باب شِشُم
حضرت داو‘دؑ اپنی ’زبور‘میں فرماتے ہیں:
(۱) میرے دل میں ایک نفیس مضمون جوش مار رہا ہے۔میں وہی مضمون سناؤں گا جو میں نے بادشاہ کے حق میں قلمبند کیے ہیں۔میری زبان ماہر کاتب کا قلم ہے:(۲) تو بنی آدم میں سب سے حسین ہے۔تیرے ہونٹوں میں لطافت بھری ہے۔اِس لیے خدا نے تجھے ہمیشہ کے لیے مبارک کیا۔(۳) اے زبردست، تو اپنی تلوار کو، جو تیری حشمت و شوکت ہے، اپنی کمر سے حمائل کر۔ (۴) اور سچائی اور حلم اور صداقت کی خاطر اپنی شان و شوکت میں اقبال مندی سے سوار ہو۔ اور تیرا داہنا ہاتھ تجھے مہیب کام دکھائے گا۔ (۵) تیرے تِیر تیز ہیں: وہ بادشاہ کے دشمنوں کے دل میں لگے ہیں۔ اُمتیں تیرے سامنے زیر ہوتی ہیں۔ (۶) اے خدا تیرا تخت ابد الآباد ہے۔ تیری سلطنت کا عصا راستی کا عصا ہے۔ (۷) تو نے صداقت سے محبت رکھی اور بدکاری سے نفرت۔ اسی لیے خدا تیرے خدا نے شادمانی کے تیل سے تجھ کو تیرے ہم سروں سے زیادہ مسح کیا ہے۔ (۸) تیرے ہر لباس سے مُر اورعُود اور تج کی خوشبو آتی ہے۔ ( ...)۔ (۹) تیری معزز خواتین میں شاہزادیاں ہیں۔ (...)۔ (۱۰) اے بیٹی سن۔ غور کر اور کان لگا۔ اپنی قوم اور اپنے باپ کے گھر کو بھول جا۔ (۱۱) اور بادشاہ تیرے حسن کا مشتاق ہو گا کیونکہ وہ تیرا خداوند ہے۔ تو اُسے سجدہ کر۔ (۱۲) (...)۔ قوم کے دولت مند تیری رضا جوئی کریں گے۔ (...)۔ (۱۶) تیرے بیٹے تیرے باپ دادا کے جانشین ہوں گے۔ جن کو تو تمام روے زمین پر سردار مقرر کرے گا۔ (۱۷) میں تیرے نام کی یاد کو نسل در نسل قائم رکھوں گا۔ اِس لیے امتیں ابدالآباد تیری شکر گزاری [’کنگ جیمز ورشن‘ کے مطابق ’حمد‘ (Praise)[کریں گی۔ ۱
’زبور‘ کے اس گیت کو بائبل کے اکثر مفسرین نے کسی بادشاہ کی شادی کا گیت قرار دیا ہے۔ وہ بادشاہ کون ہے؟ اس کی کوئی وضاحت نہیں کی جاتی۔ پھر اس بات کا بھی کوئی تسلی بخش جواب موجود نہیں کہ یہ گیت کس کی طرف سے پیش کیا جا رہا ہے؟ یہ تاویل متعدد ایسے سوالات کو جنم دیتی ہے جن کا جواب ممکن نہیں، لیکن بعض مفسرین و مترجمین نے اس حقیقت کا اقرار کیا ہے کہ یہ ایک پیشین گوئی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے اس کا مصداق حضرت مسیح ؑ کو قرار دیا ہے۔
پہلی آیت اس نظم کی حیثیت اور مقصد اس طرح واضح کر دیتی ہے کہ کسی شک و شبہ کا شائبہ تک باقی نہیں رہتا۔ KJV میں اس کا انگریزی ترجمہ مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا گیا ہے:
My heart is inditing a good matter: I speak of the things which I have made touching [regarding] the king: my tongue is the pen of a ready writer.۲
NKJVاورRSV نےinditing جیسے متروک اور قدیم لفظ کے بجائے’overflowing with ‘جیسے الفاظ کے ذریعے سے مفہوم واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ NJB, NIV اورNWT وغیرہ نے ’stirred by‘کے الفاظ استعمال کیے ہیں، لیکن لفظ کے یہاں درست اور موزوں معنی ’الہام‘ کے ہیں۔ ’کولنزجم ڈکشنری آف دی بائبل‘ نے مندرجہ ذیل معنی درج کیے ہیں:
To write; but more properly. to dictate, to a writer, or even to inspire a writer.۳
لکھنا، کسی کاتب کو املا کرانا، بلکہ زیادہ مناسب معنی ہیں: کسی کاتب کو الہام کرنا۔
’ہیسٹنگز ڈکشنری‘ کے نظر ثانی شدہ جدید ایڈیشن نے اس لفظ کی مندرجہ ذیل وضاحت کی ہے:
This English word is now somewhat old fashined. When it is used it means \'to write\'. But formerly, and as found in AV, it means to inspire or dictate to the writer. (...). In the Duoai Version (though this word is not used) there is a note: I have received by divine inspiration in my heart (...). ۴
یہ انگریزی لفظ اب کسی حد تک پرانے فیشن کا ہو گیا ہے۔ جب یہ استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنی ہوتے ہیں ’لکھنا‘۔ لیکن پہلے بھی اور جس طرح یہ مستند ترجمے میں ملتا ہے وہاں بھی، اس کے معنی بنتے ہیں: ’الہام‘ کرنا یا کاتب کو لکھوانا۔ (...)۔ ڈیوئے ورشن میں (اگر چہ یہ لفظ استعمال نہیں کیا گیا) ایک نوٹ درج ہے: ’مجھے اپنے دل میں خدائی الہام سے یہ موصول ہوا ہے۔‘
اس طرح پہلے جملے کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ میرے دل پر ایک اچھی بات کا الہام کیا گیا ہے جو اس بات پر زور دے رہا ہے کہ اسے ظاہر کیا جائے (اس لیے میں نے اسے قلم بند کر لیا ہے)۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ مضمون الہامی ہے اور اس بات کا تقاضا کر رہا ہے کہ اسے آگے دوسروں تک پہنچایا جائے۔
آیت کے اگلے جملے میں حضرت داوٗد ں فرماتے ہیں:’میں وہی مضمون سناؤں گا جو میں نے بادشاہ کے حق میں قلم بند کیے ہیں‘۔’نیو انگلش بائبل‘ میں اس کے لیے مندرجہ ذیل الفاظ آئے ہیں:
In a king\'s honour I utter the song I have made.۵
میں نے بادشاہ کے اعزاز میں جو نغمہ ترتیب دیا ہے، میں اُسے پیش کرتا ہوں۔
’ موفٹ‘ نے یہ ترجمہ اختیار کیا ہے:
A noble theme inspires my soul:۶
ایک معزز مضمون میری روح میں الہام کی طرح سرایت کر رہا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت داوٗد ؑ فرمارہے ہیں کہ جو خوبصورت مضمون ان پر الہام کیا گیا تھا اور جسے انھوں نے احتیاط اور حفاظت کے لیے قلم بند کر لیا تھا، اب وہ اسے ایک نظم کی شکل میں لکھ کر اور تلاوت کرکے لوگوں تک پہنچانے کا ارادہ رکھتے ہیں، اور یہ مضمون ایک بادشاہ کے بارے میں ہے۔
آیت کے تیسرے جملے میں حضرت داوٗد ؑ فرماتے ہیں کہ وہ کوئی اناڑی شاعر یاناپختہ مصنف نہیں، بلکہ فن تصنیف و تالیف کے ماہر ہیں اور جملہ اصنافِ شعر و ادب سے پوری طرح آشنا ہیں: ’میری زبان ماہر کاتب کا قلم ہے۔ ‘یعنی مجھے تحریر و تقریر، دونوں میں یکساں کمال حاصل ہے۔
یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ مسیحی مفسرین نے حسبِ عادت اس گیت کو بھی حضرت مسیح ؑ کے حق میں ایک پیشین گوئی قرار دیا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ جن مفسرین نے اس کے پیشین گوئی ہونے سے انکار بھی کیا ہے، وہ بھی ہِرا پھِرا کر اسے حضرت مسیح ؑ کے حق میں پیشین گوئی قرار دینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ ’این آئی وی(NIV) سٹڈی بائبل‘ شروع میں تو اسے کسی بادشاہ کی شادی کے موقع پر اس کی مدح و تعریف قرار دیتی ہے، لیکن آگے چل کر لکھتی ہے:
(for the application of vv.6-7 to Christ see Heb. 1:8-9).۷
(آیات ۶- ۷ کے حضرت مسیح ؑ پر اطلاق کے لیے ملاحظہ کیجیے عبرانیون ۱: ۸ تا۹)۔
’اے نیو کمنٹری آن ہولی سکرپچر‘ میں وضاحت کی گئی ہے:
: (...); but in the Anglican, Sarum, and Roman uses the marriage of the King is the unity betwixt Christ and his Church, and the Psalm is, therefore, sung on Christmas Day, when that unity potentially began. (....). But as applied to Christ it causes no difficulty.۸
لیکن اینگلیکن، سارُوم اور رومن استعمال میں بادشاہ کی شادی سے مسیحؑ اور اس کے چرچ کے درمیان اتحاد و یگانگت مراد ہے۔ اس لیے یہ گیت کرسمس کے دن گایا جاتا ہے، جب یہ اتحاد و یگانگت عملاً شروع ہوئی۔ (....) ۔ لیکن اگر اس کا اطلاق حضرت مسیحؑ پر کیا جائے تو اس میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی۔
’دی آکسفرڈ بائبل کمنٹری‘ میں بھی یہی نقطۂ نظر پیش کیا گیا ہے:
From early times the psalm was regarded as messianic prophecy. The Targum paraphrased v. 2 as \'the beauty, O King Messiah, exceeds that of the children of men', and the writer to the Hebrews quotes vv. 6-7 to show the superiority of Jesus over the angels (Heb 1:8-9). In Christian liturgical tradition, it is sung on Christmas D ay. ۹
ابتدائی زمانے ہی سے اس حمدیہ گیت کو مسیحؑ کی پیشین گوئی قرار دیا جاتا تھا۔ ’ترجوم‘ نے آیت ۲ کا مفہوم اس طرح بیان کیا ہے: ’اے شاہ مسیحا، تیرا حسن اولادِ آدم سے زیادہ ہے‘، اور عبرانیون کا مصنف عیسیؑ ٰ کی فرشتوں پر فضیلت ظاہر کرنے کے لیے آیات ۶ تا ۷ کا حوالہ دیتا ہے (عبرانیون ۱: ۸-۹)۔ مسیحیوں کی عباداتی روایات میں اسے کرسمس کے دن گایا جاتا ہے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسیحی مفسرین کے نزدیک یہ ایک پیشین گوئی ہے اور وہ اس کا اطلاق حضرت مسیح ؑ پر کرتے ہیں، لیکن کیا یہ اطلاق درست ہے، اس کا تعین کرنے کے لیے قدرتِ الٰہی نے اسی ’اے نیو کمنٹری‘ کے مفسر سے یہ الفاظ لکھوا دیے ہیں:
But for that reason it is really applicable only to Him who fulfilled it to the highest.۱۰
لیکن اس وجہ سے حقیقت میں اس ]پیشین گوئی[ کا اطلاق صرف اسی ذات پر کیا جا سکتا ہے جو اسے اعلیٰ ترین سطح پر پورا کر دکھائے۔
آیندہ سطور میں آپ ملاحظہ فرمائیں گے کہ’ زبور‘ کا یہ گیت پکار پکار کر کس ذاتِ بابرکات کی پیشین گوئی کر رہا ہے۔
