

۱۹۹۶ء میں مختلف فقہی اور مسلکی پس منظر رکھنے والے انجیل کے ۹۰ علما نے اس پر نظرثانی کا کام پایۂ تکمیل کو پہنچایا ۔ انھیں ’دی لونگ بائبل‘ (The Living Bible) پر نظر ثانی کا مشن ۱۹۸۹ء میں تفویض کیا گیا تھا۔ اُنھوں نے اس ترجمے پر اس طرح نظرثانی فرمائی :

The LORD your God will raise up from you a Prophet like me from among your fellow Israelies [stress added] and you must listen to \'that Prophet. ۳۰؂
خداوند تمھارا خدا تمھارے لیے تمھارے اسرائیلی ساتھیوں میں سے میری مانند ایک نبی مبعوث فرمائے گا۔ تم اس کی بات ضرور سننا۔

کوئی شخص اس کی کیا وضاحت کر سکتا ہے کہ ’ایک اسرائیلی‘ یا ’اسرائیلی ساتھیوں‘ کے الفاظ عبارت میں کہاں سے در آئے ہیں۔

’دی نیو انگلش بائبل‘ (بائبل کا یہ ترجمہ مسیحی دنیا کے قریباً تمام اہم کلیسیاؤں کی مشترکہ کمیٹی نے تیار کیا اور منظور کیا تھا) نے اپنے آیت ۱۵کے ترجمے میں سے ’تمھارے بھائیوں میں سے‘ کی انتہائی اہم ترکیب حذف کر دی ہے۔ یہ اس طرح کی تبدیلیوں کی ایک مزید مثال ہے۔ اس میں لکھا ہے:

(...) will raise up a Prophet from among you like myself, and you shall listen to him. ۳۱؂
تمھارے درمیان سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا اورتمھیں اس کی بات ضرور سننا ہو گی۔

بعض دوسرے تراجم نے بھی آیت ۱۵ کے ترجمے سے ’تمھارے بھائیوں‘ کی ترکیب حذف کر دی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ایسے مترجمین نے ’تمھارے بھائیوں کے درمیان سے‘ کی ترکیب ایسی ادبی جادو گری کے ذریعے سے علمی دُنیا کی کھلی آنکھوں کے سامنے سے غائب کر دی ہے کہ بلاشبہ ان مترجمین کی اس چابک دستی کی داد دی جانی چاہیے۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اگر اس موعود نبی نے اسرائیلیوں میں سے آنا ہوتا تو پیشین گوئی کی عبارت کچھ اس طرح ہونی چاہیے تھی:

میں اُن کے لیے اُن کے اپنے درمیان ہی میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنے الفاظ اس کے منہ میں ڈالوں گا، اور وہ ایسی تمام باتیں انھیں بیان کر دے گا جن کا میں اسے حکم دوں گا۔

ہر طرح کے ابہام ، غلط فہمیوں اور پیچیدگیوں کا قلع قمع کرنے کے لیے یہ بہت ضروری تھا۔ جیسا کہ ’سٹرونگ کے لغات‘ کے حوالے سے پہلے وضاحت کی جا چکی ہے کہ بھائیوں کا لفظ ایک کثیر المعنی لفظ ہے اور اس سے یقیناً ابہام اور پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ بذاتِ خود ابہام اور پیچیدگی پیدا کرے۔ اللہ تعالیٰ کو تو بالکل دو ٹوک اور بے لاگ انداز میں بات کو واضح کر دینا چاہیے تھا، لیکن بائبل کے اصل الفاظ یہودی اور نصرانی علما کے اس دعوے سے کوئی مطابقت نہیں رکھتے کہ موعود نبی کو خود اسرائیلیوں میں سے ہونا چاہیے۔ بائبل کے اصل الفاظ تو یہ ہیں:

میں اُن کے لیے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا ۔ وہی وہ اُن سے کہے گا۔۳۲؂

حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ الفاظ بغیر سوچے سمجھے اور بے دھیانی میں نہیں استعمال فرمائے ہیں۔ اس نے یہ الفاظ سوچ سمجھ کر اور فیصلہ کُن انداز میں کہے ہیں۔ یہ الفاظ یہود و نصاریٰ کے اس دعوے کا ہر امکان مسترد کر دیتے ہیں کہ ’موعود نبی بنی اسرائیل ہی کے درمیان سے ہوگا‘۔

’ان کے بھائیوں کے درمیان سے‘ کے سلسلے میں ایک اور نکتہ بھی قابل توجہ ہے ۔ سابقہ انبیا کی طرح حضرت عیسٰی ؑ نے بھی بنی اسرائیل کو متنبہ کیا ہے :

اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہی تم سے لے لی جائے گی اور اس قوم ]اس ’قوم‘ کا بطور واحد استعمال قابل توجہ ہے۔ واضح رہے یہاں صیغہ جمع ’اقوام‘ استعمال نہیں ہوا۔ KJV, RSV, NWT, NIV, GNB اور NJBمیں بھی a nation/ a people بصیغۂ واحد ہی استعمال ہوا ہے[کو جو اس کے پھل لائے ،دے دی جائے گی۔۳۳؂

اس سے صاف واضح ہو جاتا ہے کہ خدا کی بادشاہی یا نبوت اب اولادِ اسرائیل سے لی جانے والی ہے اور ان کے بھائیوں (اولادِ اسماعیل ؑ ) کی طرف منتقل کی جانے والی ہے ۔ اس آیت کا سیاق و سباق بالکل واضح کر دیتا ہے کہ اس کا تعلق اسرائیلیوں کے بھائیوں کے علاوہ اور کسی سے نہیں۔ اسی انجیل میں حضرت عیسٰی ؑ نے یہ بات ایک اور جگہ بھی واضح فرمائی ہے:

ایک اور تمثیل سنو۔ ایک گھر کا مالک تھا جس نے تاکستان لگایا اور اس کی چاروں طرف احاطہ گھیرا اور اس میں حوض کھودا اور برج بنایا اور اسے باغبانوں کو ٹھیکے پر دے کر پردیس چلا گیا۔ اور جب پھل کا موسم قریب آیا تو اس نے اپنے نوکروں کو باغبانوں کے پاس اپنا پھل لینے کو بھیجا۔ اور باغبانوں نے اس کے نوکروں کو پکڑ کر کسی کو پیٹا اور کسی کو قتل کیا اور کسی کو سنگسار کیا] یہودی اپنے انبیاے کرام سے یہی سلوک روا رکھتے رہے[ ۔پھر اس نے اور نوکروں کو بھیجا جو پہلوں سے زیادہ تھے اور اُنھوں نے ان کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا۔ آخر اُس نے اپنے بیٹے۳۴؂ کو ان کے پاس یہ کہہ کر بھیجا کہ وہ میرے بیٹے کا تو لحاظ کریں گے۔ جب باغبانوں نے بیٹے کو دیکھا تو آپس میں کہا یہی وارث ہے۔ آؤ اسے قتل کرکے اس کی میراث پر قبضہ کرلیں۔اور اسے پکڑ کر تاکستان سے باہر نکالا اور قتل کر دیا۔۳۵؂ پس جب تاکستان کا مالک آئے گا تو ان باغبانوں کے ساتھ کیا کرے گا؟۳۶؂

اس سوال کا جواب اتنا ساد ہ اور فطری ہے کہ ’وہ‘( سامعین )، کسی بھی ایسے دوسرے شخص کی طرح، جو اِسے سُنے گا، بے ساختہ پکار اُٹھیں گے:

( ...)اُن بد کاروں۳۷؂ کو بُری طرح ہلاک کرے گا اور باغ کا ٹھیکہ دوسرے۳۸؂ باغبانوں۳۹؂ کو دے گا جو موسم پر اُس کو پھل دیں۔یسوع نے اُن سے کہا! کیا تم نے کتابِ مقدس میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو معماروں نے رد کیا،۴۰؂ وہی کونے کے سرے کا پتھر ہو گیا۔ یہ خداوند کی طرف سے ہوا ،اور ہماری نظر میں عجیب ہے۔۴۱؂ اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہی تم سے لے لی جائے گی اور اُس قوم کو جو اُس کے پھل لائے ، دے دی جائے گی۔ ۴۲؂

حضرت عیسیٰ ؑ کے الفاظ اِتنے واضح اور غیر مبہم ہیں کہ ان کی کسی تشریح کی کوئی ضرورت نہیں۔ لیکن اگر کسی نے پہلے سے کسی متعین تشریح کی حمایت کا فیصلہ کیا ہوا ہو، تو اس سلسلے میں کوئی کیا کر سکتا ہے۔

_______


۱؂ ۔ یہ لفظ ’حساب لوں گا‘ کچھ مبہم سا محسوس ہوتا ہے۔ اصل عبرانی عبارت میں اس کے لیے ’درش‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ’سٹرونگ کی بائبل کے عبرانی الفاظ کی ڈکشنری ‘میں (اندراج ۱۸۷۵، صفحہ ۳۱ پر ) اس کے معانی دیے گئے ہیں: ’دریافت کرنا، سوال کرنا‘۔ L.Kochler اور W. Baumgartnerکی \'The Heb. & Aramaic Lexicon' (لیڈن، برِل :۲۰۰۱ء) میں صفحہ ۳۳۲ پر اس کے معانی ہیں: 'to enquire about , to investigate, to require account, to avenge upon, etc.' (کے متعلق دریافت کرنا، تفتیش کرنا، حساب طلب کرنا، انتقام لینا، وغیرہ)۔ بائبل کے بعض تراجم نے اس لفظ کی مناسب توضیح کرکے ابہام دور کرنے کی کوشش کی ہے: NIVنے اس ترکیب کا ترجمہ کیا ہے: \'I myself will call him to account\' یعنی ’میں خود اِس کا حساب لوں گا‘۔ GNBنے اس کا مطلب بیان کیا ہے: \'and I will punish anyone who refuses to obey him'یعنی ’اور میں ہر اُس شخص کو سزا دوں گا جو اُس کی اطاعت سے انکار کرے گا‘۔ ’دی نیو اوکسفرڈ اینوٹیٹڈ بائبل‘(NOAB)ایڈیشن سوم نے اس کی تاویل کی ہے : 'I myself will hold accountable' یعنی ’میں خود[اس سے] جواب طلبی کروں گا‘۔ ناکس(Knox)نے اپنے تفسیری ترجمے کے صفحہ ۱۶۴،پراس کا مطلب بیان کیا ہے : 'shall feel my vengeance' یعنی ’[وہ] میرا انتقام محسوس کرے گا‘۔ ’دی نیو لِوِنگ ٹرانسلیشن‘ (صفحہ ۱۱۶) پر درج ہے:

I will personally deal with anyone who will not listen to the messages The Prophet claims on my behalf.
میں ہر اُس شخص سے ساتھ ذاتی طور پر نمٹوں گا جو اس نبی کے ان پیغامات کو نہیں سنے گاجو وہ میری طرف سے پیش کرے گا۔

اس کا مطلب ہے کہ یہ معاملہ ’اختیاری ‘ نہیں، بلکہ ایک لازمی، بہت اہم اور حسّاس معاملہ ہے۔ جو بھی اس ’نبی‘ کی، جب وہ آئے گا، سمع و طاعت نہیں کرے گا، اس سے اس کا حساب لیا جائے گا اور اسے اس بے اعتنائی کی مناسب حال سزا دی جائے گی ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ معاملہ بہت اہم اور سنجیدہ نوعیت کا ہے ۔ اور مخاطب سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اس کے بارے میں ہشیار ، آگاہ اور چوکنّا رہے۔

