HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Abdul Sattar Ghauri

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

حضرت یعقوب علیہ السلام کا شیلوہ (حصہ دوم)

یہود پر مختلف اوقات میں جو تباہیاں نازل ہوتی رہیں، اس کے نتیجے میں ان کی خود مختاری اور جبری جلاوطنی بھی جاری رہی۔۷۲۲ق م میں نینوا کے اشوریوں نے ان کی شمالی سلطنت ’اسرائیل‘ کا خاتمہ کردیا اور ان کے قتل عام کے بعدانھیں سامریہ سے نکال باہر کیا۔ ستائیس ہزار سے زیادہ اسرائیلیوں کو وہ اپنے ساتھ لے گئے اور اپنے زیر اقتدار مختلف علاقوں میں انھیں تھوڑے تھوڑے کرکے منتشر کردیا تاکہ ان کی شناخت او رمرکزیت ختم ہوجائے۔ سامریہ کے بے شمار اسرائیلی خود مختلف علاقوں میں فرار ہوگئے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ ان کی کچھ تعداد عرب کی طرف بھی منتقل ہوگئی ہو، لیکن اس کاکوئی قابلِ اعتماد ثبوت موجود نہیں ہے۔ ۵۸۶ق م میں جنوبی سلطنت یہودیہ کا بھی بابلی حکمران نبیو کدنضرکے ہاتھوں خاتمہ ہوگیا۔

یروشلم اور یہودیہ کے دیگر علاقوں سے ہزاروں یہودیوں کو تو نبیو کدنضر بابل اسیر بناکر لے گیا، لیکن بے شمار یہودی یہاں سے اپنے طور پر بھی مختلف علاقوں میں منتشر ہوگئے۔ یقینی بات ہے کہ ان کی ایک بڑی تعداد جنوب میں اپنے قریب کے پڑوسی ملک عرب میں بھی جاکر آباد ہوئی ہوگی۔ اسی طرح۷۰ء میں ٹائیٹس (Titus)کے ہاتھوں یروشلم کی تباہی کے بعد بھی ایک بڑی تعداد میں یہودی عرب میں جاکر آباد ہوئے۔ عرب کی معلوم تاریخ سے ہمیں پتہ چلتاہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں یثرب اور خیبر کے علاقوں میں یہودی بڑی تعداد میں آباد تھے اور وہاں ان کی منظم او رمضبوط حکومتیں قائم تھیں۔ اس طرح ابھی یہوداہ کی نسل سے عصاے اقتدار کلی طور پر موقوف نہیں ہوا تھا۔ ذیل میں اس کی وضاحت کے لیے ’تاریخِ یہود‘سے ایک اقتباس درج کیا جاتا ہے :