دوسری آیت سے اصل پیشین گوئی شروع ہو جاتی ہے اور اس کا پہلا جملہ ہی حقیقتِ حال واضح کر دیتا ہے۔ ارشاد ہے: ’تو بنی آدم میں سب سے حسین ہے۔‘ حضرت عیسیٰ ؑ کے بارے میں تو خود بائبل کے مفسرین اعتراف کرتے ہیں کہ : ۱۱'Nay, he had no form, nor comeliness, (Isa 43: 2)' یعنی’نہ ان کی شکل و صورت اچھی تھی اور نہ ان میں کوئی دل کشی اور جاذبیت تھی‘۔ اس کے بعد جب ہم محمد رسول اللہ ﷺ پر اس کا اطلاق کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ یہ جملہ آپؐ پر ہو بہو صادق آتا ہے۔ ’صحیح بخاری‘ میں حضرت براءؓ بن عازب بیان کرتے ہیں کہ’رسول اللہ ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ حسین تھے‘۔ ۱۲ ’سنن ترمذی شریف‘ میں حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں: ’میں نے نبی پاک ﷺسے زیادہ حسین کوئی نہیں دیکھا، یوں لگتا تھا جیسے سورج آپ کے چہرے میں رواں دواں ہو‘۔۳ ۱ حضرت اُمِ معبدؓ آپؐ کے حسن کی عکاسی ان الفاظ میں کرتی ہیں:
میں نے ایک ایسا شخص دیکھا جس کی رنگت چمک دار تھی، چہرہ روشن تھا، بناوٹ دل کش تھی، (...) ، لمبی گردن، آنکھوں کی سفیدی انتہائی سفید اور سیاہی سخت سیاہ، خاموشی میں پُر وقار، بولے تو لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لے اور ان کے دل موہ لے، دُور سے دیکھو تو حسین اور روشن، قریب ہو تو شیریں اور دل آویز ، (...) ، دو شاخوں کے درمیان ایک شاخ، جو سب سے زیادہ جاذب نظر، لدی پھندی اور تازہ و شاداب۔ ۴ ۱
اس سے صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ ’تو بنی آدم میں سب سے حسین ہے‘ کے الفاظ کس پر صادق آتے ہیں۔
آیت ۲ کا اگلا جملہ ہے: ’تیرے ہونٹوں میں لطافت بھری ہے‘۔’ کنگ جیمز ورشن‘ لکھتا ہے: ’Grace is poured into thy lips‘ یعنی (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) ’آپ کے ہونٹوں کے اندر لطافت اور عظمت ڈال دی گئی ہے‘،جیسا کہ ’گڈ نیوز بائبل‘ نے اس کا ترجمہ کرتے ہوئے بات ذرا کھول دی ہے: ’You are an eloquent speaker‘یعنی ’آپ شیریں بیان اور فصیح اللسان مقرر ہیں‘۔ اس موضوع پر ہماری کتاب’Muhammad Foretold in the Bible by Name‘کے آٹھویں باب کے آخری چار صفحات میں مختصر اور گیارھویں باب میں تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔ جس سے قارئین پر واضح ہو جائے گا کہ ’تیرے ہونٹوں میں لطافت بھری ہے ‘ کے خوبصورت الفاظ محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات پر حرف بہ حرف سچے ثابت ہوتے ہیں اور آپؐ کے علاوہ دنیا کی کوئی شخصیت اس کی کماحقہ مصداق قرار نہیں دی جا سکتی۔
