قرآن کریم میں متعدد مواقع پر مختلف انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺکے بارے میں بائبل کی کتابوں میں پیشین گوئیاں موجود ہیں، جن کی روشنی میں اہل کتاب آپؐ کو اس طرح پہچان سکتے ہیں، جس طرح وہ اپنے بیٹے بیٹیوں کو پہچان لیتے ہیں۔ اس کتاب میں ایسی صرف چھ پیشین گوئیوں پر اختصار سے گفتگو کی گئی ہے۔ بائبل کی مختلف کتابوں میں ایسی بہت سی پیشین گوئیاں موجود ہیں۔ مہلت ملی تو ان شاء اللہ اس کتاب میں بیان کی گئی پیشین گوئیوں پر بھی تفصیلی گفتگو کی جائے گی اور دیگر پیشین گوئیوں پر بھی گذارشات پیش کی جاتی رہیں گی۔
موجود کتاب میں پانچ پیشین گوئیاں تو بائبل کے’ عہد نامہ قدیم‘، سے لی گئی ہیں اور ایک پیشین گوئی ’صعودِ موسیٰ ‘(Assumption of Moses) نامی ایک کتاب سے نقل کی گئی ہے۔ اس طرح یہ کتاب چھ ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلی پیشین گوئی دراصل ہماری انگریزی کتاب (Muhammad Foretold in the Bible by Name)کا اردو خلاصہ ہے۔ یہ حضرت سلیمان ؑ کی ’غزل الغزلات‘ سے لی گئی ہے۔ اس میں حضرت سلیمان ؑنے نبی اکرم ﷺ کا بڑی عزت و محبت سے ذکر فرمایا ہے اور آپؐ کے شمائل بیان کیے ہیں۔ نہایت محبت و احترام کے ساتھ آپؐ کے اوصاف اور سراپا بیان کرکے آخر میں آپؐ کا نام محمد ﷺبھی ذکر فرمایا ہے۔پیشین گوئی کا آغاز محمد رسول اللہﷺکے حسنِ بے مثال اور سرخ و سفید خدوخال سے کیا گیا ہے۔ اس کے فوراً بعد دس ہزار صحابۂ کرامؓ کے سپہ سالار کی حیثیت سے آپؐ کے فتحِ مکہ کا ذکر ہے۔ اس کے بعد آپؐ کی زلفوں، آپؐ کی آنکھوں، آپؐ کے رخسار مبارک، آپؐ کے ہونٹوں، آپؐ کے ہاتھوں، آپؐ کے شکمِ مبارک، آپؐ کی ٹانگوں، آپؐکے چہرے مہرے اور قدوقامت اور آپؐ کے دہن مبارک کے اوصاف کا ذکر ہے۔ آخر میں نہایت احترام ومحبت سے آپؐ کا نام محمدﷺبیان کر دیا گیا ہے۔ یہ بھی بیان فرما دیا گیا ہے کہ آپؐ ملک عرب کے باشندے ہیں اور حضرت اسحاق ں کے برادر بزرگ اور حضرت ابراہیمں کے لخت جگر یعنی حضرت اسماعیل ؑ کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔
دوسرے باب میں تورات کی اس معرکہ آرا پیشین گوئی کی وضاحت کی گئی ہے جس میں آپؐ کو ’مثیل موسیٰ ‘ یا’ حضرت موسیٰ ؑ کی مانند ایک نبی‘ قرار دیا گیا ہے۔ یہ ایک واضح ، غیر مبہم جامع اور بے مثال پیشین گوئی ہے۔ اس میں یہ بشارت دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کے بھائیوں یعنی بنی اسماعیل ؑ میں سے حضرت موسیٰ ؑکی مانند ’ایک نبی ‘ مبعوث فرمائے گا اور اپنا کلام اس کے منہ پر جاری فرمائے گا اور’ جو کوئی میری ان باتوں کو، جن کو وہ میرانام لے کر کہے گا ، نہ سُنے گا تو میں ان کا حساب اس سے لوں گا‘۔ اس پیشین گوئی میں (۱) ’بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے ‘ ، (۲) ’موسیٰ ؑکی مانند‘ اور (۳) ’ ایک نبی ‘ ؛تین بڑے اہم اوصاف ہیں۔ آل ابراہیمؑ کی دو اہم شاخیں بنی اسماعیل اور بنی اسرائیل ہیں۔ بنی اسرائیل میں سے متعدد انبیا مبعوث ہوئے، جن میں سے آخری نبی حضرت عیسیٰ ؑ تھے۔ ان تمام میں سے حضرت موسیٰ ؑ و احد نبی اور رسول ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے شریعت عطا فرمائی۔ ان کے بعد آنے والے تمام انبیاے بنی اسرائیل اسی شریعت یعنی تورات کے تابع تھے۔ آل ابراہیم ؑ کی دوسری شاخ یعنی بنی اسماعیل ؑ میں سے صرف ایک نبی، یعنی محمد رسول اللہﷺ مبعوث ہوئے۔ آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کے بعد دوسری شریعت عطا فرمائی ۔ اس طرح آپؐ بنی اسماعیلؑ میں سے واحد نبی ہیں اور حضرت موسیٰ ؑ کی مانند آپؐ کو شریعت بھی عطا ہوئی۔اس لحاظ سے آپؐ پر ’مثیل موسیٰ ‘ کا لقب پوری طرح صادق آتا ہے اور آپؐ پر بنی اسرائیل کے بھائیوں یعنی بنی اسماعیلؑ میں سے موسیٰ ؑ کی مانند ’ایک نبی‘ کے اوصاف کا بھی کامل اِطلاق ہوتا ہے۔
تیسرے باب میں تورات کی کتاب استثنا کے باب ۳۳ کی ابتدائی آیات میں مذکور’ فاران کے پہاڑ سے جلوہ گر ہونے والے‘ کا ذکر ہے۔کتاب استثنا کے اس باب میں حضرت موسیٰ ؑ نے اپنے بسترِ مرگ سے بنی اسرائیل کے قبائل کو دعا بھی دی ہے اور مستقبل کے لیے لائحہ عمل بھی ، لیکن ابتدا میں اپنے بعد آنے والی دونبوتوں کی پیشین گوئی بھی فرمادی ۔ ان میں سے پہلی تو سلسلہ بنی اسرائیل کے آخری نبی حضرت عیسیٰ ؑ کے کوہِ شعیر سے نمودار ہونے سے متعلق ہے اوردوسری میں مکے کے پہاڑ یعنی ’کوہ فاران‘ سے جلوہ گر ہونے والے محمد رسول اللہﷺکا ذکر ہے۔ اس پیشین گوئی میں حضرت موسیٰ ؑ نے بات قدرے وضاحت سے بیان فرمائی ہے کہ’ کوہ فاران‘ سے جلوہ گر ہونے والا نبی’ دس ہزار قدسیوں‘ ( پاکباز صحابہؓ ) کے ساتھ اپنے ہیکل پر اچانک نمودار ہوگا۔ دس ہزار چولھوں کی روشنی سے فاران کے پہاڑ جگ مگ جگ مگ کر اٹھیں گے اور اس کے داہنے ہاتھ میں ان کے لیے ایک شریعت بیضا (آتشی شریعت) ہو گی۔ اس پیشین گوئی میں حضرت موسیٰ ؑ نے محمد رسول اللہﷺکے صحابہ کرامؓ کے اوصاف بھی بیان فرمادیے ہیں۔
چوتھے باب میں ایک نہایت عجیب مگر واضح ، غیر مبہم اور دو ٹوک پیشین گوئی پر گفتگو کی گئی ہے۔ یہ پیشین گوئی حضرت عیسیٰ ؑ کی بَعثَت سے پہلے(۷ء ۲۹ء کے درمیان کسی وقت) ضبط تحریر میں آنے والی ایک کتاب ’صعودِ موسیٰ ‘ (Assumption of Moses) میں مذکور ہے۔ پیشین گوئی کی تاریخ کی یہ ایک بے مثال بشارت ہے۔ اس میں حضرت موسیٰ ؑنے اپنے بعد رونما ہونے والے بعض اہم واقعات کا ذکر فرمایا ہے۔ انھیں میں سے حضرت عیسیٰ ؑ اور محمد رسول اللہﷺ کے درمیانی عرصے میں رونما ہونے والا ایک اہم واقعہ اصحابِ کہف سے متعلق ہے۔ لیکن اس تمام کتاب کا سب سے اہم حصہ وہ ہے جس میں حضرت موسیٰ ؑ نے محمد رسول اللہﷺ کے متعلق ایک دوٹوک پیشین گوئی فرمائی ہے۔ یہ کتاب ان امالی پر مشتمل ہے جو حضرت موسیٰ ؑ نے اپنے آخری وقت میں اپنے شاگرد اور خلیفہ یوشع بن نون کو لکھوائے تھے۔ ان میں حیرت انگیز طور پر اپنی وفات اور آخری زمانے میں آنے والے نبی کی درمیانی مدت کا ٹھیک ٹھیک تعین فرما دیا کہ میرے مرنے اور اس کے تشریف لانے کے درمیان ۱۷۵۰ سال کا وقفہ ہو گا۔ اس باب میں تاریخ بنی اسرائیل اور تاریخ عالم کے اہم حوالوں سے ٹھیک ٹھیک اس تاریخ کا تعین کیا گیا۔ واضح رہے کہ آج تک کسی مسلم عالم نے اسے موضوع تحقیق نہیں بنایا۔ہماری اس کتاب میں پہلی دفعہ یہ پیشین گوئی مَنَصَّۂ شہود پر آئی ہے۔ مصنف کی انگریزی کتاب ’Muhammad Foretold in the Bible by Name‘میں اس بارے میں شائع شدہ ایک مفصل ضمیمے کے علاوہ اس موضوع پر کبھی مستقلاً کچھ نہیں لکھا گیا۔
پانچویں باب میں حضرت یعقوب ؑ کی ایک بشارت کی وضاحت کی گئی ہے۔ یہ آنحضرت ؑ کی اپنی وفات سے عین پہلے کی ایک دعا، ایک وصیت اور پیشین گوئی ہے۔ اس میں بھی حضرت موسیٰ ؑ کی طرح حضرت یعقوب ؑ نے بنی اسرائیل کے قبائل کی آنے والی تاریخ کی جھلکیاں بیان فرمائی ہیں۔ اس میں یہ بھی واضح فرما دیا گیا کہ یہود سے سلطنت کا عصا اور شریعت دینے والے کا ضابطۂ قانون موقوف نہ ہو گا جب تک کہ ’شیلوہ‘ نہ آجائے۔ اس میں یہودی اور مسیحی علما و مفسرین اور تاریخ نو یسوں کے حوالے سے ثابت کیا گیا ہے کہ یہاں محمد رسول اللہ ﷺ کا واضح ذکر اور آپؐ کے متعلق ناقابلِ تردید بشارت بیان کی گئی ہے۔ اس موضوع پر بھی اتنی وضاحت اور ایسے دلائل کے ساتھ اس سے پہلے کوئی تحریر موجود نہیں۔
چھٹا اور آخری باب حضرت داوٗد ؑ کی ’زبور‘ کے پینتالیسویں ’مزمور‘ پر مبنی ہے ۔ اس میں آپؑ نے محمد رسول اللہﷺکو بنی آدم میں سب سے حسین قرار دیا ہے۔ آپؐ کے کلام کی شیرینی اور فصاحت و بلاغت کا ذکر ہے۔ آپؐ کو ہمیشہ کے لیے مبارک بتایا ہے۔ آپؐ کی زبردست قوت اورجہاد و فتوحات کا ذکرہے۔ سچائی، حِلم اور صداقت کو آپؐ کی اقبال مندی کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ آپؐ کے ہاتھوں سے عظیم الشان معجزات کے صدور کا ذکر ہے۔ فرمایا ہے کہ امتیں تیرے سامنے زیر ہوں گی، تیرا تخت ابدالآباد ہے۔ تیری سلطنت کا عصاراستی کا عصا ہے۔ تیرا ہر لباس خوشبوؤں سے مہک رہا ہوتا ہے ۔ تیری معزز خواتین میں شہزادیاں ہیں اور آخر میں فرمایا : میں نسل در نسل تیرے نام کی یاد کو قائم رکھوں گا۔ اس لیے امتیں ابدالآباد تیری شکر گزاری (’کنگ جیمز ورشن‘ کے مطابق Praiseیعنی حمد) کریں گی۔ چھٹے باب میں واضح دلائل و براہین سے اس پیشین گوئی پر تحقیقی گفتگو کی گئی ہے۔