Wearied with contemplating the miserable plight of the Jews in their ancient home and in the countries of Europe and fatigued by the constant sight of fanatical oppression. The eyes of the observer rest with gladness upon their situation in the Arabian Peninsula. Here the sons of Judah were free to raise their heads, and did not need to look about them with fear and humiliation, lest the ecclesiastical wrath be discharged upon them, or the secular power overwhelm them. Here they were not shut out from the paths of honor, nor excluded from the privileges of the state, but, untrammeled, were allowed to develop their powers in the midst of free, simple, and talented people, to show their manly courage, to compete for the gifts of fame, and with practised hand to measure source with their antagonists. Instead of bearing the yoke, the Jews were not infrequently the leaders of the Arabian tribes. Their intellectual superiority constituted them a power, and they concluded offensive and defensive alliances, and carried on feuds [stress added]. Besides the sword and the lance, however, they handled the ploughshare and the lyre, and in the end became the teachers of the Arabian nations. The history of the Jews of the Arabia in the century which precedes Mahomet\'s appreance, and during the period of his activity, forms a glorious page in the annals of the Jews.
(....). The later Arabian Jews said, however, that they had heard from their forefathers that many Jewish fugitives had escaped to northern Arabia on the destruction of the First Temple by Nebuchadnezzer. But there can be no doubt that the persecution of the Jews by the Romans was the means of establishing a Jewish population in the Arabian peninsula. The death-defying Zealots who, after the destruction of the Second Temple, fled in part to Egypt and to Cyrene, in order to continue there the desperate struggle against the thraldom of Rome, also passed in straggling bands into Arabia, where they were not compelled to hide their love of freedom or to abandon their warlike bearing [stress added].
(....). As the Jews were often molested by Bedouins, they built castles on the elevated places in the city and the surrounding country, whereby they guarded their independence [stress added]. Although originally the sole rulers of this district, they were afterwards obliged to share their powers and the possession with the Arabs, for about the year 300, two related families, the Benu-Aus and the Chazraj (together forming the tribe of Kaila), settled in the same neighbouringhood and sometimes stood in friendly, sometimes in hostile relations to the Jews.
To the north of Yathrib was situtated the district of Chaibar, which was entirely inhabited by Jews, who constituted a seperate commonwealth [stress added]. The Jews of Chaibar are supposed to have been descendants of the Rechabites, who, in accordance with the command of their progenitor, Jonadab, the son of Rechab, led a nomadic and Nazarite life; after the destruction of the First Temple, they are siad to have wanderd as far as the district of Chaibar, attracted by its abundance of palms and grain. The Jews of Chaibar constructed a line of castles or fortresses, like the castles of the Christian knights. The strongest of them was Qamus, built upon a hill difficult to access. These castles protected them from the predatory incursions of the warlike Bedouins, and enabled them to offer an asylum to many a persecuted fugutive. Wadil-Kora (the valley of the villages), a furtile plain, a day\'s journey form Chaibar, was also inhabited exclusively by Jews [stress added]. In Mecca, where stood the Sanctuary of the Arabs, there probably lived but few Jews.
(....). Arabia owned only half the island of Yotabe (Jijban), in the Red Sea (60 miles to the south of the capital, Aila); a small Jewish free state had existed there since time immemorial [stress added].
(....). Although they had nothing to complain of in this hospitable country, which they were able to regard and love as their fatherland, they yearned nevertheless to return to the holy land of their fathers, and daily awaited the coming of the Messiah. Like all the Jews of the globe, therefore, they turned their face in prayer [as Qiblah] towards Jerusalem. ۱۵؂
