آیت کا دوسرا حصہ ہے ’اُس کے ہونٹ سوسن ہیں جن سے رقیق مُر ٹپکتا ہے‘۔’ہونٹ‘ کے لیے عبرانی میں ’شفہ‘ کا لفظ آیاہے جس کے معنی ’سٹرونگ کی ڈکشنری‘ میں ’گفتگو، الفاظ اور بات چیت‘درج کیے گئے ہیں۔ اگلااَہم لفظ’سوسن‘ ہے اور ’سٹرونگ کی ڈکشنری‘ کے اندراج۷۷۹۹ میں اس کے معنی ہیں: ’چمک دار، خوش ہونا اور خوشیاں منانا ‘ ۔اگلا اہم لفظ’ٹپکنا‘ ہے۔ اس کے لیے عبرانی میں ’نطف‘ کا لفظ آیا ہے۔ ’سٹرونگ کے لغت‘ کے اندراج۵۱۷۹کے تحت اس کے معنی ہیں: ’قطروں کی صورت میں گرنا ‘۔اس کے مجازی معنی ’الہام کے ذریعے کلام کرنا یا پیشین گوئی کرنا‘ بیان کیے گئے ہیں۔ آخری اہم لفظ ’مُرّ‘ ہے۔ ’سٹرونگ‘ کے اندراج ۴۷۵۳کے تحت اس کے معنی ہیں: ’کڑوا ہونا یا بنانا‘۔اصل عبرانی الفاظ کی لغوی تحقیق کو سامنے رکھتے ہوئے آیت کے اس حصے کا مفہوم کچھ اس طرح بنتا ہے:
اُس کے ہونٹ سوسن کے پھول کی طرح چمک دار اور خوب صورت ہیں۔ ان سے جو پُرمَسَرَّت، مبارک اور روشن الفاظ برآمد ہوتے ہیں، و ہ سراسر الہام اور نبوت پر مبنی ہیں۔ (یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ محمدرسول اللہﷺ کے منہ سے عملاً روشنی سی نکلتی دکھائی دیتی تھی)۔
ہندؓ بن ابی ہالہ بیان کرتے ہیں : ’ آپؐ کا منہ یاقوتوں بھرے بغچے کی مانند تھا‘۔ ’مواہب لدنیہ‘ میں ابو قرصانہؓکی والدہ اور خالہ کا بیان ہے: ’ہم نے آپؐ کے منہ سے ایک قسم کی روشنی نکلتے ہوئے دیکھی ہے‘۔’ سُنن دارمی‘ میں حضرت ابنِ عباسؓ کا بیان ہے کہ’ آپؐ کے سامنے کے دانتوں کے درمیان تھوڑا تھوڑا فاصلہ تھا، جس سے آپؐ کے دانتوں میں سے ایک قسم کی روشنی کی شعاعیں نکلتیں‘۔ ’محسن انسانیت‘ میں حضرت انسؓ کی ایک روایت مذکور ہے کہ’ جب آپؐ کلام فرماتے تو ایک قسم کی روشنی نکلتی دکھائی دیتی‘۔ ’شمائل ترمذی‘ میں حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ’ آپؐ کی گفتگو میں تیزی نہیں ہوتی تھی بلکہ آپؐ آہستہ آہستہ اور الگ الگ الفاظ ادا کرتے ، کہ پاس بیٹھنے والا بآسانی زبانی یاد کر سکتا‘۔ اس گفتگو سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ پیشین گوئی کا یہ حصہ صرف اور صرف محمدرسول اللہﷺکی ذات پر صادق آتا ہے۔
پیشین گوئی کی آیت ۱۴ میں بیان کیا گیا ہے:’اُس کے ہاتھ زبر جد سے مُرصَّع سونے کے حلقے ہیں۔ اُس کا پیٹ ہاتھی دانت کا کام ہے جس پر نیلم کے پھول بنے ہیں‘۔
آیت کا پہلا حصہ ہے:’ اُس کے ہاتھ زبر جد سے مرصع سونے کے حلقے ہیں‘۔’ہاتھ‘ کے لیے عبرانی میں ’ید‘ کا لفظ آیا ہے۔ جس کے معنی ہیں’ کھلا ہوا ہاتھ ‘۔جو طاقت، اقتدار اور وسائل پر دلالت کرتا ہے۔ جبکہ ’بند ہاتھ‘ کے لیے عبرانی میں ’کف‘ کا لفظ استعمال ہوتاہے۔ کھلے اور پھیلے ہوئے ہاتھ قوت، اقتدار اور سخاوت کی علامت ہوتے ہیں۔
آیت کے اس حصے کا اگلا اہم لفظ’سونا‘ ہے جس کے لیے عبرانی میں’فاز یا فیض‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ’سٹرونگ کے لغت‘ کے اندراج۶۳۳۷ کے تحت اس کے معنی ہیں ’دریا، ندی، خالص‘۔ اسی مناسبت سے خالص اور عمدہ سونے کو بھی ’فاز‘ کہتے ہیں۔ ’حلقے‘ کے لیے عبرانی میں ’جلیل ‘ کا لفظ آیا ہے۔ اصل عبرانی الفاظ کے مفہوم و معنی کے پیشِ نظر اس آیت کا ترجمہ کچھ اس طرح ہو گا:
مجازاً اُس کے پھیلے ہوئے ہاتھ اُس کے ذہن، قوت، اقتدار اور سخاوت کی علامت ہیں۔عملی اور ظاہری طور پر وہ صاف ، چمک دار، نرم، ملائم اور سونے کی طرح قیمتی ہیں۔ اُس کی اُنگلی میں ایک انگوٹھی ہوتی ہے جس میں بڑی خوبصورتی سے ایک نگینہ جڑا ہے۔
