چوتھی آیت کا پہلا حصہ ہے: ’اور سچائی اور حلم اور صداقت کی خاطر اپنی شان و شوکت میں اقبال مندی سے سوار ہو‘۔ KJV میں اس کا ترجمہ ہے:
And in thy majesty ride prosperously because of truth and meekness and righteousness.
اس طرح ’اقبال مندی‘ کے لیے انگریزی میں’پراسپیرٹی‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ سٹرونگ نے اس کے معنی’to come (mightily), prosperously, to advance‘بیان کیے ہیں۔ ۵ ۱
’ نیو اوکسفرڈاینوٹیٹڈ بائبل‘ نے اس کا انگریزی ترجمہ اس طرح کیا ہے :
'In your majesty ride on victoriously for the cause of truth and to defend the right.'۔
’نیو جیروسیلم بائبل پاکٹ ایڈیشن، ۱۹۹۰ء‘ ،(صفحہ ۶۲۵)نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے:
In your majesty and splender advance, 'ride on the cause of truth, gentleness and uprightness.'
NIV اور RSV نے ’اقبال مندی سے‘ کے لیے 'victoriously'کا لفظ استعمال کیا ہے اور ’گڈنیوز بائبل‘ نے 'Victorious'کا۔ NOABاور RSVنے اس کا ترجمہ کیا ہے : 'In your majesty ride forth (on) victoriously'۔ اس طرح آیت کا یہ حصہ فتح مکہ کی من و عن عکاسی کرتا ہے۔ واضح رہے کہ فتحِ مکہ کے اسباب بھی ’سچائی اور حلم اور ] حق و[صداقت‘ ہی تھے، جیسا کہ آگے وضاحت کی گئی ہے۔
سچائی ، حلم اور صداقت کے الفاظ محمد رسول اللہﷺ کی شناخت ہیں۔ ’صادق‘ اور ’امین‘ کے صفاتی نام آپؐ کے اسم علم کی صورت اختیار کر گئے تھے ۔ فتح مکہ کے لیے آپؐ بنو خزاعہ کی داد رسی اور کفارِ قریش کو ان کی عہد شکنی ، ظلم و بربریت اور خانہ کعبہ کی حرمت کی پامالی کی سزا دینے کی غرض سے نکلے تھے ۔ اور آپؐ کا یہ سوار ہو کر نکلنا پرامن فتح اور حق و انصاف اور صداقت کی جیت اور مظلوموں کی دادرسی کا ذریعہ بنا ۔۱۶ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺکے تمام غزوات بقول ’نیو اوکسفرڈ اینوٹیٹڈ بائبل‘ ’for the cause of truth and to defend the right‘(سچائی کے مقصد کے تحت اور حق کے دفاع اور حمایت کے لیے)ہی کے آئینہ دار تھے۔دنیا میں کوئی اور اس کا مصداقنہیں۔
چوتھی آیت کا دوسرا جملہ ہے : ’اور تیرا داہنا ہاتھ تجھے مہیب کام دکھائے گا‘۔’مہیب‘کے لیے انگریزی میں’Terrible‘کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ’سٹرونگ ‘ نے اس کے معنی لکھے ہیں:
To fear; to revere; frighten; be afraid; terrible.۱۷؎
ڈرنا، احترام کرنا، ڈرانا، خوف زدہ ہونا، خوف ناک یا مہیب۔
NIVنے اس کا قریباً یہی ترجمہ کیا ہے:'Let your right hand display awsome deeds.' رسول اللہﷺ کی زندگی میں ہمیں اس کی متعدد مثالیں ملتی ہیں۔ ’صحیح مسلم‘ میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے: ’فضلت علی الأنبیاء بست‘ یعنی مجھے چھ باتوں میں انبیا پر فضیلت دی گئی ہے: (۱) اعطیت بجوامع الکلم (۲) نصرت بالرعب (۳) احلت لی الغنائم (۴) جعلت لی الأرض مسجدا و طہورا (۵) ارسلت الی الخلق کافۃ (۶) ختم بی النبیون۱۸ ۔ اس حدیث میں جو ’نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ‘ فرمایا گیا ہے، یہ وہی بات ہے جو اوپر ’مہیب کام‘ کے الفاظ میں بیان ہوئی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہﷺ قریش اور دیگر اہل عرب کے مجمعوں میں ان کے خداؤں (بتوں) پر بے دریغ تنقید کرتے تھے، لیکن کبھی کوئی آپؐ کا بال بھی بیکا نہ کر سکا،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دلوں پر آپؐ کی ہیبت طاری کر دی تھی۔ بطور نمونہ چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں:
جب مسلمانوں کی اکثریت مکے سے مدینہ ہجرت کر گئی اور صرف دو چار مسلمان مکے میں باقی رہ گئے تو کفارِ قریش نے موقع غنیمت جانا کہ اب محمد[رسول اللہ ﷺ]کو ختم کرنے کا نادر موقع ہے۔ دارالندوہ [پارلیمنٹ ہاؤس] میں مجلسِ مشاورت ہوئی اور طے پایا کہ ہر قبیلے سے ایک مضبوط اور تیز دست جوان منتخب کیا جائے، جس کے ہاتھ میں ننگی تلوار ہو۔ سب مل کر ایک ساتھ حملہ کریں اور محمد[ﷺ] کا کام تمام کر دیں۔ اس طرح آپؐ کا خون تمام قبیلوں پر تقسیم ہو جائے گا اور بنو عبدمناف کے لیے ناممکن ہو جائے گا کہ کسی کے خلاف کار روائی کر سکیں۔ جب حالات اس نہج تک آ پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے آنحضور[ﷺ] کو مدینے کی طرف ہجرت کی اجازت دے دی۔ یہ اجازت اس دن ملی جس کے بعد آنے والی رات قریش نے آپؐ کے قتل کے لیے مقرر کی تھی۔ رات کی تاریکی نے جب قدم جما لیے تو وہ لوگ بھی آ پہنچے جو آپؐ کے قتل کے لیے مقرر کیے گئے تھے۔ یہ تعداد میں بارہ تھے۔ ان لوگوں میں ابو جہل، حکم بن ابی العاص، عقبہ بن ابی معیط، نضربن الحارث، امیہ بن خلف، حارث بن قیس، زمعہ بن الاسود، طعیم بن عدی، ابو لہب، اُبی بن خلف، نُبَیہ بن حجاج اور مُنَبَّہ بن حجاج شامل تھے۔ یہ لوگ باہر بیٹھے رہے اور اس انتظار میں رہے کہ صبح سویرے جب آنحضوؐر نماز کے لیے اٹھیں گے، تو وہ آپؐ پر یک بارگی ٹوٹ پڑیں گے۔ قدرت اُن کی اِن تدابیر پر مسکرا رہی تھی۔ نبی اکرمﷺ رات کے کسی حصے میں اطمینان سے باہر تشریف لائے اور اپنے ہاتھ سے ان کے سروں پر خاک ڈالتے ہوئے ان کے درمیان سے نکل گئے۔ سورۂ یٰسین کی ابتدائی آیات مبارکہ ’فاغشینا ہم فہم لا یبصرون‘ تک آپ کی زبان پر جاری تھیں۔ ۱۹
غزوۂ بدر کے سلسلے میں بیضاوی لکھتے ہیں:
پھر جبریل حاضر خدمت ہوئے اور حضورؐ سے کہا کہ آپ ایک مٹھی خاک کی لے کر ان کافروں کے مار دیجیے، پھر جب دونوں گروہ ایک دوسرے کے مقابل ہوئے، تو حضورؐ نے باریک کنکریوں کی ایک مٹھی بھر کر ان کے چہروں پر دے ماری، اور فرمایا ’شاھت الوجوہ‘۔ اس کے بعد کوئی کافر ایسا نہ تھا جو اس وقت آنکھوں سے معذور نہ ہو گیا ہو اور نتیجتاً کفار کو شکست فاش ہوئی؛ اور مسلمانوں نے ان کو قید اور قتل کرنا شروع کر دیا۔۲۰