یہودیوں کے اپنے قدیم وطن اور یورپ میں دُکھ بھرے مصائب کے متعلق سوچ سوچ کر اور مذہبی جنونیوں کے مظالم کے لگاتار نظارے سے تھک ہار کر دیکھنے والے کی نظریں جزیرہ نماے عرب میں اُن کی صورت حال پر خوشی کے ساتھ آرام و اطمینان محسوس کرتی ہیں۔ یہوداہ کے بیٹے یہاں سر اُٹھا کر آزادی اور اپنی مرضی سے جہاں چاہے گھوم پھر سکتے تھے، اور انھیں خوف اور ذلت کے ساتھ اس اندیشے کے تحت اردگرد نظر رکھنے کی ضرورت نہ تھی کہ کہیں ان پر کلیسیا کا غضب نہ ٹوٹ پڑے یا کوئی بے دین قوت ان پر قابو نہ پا لے۔ یہاں ان پر عزت و آبرو کے دروازے بند نہ تھے، نہ ان پر ریاست و سیاست کے اختیارات و اعزازات کے حصول کے سلسلے میں کوئی قدغن تھا، بلکہ انھیں بے روک ٹوک اس بات کی اجازت تھی کہ شہرت کے انعامات کی مقابلہ آرائی میں اپنی ہمت مردانہ کا مظاہرہ کر سکیں اور اپنے ماہرانہ ہاتھوں کے ساتھ وسائل کے حصول کے لیے اپنے حریفوں سے پنجہ آزمائی کر سکیں۔ غلامی کا جُوا اُٹھانے کے بجائے یہودی اکثراوقات عرب قبائل کی سرداری کیا کرتے تھے۔ ان کی ذہنی برتری ان کی قوت کا موجب تھی۔ وہ جارحانہ اور مدافعتی معاہدے بھی کرتے تھے، اور قبائلی جنگوں میں بھی حصہ لیتے تھے۔ تلواروں اور نیزوں کے استعمال میں مہارت کے مظاہرے کے علاوہ وہ ہل چلانے اور بربط بجانے میں بھی اپنے جوہر دکھاتے تھے ۔وہ آخر میں عرب قوم کے اُستاد بن گئے۔محمد[ﷺ] کے ظہور سے پہلے کی صدی اور آپؐ کی سرگرمیوں کے دوران والے زمانے میں یہود یوں کی تاریخ قومِ یہود کی زندگی کا ایک سنہری باب ہے۔
(....)۔ تاہم بعد کے یہودِ عرب کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنے آباواجداد سے سُنا ہے کہ نبیوکد نضر کے ہاتھوں پہلے ہیکل[ہیکل سلیمانی] کی تباہی پر بہت سے یہود پناہ گزین بچ کر شمالی عرب میں آ گئے تھے، لیکن اس میں کوئی شک ممکن نہیں کہ رومیوں کے ہاتھوں یہود کی تعذیب جزیرہ نماے عرب میں یہودیوں کی آبادی قائم ہونے کا باعث تھی۔ موت و حیات سے بے نیاز پُرجوش یہودی گروہ [Zealots]، جو دوسرے ہیکل کی تباہی کے بعد وہاں رومی غلامی کے خلاف جان کی بازی لگا کر بے دھڑک جدوجہد جاری رکھنے کے لیے جزوی طور پر مصر اور سائیرین کی طرف بھاگ گیا تھا، اس کے کچھ بچھڑے ہوئے دستے عرب میں بھی پہنچ گئے جہاں وہ اس بات پر مجبور نہ تھے کہ آزادی کے ساتھ اپنی محبت کو چھپائیں یا اپنا جنگ جو یانہ طرزِ عمل ترک کریں۔
(....)۔ کیونکہ عرب کے خانہ بدوش بدو یہودیوں کو اکثر ستاتے رہتے تھے، اس لیے وہ شہر اور اس سے ملحقہ دیہات میں اُونچی جگہوں پر قلعے اور گڑھیاں تعمیر کر لیتے تھے۔ ان کے ذریعے سے وہ اپنی آزادی کی حفاظت کرتے تھے۔ اگرچہ شروع میں وہ اس پورے علاقے کے بلاشرکتِ غیرے حکمران تھے، تاہم وہ اپنی طاقت اور زمین پر اپنے قبضے میں عربوں کو شریک کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ اس کا سبب یہ ہوا کہ ۳۰۰ء کے قریب دو باہم رشتے دار خاندان بنواوس اور خزرج(جو باہم مل کرقبیلۂ قیلہ بنتے تھے )، اس خطے کے قرب و جوار میں آباد ہو گئے، اور یہود کے ساتھ بعض اوقات دوستانہ تعلقات رکھتے تھے اور بعض اوقات معاندانہ۔
یثرب کے شمال میں خیبر کا ضلع واقع تھا، جس میں کلیتاً یہودی آباد تھے۔ انھوں نے وہاں ایک الگ متحدہ ریاست بنا لی تھی۔ خیبر کے یہود کے متعلق خیال یہ کیا جاتا ہے کہ وہ رحابیوں کی نسل سے تھے، جو اپنے مورث اعلیٰ، جُنَدَب بن رحاب، کے حکم کے مطابق ایک خانہ بدوشانہ اور نصرانیوں جیسی زندگی گزارتے تھے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ پہلے ہیکل[ہیکل سلیمانی] کی تباہی کے بعد وہ دربدر گھومتے ہوئے خیبر جیسے دُور دراز علاقے میں پہنچ گئے اور اس کی کھجوروں اور اناج کی کثرت کی کشش میں وہ یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ خیبرکے یہودیوں نے مسیحی فوجی امرا کی قلعہ بندیوں کی مانند قلعوں اور گڑھیوں کی ایک قطار تعمیر کر لی۔ ان میں سب سے مضبوط قموس کا قلعہ تھا، جو ایک ایسی پہاڑی پر بنایا گیا تھا جس تک رسائی بہت مشکل تھی۔ یہ قلعے انھیں جنگجو بدوؤں کی غارت گرانہ یلغار سے محفوظ رکھتے اور انھیں متعدد ستائے ہوئے پناہ گزینوں کو تحفظ فراہم کرنے کے قابل بناتے۔ وادی القریٰ(بستیوں کی وادی) میں، جو خیبر سے ایک دن کے سفر کے فاصلے پر زرخیز میدان پر مشتمل تھی، بھی صرف یہودی ہی آباد تھے۔ مکہ میں جہاں عربوں کا حرم واقع تھا، غالباً بہت ہی کم یہودی رہایش پذیرتھے۔
(....)۔ بحیرۂ قلزم میں (دارالحکومت عائلہ سے ۶۰ میل جنوب میں) واقع جزیزۂ ےُتابع (ججبان) کا صرف نصف حصہ عربوں کے قبضے میں تھا۔ زمانۂ قدیم سے وہاں (بھی) ایک چھوٹی سی آزاد یہودی ریاست قائم تھی۔
(....)۔ اگرچہ اس مہمان نواز ملک میں ان کے پاس شکایت کرنے کی کوئی وجہ موجود نہیں تھی، اور اسے وہ اپنے آبائی وطن کی طرح احترام و محبت دے سکتے تھے، پھر بھی وہ اپنے آباواجداد کی مقدس سرزمین میں واپس جانے کی شدید خواہش رکھتے تھے، اور روزانہ مسیحا کی آمد کا انتظار کرتے تھے، اس لیے دُنیا کے تمام یہودیوں کی طرح وہ بھی اپنی نماز میں [قبلے کے طور پر]اپنا منہ یروشلم کی طرف کرتے تھے۔