۲؂ ۔ ’کتابِ مقدس‘ ،استثنا ۱۸: ۱۵تا۲۲۔

3. Deu. 18:15-22, KJV/AV.

۴؂ ۔ اس لفظ ’درمیان‘ کے لیے عبرانی زبان میں ’قریب‘ کا لفظ آیا ہے جس کے معنی ’سٹرونگ(Strong) کے لغت‘ کے اندراج ۷۱۳۰،صفحہ ۱۰۵پر ’قریب ترین حصہ ‘ درج ہیں، اور اندراج ۷۱۲۶میں ہے ’قرب‘ جس کے معنی درج کیے گئے ہیں: ’ایک بنیادی مادہ ، قریب پہنچنا یا لانا، قریب ہونا‘۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ’قرب‘ اس کا بنیادی مفہوم ہے اور اس لحاظ سے ’تیرے درمیان سے ‘ کا مفہوم ہوگا ’تیرے قریبی رشتہ داروں میں سے‘۔ اس طرح یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ’ایک نبی ‘ اسرائیلیوں کے قریبی رشتہ داروں میں سے ہو گا۔ جویقینی طور پر نسلِ اسماعیل ؑ کے اکلوتے نبی یعنی حضرت محمد ﷺ ہی ہو سکتے ہیں۔

۵؂ ۔ (ا)’کتابِ مقدس‘، استثنا ۱۸:۱۸ میں درج ہے ’میں ان کے لیے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اُس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا وہی وہ ان سے کہے گا۔‘

(ب) ’کتابِ مقدس‘ اعمال ۳:۲۲ میں درج ہے ’چونکہ موسیٰ [ ؑ ] نے کہا کہ خداوند خدا تمھارے بھائیوں میں سے تمھارے لیے مجھ سا ایک نبی پیدا کرے گا۔ جو کچھ وہ تم سے کہے اس کی سننا۔‘

(ج) کتابِ اعمال ۷:۳۷ میں لکھا ہے ’خدا تمھارے بھائیوں میں سے تمھارے لیے مجھ سا ایک نبی پیدا کرے گا‘(انگریزی بائبل میں مزید درج ہے کہ تم اُس کی بات سننا)۔

6. Dr. A. Cohen, Soncino Chumash (Surrey: Hindhead, 1947), 1085.

7. New Oxf Annotated Bible (NY: Oxf Univ Press, 1989), 242: OT.

8. N I V (New Jersey: International Bible Society, 1984), 202 f.

9. Good News Bible (London: BFBS, 1982), 189; Today\'s English Version. (NY: American Bible Society, 1978), 192.

کتاب ہذا کے مصنف نے اب اسی کا ’نظرثانی شدہ‘ ایڈیشن(منٹو ۲۵۶۶[Minto 2566]: دی بائبل سوسائٹی اِن آسٹریلیا، ۱۹۹۴ء)حاصل کرلیا ہے۔ اس میں بھی کسی ردو بدل کے بغیر صفحہ ۲۱۱ پر یہی ترجمہ برقرار رکھا گیا ہے۔

10. The New Jerusalem Bible, Pocket Edn. (London: Darton Longman & Todd, 1990), 180.

۱۱؂ ۔ ’دی ریوائزڈبرکلے ورشن‘( RBV)، دی گڈین انٹرنیشنل، ۱۹۷۴ء ، استثنا۱۸: ۱۵، صفحہ ۱۵۷۔اس کے سرِ ورق پر یہ دعویٰ درج ہے ’ اصل زبانوں سے مکمل طور پر ایک نیا ترجمہ ‘ ۔

12. The Heb. and Aramaic Lexicon, ed. L. Kochler & W. Baumgartner (Brill: Leiden, 2001), 2:1132-34.

13. Deu. 18: 2 KJV.

۱۴؂ ۔ ’کتابِ مقدس‘، استثنا ۱۸: ۲۔

15. Judges. 20:13 KJV.

۱۶؂ ۔ ’کتابِ مقدس‘، قضاۃ ۲۰: ۱۳۔

17. Num. 8:26 NKJV.

۱۸؂ ۔ ’کتابِ مقدس‘، گنتی ۸: ۲۶۔

19. 1-Kings 12:24 KJV.