قرآن کریم میں اس کے متعلق ارشاد ہے: ’وما رمیتَ اذ رمیتَ ولکن اللّٰہ رمٰی‘ یعنی ’اور اے نبیؐ، تو نے نہیں پھینکا، بلکہ اللہ نے پھینکا‘ (الانفال ۸: ۱۷)۔ غزوۂ حنین کے بارے میں بھی روایت ہے کہ آپؐ نے اسی طرح کنکریاں پھینکی تھیں۔۲۱
بدر ثانی میں کفار قریش کا لشکرآپؐ کے رُعب سے اس طرح ہیبت زدہ ہو ا کہ راستے ہی سے واپس لوٹ گیا۔ غزوۂ اُحد میں کفارِ قریش فتح مکمل کیے بغیر ہی دُم دبا کر بھاگ گئے اور جب مسلمان تعاقب میں آئے تو ان کا سامنا کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔ ثقیف و ہوازن میں آپؐ کی جرأت و بہادری کی مثال دنیا کی حربی تاریخ میں کہیں موجود نہیں۔ بالآخر مخالفین کو عبرت ناک شکست اٹھانا پڑی۔ بیعتِ رضوان سے کفارِ مکہ اتنے مرعوب ہوئے کہ بالآخر صلح قبول کرنا پڑی اور مسلمانوں کو اپنا برابر کا حریف تسلیم کر لیا۔ غزوۂ احزاب میں عرب کے تقریباً تمام بڑے قبائل مدینے کی بستی پر ٹوٹ پڑے تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہﷺ کی نصرت میں ایسا مہیب کام کیا کہ رات کی تاریکی ہی میں سارے دشمن تتر بتر ہو گئے اور صبح ہوتے ہوتے میدان بالکل خالی پڑا تھا۔ فتح مکہ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کفارِ مکہ پر ایسا رعب چھایا کہ کسی کو مقابلے کی جرأت نہ ہوئی اور شہر بغیر کسی جنگ اور خون ریزی ہی کے فتح ہو گیا۔ حضرت علیؓ کا قول ’من راٰہ بدا ہۃً ھابہٗ‘ ۲۲ (جو کوئی آپؐ کو یکا یک دیکھتا، وہ دہشت زدہ ہو جاتا) بھی اس بات کی غمازی کرتا ہے۔ مضمون کی گنجایش کے مطابق تفصیل ممکن نہیں، تاہم ’تیرا داہنا ہاتھ تجھے مہیب کام دکھائے گا‘ کی ایک ہلکی سی جھلک پیش کر دی گئی ہے۔
پانچویں آیت کا پہلا جملہ ہے: ’تیرے تیر تیز ہیں۔ وہ بادشاہ کے دشمنوں کے دل میں لگے ہیں۔‘ حضرت اسمٰعیل ؑ اور ان کی نسل تیر اندازی میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھی(پیدایش ۲۱: ۲۰)۔چنانچہ آنحضرتﷺ نے بھی ارشاد فرمایا: ’اے بنی اسمٰعیل ؑ ! تیر اندازی کیا کرو کیونکہ تمھارے باپ بھی تِیر انداز تھے (البخاری عن سلمہ بن اکوع بحوالہ ’بائبل سے قرآن تک‘ ۳: ۱۴۲۴)۔ اس سلسلے میں مزید قابل غوربات یہ ہے کہ تیر تیزہونے سے حربی قوت اور فتوحات بھی مراد ہیں۔ چنانچہ وقت کی دو سُپرپاورز آپؐ کے مقابلے میں بری طرح ناکام ہوئیں۔ شہنشاہِ ایران نے اپنی ایک باج گزار ریاست، یعنی یمن کو حکم دیا کہ آنحضرت ﷺ کو پابہ زنجیر گرفتار کرکے پیش کیا جائے، لیکن اس کا یہ حکم حسرت ہی بن کر رہ گیا اور اس کی فوری موت، اس کی سلطنت کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے اور بالآخر سلطنتِ ایران کے خاتمے پر منتج ہوا۔ قیصر روم کے دل میں آپ ؐ کے مکتوب گرامی کا تیر ایسا پیوست ہوا کہ وہ نقدِ دل اسی وقت ہار بیٹھا، مگر مصلحتاً ایمان سے محروم رہا اور اس کے بعد تبوک میں مقابلے کے لیے نکلنے کی جرأت نہ کر سکا۔ اسی طرح دیگر امرا و سلاطین کے نام آپؐ کے مکاتیبِ گرامی کا نشانہ خطا نہ گیا۔ بدر، اُحد، خندق، فتحِ مکہ، غزوۂ ہوازن، غزوۂ خیبر وغیرہ میں بھی آپؐ کے دشمنوں نے ایسی منہ کی کھائی کہ اپنے زخم چاٹتے ہی رہ گئے۔ اس کے برعکس حضرت عیسیٰؑ کسی طرح اس کے مصداق نہیں بن سکتے۔
