HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Abdul Sattar Ghauri

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

حضرت سلیمان علیہ السلام کا محمدیم ﷺ (حصہ اول)

باب اول

بائبل کوئی ایک کتاب نہیں، بلکہ متعدد کتب کا مجموعہ ہے۔ یہودیوں کی بائبل کو’ عہد نامۂ قدیم‘ کہتے ہیں۔ اس کی پہلی پانچ کتابوں کا مجموعہ’ تورات‘ کہلاتا ہے جو حضرت موسٰیؑ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ اس ’عہدنامۂ قدیم‘ میں کل اُنتالیس کتا بیں ہیں،جن کی ترتیب و تقسیم مسیحیوں کی بائبل سے کچھ مختلف ہے۔ پروٹسٹنٹ مسیحیوں کی بائبل کل چھیاسٹھ کتب پر مشتمل ہے۔ اِن میں سے اُنتالیس ’عہدنامۂ قدیم‘ میں شامل ہیں اورستائیس ’عہدنامۂ جدید‘ میں ۔ ’عہد نامۂ جدید‘ میں پہلی چار کتابیں، چار انجیلیں ہیں۔ جن کے بعد ’کتابِ اعمال‘ ہے۔ اس کے بعدمختلف ’خطوط‘ ہیں اور آخری کتاب ’مکا شفہ‘ ہے۔ کیتھولک بائبل میں چھیاسٹھ کتب کے علاوہ بعض دیگر ضعیف درجے کی کتابیں بھی شامل ہیں،جنھیں ’اپوکرائفا ‘(Apocrypha)کہا جاتا ہے۔ بائبل کا پہلا حصہ، جو ’عہدنامۂ قدیم‘ کہلاتا ہے، اس کی اصل زبان اکثر وبیش ترعبرانی تھی، لیکن اس میں کچھ چیزیں آرامی زبان میں بھی درج ہیں۔ یہ حصہ حضرت عیسیٰؑ سے پہلے کے انبیا کی کتابوں پر مشتمل ہے، مثلاً حضرت موسٰیؑ کی ’تورات‘، حضرت ایوبؑ کا صحیفہ ،حضرت داوٗدؑ کی ’زبور‘، حضرت سلیمانؑ کی ’غزل الغزلات‘ اور ’امثال‘، حضرت یسعیاہؑ ، حضرت یرمیاہؑ ، حضرت یونسؑ ، حضرت حزقی اِیلؑ وغیرہ کے صحائف۔ ’عہد نامۂ جدید‘حضرت عیسیٰؑ اور آپؑ کے حواریوں کی طرف منسوب کتابوں یا خطوط کا مجموعہ ہے ۔ اگرچہ حضرت عیسیٰؑ نے تبلیغِ دین آرامی زبان میں کی تھی، لیکن ’عہدنامۂ جدید‘ کبھی بھی آرامی زبان میں نہیں لکھا گیا۔ اس کی ابتدا ہی یونانی ترجمے سے ہوئی ہے۔

بائبل میں متعدد انبیا نے اپنے بعد آنے والے واقعات اورا نبیاے کرام کے متعلق پیشین گوئیاں بیان کی ہیں۔ قُرآنِ کریم میں یہ بات زور دے کر کہی گئی ہے کہ بائبل کی کتابوں میں حضرت محمدﷺ کے متعلق اتنی واضح پیشین گوئیاں درج ہیں جن کے سمجھنے میں کوئی معقول انسان مشکل محسوس نہیں کرتا، بلکہ وہ آپؐ کو اس طرح پہچان سکتا ہے جیسے وہ اپنے بیٹے بیٹیوں کو پہچانتا ہے۔

اگلی گفتگو میں حضرت سلیمانؑ کی ایک پیشین گوئی کا مختصر مطالعہ کیا جائے گا، جس میں نبی کریمﷺکا نام لے کر آپ ؐکے متعلق پیشین گوئی کی گئی ہے۔

حضرت سلیمانؑ کی زبانی اس پیشین گوئی کے بیان کیے جانے اور آنحضرت ﷺکی تشریف آوری کی صورت میں اس کے پورے ہونے کے درمیان قریباً ڈیڑھ ہزار سال کا وقفہ ہے، لیکن اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ محمدرسول اللہﷺ سے کم از کم ایک ہزار سال پہلے باقاعدہ ضبطِ تحریر میں آچکی تھی اور اپنی اصل صورت میں موجود تھی۔ ظاہر ہے کہ محمدرسول اللہ ﷺ یا آپؐ کے پیروکاروں میں سے کوئی شخص اسے آپ ؐ کی پیدایش سے بھی ایک ہزار سال پہلے بائبل میں کسی صورت میں بھی درج نہیں کر سکتا تھا۔اگریہ بات تحقیق سے ثابت ہوجائے کہ محمدرسول اللہﷺ کے متعلق یہ پیشین گوئی واقعی موجود ہے، تو ایک طرف تو یہ بائبل کی صداقت کا ثبوت ہے اور دُوسری طرف محمدرسول اللہﷺ کی رسالت بھی اس سے حتمی طور پر ثابت ہو جاتی ہے۔