۲۰؂ ۔ ’کتابِ مقدس‘، ۱۔سلاطین ۱۲: ۲۴۔

21. James Strong, A Concise Dic. of the Words in the Heb. Bible (NY: The Methodist Book Concern, 1984), entry 251, p. 10.

22. Deu. 23:7 KJV.

۲۳؂ ۔ ’کتابِ مقدس‘، استثنا ۲۳: ۷۔

24. Gen. 16:9-12 KJV.

۲۵؂ ۔صاف ظاہر ہے کہ یہاں’بھائیوں‘ سے حضرت اسماعیل ؑ کی اپنی اولاد تو کسی طرح مراد نہیں ہو سکتی۔ پھر لامحالہ یہاں’بھائیوں‘ سے مراد حضرت ابراہیم ؑ کی اسماعیل ؑ کے علاوہ دیگر بیٹوں کی نسل ہی مراد ہو سکتی ہے، جن میں بنی اسرائیل بھی شامل ہیں، یعنی یہاں بنی اسماعیل ؑ کوبنی اسرائیل کے بھائی کہا جا رہا ہے۔

۲۶؂ ۔’کے سامنے‘ (پیدائش۱۶:۱۲ میں بھی اور ۲۵:۱۸ میں بھی، جسےKJVنے ’in the presence of‘ لکھا ہے) سے مراد ’مشرق میں‘ ہے۔ ’اے نیو کمنٹری اون ہولی سکرپچر‘(لندن: S.P.C.K. ، ۱۹۵۱ء) صفحہ ۵۱ پر درج ہے:

'In the presence of' should be 'to the east of' as R.V. The house of the Ishmaelite tribes was on the S. E. of Israel.
’کے سامنے‘ کو ’کے مشرق میں‘ ہونا چاہیے جیسا کہ ’ریوائزڈ ورشن‘ میں ہے۔بنی اسماعیل ؑ کے قبائل کی سکونت اسرائیل کے جنوب مشرق میں تھی۔

’ دی کمپیکٹNIVسٹڈی بائبل‘ نے بھی ۱۶:۱۲ کے ضمن میں صفحہ ۳۲ پر اور ۲۵:۱۸ کے ضمن میں صفحہ۴۵ پر یہی ’to the east of‘ لکھا ہے۔

۲۷؂ ۔ ’کتابِ مقدس‘، پیدایش ۱۶: ۱۰ تا ۱۳۔

۲۸؂ ۔ ’کتابِ مقدس‘، پیدایش ۲۵: ۱۶ تا ۱۸۔

29. The Way, An Illustrated Edn. of The Living Bible (Illinois: Tyndale House Publishers, 1976), 174.

30. Holy Bible, New Living Translation (Illinoise: Tyndale House Publishers, Inc., Wheaton, USA, 1999), 166

31. The New English Bible (Oxford: The Bible Societies in association with Oxford University Press, Cambridge University Press 1985), 136.