آیت کا اس کے ساتھ والا اگلا جملہ ہے: ’اورنہ اس کی نسل سے حکومت کا عصا موقوف ہوگا‘۔ ’کنگ جیمز ورشن‘ میں اس کے لیے ’nor a lawgiver from between his feet‘کے الفاظ درج ہیں۔ عبرانی بائبل میں یہاں ا صل لفظ ’حَقق‘ہے، جس کے معنی حکومت کا عصا بھی ہیں اور شریعت یا شریعت دینے والا بھی۔۱۶؂ سیدھی سی بات ہے کہ پہلے جملے میں بھی کہا گیا ہے کہ یہوداہ کا اقتدار ختم نہیں ہوگا، اور اس دوسرے جملے میں بھی یہی بات دہرائی گئی ہے۔ اگراردو ترجمے والے دونوں جملوں کو ملاکر بولاجائے تو عبارت یہ بنتی ہے کہ ’یہوداہ (مراد یہاں صرف یہوداہ نہیں، بلکہ اس کی نسل بھی مراد ہے) سے عصاے سلطنت نہ چھوٹے گا،اور نہ اس کی نسل سے حکومت کا عصا موقوف ہوگا‘۔ اس طرح ایک ہی مفہوم کے دو جملوں کا اجتماع ایک لایعنی سی بات بن جاتی ہے، لیکن ’کنگ جیمز ورشن‘ کے انگریزی ترجمے میں ان دونوں جملوں کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ’ عصاے حکمرانی یہوداہ سے الگ نہ ہوگا، اور نہ اس کے پاؤں کے درمیان سے شریعت دینے والا‘۔ یہاں عبارت کے دوسرے جملے ’عصاے حکومت ‘کے تکرار کے بجائے، جس سے عبارت میں ایک لایعنی تنافر پیدا ہوتاتھا، ’شریعت دینے والا‘ درج ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ عبرانی بائبل میں دوسرے جملے میں جو لفظ’ حقق‘درج ہے، اس کے معنی ہیں: ’ Lawgiver‘۔ ۱۷؂