آج کی گفتگو کے ابتدائی حصے میں اس پیشین گوئی پر بالا ختصار روشنی ڈالی جائے گی۔ جو حضرات اس کے تفصیلی اور تحقیقی مطالعے کے شائق ہوں وہ راقم الحروف کی انگریزی کتاب 'Muhammad (pbAh) Foretold in the Bible by Name'کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ مصنف کو یقین ہے کہ اس کتاب کے بے لاگ اور غیر متعصبانہ مطالعے سے ان شاء اللہ ہزاروں لوگوں کے لیے محمدرسول اللہﷺ کی رسالت پر ایمان کی راہ کھلے گی۔ ہمارا دَور روشن خیالی اور معروضی فکر کا دور ہے۔ اس کتاب کا غیرجانب دارانہ مطالعہ قاری کو دُرست نتیجے تک پہنچنے میں مدد فراہم کرے گا۔

بائبل میں محمدرسول اللہﷺ کے بارے میں نہایت واضح اور غیر مبہم الفاظ میں متعدد پیشین گوئیاں موجود ہیں۔ یہ بات قریباً نایاب ہے کہ مستقبل میں آنے والے کسی نبی کے متعلق نام لے کر پیشین گوئی کی گئی ہو۔ حضرت سلیمانؑ کی کتاب ’غزل الغزلات‘ میں محمدرسول اللہﷺکے متعلق بیان شدہ مندرجہ ذیل پیشین گوئی اس سلسلے کی غالباً واحد مثال ہے۔ اردو ’کتاب مقدس‘ میں یہ ان الفاظ میں درج ہے:

میرا محبوب سُرخ و سفید ہے۔ وہ دس ہزار میں ممتاز ہے۔ اس کا سر خالص سونا ہے۔ اس کی زُلفیں پیچ در پیچ اور کوّے سی کالی ہیں۔ اس کی آنکھیں ان کبوتروں کی مانند ہیں جو دودھ میں نہا کر لبِ دریا تمکنت سے بیٹھے ہوں۔ اس کے رُخسار پھولوں کے چمن اور بلسان کی اُبھری ہوئی کیاریاں ہیں۔ اس کے ہونٹ سوسن ہیں جن سے رقیق مُرّ ٹپکتا ہے۔ اس کے ہاتھ زبر جد سے مُرصّع سونے کے حلقے ہیں۔ اس کا پیٹ ہاتھی دانت کا کام ہے جس پر نیلم کے پھول بنے ہوں۔ اس کی ٹانگیں کندن کے پایوں پر سنگِ مرمر کے ستون ہیں۔ وہ دیکھنے میں لبنان اور خوبی میں رشکِ سرو ہے۔اس کا منہ ازلس شیریں ہے۔ ہاں وہ سراپا عشق انگیز ہے۔ اے یروشلم کی بیٹیو! یہ ہے میرا محبوب، یہ ہے میرا پیارا(’غزل الغزلات‘۵ :۱۰ تا ۱۶)

اگرچہ اس بے مثال تحریر(غزل الغزلات) کی تصنیف کے متعلق مختلف آرا پیش کی جاتی ہیں ، تاہم بعض مستند علما اسے حضرت سلیمانؑ ہی کی تصنیف قرار دیتے ہیں۔ علماے بائبل کی تحریروں کے معروضی مطالعے پر مبنی چند نِکات درج ذیل ہیں:

۱۔ بالعموم اس بات کا اعتراف کیا جاتا ہے کہ بنیادی طور پر ’غزل الغزلات‘ کے مصنف حضرت سلیمانؑ ہی ہیں۔
۲۔ تاہم پوری کی پوری نظم ان کی طرف منسوب نہیں کی جا سکتی۔
۳۔ حضرت سلیمانؑ نے یہ نظم دسویں صدی قبل مسیح کے وسط میں کسی وقت تحریر فرمائی تھی۔ لیکن اس کی آخری تدوین عہدِ جلاوطنئ بابل کے بعد کے دَور میں غالباً تیسری چوتھی صدی قبل مسیح میں ہوئی تھی۔
۴۔ بعض مُدوِّنِین نے بڑی آزادی سے اس میں فحش مواد شامل کیا ہے۔
۵۔ اس کے فحش اور ناشائستہ مواد کی بنا پر بعض علما و مفسرین نے مناسب خیا ل کیا کہ نوجوانوں کے لیے اس کے مطالعے پر پابندی لگا دی جائے۔
۶۔ اس کی ساخت میں یکسانیت اور ہم آہنگی کا فقدان ہے اور اسے آزاد غزلوں کا ایک مجموعہ ہی کہا جا سکتا ہے۔
آغاز ہی میں یہ بات بھی ذہن نشین ہوجانی چاہیے کہ بائبل کے بعض مسیحی مفسرین اس گیت کو حضرت عیسٰیؑ کے حق میں ایک پیشین گوئی قرار دیتے ہیں ۔یہ الگ بات ہے کہ غیر جانبدارانہ تحقیق سے اس کی قطعی طور پر کوئی تائید نہیں ہوتی۔
’ غزل الغزلات‘کے حضرت سلیمان ؑ کی تصنیف ہونے کے دلائل و شواہد اور مسیحی مفسرین کے اسے حضرت سلیمانؑ کے حق میں ایک پیشین گوئی قرار دینے کے ثبوت کے سلسلے میں مستند اقتباسات کے مطالعے کے لیے راقم الحروف کی انگریزی کتا ب'Muhammad (pbAh) Foretold in the Bible by Name' کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔
’غزل الغزلات‘ کی اس عبارت کا پہلا جملہ ہے کہ ’میرا محبوب سُرخ و سفید ہے‘۔اصل عبرانی عبارت ہے ’دَو دی صاح و ادوم‘۔ جملے کا پہلا لفظ’دَود‘ ہے جو بہت اہم ہے۔ لغوی اعتبار سے ’محبوب‘ کے الفاظ غیر مبہم طور پر محمدرسول اللہﷺ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں اور ان سے پیشین گوئی کرنے والے کی نیت کا صاف پتہ چل جاتا ہے۔’سٹرونگ کے بائبل کے عبرانی الفاظ کے لغت‘ میں اس کے مندرجہ ذیل معنی بیان ہوئے ہیں:
Lover, friend, beloved, esp. an uncle, father\'s brother.
محبت کرنے والا، دوست، محبوب، خصوصاً چچا یعنی باپ کا بھائی (اندراج۱۷۳۰، ص۳۰)

لفظ ’دَود‘کے یہ معنی بائبل کے بعض مفسرین کے اس پیشین گوئی کے حضرت مسیحؑ پر اطلاق کو بدیہی طور پر مسترد کر دیتے ہیں۔

حضرت سلیمانؑ کے جدِ اعلیٰ حضرت اسحاقؑ تھے۔ حضرت اسماعیلؑ ان ( اسحاقؑ ) کے بڑے بھائی تھے۔ اس طرح اس پیشین گوئی کا اطلاق حضرت عیسٰیؑ پر ممکن نہیں۔ بائبل کی رُو سے حضرت عیسٰیؑ کا کوئی باپ نہ تھا۔ آپ ؑ کنواری مریم سے معجزانہ طور پر بِن باپ پیدا ہوئے تھے۔اُن کا والد کی طرف سے تو کسی سے کوئی رشتہ بنتا ہی نہیں۔ حضرت عیسٰیؑ کی والدہ بھی حضرت اسحاقؑ ہی کی نسل سے ہیں نہ کہ حضرت اسحاقؑ کے کسی بھائی کی نسل سے۔ اس لحاظ سے حضرت عیسٰیؑ کسی طرح بھی اس آیت کے لفظ’محبوب‘(دَود) کا مصداق نہیں ہو سکتے۔

حضرت سلیمانؑ کے جَدِّ اعلیٰ حضرت اسحاقؑ ہیں۔ حضرت اسماعیلؑ اُن کے بھائی ہونے کے ناطے حضرت سلیمانؑ کے بزرگ چچا ہیں۔محمدرسول اللہﷺ حضرت اسماعیلؑ کی نسل سے ہیں۔ اس طرح لفظ’دَود‘ کی رُو سے یہ لفظ محمدرسول اللہﷺہی سے متعلق ہے۔

اس کے بعد والی آیت میں محمدرسول اللہﷺکے چہرے کی رنگت کا بیان ہے، جس کے لیے عبرانی میں ’صاخ و ادوم‘ کے الفاظ ہیں۔ جس کا ترجمہ ’سرخ و سفید ‘کیا جاتا ہے۔ ’سٹرونگ کے بائبل کے عبرانی الفاظ کے لغت‘ کے لحاظ سے پہلے لفظ یعنی’صاخ‘ کے اصل معنی ’صاف اور چمک دار‘ ہیں۔ ’پلپٹ کی تفسیر بائبل‘ میں یہ بھی لکھا ہے کہ ’اس سے مریضانہ سفیدی مُراد نہیں‘۔ اگلے عبرانی لفظ’ادوم‘ کے معنی گلابی اور سُرخ رنگت ہے۔ اس طرح سُرخ و سفید کے الفاظ کا مطلب صحت، سُرخی، توانائی، چمک اور حسن بنتا ہے۔ احادیث میں محمدرسول اللہﷺکے چہرے کے جو اوصاف بیان ہوئے ہیں، یہ اُن کی مُنہ بولتی اور کامل تصویر ہے۔