۳۲؂ ۔’کتابِ مقدس‘، استثنا ۱۸: ۱۸۔

۳۳؂ ۔’کتابِ مقدس‘، متی کی انجیل ۲۱: ۴۳۔

۳۴؂ ۔یہاں ’اپنے بیٹے‘ سے مراد حضرت عیسیٰ ؑ ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی کسی بیوی سے اُس کے اپنے مادۂ منویہ کے ذریعے سے پیدا ہونے والے کوئی صُلبی بیٹے تھے۔اُن کے متعلق یہ دعویٰ کوئی بھی نہیں کر سکتا۔ زمین و آسمان کا کوئی آدمی یا کوئی اور مخلوق اللہ تعالیٰ کے کسی عورت (یا مؤنث جوڑے)کے ساتھ کسی جنسی ملاپ کے نتیجے میں کبھی بھی پیدا نہیں ہوئی، بلکہ اللہ تعالیٰ کی تو کوئی بیوی ہی نہیں ۔وہ تو اپنی نوع کایکتا فرد ہے۔وہ خداؤں کے کسی نام نہاد خاندان یا جنس کا رُکن نہیں۔اس طرح کی کسی نوع کا سرے سے وجود ہی ممکن نہیں۔ انسان فانی ہے اور ایک فانی انسان کا باپ بھی لازماً فانی ہونا چاہیے۔ اب بھلاکون یہ سوچ سکتا ہے کہ(معاذاللہ، خاکم بدہن) اللہ بھی فانی ہو سکتا ہے؟ قرآن کریم کی سورۃ الرحمن(۵۵) میں بیان کیا گیا ہے: کُلُّ مَنْ عَلَیْْہَا فَانٍ(۲۶) وَیَبْقَی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ(۲۷):یعنی’ دُنیا کی ہر چیز فنا ہونے والی ہے اور خداے ذوالجلال ولاکرام کا وجود باقی رہے گا۔‘بائبل میں انسانوں کے لیے’ خدا کا بیٹا‘ کے الفاظ کا استعمال اِتنا عام ہے کہ اس کا شمار بھی مشکل ہے۔یہاں پر اگر یہ بعد کے کسی مرتب کا اضافہ نہ ہو تو لفظ ’بیٹا‘ یہاں اس مفہوم میں استعمال ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں نمایاں طور پر ایک غیر معمولی طریقے سے وجود بخشا تھا،اور انھیں متعدد معجزات عطا فرمائے تھے، تاکہ بنی اسرائیل کے پاس انھیں ردّ کرنے یا ان کا انکار کرنے کا کوئی عذر یا وجہ جواز باقی نہ رہ جائے۔ تاہم یہ بات واضح طور پر ذہن نشین رہے کہ یہ ساری عبارت محض ایک تمثیل ہے نہ کہ اپنے تمام اجزا کے اعتبار سے کوئی بیانِ امرِ واقعہ۔

۳۵؂ ۔ ’انٹرنیشنل بائبل کمنٹری‘ (ٹی پی آئی بنگلور، ۲۰۰۴، ص ۱۳۷۹) میں اس تمثیل کی تشریح ان الفاظ میں کی گئی ہے:

This is an updated version of the Song of the Vineyard in Isa. 5:1-7, where the owner is God and the vineyard is Israel that, in spite of care and cultivation by the owner, produces only wild grapes. In this version tenants are added who are to care for the vineyard and are responsible for producing the fruits for the owner. These tenants are the religious leaders whose responsibility is to nurture spiritual growth and fruitfulness among the people. This is the fruit the owner\'s servants, the prophets, are sent to collect. The mistreatment of the prophets of the past by beating, killing, and stoning is well attested (Jer. 20:2; 26:21-23; 2Chr. 24:19-21) and was often referred to by Jesus (5:12; 22:6; 23:30-37). Now God has sent God\'s son, Jesus.
یہ کتاب یسعیاہ ۵:۱ تا۷ کے تاکستان کے گیت‘ کی اصلاح شدہ صورت ہے، جہاں مالک اللہ تعالیٰ ہے اور ’تاکستان‘ اسرائیل ہے، جو مالک کی دیکھ بھال اور کاشت کے باوجود جنگلی انگوروں کے علاوہ کوئی پیداوار نہیں دیتا۔ موجودہ بیان میں ’ٹھیکیدار باغبانوں‘ کا اضافہ کیاگیاہے، جنھوں نے تاکستان کی دیکھ بھال کرنا ہے اور جو مالک کے لیے پھل پیدا کرنے کے ذمے دار ہیں۔ یہ ٹھیکیدار مذہبی رہنما ہیں جن کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ لوگوں کی روحانی نشو و نما اور بار آوری کے لیے کوشش کریں۔ یہ وہ پھل ہے، جسے اکٹھا کرنے کے لیے مالک کے خادموں یعنی انبیا کو بھیجا گیا ۔ ماضی کے ان انبیا سے بد سلوکی اور ان کی مارپیٹ، قتل اور سنگساری کے کافی شواہد موجود ہیں (یر میاہ ۲۰:۲، ۲۶:۲۱ تا ۲۳، ۲۔ تواریخ ۲۴: ۱۹تا ۲۱) اور اس کا حضرت عیسٰی ؑ نے بھی بار بار حوالہ دیا ہے (۵: ۱۲؛ ۲۲: ۶؛ ۲۳: ۳۰ تا ۳۷) ۔ اب خداوند نے خدا کا بیٹا عیسٰی ؑ بھیجا ہے۔