اگرچہ حضرت عیسٰیؑ کے ہاتھوں کے اوصاف تاریخ میں کہیں محفوظ نہیں، لیکن محمدرسول اللہﷺکے ساتھیوں نے آپؐ کے ہاتھوں تک کے خدوخال کی تفصیلات بیان کرکے تاریخ کے اوراق کو قیمتی بنانے میں ذرا سی بھی کوتاہی نہیں فرمائی۔ہندؓ بن ابی ہالہ کہتے ہیں: ’آپؐ کی کلائیاں لمبی، ہتھیلیاں بڑی ، اُنگلیاں مناسب حد تک دراز تھیں‘(’محسن انسانیت‘ از نعیم صدیقی،ص۸۷)۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں: ’میں نے کبھی کوئی ایسا باریک یا موٹا ریشم نہیں چھوا، جو محمدرسول اللہﷺ کی ہتھیلی سے زیادہ ملائم ہو‘(’صحیح مسلم‘، حدیث ۲۳۳۰)۔ یہی بات حضرت یزیدؓ بن اسودنے ’مسند احمد‘ میں اور ابو حُجیفہؓ نے ’بخاری‘ میں بیان کی ہے(’منتقی الاخبار‘، جلد اول، صفحہ۴۴۰تا۴۴۱)۔ جہاں تک آپؐ کے پھیلے ہوئے ہاتھوں کی قوت کا تعلق ہے تو یہ آپؐ کی جسمانی قوت اورآپؐ کے اقتدار دونوں کی دلالت کرتے ہیں۔
رُکانہ قریش کا ایک زورآور پہلوان تھا۔ محمدرسول اللہﷺ نے اُسے فرمایا : ’اگر میں تمھیں پچھاڑ دوں تو کیا تم یہ بات مان لو گے کہ جو چیز میں پیش کرتا ہوں وہ سچ ہے‘۔ اُس نے کہا ’ہاں‘۔ آپؐ نے فرمایا ’ کھڑا ہو، تاکہ میں تجھے پچھاڑ دُوں‘۔ رُکانہ کھڑا ہو کرآپؐ کی طرف آیا، آپؐ نے اُسے پچھاڑ دیا۔ آپؐ نے جب اُسے پکڑا تو وہ آپؐ کے ہاتھ میں بالکل بے بس ہو گیا۔ اُس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ یہ کیسے ممکن ہو گیا۔ محمدرسول اللہﷺ نہ تو کبھی اکھاڑے میں گئے نہ کبھی پہلوانی کے کرتب سیکھے اور نہ کبھی وزرشیں کیں، پھر اُنھوں نے مجھے کیسے پچھاڑ دیا؟ چنانچہ اُس نے آپؐ سے کہا کہ میں یہ شکست نہیں مانتا آپؐ دوبارہ کشتی لڑیں۔ آپؐ نے اُسے پھر پچھاڑ دیا۔ اُس نے کہا: ’محمد! خدا کی قسم یہ انہونی بات ہے کہ تم مجھے پچھاڑ رہے ہو‘۔
یہاں آپؐ کی جسمانی قوت کی ایک اور مثال درج کی جاتی ہے۔حضرت محمد[ﷺ] ابھی لڑکے ہی تھے کہ عبداللہ بن جدعان کے ہاںآپؐ کو کھانے کی دعوت پر بلایا گیا۔ ابو جہل، جو کہ آپؐ کا ہم عمر تھا، آپؐ سے جھگڑنے لگا۔آپؐ نے اُسے اُٹھا کے زمین پر پٹخ دیا اور اُس کا گھٹنا زخمی ہو گیا۔ زندگی بھر اُس کے گھٹنے پر اِس زخم کا نشان رہا۔
جسمانی قوت کے علاوہ جہاں تک آپؐ کے اقتدار و اختیار کا تعلق ہے تو سامنے کی بات ہیکہ آپؐ نے اپنی زندگی کا آغاز ایک یتیم اور بے سہارا شخص کی طرح کیا ، لیکن جب آپؐ اس دُنیا سے رُخصت ہوئے تو نہ صرف پورے جزیرہ نماے عرب پر آپؐ کا اقتدار قائم ہو چکا تھا بلکہ اس کی حدود سے باہر بھی ہر سمت اسلامی فتوحات کادائرہ پھیلتا جا رہا تھا۔ منٹگمری واٹ لکھتا ہے:
(...)۔ دوسری بات محمد[رسول اللہﷺ]کی سیاسی بصیرت ہے۔ قرآن مجید میں پایا جانے والا نظریاتی ڈھانچہ محض ایک خاکہ تھا۔ اس خاکے میں ٹھوس پالیسیوں کی تعمیر اور مستقل اداروں کو سہارا دینا ضروری تھا۔ اس کتاب میں محمد[رسول اللہﷺ] کی دُوربینی، سیاسی اور عسکری حکمتِ عملی اور اُن کی معاشرتی اصلاحات پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔آپؐ کی چھوٹی سی ریاست کے پھیل کر ایک عالمی سلطنت بن جانے،آپؐ کے معاشرتی اداروں کے مختلف ماحول میں ڈھل جانے اور اُن کے تیرہ صدیوں تک لگاتار جاری رہنے سے ان معاملات میں آپؐ کی دانش ظاہر ہوتی ہے۔(....)۔جتنا، جتنا کوئی شخص محمد[رسول اللہﷺ]اور ابتدائی اسلام پر غور کرتا ہے؛ اُتنا ، اُتنا ہی اُن کی کامرانیوں کی وُسعت پرانگشت بدنداں رہ جاتا ہے۔ (....)۔اگرآپؐ ایک مردم شناس پیش بین، ایک ماہر سیاستدان اور ایک ماہر منتظم کی صلاحیتوں سے مالامال نہ ہوتے اور ان سب باتوں کے پیچھے آپؐ کا خد اپر توکل اور یہ مضبوط ایمان نہ ہوتا کہ آپؐ کوخداوند تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے تو تاریخ انسانی کا یہ عظیم اور شاندار باب کبھی نہ لکھا جا سکتا۔