جابرؓ بن سمرہ فرماتے ہیں:’ایک روشنی والی رات میں، مَیں آپؐ کی اور چاند کی طرف دیکھ رہا تھا۔ میرے نزدیک آپؐ کا چہرہ چاند سے زیادہ خوب صورت تھا‘۔

حضرت رُبَیّعؓ بنت مُعَوِّذفرماتی ہیں: ’اگرتم انھیں دیکھتے تو تمھیں یوں لگتا جیسے تم طلوع ہوتے ہوئے سورج کو دیکھ رہے ہو‘۔ ظاہر ہے طلوع ہوتے وقت سورج سرخ و سفید ہی ہوتا ہے۔

حضرت اُمِ معبدؓ فرماتی ہیں: ’ظاہر الوضاء ۃ ابلج الوجہ (...) اجمل الناس و ابہا ہم من بعید و احسنہ و احلاہ من قریب یعنی پاکیزگی اور چمک میں نمایاں اور روشن و خوبصورت خدوخال، دُور سے دیکھو تو سب لوگوں میں سے شاندار اور روشن اور قریب سے دیکھو تو حسین و شیریں‘۔

انسؓ بن مالک فرماتے ہیں:’ روشن اور گلابی رنگت، نہ بے جان سفیدی اور نہ مٹی کی طرح براؤن‘۔

براءؓ بن عازب فرماتے ہیں :’ آپ ؐ کا چہرہ لوگوں میں سب سے حسین تھا‘۔

کعبؓ بن مالک کا ارشاد ہے :’خوش ہوتے تو آپ ؐ کا چہرہ یوں لگتا جیسے چاند کا ٹکڑا‘۔

ابو ہریرہؓ کا بیان ہے : ’ میں نے کسی کو رسول اللہﷺ سے زیادہ خوبصورت نہیں دیکھا، یوں لگتا تھا جیسے سورج آپؐ کے چہرے میں رواں دواں ہو‘۔

’ترمذی‘ میں حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے : ’یوں لگتا تھا جیسے آپؐ کے رُخسار قندھاری انار ہیں‘۔

’شمائلِ ترمذی‘ میں حضرت علیؓ آپؐ کے چہرے کے لیے ’ مُشْرب‘ کا لفظ استعمال فرماتے ہیں۔’لین کی لیکسیکن‘ (Lane\'s Lexicon)میں اس کے معنی ہیں: ’ایک ایسا شخص جس کے چہرے میں سُرخی غالب ہو۔‘

مندرجہ بالا تمام گفتگو سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپؐ کے چہرے میں سُرخی، چمک، حُسن اور سفیدی کا حسین اِمتزاج تھا جو پیشین گوئی کے عبرانی الفاظ کی ہو بہو عکاسی کرتا ہے۔ دُوسری طرف حضرت عیسٰیؑ کے اوصاف کا بیان اول تو بہت کم دستیاب ہے، تاہم جو کچھ محفوظ ہے اُس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عیسٰیؑ کا ان الفاظ سے دُورکا بھی تعلق نہیں۔ میتھیو ہنری اپنی’تفسیرِ بائبل‘ (۴: ۸۵۱) میں لکھتے ہیں کہ:'Nay, he had no form nor comeliness, Isa. Liii.' (نہ آپ ؑ کے خدوخال جاذبِ نظر تھے اور نہ آپ ؑ حسین و دل نشیں تھے)۔

پیشین گوئی کا اگلا جملہ ہے: ’وہ دس ہزار میں ممتاز ہے‘۔اصل عبرانی الفاظ کا تلفظ ہے: ’دجول مع ربوبہ‘ یعنی’ دس ہزار کی فوج کا سربراہ ‘۔ یہ الفاظ محمدرسول اللہﷺ کی فتح مکہ کے علاوہ کسی چیز پر صادق نہیں آتے۔اس کی تفصیل بھی ہماری کتاب 'Muhammad (pbAh) Foretold in the Bible by Name'میں دیکھی جا سکتی ہے۔