اسی آیت ۵ کا دوسرا جملہ ہے: ’امتیں تیرے سامنے زیر ہوتی ہیں۔‘ اس کی وضاحت کی یہاں نہ ضرورت ہے نہ گنجایش۔ تاریخ کا ہر منصف مزاج طالب علم اس کی گواہی دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ فتح مکہ کے بعد جس طرح جوق در جوق قبائل عرب نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اللہ اور رسول کی اطاعت قبول کی ،وہ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے اور پھر اس کے بعد یہ دائرہ پھیلتا ہی گیا اور آج تک مسلسل پھیلتا جا رہا ہے۔
چھٹی آیت کا پہلا حصہ ہے: ’اے خدا تیرا تخت ابد الآباد ہے‘۔
(Thy throne, O God, is for ever and ever: The sceptre of thy kingdom is a right sceptre. 7. Thou lovest righteousness, and hatest wickedness, therefore God thy God, hath anointed thee with the oil of gladness above thy fellows: KJV)
یہاں لفظ ’خدا‘سے اللہ تعالیٰ ہرگز مراد نہیں ہو سکتا، جیسا کہ اگلی آیت (۷) کے دوسرے جملے کی ابتدا ہی سے ظاہر ہے: ’اسی لیے خدا تیرے خدا نے شادمانی کے تیل سے تجھ کو تیرے ہم سروں سے زیادہ مسح کیا ہے۔ ‘ میں خود خداکا خدا تو کوئی نہیں ہو سکتا۔ ظاہر ہے اس جملے میں ’تیرے‘ اور ’تجھ کو‘ کی مخاطب کی ضمیریں آیت ۶ کے لفظ ’اے خدا‘ سے متعلق ہیں۔اس طرح اضافی باتیں حذف کر کے اصل جملہ یہ بنتا ہے: ’اے خدا تیرا تخت ابدالآباد ہے: اسی لیے خدا تیرے خدا نے شادمانی کے تیل سے تجھ کو تیرے ہم سروں سے زیادہ مسح کیا ہے۔‘ یعنی خدا نے خدا کو مسح کیا ہے۔ ظاہر ہے یہ ایک لایعنی بات ہے۔ لہٰذا پہلے ’خدا‘ سے مراد لازماً کوئی انسان یا بادشاہ یا پیغمبر ہی ہو سکتا ہے۔ اس طرح ان دونوں آیات کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ حضرت داوٗد ؑ جس بادشاہ کے حق میں یہ مضمون لکھ رہے ہیں، اس کا تخت ابدالآباد ہے، اس کا عصاے سلطنت، یعنی شاہی اختیار و اقتدار حق و صداقت پر مبنی ہے۔ وہ نیکی سے محبت اور بدی سے نفرت کرتا ہے، اس لیے خدا نے اسے اس کے ہم سروں کے مقابلے میں مسرت کے تیل کے ساتھ زیادہ مسح کیا ہے۔
یہ آیات ایک ایسے رسول سے متعلق ہیں جو عصاے سلطنت اور اختیار و اقتدار کا مالک ہے۔ اس لیے حضرت عیسیٰؑ پر اِن کا اطلاق ہرگز ممکن نہیں۔ چنانچہ ان کا مصداق محمد رسول اللہ ﷺ ہی ہو سکتے ہیں۔اس جملے کے بارے میں بائبل کے مفسرین کی حیرانی و پریشانی قابل ملاحظہ ہے۔۲۳
آیت کا دوسرا حصہ، یعنی ’تیری سلطنت کا عصا راستی کا عصا ہے‘بھی کسی وضاحت کا محتاج نہیں۔ آپؐ کی سیرت و سوانح کا ہر طالب علم اس کا شاہد ہے۔ آیت ۷ کا بھی یہی حال ہے۔ اس کے الفاظ بھی آنحضرتﷺ کی حیات اور اس کے واقعات کی منہ بولتی تصویر ہیں۔ آیت ۸ میں محمد رسول اللہﷺ کی خوشبو سے متعلق جو بات بیان کی گئی ہے، اس کی تفصیل قارئین ہماری کتاب ’Muhammad Foretold in the Bible by Name‘ کے باب ہشتم میں ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔
آیت ۹ میں ارشاد ہے: ’تیری معزز خواتین میں شاہ زادیاں ہیں۔‘ حضرت عیسیٰؑ پر تو اس کے اطلاق کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ آپ کی عورتیں تو سرے سے موجود ہی نہیں تھیں۔ محمد رسول اللہ ﷺ پر اس کا پوری طرح اطلاق ہوتا ہے۔ آپ کی زوجۂ محترمہ حضرت خدیجہؓ عرب کے نہایت معزز قبیلے سے تعلق رکھتی تھیں اور عرب کی مال دار ترین خاتون تھیں۔ حضرت عائشہؓ عرب کے حکمران، خلیفۃ الرسول، امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی بیٹی تھیں۔ اس طرح ان کے شاہ زادی ہونے میں کون شک کر سکتا ہے۔ حضرت حفصہؓ دوسرے خلیفہ امیرالمومنین حضرت عمر فاروقؓ کی صاحبزادی تھیں۔ اس طرح وہ بھی یقیناًشاہ زادی تھیں۔ حضرت جویریہؓ رئیسِ بنی مصطلق حارث بن ضرار کی صاحبزادی، یعنی بنو مصطلق کی شاہ زادی تھیں۔ ان کے آنحضرتﷺ کے نکاح میں آنے کی برکت سے ان کے خاندان کے سات سو اَفراد کو غلامی سے نجات نصیب ہوئی تھی۔ حضرت ام حبیبہؓ قریش کے رئیس ابوسفیانؓ کی بیٹی تھیں۔ حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے ان کا نکاح پڑھایا اورانھیں شاہ زادیوں ہی کی طرح رخصت کر کے رسول اللہ ﷺ کی طرف بھجوایا۔ ام حبیبہؓ نے پیغام نکاح لانے والی ابرہہ نامی شاہی کنیز کو دو کنگن اور انگوٹھیاں انعام میں دیں، اس کے علاوہ پچاس دینار بھی دیے۔ حضرت صفیہ ماں اور باپ دونوں کی طرف سے شاہ زادی تھیں۔ ان کے والدحُیی بن اَخطب بنو نضیر کی یہودی ریاست کے سربراہ اور ان کی والدہ یہود بنو قریظہ کے ایک سردار کی بیٹی تھیں۔ آپؐ کے نواسے حضرت حسینؓ کی زوجہ شہربانو یزدگرد شہنشاہ ایران کی بیٹی تھیں۔ اس طرح اس بات کا ’کہ تیری معزز خواتین میں شاہ زادیاں ہیں‘ محمد رسول اللہ ﷺ پر حرف بہ حرف اطلاق ہوتا ہے۔
دسویں اور گیارھویں آیات ’اے بیٹی سن، غور کر اور کان لگا۔ اپنی قوم اور اپنے باپ کو بھول جا۔ اور بادشاہ تیرے حسن کا مشتاق ہو گا کیونکہ وہ تیرا خداوند ہے۔ تو اسے سجدہ کر۔‘ کا اطلاق بھی محمد رسول اللہ ﷺ پرحرف بہ حرف ہوتا ہے۔ سیدہ صفیہؓ کا تعلق حضرت داوٗد ؑ کی قوم بنی اسرائیل ہی سے تھا، اس لیے وہ انھیں ’اے بیٹی‘ کہہ کر مخاطب کر رہے ہیں۔ اور ان کا یہ ارشاد گرامی کہ’بادشاہ تیرے حسن کا مشتاق ہو گا‘ بھی حقیقت کی عکاسی ہے۔ مولانا شبلی لکھتے ہیں: ’ حضرت صفیہؓ کے ساتھ آنحضرتﷺ کو نہایت محبت تھی اور ہر موقع پر ان کی دل جوئی فرماتے تھے‘۔۲۴ ان کا والد حُیی بن اخطب، رئیسِ بنی نضیر، غزوۂ خیبر میں قتل ہوا تھا، اور یہ اپنی قوم یعنی یہود کو چھوڑ کر محمد رسول اللہ ﷺ کی زوجیت اور رفاقت میں آگئی تھیں۔ یہی حال حضرت ماریہؓ قبطیہ کا بھی تھا۔ ان آیات کے حضرت عیسیٰ ؑ پر اطلاق کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