’پھیلے ہوئے ہاتھوں‘ کی تیسری دلالت’سخاوت‘ ہے ۔ یہ ایک ایسی مشہور زمانہ حقیقت ہے جس کے لیے کوئی مثال دینا سورج کو چراغ دِکھانے کے مترادف ہے۔ مختصراً یہ کہ بے انتہا سخی اور ایثار کرنے والے تھے اور آپ ؐ نے کبھی کسی سائل کو خالی ہاتھ نہیں لوٹایا(تفصیل کے لیے راقم الحروف کی کتاب 'Muhammad (pbAh) Foretold in the Bible by Name' کے صفحات۷۳تا۷۴ملاحظہ فرمائیں)۔
یہ جو کہا گیا ہے کہ’اُس کے ہاتھ زبرجد سے مرصع سونے کے حلقے ہیں‘ تو حضرت ابن عمرؓ سے ’شمائل ترمذی‘ میں روایت ہے کہ ’آپؐ نے سونے کی ایک انگوٹھی لی جسے آپؐ دائیں ہاتھ میں پہنتے تھے۔ دیکھا دیکھی لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں اپنے ہاتھوں میں پہننا شروع کر دیں(جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ’مرد کے لیے سونا پہننا‘حرام قرار پایاتو) آپؐ نے انگوٹھی اُتار دی اور صحابہ کرامؓ نے بھی آپؐ کے اتباع میں اپنی اپنی انگوٹھیاں اُتار دیں۔’صحیح مسلم‘ میں حضرت انسؓ بن مالک سے روایت ہے کہ’(پھر) محمدرسول اللہﷺکے ہاتھوں میں ایک انگوٹھی چاندی کی ہوتی تھی۔ اُس میں ایک حبشی پتھر یا فیروزہ جڑا تھا‘۔حضرت عیسٰیؑ کے ہاتھوں کی کسی اُنگلی پر انگوٹھی کی موجودگی کے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
اب آیت کے صرف ایک فقرے پر گفتگو باقی رہ گئی ہے کہ’اُس کا پیٹ ہاتھی دانت کا کام ہے ،جس پرنیلم کے پھول بنے ہیں‘۔پہلے ہم اس فقرے کے چند اہم عبرانی الفاظ کے ’سڑونگ کی ڈکشنری‘ سے معنی متعین کرتے ہیں (جو الفاظ بذاتِ خود واضح ہیں اُن کی لغوی تحقیق کی ضرورت نہیں ہے)۔پیٹ کے لیے عبرانی میں ’معا‘ کالفظ استعمال ہوا ہے، جس کے معنی ’انتڑیاں، پیٹ اور نرم و ملائم ہونا‘ بیان کیے گئے ہیں۔’کنگ جیمز ورشن‘ میں آگے ’چمک دار‘ کا لفظ ہے جس کے لیے عبرانی لفظ’عشات‘ ہے۔ اس کے معنی’ چمک دار ہونا، پالش کرنا، غوروفکر سے دریافت کرنا، چمکنا اور سوچنا‘ ہے۔ ان الفاظ و معنی کی روشنی میں آیت کے اس حصے کا مطلب ذیل میں درج ہے:
اُس کا پیٹ نرم اور چمک دار ہے۔ یہ ہاتھی دانت کی طرح چمکیلا سفید ہے۔ اس پر سبزی مائل نیلگوں، بھورے بھورے بال ہیں جو کسی سفید، چمک دار اور نرم و ملائم سطح پر نیلم کے نگینوں کی طرح ہیں۔
ان الفاظ میں محمدرسول اللہﷺ کے جسم کے متعلقہ حصوں کی ہو بہو تصویر پیش کی گئی ہے۔ ’پلپٹ کی تفسیر‘ میں اِنھی معنوں کی عکاسی کی گئی ہے، لیکن ان کا اطلاق حضرت عیسٰیؑ پر کرنے کے لیے کوئی دلیل موجود نہیں، جبکہ محمدرسول اللہﷺ سے متعلقہ شمائل متعدد احادیث میں وضاحت سے درج ہیں۔
حضرت ابو طفیلؓ ’ صحیح مسلم‘ میں بیان کرتے ہیں : ’آپ کی رنگت سفیدتھی اور چہرہ پُرکشش‘۔ حضرت علیؓ ’سُنن ترمذی‘ میں فرماتے ہیں کہ ’محمدرسول اللہﷺ ’’اجرد‘‘ تھے یعنی آپؐ کے سینۂ مبارک اور پیٹ پر بال نہیں تھے بلکہ آپؐ ’ذُوالمسربہ‘تھے یعنی آپؐ کے سینہ مبارک سے ناف تک بالوں کی پتلی سی لکیر تھی‘۔’الرحیق المختوم‘ میں ’خلاصۃ السیر‘ کے حوالے سے درج ہے:
محمدرسول اللہﷺ کے سینۂ مبارک سے ناف تک بالوں کی ہلکی سی لکیر تھی۔ اس کے علاوہ آپؐ کے سینۂ مبارک اور پیٹ پر کوئی بال نہ تھا۔آپؐ کا سینۂ مبارک اور پیٹ بالکل ہموار تھے۔