اس طرح یہ ترجمہ موقع و محل کے لحاظ سے بھی موزوں ہے او رلفظ کے معنی کے لحاظ سے بھی درست ہے۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے اور اسے ذہن میں رکھنا ضروری ہے ،کیونکہ آگے چل کر اس سے عبارت کا صحیح مفہوم متعین کرنے میں بڑی مدد ملے گی۔

اگلا جملہ ہے: ’جب تک شیلوہ نہ آئے ‘۔’کنگ جیمز ورشن‘ کی انگریزی عبارت کا بھی بعینہٖ یہی مفہوم بنتا ہے۔ شیلوہ اگرچہ کسی مقام کا نام بھی ہے ، لیکن سیاق و سباق کی رو سے اس جملے میں اس کا یہ مفہوم نہیں لیاجاسکتا۔ یہاں یہ صریح طور پر کسی شخص کے نام ہی کے طور پر بولاگیا ہے۔ اکثر مسیحی مفسرین نے اس سے حضر ت عیسیٰؑ مراد لیے ہیں۔ بعض یہودی تفاسیر میں بھی یہاں ’مسیحا‘ مراد لیاگیاہے۔مثلاً گنتھر پلاٹ لکھتاہے:

The Hebrew is obscure. (....). One Jewish tradition, taking Jacob\'s blessing to be a prophecy for the end of the time (see verse 1) interpreted Shiloh to mean the Messiah (...). ۱۸؂
عبرانی غیر واضح اور مبہم ہے۔(....)ایک یہودی روایت ، یعقوبؑ کی دعاے برکت کو وقت اختتام (قیامت) کے لیے ایک پیشین گوئی قرار دیتے ہوئے (ملاحظہ کیجیے آیت۱) لفظ ’شیلوہ‘ کی تشریح یہ کرتی ہے کہ ا س کے معنی ’مسیحا‘ہیں۔(...)

ایک اور مفسر ڈاکٹر اے کوہن لکھتا ہے:

N. rejects E.\'s interpretation of sceptre as \'greatness\', and maintains that the word always denotes \'kingship\'. Until Shiloh come (sic a A.V.), viz, King Messiah, to whom belongeth sovereignty. ۱۹؂
’این‘ عصاے سلطنت کی بطور ’بڑائی ‘والی ’ای‘ کی تاویل رد کردیتا ہے۔ وہ اس بات کاقائل ہے کہ یہ لفظ ہمیشہ بادشاہی پر دلالت کرتا ہے۔ جب تک کہ شیلوہ نہیں آتا (کنگ جیمز کے مستند ورشن میں اسی طرح لکھا ہے) یعنی بادشاہ مسیحا ، جس سے اقتدار کا تعلق ہے۔

لیکن لفظ کے سیاق و سباق او رپوری عبارت کے مفہوم کے لحاظ سے نہ تو یہاں حضرت عیسیٰؑ مراد لیے جاسکتے ہیں اور نہ مستقبل میں آنے والا کوئی مسیحا ۔ بعض مترجمین نے ’جب تک شیلوہ نہ آئے‘ کے عجیب وغریب معنی کیے ہیں۔ او ربعض کے نزدیک اس لفظ کا،بلکہ پوری آیت کا مفہوم متعین کرنا بہت مشکل ہے، مثلاًجے اے ہرٹز لکھتا ہے:

The explanation of this verse, (...), is very difficult. ۲۰؂
اس آیت کی تشریح (...) بہت مشکل ہے۔

لیکن اگر دیانت داری ، غیرجانب داری، محنت اور تحقیق سے کام لیاجائے تو لفظ ’شیلوہ ‘اور پوری آیت کامفہوم اور اس کا مدلول متعین کرنا مشکل نہیں ۔ اس مضمون میں پوری دیانت داری سے اس کامفہوم متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

آیت کا آخری جملہ ہے: ’اور قومیں اس کی مطیع ہوں گی‘۔ قریباً تمام انگریزی تراجم نے بھی یہی مفہوم دیا ہے، یعنی لوگ اس کے پاس جمع ہوں گے اور اس کی اطاعت اختیار کریں گے۔

آیت کے الفاظ اور اس کے جملوں کی وضاحت اور ان کا مفہوم متعین ہوجانے کے بعد لفظ ’شیلوہ‘ اور پوری آیت کا مدلول تلاش کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آنی چاہیے۔

پہلا جملہ ہے: ’یہوداہ سے سلطنت نہیں چھوٹے گی‘ یا ’ یہوداہ سے حکمرانی کا عصا جدا نہ ہوگا‘۔ قریباً تمام انگریزی تراجم نے بھی یہی مفہوم بیان کیا ہے۔ یہوداہ حضرت یعقوبؑ کے بارہ بیٹوں میں سے ایک کانام ہے ۔ حضرت یعقوبؑ مرنے سے پہلے اپنی آخری وصیت اور الوداعی دعاے برکت میں یہوداہ اور ان کی نسل کی بہادری کی تعریف کرتے ہیں اورپیشین گوئی کرتے ہیں کہ عصاے حکمرانی یہوداہ کی نسل میں آئے گا اور وہ انھی کی نسل میں رہے گا حتّٰی کہ ۔۔۔