اگلی آیت کا پہلا جملہ ہے:’ اُس کا سر خالص سونا ہے‘۔ میتھیو ہنری اپنی تفسیر میں لکھتا ہے’مسیح کا سر اُن کی سب پر حاکمیت اور اپنے کلیسیا کے ارکان پر اُن کے مضبوط اثرورسوخ کی دلالت کرتا ہے۔ مسیح کی حاکمیت حسین بھی ہے اور مضبوط بھی‘۔ نبیوکدنضر(Nebuchadnezzer) کی بادشاہی کو بھی سونے کے سر سے تشبیہ دی گئی ہے(دانیال۲:۳۸)۔ جہاں تک حضرت مسیحؑ کا تعلق ہے آپؑ کو اپنی زندگی میں کبھی قوت و اقتدار نصیب ہی نہیں ہوا ، جبکہ محمدرسول اللہﷺکو ہجرت کے بعد مدینہ منورہ کی ریاست پر پوری طرح قوت و اقتدار حاصل تھا، جو بعد میں پورے جزیرہ نماے عرب پر حاوی ہو گیا، اور اس حیثیت میں آپ ؐ کے فیصلے اور اَحکام ہمیشہ بے لاگ اور بے عیب رہے۔ اس سے قاری خود اندازہ کر سکتا ہے کہ’ اُس کا سر خالص سونا ہے‘ کے الفاظ کس پر صادق آتے ہیں۔

آیت کے اگلے الفاظ ہیں:’اُس کی زُلفیں پیچ در پیچ اور کوے سی کالی ہیں‘۔ یہاں زُلفوں کے لیے جو ’پیچ در پیچ‘ کا لفظ استعمال ہو ا ہے، اُس کے لیے عبرانی میں ’تال تال‘ کا لفظ آیا ہے۔ ’سڑونگ کی ڈکشنری ‘ میں اس کے معنی ہیں’ایک لٹکتی ہوئی شاخ‘۔جملے کا دوسرا حصہ ہے’کوّے سی کالی‘۔ کالی کے لیے عبرانی میں ’سحر‘ کا لفظ آیا ہے۔ یہ وہی عربی لفظ ہے جس کے معنی ہیں ’پو پھٹنے سے پہلے کا وقت‘۔ ’سٹرونگ کی ڈکشنری‘ میں اس کے معنی ہیں’صبح سویرے روشنی پھیلنے سے پہلے کی تاریکی‘ یا ’صبح سویرے کسی کام کے لیے اُٹھنا‘۔ اس حصے کا دوسرا اہم لفظ ہے ’کوا‘ ۔ عبرانی میں اس کے لیے ’عرب یاعُراب‘ کا لفظ آیا ہے اور اس کے معنی ’عرب کا باشندہ‘ بھی ہیں اور دُھندلا یا کالا ہونا بھی۔ اس کے ایک معنی ’کوا‘ بھی ہیں۔یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ عربی اور عبرانی دونوں سامی نسل کی زبانیں ہیں اور لغت و قواعد کے اعتبار سے یہ ایک دوسرے سے بہت ملتی جلتی ہیں۔ عبرانی کے حروفِ ابجد کی تعداد۲۲ ہے: ’ابجد، ہوز، حطی، کلمن، سعفص، قرشت‘۔ عربوں نے اپنی ضرورت کے تحت اس میں چھ آوازوں کا اضافہ کر لیا: ’شخذ، ضظغ‘۔ یہ چھ آوازیں عبرانی زبان میں موجود نہیں ہیں۔ اس طرح عبرانی میں غُراب کو بھی عُراب کہیں گے اور ’سٹرونگ کی عبرانی لغت‘ کے اندراج۶۱۶۳ اور ۶۱۵۸ کے مطابق عُراب کے معنی عبرانی میں ’کوا‘ بھی ہو سکتے ہیں اور عرب کا باشندہ بھی‘۔بائبل کے مترجمین کو یہاں ’عرب کا باشندہ‘ لکھنامناسب معلوم نہ ہوا تو اُنھوں نے اس کے معنی ’کوا‘ لکھ دیے۔ حالانکہ پہلی ترجیح ’عرب‘ کو دی جانے چاہیے تھی۔

’پیچ در پیچ‘ کے لیے بائبل میں ’تال تال‘ کا عبرانی لفظ استعمال ہوا ہے۔ جس کے معنی ایک لٹکتی جھولتی شاخ کے ہیں اور عام مشاہدہ یہ ہے کہ لمبی لٹکتی ہوئی شاخ آخر میں تھوڑا سا بل کھا کر اُوپر کی طرف اُٹھ آتی ہے ۔جیسے ’بوٹل برش یا وِلّو‘ کی شاخیں (یہ درخت عام طور پر پانی یا سڑکوں کے کنارے پائے جاتے ہیں)۔ اس طرح بائبل کی عبارت ’اُس کی زُلفیں پیچ در پیچ اور کوے سی کالی ہیں‘ کا صحیح مطلب یہ ہے کہ’ اُس کی زُلفیں کالی ہیں، اُن میں ہلکا سا گھونگر ہے اور وہ مُلکِ عرب کا باشندہ ہے‘۔ ظاہر ہے کہ اس کا اطلاق حضرت عیسٰیؑ پر کسی طرح ممکن نہیں، کیونکہ اُن کی زُلفوں کے متعلق تو بائبل کی کتاب ’مکاشفہ‘ (۱: ۱۴) میں صاف لکھا ہے کہ’ اُس کا سر اور بال سفید بلکہ برف کی مانند سفید تھے‘۔