اس طرح یہ الفاظ پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ حضرت سلیمانؑ کے محبوب و ممدوح کون ہیں۔ ان الفاظ کا اپنے معنی اور دلالتوں کے ساتھ صرف اور صرف محمد رسول اللہ ﷺ ہی پر ہو بہو اطلاق ہوتا ہے۔ حضرت عیسیٰؑ سے ان کا دُورکا بھی کوئی تعلق نہیں بنتا۔
پیشین گوئی کی آیت نمبر۱۵ میں بیان کیا گیا ہے :’اُس کی ٹانگیں کندن کے پایوں پر سنگِ مرمرکے ستون ہیں؛ وہ دیکھنے میں لبنان اور خوبی میں رشکِ سرو ہے‘ ۔
اس آیت میں دو بالکل الگ الگ بیانات ہیں۔ پہلا بیان’محبوب کی ٹانگوں‘ سے متعلق ہے اور دوسرا’اُس کے پیکر اور سراپا‘ سے متعلق۔مسیحی مفسرین نے اس پر دلچسپ خامہ فرسائی فرمائی ہے جوہماری کتاب کے ص۷۹تا ۸۲ پر دیکھی جا سکتی ہے۔ ہندؓ بن ابی ہالہ سے ’شمائل ترمذی‘ میں روایت ہے:
آپؐ کے پاؤں کا درمیانی حصہ پُر گوشت اور اُبھراہوا تھا۔ پاؤں کے تلوے قوس کی مانند تھے۔ آپؐ کے پیر نرم و ملائم تھے۔ ان کی صفائی اور ملائمت کی وجہ سے پانی کے قطرے ان پر ٹکتے نہ تھے۔ چلتے تو مضبوطی سے قدم اُٹھاتے، ذرا سا آگے کو جھکے ہوئے، قدم پوری طرح جما کر احتیاط اور نرمی سے زمین پر رکھتے۔ تکبر سے نہ چلتے، قدم ذرا تیز، لمبے اور نپے تلے ہوتے، چلتے تو یوں لگتا جیسے نشیب کی طرف اُتر رہے ہیں۔
ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ’آپؐ اتنے اُجلے ،خوبصورت اور سفید تھے جیسے آپؐ کا بدن چاندی میں ڈھلا ہو‘۔ سفید رنگ کا عام طور پر چاندی اور سنگِ مرمر سے موازنہ کیا جاتا ہے۔ یہاں حضرت سلیمانؑ اپنے محبوب کی ٹانگوں کو جو سنگِ مرمر سے تشبیہ دے رہے ہیں تو یہ دراصل محمدرسول اللہﷺ کی ہو بہو عکاسی ہے۔ ویسے سنگِ مرمر مضبوطی کی بھی علامت ہے جو،محمدرسول اللہﷺ کی ٹانگوں کی اندرونی مضبوطی اور بیرونی حسن کی عکاسی ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ’محمدرسول اللہﷺ یوں تیز چلتے جیسے زمین آپؐ کے لیے لپٹتی جا رہی ہو، آپؐ کا ساتھ دینے کے لیے ہم کو محنت سے تیز چلنا پڑتا، لیکن آپؐ پر تھکاوٹ تک کا اثر نظر نہیں آتا تھا ‘۔ جابرؓبن سمرہ کہتے ہیں کہ’محمدرسول اللہﷺ کی دونوں پنڈلیاں پتلی تھیں‘۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ’ محمدرسول اللہﷺکے ہاتھ اور پاؤں بھاری اور بڑے تھے‘۔
اب ذرا ان الفاظ و احادیث کی تصویر کھینچیں توکچھ اس طرح بنتی ہے:
پنڈلیاں چاندی اور سنگِ مرمر کی طرح گوری گوری، پتلی ہونے کی وجہ سے اُوپر سے نیچے تک یکساں موٹائی، ان کی قوت سنگِ مرمر کی قوت و صلابت کی آئینہ دار، پاؤں بالکل کُندن کے پائے، موٹے، بھرے بھرے، سنہری رنگ ،نرم وملائم اتنے کہ پانی کی بُوند بھی ان پر ٹھہر نہ پائے، جیسے سونے پر پانی کے قطرے نہیں ٹھہرتے۔پنڈلیاں ننگی نہ رکھتے تھے اس لیے گوری سفید تھیں۔ پاؤں میں ایک طرح کے کھڑاؤں پہنتے تھے جو پاؤں کو ڈھک نہیں سکتے تھے۔ ظاہر ہے جسم کے جو حصے ننگے ہوتے ہیں اُن کا رنگ سنہری اور سانولا ہوتا ہے، اس طرح آپؐ کے پاؤں اور پنڈلیاں حضرت سلیمانؑ کے الفاظ’اُس کی ٹانگیں کندن کے پایوں پر سنگِ مرمر کے ستون ہیں‘کی مکمل عکاسی کرتی ہیں۔
آیت کا دوسرا حصہ ہے’وہ دیکھنے میں لبنان اور خوبی میں رشک سروہے‘ ۔ اس پر بھی مسیحی علمانے خوب طبع آزمائی کی ہے۔ جسے ہماری کتاب کے صفحہ ۸۶تا۸۸پر ملاحظہ فرمایا جا سکتا ہے۔ لیکن ہم یہاں صرف اُمِ معبدؓ کے بعض الفاظ نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ویسے ہم نے اس موضوع پر مختلف مقامات پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔’مستدرک حاکم‘ میں حضرت اُم معبدؓ کا آپؐ کی ہجرتِ مدینہ کے حوالے سے بیان ہے:
میں نے ایک آدمی دیکھا: چمک دار رنگ، روشن چہرہ، دلکش ڈیل ڈول،(....)، دراز گردن، سیاہ و سفید آنکھیں، خاموش ہو تو باوقار ، سنجیدہ اور پر تمکنت، بولے تو دل اُس کی طرف کھنچے اوروہ سب پر چھا جائے۔ دُور سے دیکھو تو روشن اور حسین، قریب ہو تو دلکش اور شیریں[یہ تشبیہ کوہِ لبنان کی خوبصورت وادیوں، برف پوش چوٹیوں کی عکاسی کرتی ہے]، گفتار شیریں، الفاظ واضح ، دو ٹوک اور غیر مبہم، نہ اتنا اختصار کہ مفہوم پورا نہ ادا ہو پائے، نہ اتنی لفاظی کہ بات اُلجھ کر رہ جائے۔ اندازِ کلام اتنا حسین کہ جیسے سلکِ مروارید سے موتیوں کے دانے ایک ایک کر کے گر رہے ہوں۔ دو شاخوں کے درمیان ایک ایسی شاخ جو سب سے زیادہ خوش منظر، سرسبز، شاداب اور تروتازہ ہو، وہ حکم دے تو ساتھی اطاعت کو لپکیں، نہ تُند خو اور نا شائستہ، نہ مہمل اور بے سروپااور نہ معقولیت کی حدود سے تجاوز کرنے والا۔
اس جملے کی دوسری تشبیہ ہے ’رشک سرو‘۔ اس کے لیے انگریزی میں ’Excellent as cedars‘ کے الفاظ ہیں۔ ’Cedars‘ دیودار کے درخت کو کہتے ہیں۔ اس کاخوبصورت رنگ، اس کی ریشم جیسی ملائمت اور نرمی، اس کے ریشوں کی بناوٹ کا حسن،اس کی مضبوطی اور پائیداری، اس کی دیمک اور بوسیدگی سے محفوظیت، اس کی دائمی ہلکی ہلکی اور شیریں مہک، اس کی جڑوں کی زمین میں مضبوط گرفت، اس کی لمبی عمر، اس کی شاخوں کا وسیع پھیلاؤ، اس کی تسکین بخش چھاؤں اور بلند و بالاقامت،اسے اور اس کی لکڑی کو قدرو قیمت اور خصوصیات میں بے مثال بنا دیتے ہیں۔
لغوی تحقیق کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم اسے ان الفاظ کا جامہ پہنا سکتے ہیں:
قبیلۂ قیدار کا یہ عظیم الشان چیدہ اور ممتاز شخص اور اُس کی زبان سے ادا ہونے والا اللہ تعالیٰ کا مؤثر، ناقابل تسخیر اورشیریں کلام، نفع بخش ،فیضِ عام کا سرچشمہ اور دیودار کے درخت کی طرح مجسم حسن و خوبی ہے۔وہ اتنا باوقار اور پیارا آنکھ کا تارا ہے جیسے خوشبو میں بسی، خوش منظر، مضبوط اور توانا، نرم وملائم دیودار کی لکڑی ہوتی ہے۔ اُس کی جڑ(یعنی اُس کے پاؤں) کی گرفت مضبوط ہے۔ اُس کی شاخیں(یعنی ااُس کی تعلیمات کی تاثیر اور اثر آفرینی)دُور و نزدیک تک پھیلی ہوئی ہیں، وہ بے انتہا دل نواز، دل خوش کن اور چاہت کا مرکز ہے۔
یہاں پندرھویں آیت ختم ہوتی ہے۔ اب عبارت کی آخری یعنی سولھویںآیت پرگفتگو کی جائے گی۔بائبل کی اس عبارت کی آیت سولہ اس پیشین گوئی کی اہم ترین آیت ہے:
اُس کا منہ ازبس شیریں ہے، ہاں! وہ سراپا عشق انگیز ہے۔ اے یروشلم کی بیٹیو! یہ ہے میرا محبوب، یہ ہے میرا پیارا۔
آیت کا پہلا جملہ ہے’اُ س کا منہ ازبس شیریں ہے‘۔ بائبل کے قریباً تمام مفسرین نے لفظ ’منہ‘ سے ’کلام‘ مراد لیا ہے۔ خود بائبل میں بھی متعدد مقامات پر ’منہ یا ہونٹ‘ کے الفاظ ’کلام‘ کے مفہوم میں استعمال ہوئے ہیں مثلاً امثال ۱۶: ۲۱؛ زبور ۴۵: ۲؛ گنتی۳۵: ۳۰؛ ۲۔سموئیل۱: ۱۶؛ ۱۔سلاطین ۱۲: ۲۱۔ ویسے بھی جملے کے الفاظ ’اُس کا منہ ازبس شیریں ہے‘ میں لفظ ’شیریں‘ صاف غمازی کر رہا ہے کہ یہاں صرف ’منہ کا شیریں‘ ہونا ایک بے معنی سی بات ہے۔
محمدرسول اللہﷺکی طرف سے ہمیں دو قسم کا کلام ملا ہے۔ ایک تو ’کتاب اللہ‘ یعنی ’قرآن حکیم‘ ہے اور دوسرے ’اسلامی تہذیب وشریعت سے متعلق آپؐ کے الفاظ‘ ہیں، جو احادیث کی کتابوں میں موجود ہیں۔ جہاں تک احادیث میں بیان کردہ آپؐ کے بیانات کا تعلق ہے تو اُن کے حسن و تاثیر کا یہ حال ہے کہ آج بھی انسان اُنھیں پڑھ کر جھوم جھوم اُٹھتا ہے اور جہاں تک ان میں بیان کردہ تعلیمات اور ہدایات کی وسعت و افادیت کا تعلق ہے تو اُس کے بارے میں بلاخوفِ تردید یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ وہ علمِ انسانی کا بیش قیمت اور بے مثال سرمایہ ہیں۔ ہماری کتاب میں اس کی چند مثالیں درج ہیں جنھیں دیکھ کر ان بیانات کی صداقت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