تاریخ کے مطالعے سے تحقیق کے ساتھ یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت یعقوبؑ کے بعد سے حضرت داد‘دؑ تک تو یہوداہ کی نسل کو اپنے قبیلے کی سرداری کا عصاے حکمرانی مسلسل اور بے روک ٹوک حاصل رہاہے۔ اس کے بعد حضرت داو‘دؑ کے دور میں اور ان کے بعد ان کے فرزند حضرت سلیمانؑ کے دور میں تمام قبائلِ اسرائیل اور پوری ارضِ مقدس یہوداہ کے عصاے حکمرانی کے ماتحت تھی۔ جیساکہ اوپر واضح کیاجاچکا ہے کہ یہ عصاے حکمرانی یہوداہ کی نسل میں کسی نہ کسی صورت میں مدینے اورخیبر میں یہود کے اقتدار کے مکمل طور پر خاتمے تک برقرار رہااور فتح خیبر کے بعدیہ عصاے حکمرانی ان سے ایسا جدا ہوا کہ وہ ڈیڑھ ہزار سال تک اس کی جدائی میں تڑپتے اور خون کے آنسو روتے رہے اور در در کی ٹھوکریں کھاتے اور مظالم سہتے رہے ۔ اس طرح ’شیلوہ ‘کا مدلول تلاش کرنے میں کسی صاحبِ بصیرت ، غیر جانب دار اور انصاف پسند قاری کو کسی طرح کی دِقّت محسوس نہیں ہونی چاہیے ۔ کوئی پسند کرے یا نہ کرے، حقیقت اپنی جگہ حقیقت ہے اور شیلوہ کا مدلول محمد رسول اللہ ﷺ کے علاوہ پوری تاریخ انسانی کا کوئی اور شخص نہیں ہوسکتا۔

’کنگ جیمز ورشن‘ میں آیت کا اگلا جملہ ہے:’Nor a lawgiver from between his feet‘یعنی نہ یہوداہ کی نسل کے پیروں کے درمیان سے شریعت دینے والا موقوف ہوگا۔ دستور یہ تھا کہ جب بادشاہ اپنے تخت پر جلوہ افروز ہوتاتھا تو اپنا عصاے حکمرانی اپنے آگے اپنی دونوں ٹانگوں کے درمیان رکھ لیتا تھا۔یہاں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ شریعت دینے والے کی شریعت بھی اس وقت تک بلاشرکت غیرے قائم رہے گی۔ شریعت دینے والے کی وضاحت اوپر کی جاچکی ہے اور سیاق و سباق کے اعتبار سے اس کا یہی ترجمہ درست اور موزوں بنتا ہے۔ اب یہ بات ہر صاحبِ علم شخص جانتا ہے کہ دنیا میں حضرت موسیٰؑ کی شریعت ہزاروں سال سے اس وقت تک بلا شرکت غیرے جاری و ساری رہی، جب تک کہ محمد رسول اللہﷺ نے آکر نئی شریعت نافذنہ کردی۔ اس کے بعد حضرت موسیٰؑ کی’ شریعت دینے والے ‘کی حیثیت موقوف ہوگئی اور شریعتِ محمدعلٰیصاحبِہا الصلاۃ و السلام نے اس کی جگہ لے لی۔ یہ واقعہ بھی عصاے حکمرانی کے یہوداہ کی نسل سے جدا ہونے کے ساتھ منسلک ہے۔ اس کے بعد ایک صاحبِ بصیرت اور باانصاف شخص کے لیے یہ سمجھنے میں کوئی دِقّت نہیں ہوسکتی کہ یہ’ شیلوہ‘ جس کی خبر اس کی آمد سے سوا دو ہزار سال پہلے حضرت یعقوبؑ دے رہے ہیں، کون ہے؟

جہا ں تک آیت کے آخری جملے کاتعلق ہے تو وہ اپنی وضاحت آپ ہے، اور دنیا کی تاریخ اس کی گواہی دے رہی ہے۔ اس کے سمجھنے کے لیے کسی تشریح کی ضرورت نہیں۔ آفتاب آمددلیل آفتاب۔