جہاں تک محمدرسول اللہﷺکے بالوں کا تعلق ہے تو ان کے متعلق یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ وہ روشن اور سیا ہ تھے۔ حضرت اُمِ معبدؓ فرماتی ہیں کہ ’چمک دار سیاہ بال‘۔ حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں: ’آپؐ کی زُلفوں میں ہلکا سا گھونگر تھا‘۔قتادہؓ اور حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ ’آپؐ کے بال نہ تو زیادہ گھنگریالے تھے ، نہ بالکل سیدھے اور سخت‘۔جس کا مطلب ہے کہ آپؐ کے بال لٹکے ہوئے تھے اور آخر میں اُن میں ہلکا سا گھونگر تھا۔ براءؓ بن عازب کا بیان ہے کہ’محمدرسول اللہﷺ کی زُلفیں کبھی کانوں تک ہوتی تھیں کبھی کندھوں تک لٹکی ہو تی تھیں‘۔ حضرت انسؓ بن مالک کے مطابق ’دُنیا سے رُخصت ہونے تک آپؐکے سر اورڈاڑھی دونوں میں بیس سے زیادہ بال سفیدنہ تھے‘۔ حضرت جابرؓبن سمرہ ،محمدرسول اللہﷺ کے بڑھاپے کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ ’جب آپؐنے سر پر تیل لگا یاہوتا تھا، تو آپؐکا کوئی بال سفید نظر نہیں آتا تھا‘۔ حضرت انسؓ بن مالک کا بیان ہے کہ’آپؐ اکثر اپنے بالوں میں تیل لگائے اور ڈاڑھی میں کنگھی کیے رہتے تھے اور پگڑی کے نیچے ایک رومال رکھتے تھے، تاکہ سر کے بالوں کا تیل پگڑی پر نہ لگے‘۔

اس ساری گفتگو سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت سلیمانؑ کے اس ارشاد کا کہ’ اُس کا سر خالص سونا ہے اور اُس کی زلفیں پیچ در پیچ اور کوے سی کالی ہیں‘ کا محمدرسول اللہﷺ پر حرف بہ حرف اطلاق ہوتا ہے اور حضرت عیسٰیؑ اِ س کے کسی طرح بھی مصداق نہیں ہیں۔

آیت ۱۲میں حضرت سلیمانؑ فرماتے ہیں کہ’ اُس کی آنکھیں اُن کبوتروں کی مانند ہیں جو دُودھ میں نہا کر لبِ دریا تمکنت سے بیٹھے ہوں‘۔ اُردو بائبل کا یہ ترجمہ درست نہیں،بلکہ ناقص ہے۔ ’کنگ جیمز ورشن‘ میں اس کے لیے مندرجہ ذیل الفاظ استعمال ہوئے ہیں:

اس کی آنکھیں اُن فاختاؤں کی آنکھوں جیسی ہیں جو پانی کی ندیوں کے کنارے بیٹھی ہوں۔ یہ دودھ میں دھلی ہوئی ہیں اور نہایت متناسب انداز میں [پیشانی کے جوف میں] رکھی ہوں۔
'His eyes are as the eyes of doves by the rivers of waters, washed with milk, and fitly set.'

حضرت عیسٰیؑ کے خدوخال کا تفصیلی بیان نہ تو بائبل میں دستیاب ہے نہ کسی اور کتاب میں۔ اگر کہیں کچھ ناقص سی جھلکیاں موجود بھی ہیں تو اُن کا ’غزل الغزلات‘ کے اس بیان سے کوئی تعلق نہیں۔ مسیحی علما کھینچ تان کرکے ان صفات کا حضرت عیسٰیؑ پر اطلاق کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن اس سے بات بنتی نہیں۔

آیت میں آپ ؐکی آنکھوں کو ’کبوتر یا فاختہ کی آنکھوں‘ سے تشبیہہ دی گئی ہے۔’ سٹرونگ کی ڈکشنری‘ کے اندراج ۳۱۲۳ اور ۳۱۹۶ کے لحاظ سے اس کے معنی ہیں: ’مخمور، شراب اورشراب کا نشہ‘۔ ’عبرانی اور آرامی لغت ‘'The Hebrew and Armaic Lexicon of the OT, L. Koehler & W. Baumgartner (Brill: Leiden, 2001)' (صفحہ۴۰۹)کے مطابق اس کے ایک معنی ہیں: ’شراب= شراب کے نشے میں مخمور‘۔ عام مشاہدے کی بات ہے کہ نشے کی حالت میں انسان کی آنکھوں میں سرخ ڈورے سے جھلکنے لگتے ہیں۔