کتاب کا مقصد ایک تو یہ ہے کہ محمد رسول اللہﷺ پر شعوری ایمان مضبوط ہو اور آپؐ کی نبوت کی ایک محکم دلیل سے آشنائی ہو۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ تحقیق کے طلبہ میں بائبل پر تحقیق و مطالعہ کا ذوق پروان چڑھے ۔ اب تک ہمارے علما نے اس کی طرف بہت کم اعتنا فرمایا ہے، حالانکہ یہ ہر دور کے مسلمانوں کی ایک اہم ضرورت رہی ہے۔ ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبہ میں اسے اپنا
موضوعِ تحقیق بنانے اور اس پر دل جمعی سے کام کرنے کا میلان فروغ پائے۔اس کا تیسرا مقصد یہ ہے کہ اربابِ علم و تحقیق کو ایسے موضوعات پر کام کرنے کے لیے ایک نمونہ اور اسلوب مہیا کر دیا جائے۔ یقین ہے کہ اس کے مطالعے سے طلبہ کے لیے علم و تحقیق کا اب تک فراموش کردہ لیکن نہایت اہم میدان کھلے گا اور اس میدان میں کام کرنے کا جذبہ بیدار ہو گا، اِن شاء اللہ۔
اس کتاب کے باب دوم اور چہارم میری انگریزی کتاب\'Muhammad Foretold in the Bible by Name\' سے لے کر ترجمہ کیے گئے ہیں۔ تحقیق کے طلبہ ان کا تقابلی مطالعہ کرکے معیاری ترجمے کے اوصاف سے بھی کسی قدر آگاہی حاصل کر سکیں گے۔ ایک ضمنی فائدہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کا مطالعہ اردو زبان کے املا و انشا اور قواعد اور درست، مدلل، حسین اور پر تاثیر تالیف کے سلسلے میں ان شاء اللہ معاون ثابت ہو گا۔ کتاب کو اغلاط سے پاک رکھنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ لیکن بہرحال یہ ایک انسانی کاوش ہے۔ ہر طرح کی اغلاط کی نشان دہی پر مصنف تہ دل سے شکر گزار ہو گا۔
اقتباسات اور ان کے تراجم میں اصل عبارات میں تبدیلی سے گریز کیا گیا ہے اور انھیں صحیح یا غلط ہر حالت میں جوں کا توں درج کر دیا گیا ہے۔ مصنف کو اگر اقتباس کے اندر کچھ کہنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو اسے مربعی خطوط وحدانی[square brackets] میں درج کیا گیا ہے۔ اگر اقتباس سے کوئی مختصر عبارت حذف کی گئی ہے تو وہاں قوسین میں تین نقطے درج کر دیے گئے ہیں اور قدرے طویل عبارت حذف کیے جانے کی صورت میں قوسین میں چار نقاط درج کیے گئے ہیں۔ کتابوں کے نام ’واوین‘ میں لکھے گئے ہیں۔ تالیف کے سلسلے میں بنیادی طور پر ’شکاگو مینوئل‘ کو پیش نظر رکھا گیا ہے، تاہم قاری کی سہولت کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے۔
مورخہ ۲۰ جنوری ۲۰۱۰ء خاکسار
عبدالستار غوری
فیلو، ’المورد‘ ۵۱۔ کے، ماڈل ٹاؤن ،لاہور