دنیا میں رحمت دوجہاں اور کون ہے؟
جس کی نہیں نظیر، وہ تنہا تمھی تو ہو

تاریخِ انسانی میں محمدرسول اللہ ﷺ کے علاوہ او رکون ہے، جس کے گِر د پوری دنیا کی قومیں اکٹھی ہوئی ہیں او رجس کی اطاعت دل و جان سے قبول کی گئی ہے ۔ حج کے موقع پر پوری دنیا سے آئے ہوئے دیس دیس کے لاکھوں انسان جس طرح پروانہ وار اس کے ایک اشارۂ ابرو کے تحت خانہ کعبہ کا طواف کررہے ہوتے ہیں اور جس کانظارہ پورے سال کے دوران میں حجِ اصغر، یعنی عمرے کی صورت میں کسی وقت بھی کیا جاسکتا ہے اس کی نظیر دُنیا کے تختے پر کہیں اور موجود نہیں ۔ فاعتبروا یااولی الابصار۔

اب ذرا مذکورہ آیت کا ایک مرتبہ پھر بغور مطالعہ کیجیے او ردیکھیے کہ اس کا ایک ایک لفظ کس طرح وضاحت اور تعین کے ساتھ سرور عالم محمد رسول اللہﷺ کی صداقت کی گواہی دے رہاہے۔

اِس پیشین گوئی کے سلسلے میں ایک اور بات بھی پیشِ نظر رہے۔ باب۴۹، جس میں یہ پیشین گوئی بیان ہوئی، کی پہلی آیت نہایت معنی خیز ہے:

اور یعقوب [ؑ ] نے اپنے بیٹوں کو یہ کہہ کر بلوایا کہ تم سب جمع ہو جاؤ۔ تاکہ میں تم کو بتاوں کہ ’آخری دِنوں میں‘ تم پر کیا کیا گزرے گی۔ ۲۱؂

اِس سے ایک تو یہ بات ظاہر ہوئی کہ ’کتاب پیدایش‘ کا یہ باب حضرت یعقوبؑ کی آخری وصیت پر مشتمل ہے، اور زندگی کی آخری وصیت و برکت کی اہمیت مضمون کے آغاز ہی میں واضح کی جاچکی ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس میں جس بات کا بیان ہو رہا ہے، وہ ’آخری دِنوں‘ سے متعلق ہے۔مندرجہ بالا مضمون میں واضح کیا گیا ہے کہ یہود کے عصاے سلطنت کی آخری ہچکی یہ ہے کہ شیلوہ نے آکر ان کا یہ عصاے سلطنت پاش پاش کرکے رکھ دیا۔اس طرح یہ یہودیوں کے اقتدار کے خاتمے کا بھی مظہر ہے اور ان کے درمیان سے ’قانون دینے والے‘ کے سورج کے غروب ہونے کا بھی عکاس ہے۔ مدینے کے یہودی قبائل کی گڑھیاں، وادی القریٰ اور خیبر کے یہودی قلعے اس قوم کے عصاے سلطنت کی آخری علامت تھے۔ خاتم النبیینﷺ نے آکر اس کا بھی خاتمہ کر دیا اور شریعتِ تورات کے بجائے ایک نئی شریعت بھی نافذ کر دی۔ اس طرح یہ پیشین گوئی محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات میں حرف بہ حرف پوری ہو گئی۔

_______


15. Prof. H. Graetz, History of the Jews (Philadelphia: Jewish Publication Society of America, 1902), 3:53-58.

16. A Concise Dic. of the Words in the Heb. Bible, James Strong (NY: The Methodist Book Concern, 1984), p. 43, Entry 2710.

17. -ibid-.

18. W. Gunther Plant Torah A Modern Com. (NY: Union of American Hebrew congregations, 1981), p. 309.

19. The Soncino Chumash, ed. the Rev. Dr. A. Cohen (Hindhead, Surrey: The Soncino Press, 1947), p. 307.

20. The Pentateuch and Haftorahs, ed. Dr. J. H. Hertz (London: Soncino Press, 5739, 1979), p. 185.

۲۱۔ ’کتابِ مقدس‘، پیدایش ۴۹: ۱۔

____________

B