’صحیح مسلم‘ میں حضرت جابرؓ بن سمرہ سے روایت ہے کہ ’محمدرسول اللہﷺ ’اشکل العین‘تھے‘۔ ’لین کی لیکسیکن‘(Lane\'s Lexicon)میں اس کے معنی ہیں: ’جس کی آنکھوں کی سفیدی میں سرخی کی جھلک ہو‘۔اُمِّ معبدؓ نے آپؐ کی آنکھوں کے لیے’اَحور‘کا لفظ استعمال کیا ہے، جس کا مطلب ہے: ’آپؐکی آنکھوں کی سفیدی اور سیاہی ایک دوسرے سے ممتاز تھی‘۔ حضرت عیسٰیؑ کے اصحاب کے لیے ’حواری‘ کالفظ استعمال ہوتا ہے، کیونکہ وہ کپڑوں کو دھو کر انھیں سفید کرتے تھے۔ اس لحاظ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ آپؐکی آنکھوں میں نمی کی چمک ہوتی تھی۔ آپؐ کی مخلوق کے لیے شفقت اور ذِکرِ الٰہی کا ذوق و شوق آپؐ کی آنکھوں میں نمی کا موجب تھا۔ آپؐ کی آنکھوں میں سفیدی ، چمک، نمی اور سُرخ ڈورے نمایاں تھے اور یہ اوصاف عبارت کے پہلے حصے کے عبرانی الفاظ کی کامل عکاسی کرتے ہیں۔

جہاں تک آخری الفاظ (Fitly set)کا تعلق ہے تو اُن کے لیے عبرانی میں لفظ ’ملایت ‘درج ہے۔’سٹرونگ کے لغت‘ میں اندراج۴۴۰۲، ۴۳۹۰ کے تحت اس کے معنی ’بھرا ہوا ہونا، آنکھوں کے خول میں نہایت خوبصورت نظر آنے والی بھری بھری آنکھیں‘ درج کیے گئے ہیں۔ اس لحاظ سے پوری آیت کا مفہوم کچھ اس طرح بنتا ہے :

’حضرت سلیمانؑ کے اس محبوب کی آنکھیں ، چہرے اور پیشانی میں اتنے موزوں اور مناسب انداز میں جڑی ہوئی ہیں کہ وہ خوبصورت ، بڑی بڑی ، خوب بھری ہوئی، گداز، اُبھری ہوئی اور پُرکشش نظر آتی ہیں۔ اُس کی آنکھوں میں مَحَبَّت و مَسَرَّت کا جوش ہے۔ اُس کی آنکھیں نشیلی سی ہیں اور اُن میں سرخ ڈورے ہیں۔ اُس کی آنکھیں نہ صرف پاکیزہ، مہربان اور صاف ہیں، بلکہ اُن میں نمی کی چمک ہے جو اِحساسِ ہمدردی اور محبتِ الٰہی کی آئینہ دار ہے، نہ اندر کو دھنسی ہوئیں اور نہ باہر کو نکلی ہوئیں۔

حضرت پیر مہر علیؒ اپنی پنجابی نعت میں اس کی نہایت خوبصورت عکاسی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

مُکھ چند بدر شاہ ثانی اے           متھے چمکدی لاٹ نورانی اے
کالی زلف تے اکھ مستانی اے    مخمور اکھیں ہِن مدھ بھریاں

اس گفتگو سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ آیت محمدرسول اللہﷺ کی آنکھوں کی مکمل اور سچی تصویر پیش کرتی ہے جس کی عکاسی حضرت سلیمانؑ نے محمد رسول اللہﷺ سے قریباً ڈیڑھ ہزار سال پہلے کر دی تھی۔

آیت ۱۳ میں حضرت سلیمانؑ اپنے محبوب کے رُخساروں اور ہونٹوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’اُس کے رُخسار پھولوں کے چمن اور بلسان کی اُبھری ہوئی کیاریاں ہیں۔ اُس کے ہونٹ سوسن ہیں جن سے رقیق مُرّ ٹپکتا ہے‘۔

KJVکے الفاظ میں:

His cheeks are as a bed of spices, as sweet flowers: his lips like lilies, dropping sweet smelling myrrh.