جہاں تک قرآن حکیم کا تعلق ہے، تو اس کے متعلق پوری دُنیا نے تسلیم کیا ہے کہ وہ ایک بے مثال کلام ہے اور اپنے الفاظ، اپنے مضامین، اپنی آواز اور اپنی تاثیر کے لحاظ سے ایک عظیم الشان معجزہ ہے۔ نمونے کے طور پر چند آیات بھی ہماری مذکورہ کتاب میں درج کر دی گئی ہیں۔ قرآن کی عظمت کی خارجی شہادت کے طور پر بعض مغربی محققین کی عبارات بھی وہیں درج ہیں۔ قرآن کریم کی معجزانہ تاثیر کی مثال کے طور پر طفیلؓ بن عمرودوسی اور حضرت عمرؓ بن خطاب کے اسلام لانے کے واقعات بیان کیے جا سکتے ہیں۔ عتبہؓ بن ربیعہ کی سفارت اور حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے واقعات بھی اس کی ایک عمدہ مثال ہیں۔
آیت کا اگلا عبرانی جملہ ہے ’واکُلُّو محمدیم‘۔ اُردو بائبل میں اس کا ترجمہ کیا گیا ہے: ’وہ سراپا عشق انگیز ہے۔ ’عشق انگیز‘ کے لیے انگریزی تراجم میں ’Lovely‘ یا’Desirable‘ وغیرہ کے الفاظ لکھے گئے ہیں۔ اصل عبرانی بائبل میں آج بھی اس کے لیے ’محمدیم‘ کا لفظ موجود ہے۔ عبرانی عبارت ’واکُلُّو محمدیم‘ (جسے ہم عربی میں ہُوَکُلُّہ، مُحَمّدٌ عَظِیمٌ کہہ سکتے ہیں)کے معنی ہیں ’وہ سراپا محمدِ عظیم ہے‘۔اس سلسلے میں چند باتیں توجہ طلب ہیں:
پہلی بات تو یہ ہے کہ عبرانی بائبل میں یہ واحد مقام ہے جہاں ’محمدیم‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ بائبل میں کسی اور جگہ ’محمدیم‘ کا لفظ نہیں آیا۔
دوسری بات یہ ہے کہ عبرانی لفظ ’محمدیم‘ چھ حروف (م، ح، م، د، ی، م)پر مشتمل ہے۔ آخری دو حروف (’ی‘ اور’م‘)جمع کی علامت ہیں۔ جمع کا یہ صیغہ تعداد کی کثرت کے لیے نہیں، بلکہ عظمت و تکریم کے لیے آیا ہے۔ موقع و محل کی مناسبت سے اس کی ایک نہایت عمدہ مثال لفظ ’الوہیم‘ہے جو عبرانی بائبل میں اللہ تعالیٰ کے نام کے لیے مستعمل ہے۔ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ ’یہودی‘ ایک توحید پرست قوم ہے جس کا اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر غیر متزلزل ایمان ہے۔ دیکھنے کی بات ہے کہ اس لفظ کا واحدکا صیغہ ’الو ہہ‘ بھی موجود ہے جو بکثرت استعمال بھی ہوتا ہے، لیکن بائبل میں بالعموم اس کا جمع کا صیغہ یعنی ’الوہیم‘ ہی جمع تعظیمی کے طور پر مستعمل ہے۔ جمع تعظیمی کی یہی ایک مثال نہیں۔ بائبل میں ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں جن میں خداوند تعالیٰ کے علاوہ بھی جمع تعظیمی کا یہ لاحقہ استعمال کیا گیا ہے۔ اسی آیت میں ’اُس کا منہ ازبس شیریں ہے‘ کے جملے میں’ازبس شیریں‘ یا ’بہت ہی شیریں‘کے لیے عبرانی بائبل میں ’ممتقیم‘ کا لفظ آیا ہے جو ’ممتق‘ کی جمع ہے اور جس کے معنی ہیں ’شیریں‘ کی جمع یعنی’شیرینیاں‘۔بائبل کے انگریزی مترجمین نے اس کے لیے (Most sweet) کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس طرح یہاں یہ جمع کا صیغہ صِفَتِ ’شیریں‘ کی عظمت کاآئینہ دار ہے نہ کہ کثرتِ تعداد کا۔ یہ اس بات کی دلالت کر رہا ہے کہ اُس کے الفاظ میں ہر طرح کی ’شیرینی اور خوبصورتی‘ انتہائی کامل صورت میں موجود ہے۔ بائبل میں بعض مقامات کے نام مثلاً ’جیریزیم‘ اور’ مضریم‘ وغیرہ بھی اسی کی مثالیں ہیں۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ان مقامات پر الفاظ اگرچہ جمع تعظیمی کے استعمال ہوئے ہیں لیکن اُن کے لیے افعال وضمائر واحد کے صیغے میں لکھے گئے ہیں۔ زیر بحث جملے میں بھی یہی صورت حال ہے۔ یہاں ’وہ سراپا عشق انگیز ہیں‘ کے الفاظ نہیں آئے بلکہ ’وہ سراپا عشق انگیزہے‘کے الفاظ درج ہیں۔ جس کے اصل عبرانی الفاظ کے معنی ہیں ’وہ سراپا محمد عظیم ہے؛محمد مصطفٰی ہے‘۔یہ محمدرسول اللہﷺ کے لیے حضرت سلیمانؑ کے احترام و مَحَبَّت کا اِظہار ہے کہ وہ آپؐ کے لیے جمع تعظیمی استعمال کرتے ہیں۔
تیسری بات یہ ہے کہ اگرچہ ’سٹرونگ کے لغت‘ اندارج۲۵۳۰کے تحت اس کا مادہ ’حمد‘ ہے۔ جس کے لفظی معنی ’تحسین و محبت کا مرکز و مورد‘ بنتے ہیں، لیکن یہاں یہ لفظ اسم معرفہ کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ بائبل میں یہ کوئی انوکھی بات نہیں، بلکہ وہاں متعدد اسماے معرفہ بامعنی الفاظ بھی ہوتے ہیں۔ سیاق و سباق اور موقع و محل ہی سے اس بات کا تعین کیا جا سکتا ہے کہ کسی خاص مقام پر یہ لفظ اسم معرفہ کے طور پر استعمال ہو رہا ہے یا ایک عام بامعنی لفظ کے طور پر۔
زیر مطالعہ عبارت میں حضرت سلیمانؑ اپنے ’محبوب‘ کی صفات بیان کرتے ہیں: ’وہ حسین و جمیل ہے، وہ قوت و شوکت والا ہے، دس ہزار پاک باز صحابہؓ کی قیادت کرتے ہوئے اُس کے ہاتھوں مکے کی پر امن اور تاریخ ساز فتح کا عظیم الشان کارنامہ سر انجام پایا ہے،اس میں یہ اور یہ صفات پائی جاتی ہیں، وہ ملک عرب کا باشندہ ہے، اُس کا کلام ازبس شیریں ہے وغیرہ وغیرہ‘۔ ان صفات کا سننے والا فطری طور پر یہ چاہے گا کہ شخص مذکورکی خصوصی شناخت معلوم کرے ۔ چنانچہ حضرت سلیمانؑ اُسے بتاتے ہیں: ’وہ سرتا سر اور ہر لحاظ سے محمد عظیم ہیں جن کے متعلق میں پہلے ہی بیان کر چکا ہوں کہ وہ ملک عرب کے باشندے ہیں اور اُن کے اپنے جد اعلیٰ حضرت اسحاقؑ کے بھائی یعنی حضرت اسماعیلؑ کی نسل سے ہیں‘۔
چوتھی بات یہ ہے کہ معنوی لحاظ سے بھی محمدرسول اللہﷺ سراسر’ محمد‘ یعنی قابل حمدو ستائش ہیں۔
پانچویں بات یہ ہے کہ بعض مسیحی مفسرینِ بائبل ’وہ سراپا عشق انگیز ہے‘ کا اطلاق حضرت عیسیٰؑ پر کرتے ہیں، مثلاً ’تفسیر پلپٹ‘ ،صفحہ۱۳۳۔ لیکن یہ سراسر بے بنیاد دعویٰ ہے، جبکہ انصاف کی بات یہ ہے کہ حضرت سلیمانؑ کے بولے ہوئے الفاظ ’ واکلو محمدیم‘ سے مراد صرف یہی ہو سکتا ہے کہ ’وہ میرا ممدوح و محبوب بعینہٖ محمد عظیم ہے‘۔ ظاہر ہے کہ کوئی ذی شعور اور منصف مزاج قاری اس کا اطلاق حضرت عیسیٰؑ پر نہیں بلکہ محمدرسول اللہﷺ ہی پر کرے گا۔ مزید برآں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ حضرت سلیمانؑ نے کھل کر اپنے ممدوح و محبوب کے اوصاف بھی بڑی وضاحت سے بیان کیے ہیں،جن میں سے کسی کااطلاق بھی حضرت عیسیٰؑ پر نہیں ہوتا، جبکہ یہ تمام اوصاف محمدرسول اللہﷺ پر ہُوبہُو پورے اُترتے ہیں۔
چھٹی اور بڑی اہم بات یہ ہے کہ اگرچہ صیغہ جمع میں لفظ’محمدیم‘ پوری بائبل میں صرف اسی ایک جگہ پر استعمال ہوا ہے، تاہم اس ایک مقام کو چھوڑ کر صیغہ واحد میںیہ لفظ بائبل میں نو دیگر مقامات پر بھی استعمال ہوا ہے۔ ان تمام ۹ مقامات پر نہ تویہ صیغہ جمع میں مستعمل ہوا اور نہ اسم معرفہ پردلالت کرتا ہے، بلکہ اسم یا صفت کے معنی دیتا ہے۔