۳۶؂ ۔ ’کتابِ مقدس‘، انجیل متی ۲۱: ۳۳ تا ۴۰۔

۳۷؂ ۔ رومی جرنیل ٹائیٹس ’Titus‘(جوبعد میں ۷۹ ء میں رومن ایمپائر کا شہنشاہ بنا اور ۸۱ء میں اپنی وفات تک شہنشاہ رہا)کے ہاتھوں ۷۰ء میں یروشلم کی تباہی کے موقع پریہ عملی طور پر سچ ثابت ہوا۔ حضرت عیسیٰ ؑ نے ہیکل اور یروشلم کی اس تباہی کی پہلے سے پیش گوئی کر دی تھی، جیساکہ ان کا ارشاد ہے:’تُو ان بڑ ی بڑی عمارتوں کو دیکھتا ہے؟ یہاں کسی پتھر پر پتھر باقی نہ رہے گا، جو گرایا نہ جائے۔‘(’کتابِ مقدس‘ ، مرقس کی انجیل، ۱۳: ۲)۔

۳۸؂ ۔اس لفظ ’دوسرے‘ کے لیے اصل یونانی لفظ ’ایلوس‘ (allos)ہے، جس کے معنی ہیں ’کوئی اور ‘ (else)یعنی مختلف (متعدد اطلاقات کے لحاظ سے)]’سڑونگز ڈکشنری آف دی گریک ٹسٹامنٹ‘، اندراج ۲۴۳ ،صفحہ ۱[۔

۳۹؂ ۔ ’دوسرے باغبانوں ‘ سے مراد ہے ’ایک مختلف ٹھیکیدار‘، جس کا اشارہ اولادِ اسماعیل ؑ کی طرف ہے جو ایک ’دوسری قوم‘ ہیں،جیسا کہ آیت ۴۳ میں درج ہے: ’اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہی تم سے لے لی جائے گی اور اس قوم کو، جو اس کے پھل لائے ،دے دی جائے گی۔‘

۴۰؂ ۔ یہ حضرت ہاجرہ اور ان کے فرزند حضرت اسماعیل ؑ کے مکے میں آباد کیے جانے کی طرف صریح اشارہ ہے۔ اس حوالے سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی یہ تمثیل نبوت کے اولادِ اسرائیل سے اولادِ اسماعیل ؑ کی طرف منتقل کیے جانے سے متعلق ہے۔ یہ بھی ایک تمثیلی بیان ہے۔

۴۱؂ ۔ یہودی اپنے آپ کو ’چنی ہوئی قوم‘ (Chosen people)سمجھتے ہیں۔ اگر ’خدا کی بادشاہی‘ یعنی لوگوں کی امامت ان کے قبیلے سے باہر منتقل ہو جائے اور کسی ایسے ’دوسرے‘کو تفویض کر دی جائے جو اسرائیلی نہ ہو، حالانکہ یہ ہو بھی ’خدا کا عمل‘ ، تو یہ ان کی نگاہ میں ’عجیب‘ ہی ہوگا۔

۴۲؂ ۔ ’کتابِ مقدس‘، انجیل متی ۲۱: ۴۱ تا ۴۳۔

______________

B