رُخسار کے لیے عبرانی بائبل میں ’لحی‘ کا لفظ آیا ہے۔ ’سٹرونگ کے لغت‘ میں اندراج۳۸۹۵ کے تحت اُس کے مادے کے معنی ہیں ’نرم ہونا‘ یا’نرم وگدازہونا‘۔ اس کے علاوہ ’نرم و گداز‘اور’رُخسار‘ کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ’عبرانی و آرامی لغت‘ میں اس کے معنی ’ٹھوڑی، جبڑے کی ہڈی اور رُخسار‘ بتائے گئے ہیں، بلکہ اُس نے عربی کے حوالے سے اس کے معنی ’ڈاڑھی‘ بھی لکھے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ’ رُخسار‘ کے لیے جو اصل عبرانی لفظ استعمال کیا گیا ہے اُس کے معنی’ نرم وگداز رُخسار اور ڈاڑھی‘ ہیں۔

اگلا اہم لفظ’ بیڈ‘(Bed)ہے جس کے لیے عبرانی بائبل میں ’عروجا‘ کا لفظ آیا ہے۔’سٹرونگ کے لغت‘ میں اندراج۶۱۷۰ کے تحت اس کے معنی’ ڈھیر یا تختہ‘ ہیں۔تیسرا اہم لفظ’Spices‘ ہے، جس کے لیے عبرانی میں’ بَسم‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اسی لغت کے اندراج۱۳۱۴ کے تحت اس کے معنی ’مصالحہ جات، بلسان کا پودا، خوشبو، شیریں خوشبو‘ ہیں۔ چوتھا اہم لفظ’Sweet‘ ہے۔ اس کے لیے عبرانی میں ’مرقہ‘ کا لفظ آیا ہے۔ ’سٹرونگ کے لغت‘ میں اندراج۴۸۴۰ اور ۷۵۴۳کے تحت اس کے معنی’ خوشبو دار جھاڑی، شیریں اور خوشبو‘ دیے گئے ہیں۔اس طرح اس لفظ کے معنی ہوئے: ’عطر وغیرہ لگا کر خوشبو میں بسایا ہوا‘۔عبارت کا آخری اہم لفظ’Flower‘ یاپھول ہے۔ عبرانی میں اس کے لیے ’مجدل‘کا لفظ آیا ہے جس کے معنی ’سٹرونگ کے لغت‘ میں اندراج ۴۰۲۶ کے تحت ’برج، اہرام ،منشور کی طرح اُٹھتی ہوئی پھولوں کی کیاری‘ ہیں۔لغوی تحقیق کے نتیجے میں عبارت کے اس حصے کا مطلب کچھ اس طرح بنتا ہے:

اُس کے اُبھرے ہوئے پر گوشت اور نرم وملائم رُخسار اور اُن پر گھنی ڈاڑھی یوں لگتی ہے جیسے خوشبو کا ڈھیر ہو، جس کو عمدہ خوشبو والے عطریات میں بسایا گیا ہو۔ وہ چھوٹی چھوٹی خوشبودار جھاڑیوں کے تختوں کے مانند ہیں اور خوشبو دار پھولوں کے اہرام کی طرح ایک ڈھیر جیسے ہیں۔

یہ عبارت محمدرسول اللہﷺ کے اوصاف کی مکمل عکاسی کرتی ہے۔

حضرت انسؓ ’صحیح مسلم‘ میں بیان کرتے ہیں کہ ’میں نے عنبر، کستوری یا کسی اور چیز کو محمدرسول اللہﷺ کی خوشبو سے زیادہ اچھا نہیں پایا اور نہ کوئی چیز آپؐسے زیادہ نرم وملائم چھوئی، خواہ وہ ریشم ہی ہو‘۔ حضرت جابرؓ سے’ سُنن دارمی‘ میں روایت ہے کہ ’جس راستے سے آپؐگزر ے ہوتے وہ اتنا خوشبودار ہو جاتا کہ بعد میں آنے والا اس سے پہچان جاتا کہ آپؐ یہاں سے گزرے ہیں‘۔ عتبہؓ بن فرقد سے طبرانی کی’ معجمِ صغیر‘ میں روایت ہے: ’محمدرسول اللہﷺ کی زندگی میں ایک مرتبہ مجھے پِتّی نکل آئی۔ میں نے آپؐسے علاج کی درخواست کی۔ آپؐنے مجھے متاثرہ جگہ سے قمیص ہٹانے کو کہا ۔ میں اپنی قمیص ہٹا کے آپؐکے سامنے بیٹھ گیا۔ محمدرسول اللہﷺنے آہستہ آہستہ اپنا ہاتھ میرے جسم پر پھیرا،ا سی وجہ سے میرے پیٹ اور پشت سے یہ شاندار خوشبو آنے لگی ہے‘۔

عبرانی الفاظ کی لغوی تحقیق اور احادیث سے محمدرسول اللہﷺکے شمائل کو مدنظر رکھتے ہوئے آپؐکے رُخساروں کے اوصاف دو لفظوں میں سمیٹے جا سکتے ہیں: ’ملائمت اور خوشبو‘۔ مندرجہ بالا تاریخی مواد سے ثابت ہے کہ رسول اللہﷺپر ان اوصاف کا ہُو بہُو اِطلاق ہوتا ہے، جبکہ حضرت عیسٰیؑ کے بارے میں ان اوصاف کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔

____________

 

B