آیت کا اگلا جملہ ہے ’یہ ہے میر امحبوب، یہ ہے میرا پیارا‘۔ ’محبوب‘ کے لیے عبرانی بائبل میں لفظ ’دَود‘ درج ہے جس کے معنی ہیں ’محبوب اور پیارا چچا‘ ۔اس کے بارے میں ہم شروع میں وضاحت کر چکے ہیں کہ یہ لفظ واضح کر دیتا ہے کہ حضرت سلیمانؑ یہاں اولادِ اسمٰعیلؑ کے کسی فرد کا ذکر کر رہے ہیں۔جس سے وہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ ’میرا یہ محبوب میرے لیے کوئی اجنبی شخص نہیں بلکہ یہ تو میرے ابوالآبا(یعنی حضرت اسحٰقؑ ) کے بھائی(یعنی حضرت اسمٰعیلؑ ) کی نسل سے ہیں‘۔اگر وہ کسی غیر رشتہ دار ’محبوب‘ کا ذکر کرنا چاہتے تو اُنھیں اس مفہوم کے لیے عبرانی میں پایا جانے والا موزوں لفظ ’احاب‘ استعمال کرنا چاہیے تھا۔ پھر اگر حضرت سلیمانؑ کا یہ ’محبوب‘ اُن کی اپنی نسل یعنی یہود سے ہوتا تو اُس کے لیے عبرانی میں الگ سے ایک موزوں لفظ ’یدید‘ موجود ہے۔ حضرت سلیمانؑ ایک شاعر، ادیب اور دانشور کی حیثیت سے معروف تھے۔ الفاظ کا موزوں استعمال اُن کی شناخت تھی۔ اُن پر لازم تھا کہ اگر وہ اپنے کسی ایسے ’محبوب‘ کا ذکر کرنا چاہتے جو اُن کی اپنی نسل یعنی یہود سے تعلق رکھتا ہوتا، تو اُس کے لیے عبرانی لفظ’دَود‘ نہیں بلکہ عبرانی لفظ’یدید‘ استعمال کرتے۔ اس جملے کا آخری لفظ’پیارا‘ (عبرانی+ ر+ ی+ ع= ریع؛ یا ر+ ع = راع) تواس پیشین گوئی کے محمدرسول اللہﷺ پر اطلاق کی مکمل تصدیق کر دیتا ہے۔ ’سٹرونگ‘ نے اندراج ۷۴۵۳ ، ۷۴۶۲ کے تحت اس کے معنی بیان کیے ہیں:
ایک شریکِ کاروبار، رفیق شخص، چاہنے والا پڑوسی، چرواہا، اجنبی یا پردیسی۔
جبکہ رچرڈسن کی ’عبرانی اور آرامی لغت‘(Lexicon) میں اس کے معنی ہیں:
ساتھی، شریک کار، پڑوسی، کسی کا ہم پیشہ، مشترکہ سرحد والا پڑوسی، اجنبی و پردیسی۔
اس طرح حضرت سلیمانؑ اپنی اس پیشین گوئی کو مزید واضح کر دیتے ہیں۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ اُن کا یہ دوست کس نوعیت کا ہے:
۱۔ اُن کا رفیق کار، ساتھی اور ہم پیشہ (محمدیم) اُنھی کی مانند ایک رسول، ایک نبی اور ایک بادشاہ ہے۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ حضرت عیسٰیؑ دُنیاوی اصطلاح میں کبھی بادشاہ نہیں رہے بلکہ طُرفہ تماشا یہ ہے کہ اُن کے ماننے والے تواُن کو رسول یا نبی بھی نہیں مانتے، بلکہ(معاذ اللہ) ’ابن اللہ‘ اور ’خدا‘ قرار دیتے ہیں۔ اس طرح ان الفاظ کا اُن پر اطلاق بالکل خارج از بحث قرار پاتا ہے۔
۲۔ اُن کا یہ ’محبوب‘(محمدیم) حضرت سلیمانؑ کے اپنے ملک کنعان سے تعلق نہیں رکھتا، بلکہ وہ ایک ایسے پڑوسی ملک یعنی ملک عرب کا باشندہ ہے، جس کی سرحدیں ان کی اپنی سرحد کے ساتھ مشترک ہیں۔ یہ ایک ایسی زمینی حقیقت ہے کہ معمولی علم و بصیرت والا کوئی بھی شخص اس کا انکار نہیں کر سکتا۔اس کے برعکس حضرت عیسیٰؑ ، حضرت سلیمانؑ کے اپنے ہم وطن تھے اور اُن پر لفظ ہمسایہ/ پڑوسی کا اطلاق خارج از بحث ہے۔
۳۔ اُن کا یہ ’محبوب‘(محمدیم) نبوت میں اُن کا ہم منصب ہے۔
۴۔ اُن کا یہ ’محبوب‘(محمدیم) ایک لحاظ سے اجنبی ہے، کیونکہ وہ اولادِ اسمٰعیلؑ سے تعلق رکھتا ہے جبکہ حضرت عیسیٰؑ سراسر اُن کے اپنے قبیلے کے اسرائیلی تھے اور اُن پر اجنبی یا پردیسی کا وصف کسی طرح لاگو نہیں ہوتا تھا۔ اگر حضرت سلیمانؑ یہاں حضرت مسیحؑ کا ذکر کرنا چاہتے تو اُنھیں ’یدید‘ کا لفظ استعمال کرنا چاہیے تھا۔یعنی بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والا ’ایک محبوب‘۔
اس موضوع پر تفصیلی گفتگو ہماری انگریزی کتاب 'Muhammad (pbAh) Foretold in the Bible by Name' میں دیکھی جا سکتی ہے۔ یہاں اس کا صرف خلاصہ پیش کیا گیا ہے، جس سے یہ سمجھنے میں کافی مدد ملے گی کہ حضرت سلیمانؑ نے اپنے اس گیت میں واضح طور پر محمد رسول اللہﷺ کی پیشین گوئی فرمائی ہے۔
____________