بارھویں آیت میں ہے:’قوم کے دولت مند تیری رضا جوئی کریں گے۔‘ حبشہ کے بادشاہ نجاشی، بحرین کے حکمران منذر، سلطان عمان مطیع ہو کر اسلام میں داخل ہوئے۔قیصر روم ہرقل نے آپؐ کی خدمت میں ہدیے ارسال کیے۔قبطیوں کے بادشاہ مقوقس نے آپؐ کی خدمت میں تین باندیاں، تین حبشی غلام، ایک خوبصورت خچر، ایک دراز گوش گھوڑا اور بیش قیمت کپڑے بطور ہدیہ ارسال کیے۔ اس کے علاوہ بکثرت اہل ثروت لگاتار آپؐ کی خدمت میں تحفے اور ہدیے بھجواتے رہتے تھے۔
آیت ۱۶ ’تیرے بیٹے تیرے باپ دادا کے جانشین ہوں گے۔ جن کو تو تمام روے زمین پر سردار مقرر کرے گا۔‘ کا تعلق بھی محمد رسول اللہ ﷺسے ہے۔ فرزندانِ اسلام لگاتار مختلف ممالک و امصار میں اقتدار و حکمرانی کے وارث بنتے چلے آئے ہیں۔
آیت ۱۷ کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔ پچھلے قریباً ڈیڑھ ہزار سال سے دنیا بھر کی مساجد میں روزانہ پانچ مرتبہ محمد رسول اللہ ﷺ کا نام بآواز بلند گونجتا ہے۔ کروڑوں لوگ روزانہ آپ پراربوں کھربوں درود و سلام بھیجتے ہیں۔ روضۂ رسول پر جہاں دنیا بھر کی مختلف قوموں کے لاکھوں لوگ روزانہ حاضری دیتے ہیں، یہ منظر دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ ایک روح پرور اور ایمان افروز نظارہ پیش کرتا ہے۔ دنیا میں کسی اور ذات کے سلسلے میں یہ بات صادق نہیں آتی۔
اس طرح اگر تعصب اور تنگ نظری سے بالاتر ہو کر دیکھا جائے تو حضرت داوٗ دؑ کی یہ پیشین گوئی محمد رسول اللہ ﷺ پر پوری طرح صادق آتی ہے۔
_______
15. James Strong\'s Dic. of the Heb. Bible (NY: The Methodist Book Concern, 1984), entry, 6743,44, p. 99.
۱۶؎ قاضی سلیمان منصور پوریؒ لکھتے ہیں:
۶ ھ میں جو معاہدہ قریش نے نبی اکرم ﷺسے بمقام حدیبیہ کیا تھا اس کی ایک دفعہ میں یہ لکھا تھا: ’دس سال تک جنگ نہ ہو گی۔ اس شرط میں جو قومیں نبی (اکرم ) کی جانب ملنا چاہیں، وہ ادھر مل جائیں، اور جو قومیں قریش کی طرف ملنا چاہیں وہ ادھر مل جائیں۔‘ اس کے موافق بنو خزاعہ نبی (اکرم ﷺ) کی طرف اور بنو بکر قریش کی طرف مل گئے تھے۔ معاہدے کو ابھی دو برس بھی پورے نہ ہوئے تھے کہ بنو بکر نے بنو خزاعہ پر حملہ کیا۔ قریش نے بھی بنو بکر کو اسلحہ سے امداد دی۔ عکرمہ بن ابوجہل، سہیل بن عمرو (معاہدے پر اسی نے دستخط کیے تھے)، صفوان بن امیہ (مشہور سردارانِ قریش) خود بھی نقاب پوش ہو کر معہ اپنے حوالی و موالی کے بنو خزاعہ پر حملہ آور ہوئے (تاریخ طبری)۔ ان بیچاروں نے امان بھی مانگی۔ بھاگ کر خانہ کعبہ میں پناہ بھی لی۔ مگر ان کو ہر جگہ بے دریغ تہِ تیغ کیا گیا۔ یہ مظلوم جب الٰہک الٰہک (اپنے خدا کے واسطے، اپنے خدا کے واسطے) کہہ کر رحم کی درخواست کرتے تھے تو یہ ظالم ان کے جواب میں کہتے تھے ’لا الٰہ الیوم‘ (آج خدا کوئی چیز نہیں) (سیرۃ ابن ہشام ۲: ۲۰۹)۔ مظلوموں کے بچے کھچے چالیس آدمی، جنھوں نے بھاگ کر اپنی جان بچا لی تھی، نبی (اکرمﷺ) کی خدمت میں پہنچے اور اپنی مظلومی اور بربادی کی داستان سنائی۔ (’رحمت للعالمین‘، لاہور: شیخ غلام علی اینڈ سنز، کشمیری بازار ۱۹۵۳ء، ۱ : ۱۴۸، ۱۴۹)