دوسری آیت کا آخری جملہ ہے : ’اسی لیے خدا نے تجھے ہمیشہ کے لیے مبارک کیا۔ ‘پیشین گوئی کا یہ حصہ محمد رسول اللہ ﷺ کے علاوہ دنیا کی کسی ہستی پر صادق نہیں آتا، جبکہ آپ ؐ اس کے بعینہٖ مصداق ہیں۔ پچھلے قریباً ڈیڑھ ہزار سال کی تاریخ شاہد ہے کہ دنیا کے کونے کونے میں ’أشہد أن محمدًا رسول اللّٰہ‘کی صدائیں دن میں پانچ مرتبہ گونجتی ہیں اور انھیں سننے والاہر مسلمان آپ ؐپر درود اور سلام بھیجتا ہے۔ پھر ہر نماز کے آخر میں ہر نمازی آپؐ کے مبارک اور بابرکت ہونے کا اعلان کرتا ہے ۔ کیا دنیا کی کوئی اور ہستی بھی ہے جس کے متعلق ان الفاظ کے اطلاق کا کسی بھی درجے میں دعویٰ کیا جا سکے کہ ’خدا نے تجھے ہمیشہ کے لیے مبارک کیا۔‘
تیسری آیت میں بیان کیا گیا ہے : ’اے زبردست ، تو اپنی تلوار کو جو تیری شوکت و حشمت ہے، اپنی کمر سے حمائل کر ۔‘ تلوار قوت ، اقتدار اور سپہ سالاری کی علامت ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرت داوٗد ؑ کا یہ ’ممدوح الامم‘ تلوار سے مسلح ہو کر میدان جنگ میں بھی اترے گا۔ ’زبردست‘ کے لیے’گڈ نیوز بائبل‘ نے ’mighty king‘کے لفظ استعمال کیے ہیں۔NWTاورNIVنے ’mighty one‘ اورKJV نے ’most mighty‘کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔رکانہ والا واقعہ آپؐ کی طاقت و قوت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔(ملاحظہ کیجیے ہماری کتاب’Muhammad Foretold in the Bible by Name‘کے باب نہم کا تیسرا اور چوتھا صفحہ)حضرت عیسیٰ ؑ کا ان امور سے کبھی دور کا بھی واسطہ نہیں رہا، جبکہ یہ آیت محمد رسول اللہﷺ پرمِن وعن پوری اترتی ہے۔ آپؐ جزیرہ نماے عرب کے بادشاہ بھی تھے اور تلوار کمر سے حمائل کر کے غزوۂ بدر ، غزوۂ احد ، غزوۂ خندق، فتح مکہ ، غزوۂ خیبر اور غزوۂ تبوک وغیرہ میں صحابہ کرامؓ کے لشکروں کی سپہ سالاری کا فریضہ بھی سرانجام دیتے رہے اور آپؐ کی شوکت و حشمت کو پوری دنیا نے خراج تحسین پیش کیا ہے۔
_______
۱ ۔ ’کتاب مقدس ‘، زبورِ داوٗد ؑ ،۴۵: ۱-۱۷۔
2. The Bilble, Ps. 45: 1 KJV.
3. Collins Gem Dic. of the Bible, Revd. James L. Dow (Collins, London & Glasgow, 1974), s.v. \'indite\', p. 245.
4. Dic. of the Bible, ed. James Hastings, revd. Frederick C. Grant, H. H. Rowley (NY: Charles Scribner\'s Sons, 1963), p. 417.
5. The Bilble, Ps. 45: 1 NEB, p. 422.
6. A New Trans. of the Bilble, tr. James Moffatt, Ps. 45: 1(London: Hodder & Stoughton, 1941), p. 633.
7. NIV Study Bible (London: Hodder and Stoughton, 1993), p. 813.
8. A New Com. on Holy Scripture, ed., Charles Gore, et al (London: S. P. C. K., 1951), p. 357.
9. The Oxf. Bible Com., ed. John Barton, John Muddiman (NY: Oxf. Univ. Press, Inc., 2007), p. 380.
10. A New Com. on Holy Scripture, 1951, p. 357.
11. Matthew Henry, An Exposition of O & NT, 4:851.
۲ ۱ ۔ البخاری، ’الجامع الصحیح‘، بروایت حضرت براءؓ بن عازب۔
۳ ۱۔ ’السنن الترمذی ‘بروایت ابو ہریرہؓ ۔
۱۴؎ الحاکم ، ’المستدرک علی الصحیحین‘ (الموسوعہ الذہبیہ، المرحلۃ الاولٰی، الاصدار الثانی، ۲۰۰۱ء) حدیث ۴۲۷۴۔
____________