اس طرح قریش نے ایک تو معاہدے کی خلاف ورزی کی، دوسرے فریب کاری سے خفیہ طور پر قاتلوں کی عملی مدد کی اور قتل و غارت گری میں ان کے ساتھ حصہ لیا، تیسرے خانہ کعبہ کی حرمت کو پامال کیا اور چوتھی بات یہ کہ بے گناہ انسانوں کو ناحق قتل کیا۔
بنو خزاعہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں فریاد لے کر آئے کہ معاہدے کے تحت ان کی مدد کی جائے۔ آنحضرتﷺ نے قریش کے پاس پیغام بھیجا کہ ان تین باتوں میں سے کوئی ایک قبول کر لیں: پہلی یہ کہ مقتولین کا خون بہا ادا کیا جائے، دوسری یہ کہ یا پھر قریش بنو بکر کی حمایت سے الگ ہو جائیں، وگرنہ تیسری یہ کہ حدیبیہ کا معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کر دیں۔ قریش کی نمائندگی کرتے ہوئے قرطہ بن عمر نے کہا کہ صرف تیسری شرط منظور ہے۔ اس طرح قریش نے صلح نامہ حدیبیہ کو کالعدم کر دیا۔
17. Strong\'s Dic., 3372, p.52
۱۸؎ ’صحیح مسلم ‘بحوالہ ’رحمت للعالمین‘ ۳: ۱۳۶۔
۱۹؎ ملاحظہ کیجیے: محمد احسان الحق سلیمانی، ’رسول مبین‘ (لاہور: مقبول اکیڈمی، چوک انار کلی، ۱۹۹۳)، ۴۸۴ تا ۴۸۶۔
۲۰۔ ’ تفسیر بیضاوی‘۳: ۲۲، المطبعۃ العامرہ، استنبول، ۱۳۱۷ ھ بحوالہ رحمت اللہ کیرانوی، ’بائبل سے قرآن تک‘، مکتبہ دارالعلوم، کراچی ۱۴، ۱۹۸۶ء، ۳: ۱۲۹۷۔
۲۱ ۔ ’بائبل سے قرآن تک‘ ۳: ۱۲۹۸، حاشیہ: ۱
۲۲ ۔ قاضی سلیمان منصور پوریؒ ،’رحمت للعالمین‘،۳: ۱۳۸۔
۲۳ ۔ ’نیو اوکسفرڈ اینو ٹیٹڈ بائبل‘ صفحہ ۸۱۴ پر اس آیت سے متعلق حاشیے میں لکھا ہے:
The most debated verse in the Psalms, often amended, which seems to attribute divinity to the king.
یہ زبور کی سب زیادہ متنازعہ آیت ہے، جو بادشاہ کے ساتھ خدائی صفات منسوب کر رہی ہے۔ [اسی لیے] اکثر [اسے تبدیل کر کے] اس میں اصلاح کر دی جاتی ہے۔
’اے نیو کمنٹری آن ہولی سکرپچر‘، ۱۹۵۱ء صفحہ ۳۵۷ پر رقم طراز ہے:
As addressed to an earthly king the words of the first clause, both translation and text, have been much disputed. The Psalmist cannot have addressed it to God Himself, since he speaks of God, thy God, directly afterwards. It must be studied in commentaries. But as applied to Christ it causes no difficulty.
پہلے جملے کے الفاظ، ترجمہ اور متن دونوں ، اس حیثیت سے کہ وہ ایک دنیاوی بادشاہ کو مخاطب کر کے کہے گئے ہیں، بہت متنازعہ ہے۔ یہ مزمور لکھنے والے [حضرت داوٗد ؑ ] یہ الفاظ بذاتِ خود خدا کو مخاطب کر کے نہیں کہہ سکتے تھے، کیونکہ وہ اس کے براہِ راست بعد ’خدا ،تیرا خدا ‘ کے الفاظ استعمال کر رہے ہیں۔ [اس پر تفصیلی بحث دیکھنے کے لیے ] اس کا تفاسیر میں مطالعہ کرنا چاہیے۔ لیکن اگر اس کا اطلاق مسیحؑ پر کیا جائے تو یہ کسی مشکل کا باعث نہیں بنتا۔
۲۴ ۔ شبلی نعمانی، ’سیرت النبی‘(نیشنل بک فاؤنڈیشن پاکستان، ۱۹۸۵ء )، ۲: ۴۳۱۔
____________